صحابہ کرام اور اقامت دین

(2)

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، نیکی کا حکم کرتےہیں اور برائی سےمنع کرتےہیں اور تمام معاملات کاانجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

صحابہ کرامؓ نے دینی حمیت وغیرت کاثبوت پیش کیا

صحابہ کرامؓ دینی حمیت وغیرت کے بھی پیکر تھے۔ دین کے لیے ان کا دل تڑپتا اور دینی تعلیمات کی پامالی پر انہیں غصہ آتا۔ دین کے لیے ان کے اندر جوش وجذبہ جاگ اٹھتا ، چنانچہ حضرت عمرؓ نے جب اسلام قبول کیا توخانہ کعبہ آئے اور کفار مکہ کے سامنے اپنے اسلام لانے کااعلان کیا، جب کہ اس وقت مسلمان خفیہ طریقے سے اسلام قبول کررہے تھے۔ حضرت ابوذرؓ نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے بھی خانہ کعبہ میں آکر اعلان کیا جس کی وجہ سے کفار مکہ نے ان کے ساتھ مارپیٹ کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں زکوٰۃ کے خلاف جہاد کااعلان کیا حالانکہ دین سے بالکلیہ خارج نہیں ہوگئےتھے مگر ان کی دینی غیرت جاگ اُٹھی اور بحیثیت خلیفۃ المسلمین انہوں نےدین کے معاملے میں مداہنت کو گوارہ نہیںکیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت عمرؓ نے صلح کی دفعات پر اعتراض جتایا، جب ان کو سمجھایا گیا تب خاموش ہوئے۔ یہ بھی دینی غیرت ہی کی مثال ہے۔ حضرت عمرؓ نےاپنے صاحبزادے سے محض اس وجہ سے تر کلام کرلیا کیوں کہ انہوں نے عورتوں کے مسجد جانے کے مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کی تھی۔ غرض کی صحابہ کرامؓ نے ہر موقع پر دینی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کیا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کو سب وشتم کے ساتھ یاد نہ کیاکرو کیوں کہ تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی ان کے برابر یا انکے نصف مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (بخاری مسلم کتاب فضائل الصحابہ)

صحابہ کرامؓ کا قرآن مجید سے گہراتعلق تھا

نزول قرآن کے بعد سب سے پہلے قرآن کی آیات صحابہ کرام ہی کو سنائی جاتی تھیں وہ اس سے متاثر ہوتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے۔، وہ قرآن کی بار بار تلاوت کرتے ، اسے حفظ کرتے ان کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کریں۔حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں قرآن مجید کتنے دنوں میں ختم کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ایک مہینے میں۔ انہوں نے کہا میں اس سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا : بیس دنوں میں ختم کرو، انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں، آپؐ نے پندرہ دنوں میں ، پھر سات دنوں میں ختم کرنے کی اجازت دی۔ (ابوداؤ: ۱۳۳۸) بعض دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے بار بار اصرار کرنے پر تین دنوں میں ختم قرآن کی اجازت مرحمت فرمادی۔ (ابوداؤ)حضرت ابوموسیٰ اشعری قرآن مجید کی انتہائی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے۔ اس وجہ سے حضورؐ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’انہیں نغمۂ داؤدی عطا کیا گیا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ۱۳۴۱)حضرت ابوموسی اشعری کا پورا قبیلہ خوش الحان تھا ایک جنگ کے موقع پر سفر کے دوران پڑاؤ ڈالا گیا، اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے نصب کیے ہیں۔ لیکن رات میں ان کی تلاوت قرآن سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیا تھا۔ (بخاری ۴۲۳۳)

صحابہ کرام پورے انہماک سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے روایات میں ہے کہ حضرت ابن عباس کے چہرے پر مسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگے تھے۔حضرت عباد بن حمزہ سے مروی ہے انہوں نے بتایاکہ حضرت اسماء کی خدمت میں حاضر ہوا وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں : فَمَنَّ اللہُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ۝۲۷ (الطور۲۷) تو اس پر ٹھہرکرباربار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دُعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ میری طرف متوجہ نہیںہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا وہ اسی آیت کو بار بار پڑھ رہی ہیں۔حضرت تمیم داری ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے آیت ’’الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ‘‘ (جاثیہ:۲۱)پر پہنچے تو مسلسل اس کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کو جب بلوا نے گھیر لیا ، اس وقت وہ قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے۔ غرض کہ صحابہ کرامؓ کا دن رات قرآن مجید سے خصوصی تعلق تھا وہ نہ صرف قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے بلکہ ان پر عمل بھی کرتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان اور ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ہم قرآن مجید کی دس دس آیات سیکھا کرتے تھے اور جب ان پر عمل کرلیتے تو آگے کی آیات سیکھتے تھے۔ (مجموع فتاوٰی ابن تیمیہ ۲۰۸/۱۳ )سینکڑوں صحابہ کرام ؓ کو قرآن مجید یاد تھا۔ چنانچہ بعض جنگوں میں خصوصاً جنگ یمامہ میں ان کی بڑی تعداد شہید ہوگئی جس کی وجہ سے قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیداہوگیا تھا کیوں کہ اس وقت تک قرآن مصحف کی شکل میں عام نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس کو مصحف کی شکل میں تیار کرکے اس کے بہت سے نسخے تیار کرواکے عام کیاگیا۔

صحابہ کرامؓ اتباع سنت میں پیش پیش تھے

صحابہ کرامؓ کا قرآن مجید کے ساتھ اللہ کے رسول سے بھی گہرا تعلق تھا۔ آپؐ سے محبت ایمان کالازمی جز ہے، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی محبت تمام محبتوں پر غالب ہو۔ صحابہ کرامؓ نے اسی درجے کی محبت کا ثبوت دیا۔ چنانچہ آپؐ پر انہوں نے اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ اسی کے ساتھ آپؐ کی سنتوں کو بھی انہوں نے جان ودل سے اختیار کیا۔ آپؐ کی زندگی کے ایک ایک عمل پر وہ نگاہ رکھتے تھے اور اسے اپنی زندگی میں اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ مروی ہے کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مصلحتوں کی وجہ سے سونے کی انگوٹھی بنوائی تو دیگر صحابہؓ نے بھی انگوٹھی بنوالی آپؐ نے وضاحت فرمائی کہ یہ میں نے پہننے کے لیے نہیں بنوائی ہے،اس وقت صحابہ کرامؓ نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ (بخاری کتاب، الاعتصام، بالکتاب والسنۃ) ایک موقع پر آپؐ نے نماز میں جوتے اُتارلئے تو تمام صحابہ نے اپنے اپنے جوتے اُتارلیئے ۔ ایک موقع پر حضور اکرم مسجد میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے دوران خطبہ آپؐ نے فرمایا ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ حضرت عبداللہ ابن مسعود اسی وقت مسجد میں داخل ہورہے تھے۔ آپؐ کاارشاد سن کر فوراً بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقع پر شراب اور گدھے کی حرمت کااعلان فرمایا تو تمام صحابہ کرامؓ نے اپنی اپنی ہانڈیاں اُنڈیل دیں۔ آپؐ روزے میں وصال کرتے تھے، یعنی کئی کئی روزے درمیان میں بغیر کچھ کھائے پیئے رکھتے تھے، آپؐ کو دیکھ کر صحابہ کرام بھی وصال کرنے تک گئے آپؐ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ (بخاری کتاب الاعتصام ، بالکتاب والسنۃ) حضرت انسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں کدّو کی رغبت دیکھی تو وہ بھی کدّو سے شوق فرمانے لگے اور مستقل طور پر اسے سالن میں ڈالواتے تھے۔ (بخاری کتاب الاطمعۃ باب من تتبع حوالہ القصعۃ) صحابہ کرامؓ جہاں ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں کرتے تھے وہیں دین کے دیگر احکام کی عمل درآمدی میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے۔

اختلاف رائے میں صحابہ کرامؓ کا مثالی کردار

صحابہ کرامؓ انسان تھے اور انسانوں کی طبعیتیں، مزاج، علم، مشاہدات اور تجربات مختلف ہوتے ہیں۔ اس بنا پر ان میں بھی بعض مسائل میں اختلافات پیداہوئے اگرچہ یہ اختلافات وقتی اور فروعی مسائل سے متعلق تھے۔ بنیادی عقائد اور اصول دین میں ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدانہیں ہوا۔ بشری تقاضوں کے تحت ان کے درمیان جو اختلافات ہوئے ان میں ان کاکردار انتہائی مثالی رہا۔ وہ اپنی آراء کے اظہار میں تکلفات اور تحفظات کاشکار نہیں ہوتے تھے جو خیال ان کےدل میں آتا بغیر کسی اندیشے کے اسے ظاہر کردیئےتھے۔

مخالف رائے رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے مقام ومرتبے کااعتراف کرتے تھے اور اختلاف رائے کی وجہ سے آپس میں بغض وعناد میں مبتلانہیں ہوتے تھے۔ اگر ان کی کوئی رائے صائب نہ ہوتی تواس سے رجوع کرلینے تھے۔ اور اس پربے جا اصرار نہیں کرتے تھے۔ وقتی تنازع کو مستقل مخالفت کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ تمام اختلافات کے باوجود صحابہ کرام ایک سیادت وقیادت کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے اور بنیان مرصوص کی تصویر تھے۔ اختلاف رائے کے باوجود باہم نصح وخیر خواہی کا جذبہ ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ جن مسائل میں ان کے درمیان اختلاف رائے کااظہار ہوا وہ چند ہی ہیں۔ جیسے بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی آراء مختلف تھیں۔ صلح حدیبیہ میں صلح کی دفعات پر حضرت عمرؓ کو بعض تحفظات تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کے موقع پر قلم دوات لانے کے آپؐ کے ارشاد پر صحابہ کرامؐ کی دو رائیں ہوگئیں تھیں۔ پھر آپؐ کی وفات کے بعد انتخاب خلیفہ کے بارے میں بعض صحابہ کو کچھ اختلاف تھا۔ مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کے بارےمیں اوّل مرحلے میں حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کی آراء مختلف تھیں۔ میراث نبویؐ کی تقسیم کے معاملے میں حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی رائے خلیفۃ رسول حضرت ابوبکر کی رائے سے الگ تھی۔ اس طرح کچھ دیگر وقتی معاملات میں ان کے درمیان اختلاف رائے کااظہار ہوا۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان سیاسی اختلافات کافی مشہور ہیں۔ خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اسلامی فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک کی قیادت حضرت علیؓ اور دوسرے کی قیادت معاویہؓ کررہے تھے۔ کئی میدانوں میں دونوں کے درمیان معرکے ہوئے ،ان میں سے صفین، جمل اور نہر وان خاص طور سےقابل ذکر ہیں۔ ان میں ہزاروں مسلمان آپس میں جنگ وجدال کی بھینٹ چڑھے۔ظاہر ہے ایسی صورت میں ایک دوسرے کی خوبیوں اور اعلیٰ صفات کااعتراف کرناپڑے اعلیٰ ظرفی کی بات ہے مگر صحابہ کرامؓ اس وصف سے متصف تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی حقیقی خوبیوں کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ تاریخ میں ایسی کئی روایات منقول ہیں۔ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے حوالے سے حضرت ضرار بن ضمرہ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کی موجودگی میں حضرت علیؓ کی خوبیاں بیان کی گئیں تو حضرت معاویہؓ روپڑے اور کہا کہ قسم خدا کی ابوالحسن (حضرت علیؓ) انہی خوبیوں کے مالک تھے، اللہ ان پررحم فرمائے (صفوۃ الصفوان ابن الجوزی)

صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں اسوہ کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ اوپر کی سطور میں ان میں سے چندپہلوؤں کو مختصراً پیش کیاگیا ہے۔ آج کے پُرفتن دَور میں ہم ان سے رہ نمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ان کی زندگیوں کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau