مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ’’اسلام اظہارکی آزادی کاحق اسلامی ریاست کے تمام شہریوںکواس شرط پردیتا ہےکہ وہ اس کی فضیلت کو سمجھیں اوراس کو سچائی کی تبلیغ کےلئےاستعمال کریں نہ کہ برائی اوربدکاری کوپھیلانےکےلئے‘‘(33)
حضرت عمرؓ کے دور میں اظہار رائے کی یہ حا لت تھی کہ لوگ جس چیز کو خلاف سُنت نبویﷺ سمجھتے تھے اُس پر اعتراض کرتے تھےحتیّٰ کہ وقت کے خلیفہ پر برسرمنبر اعتراض کرتے تھے ۔ انہوں نےہمیشہ آزادی اظہار را ئے کے دروازے کھلے رکھے یہاں تک کہ اگراعتراض کرنے والے کوکوئی بیچ میں روکنے کی کوشش کرتا تھا تو ناراض ہوتے تھے اوراُس کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع فراہم کرتے تھے۔ (34)
البتّہ دنیا کے کسی بھی معاشرے میںرائے کے اظہارکی ایسی بلا قید آزادی حاصل نہیں ہے جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ ہر معاشرے نے اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1966ء میں پاس کی گئی ایک قرار دادمیں اس کا ذکر ہے۔ کوئی تقریر یا تحریر جو کسی ملک میں رہنے والے کسی فرد یا گروہ کے مذہبی و قومی جذبات کو مجروح کرے، نسلی تعصب یا دل آزاری کا سبب بنے اور انسانوں کے خلاف نفرت یا حقارت کا اظہارکرے تو اس ملک کا فرض ہے کہ اس حرکت کو روکے اور اس کے خلاف قانون سازی کرے، چنانچہ متعدد یورپین ممالک میں آزاد ی اظہار رائے پر بہت سی پابندیاں ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بیسویں صدی میں فضا بدلی اورکچھ مصنفین نے اپنی تحریروں میں اسلام کے متعدد اوصاف بیان کیے لیکن تعصب نے اُن کے قلم کو محدود کیا (35)کچھ یورپی ممالک میں اگر کوئی اپنی علمی تحقیق میں ہو لوکاسٹ پر رائج خیال سے مختلف بات پیش کرے تو اُس پر فرد جرم عاید ہوجاتی ہے۔بیلجیم ، فرانس اور کینیڈا میں ایک قانون کے مطابق کسی کو یہ رائے دینے کی اجازت نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ نہیں ہوا تھا (36)آسٹریا میں ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والے کو سزا کاسامنا کرنا پڑے گا اوراس کو۲۰سال تک نظربند کیا جاسکتا ہے اس کوقومی مجرم قرار دیا جائےگا ۔ (37)اس کی مثال تھامس ہلین ہے۔ اس نے وائٹ ہاوس میں اپنی زندگی کے قیمتی ۵۷ سال خدمت کر کے گزار ے جب اس نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’’یاد رہے ان لوگوں نے فلسطین پر نارَوا قبضہ کیا ہے ان کو فلسطین سے نکلنا چاہئے کیونکہ یہ اُن کی زمین نہیں ہے اور انہیں پولینڈ، جرمنی، امریکہ یا کہیں اور جانا چاہئے‘‘ اس بات پر اسے شدید تنقیدو مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس نےاپنی نوکری سے استعفیٰ دے دیا ۔ (38)اس کے ساتھ انگلینڈ، فرانس، جاپان، ہالینڈ، ناروے سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ کسی گروہ،نسل، مذہب کی تضحیک یا دل آزاری پر (39) مبنی تقریر نہیں کی جا سکتی ۔
بھارت کے آئین کے مطابق بھی ایسی تحریر یا تقریر کی اجازت نہیں جو بھارت کی سالمیت کے خلا ف ہو، اخلاق یا مذہب کے خلاف ہو، عوام میں بے چینی کی وجہ ہو یا کسی کی ہتک کا باعث بنتی ہو یا کسی دوست ملک کے خلاف ہو۔اس پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن اپنے قوانین کو بھول کرمغربی ممالک ، مسلمانوں کو آزادی اظہار رائے کے بارے میں مشورے دیتے نظر آتے ہیں ۔ اظہار رائے کا بنیادی مقصد ہر انسان کو حق بات کہنے کی اجازت ہے نہ کہ کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کی۔ بد قسمتی سے مغربی دنیا میں اس بارے میں دوہرا معیار ہے وہ حق بات کہنے کے بجائے ایک خاص طبقے کو اپنا ہدف بناتےہیںاُن کے دوہرے معیار کے شکار مسلمان ہیں مثلاً جب وائن ساپ نے قرآن پاک کے ایک نسخے کو آگ لگا دی تو اس کا محرک مسلمانوں کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں تھا اس کے بعدڑیری جونز نے اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب کو دہشت گردی کا منبع قرار دیا (معاذ اللہ) یورپ کی نا معقولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہاں خود اپنے شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی نہیں لیکن آزادی اظہار رائے کے نام پر شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مقدس ہستیوں، پیغمبرِ اسلام کو معاذ اللہ برا بھلا کہا جاتا ہے، اسلام کی تذلیل کی جاتی ہے۔ مسلمانوں، حجاب، قرآن، مساجد، اسلامی تعلیمات اور اسلامی شعار کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جسے کسی طور بھی ’ آزادی اظہار رائے‘‘ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ ’’ آزادی اظہار رائے‘‘ کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔
آیت اللہ مصباح یزدی لکھتے ہیں ’’آزدی اظہار رائے کی تعریف مغربی مولفین نے کم سےکم دو سو طریقوں کی ہے (40)تنقیدکی آزادی انسانی معاشرہ کا اہم ستون ہے ،اسلامی تعلیمات کے مطا بق اسلامی ریاست اوراسلامی معاشرے میں رہنے والے ہرانسان کوحق حاصل ہے کہ وہ حکومت کے برےسلوک پرتنقیدکرسکتا ہے خاص طورپرجب حکومت آئینی حدو د کوپارکرےلیکن یہ تنقید مثبت ہو نی چاہئےنہ کہ منفی۔ کیونکہ اسلام کےمطابق انسانوں کا آپسی تعاون اور اتحاد بھلائی پر مبنی ہے قرآنی اصول کے مطابق:
’’اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈر تے رہو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے‘‘۔ (41)
دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کو آزادی سمجھنے والے مغربی ممالک یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی نے انسانوں کو اظہار رائے کی آزادی عطا کی ۔ اسلام سے قبل روم و فارس میں لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت نہ تھی ۔ اسلام نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد فضامیں سانس لینے کی حیثیت عطاکی اورا علان کیا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے آزادی سے زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔اس کی مثال تاریخ اسلام میں سنہرے حروف میں چسپاں ہے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک شخص کو کوڑے مارے تو اُس نےخلیفہ وقت حضرت عمر سے شکایت کی اور حضرت عمرنے فرمایا ’’اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی ماؤ ں نے ان کو آزاد جنا تھا‘‘۔ (42) دورِ نبوت میں صحابہ اور صحابیات کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ طور پراظہارکریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پختہ رائے سازی اور اظہار رائے کی تعلیم دی۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشاورت کی اور اپنی غیرموجودگی میں اجتہاد کی ترغیب بھی دی، جو آزادی اظہار رائے کی مضبوط دلیل ہے۔ (43)
رائےکے اظہار کی آزادی کو اسلام محض ایک اختیاری حق قرار نہیں دیتا، بلکہ یہ فرض، ذمے داری اور امانت ہے، جسے ہر حال میں مسلمان کو ادا کرنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے‘‘ ۔(44)جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راے کے اظہار کی آزادی محض حق نہیں، بلکہ ذمے داری بھی ہےرسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ گرتم میںسےکسی کوبرائی کے ساتھ واسطہ پڑے،تواسکوہاتھ سےروکنےکی کوشش کرےاگراتنی طاقت نہیںہےتوپھراس کواپنی زبا ن کے ذریعے روکنےکی کوشش کرے،اگروہ زبان استعمال کرنےکےقابل بھی نہیںہےپھربرائی سے دل سے نفرت کرےیہ ایمان کی کمزورترین حیثیت ہے‘‘ ۔(45) اگرکوئی شخص حکمرانوں میں کوئی برا ئی د یکھے تو بھی اپنی رائے کا اظہار کرے۔ رائے کی آزادی کے ساتھ اسلام نے انسان کو رائے دینے میں حدود کا پابند بھی کیا ۔ سورۂ حجرات میں فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کر سکتا، کسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر معاملے میں انسا ن کو ا یسے قوانین عطا کیے ہیں، جن پر عمل کیا جائے تو کسی بھی انسان کو تکلیف نہ پہنچے اور دنیا میں امن وسکون رائج ہو ۔
’’ اے ایمان والو!ایک قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے عجب نہیں وہ اُن سے بہتر ہوںاور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں کچھ بعید نہیں کہ وہ اُن سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، (46)کسی بھی مسئلے میں اختلاف ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں اہل امر ہیں پھر اگر تم میں کسی بات پرجھگڑا ہوجائےاُسے اللہ اور رسولﷺ کے حضور رجوع کرو اگر اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھاہے‘‘۔(47)
قرآن مجید کی یہ آیت حکمرانوں اور رعایا کےدرمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے بارے میں بھی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ فرمانبرداری کافرض رعایا کے حقوق کو سلب نہیں کر تا (48)
مشورے اور اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں سیرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں جابجاملتاہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غزوہ خندق ، غزہ احداور غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں صحابہ ؓ سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اسی طرح قبیلہ غطفان (جو مشرکین مکہ کا حلیف تھا) کے ساتھ مدینہ کی پیداوار کے تیسرے حصے پر جب معاہدہ کرنے لگے تو انصار نے بلاخوف وخطر آزادی رائے کا اظہار کیا اور آپ ﷺ نے اس معاہدے کو روک دیا ۔(49)حضرت بریرہ ؓ اور مغیث کے معاملے میں حضرت بریرہ ؓنے کھل کراپنی رائے کا اظہارکیا ۔ حیرت ہے لوگ پھر بھی الزام دیتے ہیں کہ دین اظہاررائے کی آزادی کے خلاف ہے۔آج کا دورلکھنے اور اشاعت کا دور ہےاسلام تقریر کی آزادی کا قائل ہے۔ مقرر کے لیے انصاف اور صحیح راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسلام میں آزادی تقریر، حکمت پر مبنی ہے۔ قرآن حقیقت تلاش کرنےکےلئےاظہار رائے کی آزادی دیتا ہےاور اہم اصول اور بنیادی قانون بھی فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر اسماعیل چنائن نےاپنی کتاب اسلام پر سوال میں لکھا ہے:’’اسلام میں اظہار رائے کی آزادی ایک اہم اوربنیادی انسانی حق ہے۔یہ آزادی معاشرے کی تعمیر کے لئے بہت ضروری ہے اس سے معاشر ے کو تباہی سےبچایا جاسکتا ہے ‘‘۔(50)
اسلام انسانی حقوق کا مذہب ہے۔اسلام ایک سماجی مذہب ہے اور سماجی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ سب انسان خدا کی خلق ہیں اوراُن کے حقوق اور فرائض ایک جیسے ہیں، مغربی دانشور بار ہایہ کوشش کرتے ہیں کہ ہر اچھی چیز کو اپنی طرف منسوب کریں ۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔اسلام نے چودہ سو سال قبل انسانی حقوق دیے ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور مغرب نے 1948 میں انسانی حقوق کا اعلان کیا۔اُن کی آزادی کا دائرہ محدود ہے ۔(51)
اہم سماجی اقدار یہ ہیں: رواداری، تقریر کی آزادی، نظم اور استحکام، انسانی وحدت، ماحولیاتی نظام کا تحفظ، سائنس اور تحقیق کی حوصلہ افزائی، خواتین کے حقوق کی پاسداری، تفریحی سرگرمیوں کے مواقع، سیاسی زند گی میں حصہ لینے کی اجازت، (52) استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف نہایت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔اسلام نے جرائم پرحدمقرر کی۔ جیسے چوری ، زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی پر۔ اسلام میں انصاف کے قیام کا اختیار ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ہوجاتا ہے اور معاشرہ جرائم سے پاک ہوجاتا ہے۔ (53)
اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں عدل قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے:وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ۔’’مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘(54)وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاس ِأَن تَحْكُمُوابِالْعَدْلِ۔’’اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ (55)’’اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔‘‘ (56) وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ’’اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کر‘‘۔ (57)قُلْ أَمَرَ رَبِّى بِالْقِسْط ۔کہہ دے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔‘‘ (58)
احادیث میں بھی عدل کی اہمیت کا تذکرہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر وہ انصاف کریں توان کے لیے فائدہ مند ہے، اگر ظلم کریں تو ان کے لیے وبال جان‘‘۔(59)
۔۔۔۔’’حضرت علیؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کی پیروی کرنا۔‘‘(60)
انصاف ہمیشہ مسلمان بادشاہوں کا شعار رہا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر نے تخت نشینی کے بعد حکم دیا وہ ‘’زنجیر عدل‘ باندھنے کا تھا تاکہ مظلوموں اور ستم رسیدوں کی داد خواہی وانصاف رسانی میں اگر عہدیدارانِ عدالت کو تاہی وغفلت کریں تو مظلوم خود اس زنجیر کے پاس پہنچ کر اسے ہلادے۔(61) یہ زنجیر مظلوم کی دسترس میں تھی اور اس کو ہاتھ لگتے ہی گھنٹیاں بجتیں جن کی آواز بادشاہ تک پہنچتی اور فوراًمظلوم کی داد رسی کی جاتی۔ عالمگیر نے اُمرا، وزرا اور سرداروں کے مقابلے میں قاضیوں اور عالموں کا مرتبہ بڑھا یا اور اُنہیں اختیارات دیئے ۔ عالمگیر کی دین داری، رعیت پروری اور عدل گستری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اس نے سلطنت ِمغلیہ میں یہ اعلان کردیا کہ جس کسی کو بادشاہ کے خلاف کوئی شکایت یا شرعی دعویٰ ہو، وہ عدالت سے رجوع کرکے اپنا معاملہ صاف کرے۔ اس کے علاوہ جو لوگ کسی مجبوری کے سبب دارالحکومت میں پہنچنے سے معذور تھے، ان کی سہولت کے لیے شہری وکیل مقرر کر دئیے گئے۔ (62)
انسانوں کی ایک بڑی تعداد غلط فہمی کی شکار ہے اُنہوں نے دین اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ایک طرف وہ روا داری کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف اظہار رائے کو دوسروں سے چھین لیتے ہیں تشویش کی بات یہ ہے کہ فساد و انتشار پیدا کرنے والی طاقتیں دشمنی پر تُلی ہیں انسان بعض سیکولر اور لبرل دانشور اسلام پسندوں کو شدت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں لیکن اظہاررائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں۔ مشہور کہاوت ہے کہ انسان کی آزادی دوسرے کی ناک تک ہے۔ جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہو وہاں سے انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔اس کا ساد ہ سا مطلب یہ ہے کہ انسان وہاں تک آزادہے جہاں دوسروں کو تکلیف یادل آزاری نہ ہو۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں انسانوں کو مطلق آزادی حاصل ہو۔ انسان قانون کا پابند بہرحال ہوتا ہے اس لئے آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بے لگام ہو جائے ۔ اسلام کا اصول ہی انسان کےلئے مشعل راہ بن سکتا ہے اور امن اوامان کا ضامن بن سکتا ہے۔
حواشی
(33)Abu Al-Aala Maududi, Human Rights in Islam, The Islamic Foundation UK, London,1980, pp. 26
(34) محمد صلاح الدین ،اسلام اور آزادی اظہار رائے، محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۲۷
(35)محمد شہباز منج، فکر استشراق اور عالِم اسلام میں اس کا اثر و نفوذ ، القمر پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۶، ص. ۸۲
(36) امجد عباسی، آزادی رائےاور تضحیک مذہب، محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۴۴۸
(37)مرزا محمدالیاس، ہولوکاسٹ کا انکارجرم ہے اظہار آزادی نہیں،حمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۳۳۳
(38) اشتیاق بیگ،امریکہ یہودی لابی کا آزادی اظیہار کے منہ پے طمانچہ،محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۳۶۵
(39)عبد الجبار شاکر،توہین رسالت، آزادی اظہار رائے اور مغرب، محمد متین خالد، آزادی اظہار کے نام پر، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۶۴
(40)آیت اللہ مصباح یزدی، اسلام اور سیاست (مترجم القائم گروپ) مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور، ۱۴۳۳ھ، ص.۹۴
(41)سورہ المائدہ : آیت :۲
(42)حصکفی، الدر المختار، 2 : ۔223ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3 : 273، 274
(43) محمدحمیداللہ، ڈاکٹر،خطباتِ بہاولپور، ص ۷۵ ابن ماجہ،محمد بن یزید ابو عبداللہ قزوینی،السنن لابن ماجہ،ج۳،۱۳۰۳۔ مالک بن انس،الموطاء،ج۳،ص۸۰۔
(44)امام ابو داود، سُنین ابو داود، شیخ اشرف پبلیشرز لاہور ، ۲۰۰۴،حدیث نمبر ۴۳۸
(45)امام مسلم القوشاری، صحیح المسلم، شیخ اشرف پبلیشرز لاہور ، ۲۰۰۴
(46)سورہ الحجرات۔ آیت؛ ۱۱، ترجمہ کنزالایمان، از احمد رضا خان
(47)سورہ النساء آیت ۵۹، ترجمہ ایضاً
(48)Hashim Kamali freedom of expression of Thought in Islam , Op.cit, p.65
(49)صفی الرحمن مبارک پوری،الرحیق المخطوم، دارالسلام، پبلیکیشن، لاہور، ۲۸۶-۸۷
(50)محمد اسماعیل چائن، کوسچن آف اسلام، عطیق پبلیشرز، لاہور، ۲۰۰۹، ص۔۴۳
(51)Abdul Karim Soroush Reason, Freedom and Democracy in Islam, Oxford University, Press, 2000, p.xiv
(52) p.20,Ibid.
(53) مقالاتِ سیرت،حصہ اوّل(نویں قومی سیرت کانفرنس،وزارتِ اُمور مذہبی حکومت پاکستان،اسلام آباد) پروفیسر عبداللطیف انصاری،اسلام کے قانونی نظام کے بنیادی اُصول،ص101
(54) الشوریٰ:15
(55) النساء:58
(56)المائدة:8
(57) ایضاً:42
(58) الاعراف:29
(59) ابوداؤد،السنن(دارالسلام،الریاض1998ء) ص235،حدیث نمبر1588
(60)ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم (مکتبہ مالکیہ، مصر) 4201
(61)خان، میرباسط علی،تاریخ عدالت آصفی،ص20
(62)ایضاً،ص505
مشمولہ: شمارہ فروری 2019