قمری کیلنڈر ہی نظامِ کائنات کے عین مطابق

آج کی دنیا میں ماہ وسال اور حساب کتاب رکھنے کے لیے دو معروف کیلنڈر موجود ہیں۔ ایک شمسی اور دوسرا قمری، شمسی کیلنڈر پوری دنیا میں رائج ہے خاص کر کاروباری معاملات اس کے مطابق چلتے ہیں جبکہ قمری کیلنڈر صرف مسلمانوں تک محدود ہے وہ بھی مذہبی معاملات تک ہی ہے۔ شمسی کیلنڈر کو عام زبان میں عیسوی سنہ کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے مشہور ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ اصل میں اس عیسوی سنہ پر کوئی ثقہ اور مضبوط دلیل موجود نہیں ہے بلکہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس سنہ کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف تخمینی نوعیت کی معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میںمشہور محقق اور دانشور سید قاسم محمود لکھتے ہیں:

’’ہم آج کل جس شمسی کیلنڈر کو عیسوی سنہ کہتے ہیں وہ گریگوری کیلنڈر بھی کہلاتا ہے۔ یہ درحقیقت پرانا رومی کیلنڈر ہے جسے آگسٹس نے ترمیم کرکے تیار کیاتھا، پھر جولین نے اس میں ترمیم کی، اس کے بعد کئی بار اس میں ترمیم ہوئی۔ آخری بار ۱۵۸۲ء میں پاپائے گریگوری کے حکم سے اس میں ترمیم کی گئی، جولین کے چھ سو سال کے بعد ایک عیسائی راہب ڈینس ایگزیگوس نے اس کو حضرت عیسیٰ کی طرف غلط حساب کرکے منسوب کردیا۔ اس وقت سے اسے مسیحی کیلنڈر کہنے لگے۔ ورنہ اس کا حضرت عیسیٰ کے ساتھ حقیقت میں کوئی تعلق نہیں ‘‘۔ (اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص: ۵۲۶، پاکستانی ایڈیشن)

مگر اس شمسی وعیسوی کیلنڈر کے برعکس قمری کیلنڈر ہی حقیقی، قدرتی اور نظامِ کائنات کے عین مطابق ہے ، اس میں کوئی انسانی عمل دخل نہیں ہے اور اس میں موسم کا لحاظ نہیں کیاگیا ہے۔ قمری سال کبھی سردیوں میں شروع ہوتا ہے اور کبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں، زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت ۳۵۴ دن ۲۸ منٹ ۳۴ سیکنڈہوتی ہے۔ ہرقمری سال ہمیشہ اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ یہی قمری سال مسلمانوں کے ہجری کیلنڈر میں شمار ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے قمری سال کیوں اختیار کیا؟ اس سلسلے میں بطور دلیل قرآن کی چند آیات و پیش کیاجاتا ہے:

ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ۝۰ۭ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۔              (یونس:۵)

’’اللہ وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا بنایا اور چاند کو روشنی دی اوراسی (چاند) کی منزلیں مقررکردی ،تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب بامقصد بنایا ہے ۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں‘‘۔

قرآن کی اس آیت نے سورج اور چاند کی اصل حیثیت متعین کی ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ محض انسانوں کی خدمت کے لیے ہیں اور ان کے حساب کتاب کو درست رکھنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ چاند کو ماہ وسال کا تعین کرنے کے لیے انسان کی خدمت کرنے پر مامور کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن ہی میں ایک اور جگہ ارشاد بھی آیا ہے:

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۝۰ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۔(البقرہ: ۱۸۹)

’’وہ تم سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں کہو، یہ لوگوں کے لیے اورخاص طور پر حج کی تاریخوں کی تعیین کا ذریعہ ہے‘‘۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے،جو آسمان پر نمودار ہوکر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کاذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ عرب کی مذہبی، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی، سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے، ان مہینوں میں لڑائیاں بندرہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد۱،صفحہ ۱۴۹)

قرآن نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ۔(التوبہ:۳۶)

’’بے شک مہینوں کی (صحیح) تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ جو اللہ کی کتاب میں ہے۔ جس دن سے اس نے آسمان اور زمین کو پید کیا ،ان میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں یہی سیدھادین ہے‘‘۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ لکھتے ہیں:

’’اللہ نے جس وقت آسمان و زمین میں تخلیق فرمائے اسی وقت زمین والوں کے لیے چاند کو قدرتی تقویم (Natural Calender) کی حیثیت دے دی ۔ چنانچہ اس کاگھٹنا اور بڑھنا عام مشاہدے کی چیز ہے۔ اور ان علامتوں کو دیکھ کر تاریخوں کا تعین بہ آسانی ہوجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ مہینے کا آغاز کب ہوا اور اختتام کب؟ پھر اس کائنات کے خالق نے انسان کےلیے سال کے شمار کا جو ضابطہ اول روز سے مقرر فرمایا ہے وہ بارہ قمری ماہ کا ہے اور یہ رہنمائی وحی الٰہی کے ذریعے انسان کو ملتی رہی ہے اور جہاں تک عربوں کاتعلق ہے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے قمری سال (Lunar year)ہی رائج چلا آرہا تھا اور مہینوں کے عربی نام یہ تھے: (۱) محرم (۲) صفر (۳) ربیع الاول (۴) ربیع الآخر (۵) جمادی الاولیٰ (۶) جمادی الآخرۃ (۷) رجب (۸) شعبان (۹) رمضان (۱۰) شوال (۱۱) ذوالقعدۃ (۱۲) ذوالحجہ۔

آج بھی اسلامی دنیا میں قمری سال ہی رائج ہے اور مہینوں کے یہی نام چلے آرہے ہیں‘‘۔ (دعوۃ القرآن ، جلد۱، ص:۲۴۷)اگرچہ نزول قرآن کے وقت عرب میں یہی قمری کیلنڈر رائج تھا لیکن اہل عرب قمری مہینوں کی ترتیب میں الٹ پھیر کیا کرتے تھے جس کو وہ نسئی کہتے تھے۔ قرآن نے اس کا ذکر اس آیت میں کیا ہے:

اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللہُ۝۰ۭ زُيِّنَ لَہُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِـہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۔(التوبہ:۳۷)

’’نسئی( مہینوں میں الٹ پھیر کرنا) کفر میں سراسر زیادتی ہے جس سے کفر کرنے والے گمراہی میں پڑتے ہیں۔ وہ کسی سال حرام مہینے کو حلال کردیتے ہیں اور کسی سال اس کو حرام کردیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کرلیں اور اس کے حرام کیے ہوئے کو حلال کرلیں ۔ ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ انکار کرنے والوں کو راستہ نہیں دکھاتا‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نسئی کو حرام قرار دیا ہے اور اسے کفر میں زیادتی بھی کہا ہے۔ نسئی کے معنی عربی زبان میں تاخیر کے ہیں یعنی مؤخر کرنا ، ہٹانا،جیسا کہ راغب اصفہانی اس لفظ (نسئی) کے معنی اس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’النسئی کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل وقت سے مؤخر کردینے کے ہیں اوراسی سے نسئت المرأۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے حیض میں مقررہ ایام میںتاخیر کے ہیں جس سے اس کے حاملہ ہونے کی امید کی جاسکے۔ اور ایسی عورت کو نسوء کہا جاتا ہے اور اسی سے وہ نسئی بھی ہے جس کا عرب میں رواج تھا یعنی کسی ماہ حرام کوہٹاکر آگے پیچھے کردیتے تھے۔ (المفردات فی غریب القرآن،ص:۴۹۲)

نسئی کے بارے میں محققانہ تفسیر مولانا ابوالکلام  نے لکھی ہے ۔ چنانچہ موقع کی مناسبت سے یہاں اس تفسیر کو نقل کیاجاتا ہے۔

’’نسئی سے مقصود کیا ہے؟ اسے خود قرآن حکیم نے بتلا دیا ہے اورصحابہ کرامؓ نے مزید تشریح کردی۔ لیکن بعد کو مفسروں کی کاوشوں نے اور خصوصاً علماء ہیئت کی دقیقہ سنجیوں نے اسے ایک پیچیدہ سوال بنا دیا۔ غالباً ابومعشر فلکی پہلاشخص ہے جس کا خیال اس طرف گیا کہ یہ کبیسہ کا معاملہ تھا، پھر ابو ریحان بیرونی نے بھی اس کی پیروی کی۔ گزشتہ صدی کے بعض مستشرقین یورپ کو بھی اس مسئلے پر خصوصیت کے ساتھ توجہ ہوئی کیونکہ انھوں نے خیال کیا کہ اس سے عرب جاہلیت کی تقویمی معلومات پر روشنی پڑے گی، چنانچہ پوکاک (Pocock) دی ساسی (De Sacy) گارسین دی پرسیول  (Garcon De Perceval) اسپرنگر  (Springer) ول ہواسن (Wellhousen) وغیرہم نے اس پر طول طویل بحثیں کی ہیں اور زمانۂ حال کاایک اطالوی مستشرق پرنس کائتانی (Prince Cactani) بھی اپنی زیر تصنیف تاریخ اسلام کی پہلی جلد میں اس پربحث کرچکا ہے۔ مستشرقین ہی کی صف میں محمود پاشا فلکی کو بھی شمار کرناچاہیے جس نے کبیہ کانظریہ تسلیم کرکے یہ کوشش کی کہ اس عہد کے شمسی مہینوں کی تقویمی حالت منضبط کی جائے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس نظریے کے لیے کوئی تاریخی بنیاد موجود نہیں اور صاف بات وہی معلوم ہوتی ہے جس کی طرف خود قرآن نے اشارہ کردیا ہے اور آثار صحابہ کرامؓ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

عرب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے زمانے سے یہ با ت چلی آتی تھی کہ سال کے چار مہنے امن کے مہینے ہیں، ان میں لڑائی نہیں ہونی چاہیے، رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم، اسی لیے انھیں اشہر حرم کہتے تھے، یعنی حرمت کے مہینے، نیز قمری مہینوں کے حساب سے کہ قدرتی حساب ہے، حج کا مہینہ بھی متعین تھا اور وہ اسی نام سے پکارا جاتا تھا، یعنی ذی الحجہ، اس مہینے کی آٹھویں نویں، دسویں حج کے اعمال و رسوم کے دن سمجھے جاتے تھے۔

ایک مدت تک یہ بات اسی طرح قائم رہی، لیکن پھر لوگوں پر اس حکم کی پابندی شاق گزرنے لگی، اول تو اس لیے کہ قمری مہینوں کے حساب کی وجہ سے حج کا زمانہ ہمیشہ ایک ہی موسم میںنہیں آتا ، بدلتا رہتا  اور اس کی وجہ سے قریش کے سفر تجارت میں خلل پڑتا، ثانیاً: امن کے مہینوں کامعاملہ بھی ان کے جنگجویانہ مقاصد کےخلاف واقع ہوا تھا، ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے سے کتنی ہی عداوت ہو اور انتقام کا کتنا ہی موزوں موقع سامنے دیکھے، لیکن اس کی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ ان مہینوں کی بے حرمتی کرکے اعلانِ جنگ کردے۔ چونکہ عرب جاہلیت کی طبیعتوں کے لیے نہ تو دینی قیود تھے ، نہ علمی حدود، اس لیے مطلب برآری کاایک ڈھنگ نکال لینے میں انھیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ وہ ڈھنگ یہ تھا کہ امن کے مہینوں کا معاملہ ان کے قدرتی حساب پر موقوف نہیں رکھا، بلکہ اس کے لیے ایک خود ساختہ اعلان ضروری ٹھہرادیا، جو حج کے موقع پر کیاجاتا تھا، اس اعلان کے ذریعے حسب ضرورت امن کے مہینے پیچھے ڈال دیتے یا حج کا مہینہ مؤخر کردیتے۔ مثلاً محرم امن کا مہینہ ہے، لیکن اعلان کردیاجاتا کہ اس سال محرم صفر میں واقع ہوگا، نتیجہ یہ نکلتا کہ محرم کا حقیقی مہینہ حکماً معدوم ہوجاتا اور اس میں لڑائی شروع ہوجاتی، پھر جب یہ فرق بہت دور تک پہنچ جاتاتو اسے لوٹانا شروع کردیتے، یہاں تک کہ اصلی مہینوں کی ترتیب پھر قائم ہوجاتی۔ چونکہ یہ طریقہ سرتاسر جہل وفساد پر مبنی تھا اور اس کی وجہ سے نہ تو تقویم کا کوئی معیار باقی رہتا تھا نہ امن وجنگ کے ایام کا، اس لیے ضروری تھا کہ اس کا قطعاً انسداد کردیا جائے اور حج کے لیے ایک معین اورقطعی زمانہ مقرر ہوجائے۔ اگر فی الحقیقت اس معاملے کی بنیاد کسی قاعدے پر ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن پاک اسے زیادتاً فی الکفر سے تعبیر کرتا۔

اسلام کا جب ظہور ہوا تو عرب میں قمری مہینوں کا حساب رائج تھا۔ اس نے بھی اپنے اعمال و عبادات کے لیے اسی حساب پر اعتماد کیا، کیونکہ انسان کے لیے مہینوں کاقدرتی حساب یہی ہے، چاند چھپتا ہے اور پھرنکلتا ہے اور ہر شخص خواہ کسی متمدن شہر میں رہتا ہو ، خواہ صحرا میں ،معلوم کرلے سکتا ہے کہ کب مہینہ ختم ہوا اور کب شروع ہوا، اس کے لیے نہ تو علم ہیئت کی حساب دانیوں کی ضرورت ہے نہ تقویم کی جدولوں کی، جو تبدیلیاں قدرتی طور پر ہوتی رہتی ہیں، مثلاً رمضان اور حج کا مہینہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے، کبھی کسی موسم میں آتا ہے ،کبھی کسی موسم میں اور اسی طرح انسان کو اپنی زندگی میں پورا موقع مل جاتا ہے کہ یہ اعمال ہر طرح کے موسموں اور ان کے تاثرات کے ساتھ انجام دے جس میں بے شمار مصلحتیں ہیں اور یہ موقع تفصیل کا نہیں ۔(ترجمان القرآن، ج۳،ص :۴۱۱۔۴۱۳)

اس طرح اسلام نے مشرکین عرب کے اس ’نسئی‘ کے قاعدے کو باطل اور اسے کفر میں زیادتی کے مترادف قرار دیا ہے اور قدرتی و فطری تقویم کو اپنی اصل شکل میں قائم کیا، چنانچہ حجۃ الوداع ۱۰ھ کے موقع پر اسلامی تقویم (Islamic calender) کے حوالے سے جو خطاب پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا وہ بخاری کی روایت کے مطابق اس طرح آیا ہے:

(ترجمہ) ’’حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بے شک زمانہ گردش کرکے اپنی اس دن کی ہیئت پر آگیا جس دن کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے،جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین متواتر ہیں ،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر (مضر قبیلہ کی طرف منسوب جو رجب کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے مقام سے اسے ہٹاتا نہیں تھا) جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے‘‘۔ (فتح الباری، کتاب التفسیر، باب قولہ ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا، حدیث نمبر ۴۶۶۲، ج۸، ص: ۴۱۳)

اس  طرح حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام ﷺ نے خدا کے حکم کے مطابق اعلان فرمایا کہ اب زمانہ پھر صحیح وقت پر آگیا ہے۔ یعنی ہر مہینے اپنے اصل محل پر آگیا ہے۔ حلال مہینہ، حلال مہینے کی جگہ پر ہے اور حرام مہینہ حرام مہینے کی جگہ پر۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ قمری مہینوں کا سلسلہ ٹھیک اپنی حالت پر قائم چلا آرہا ہے اور اسی طرح رہتی دنیاتک انشاء اللہ چلتا رہے گا۔

واضح رہے قمری سال کےبارے میں اتنی تفصیل کے باوجود یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مسلمانوں میں جو سنہ ہجری رائج ہے، اس کی مستقل ابتداء کب سے ہوئی ہے؟ اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی تحریر فرماتے ہیں:

’’اس کی ابتدایوں ہوئی کہ ۱۶ھ میں حضرت عمر ؓ کے سامنے  ایک چک (اقرار نامہ کی شکل میں) پیش ہوئی۔ صرف شعبان کا لفظ لکھا تھا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیونکر معلوم ہو کہ گزشتہ شعبان کامہینہ مراد ہے یا موجودہ، اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیاگیا ، اکثر نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے،چنانچہ ہرمز ان  جو خوزستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لاکر مدینہ منورہ میں مقیم تھا، طلب کیاگیا، اس نے کہا ہمارے ہاں جو حساب ہے اس کو ماہ اوز کہتے ہیں اور اس مہینہ اور تاریخ دونوں کا ذکر ہوتا ہے، اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سنہ کی ابتدا کب سےقرار دی جائے ؟ حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اس پر سب کا  اتفاق ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی یعنی سال میں دو مہینے ۸ دن گزرچکے تھے، اس لحاظ سے ربیع الاول سے آغاز ہوناچاہیے تھا لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس لیے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سنہ قائم کیا‘‘۔ (الفاروق حصہ دوم،ص:۱۳۰)

مشہورمؤرخ اور سیرت نگار ڈاکٹر علی محمد الصلابی اس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں:

’’علامہ  ابن حجر نے (فتح الباری میں) فرمایا کہ تاریخ کی ابتدا محرم سے ہوئی ربیع الاول سے نہیں ہوئی جس میں نبی ﷺ کی ہجرت ہوئی تھی۔ اس کاسبب یوں بیان فرمایا کہ صحابہ کرامؓ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ امور جن سے تقویم کی ابتدا کی جاسکتی ہے وہ چار ہوسکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کی ولادت باسعادت، بعثت ،ہجرت اوروفات، پھر انھوں نے دیکھا کہ ولادت اور بعثت کی تاریخوں میں اختلاف پایاجاتاہے۔ تاریخ وفات کو اس لئے درست نہ سمجھا کہ یہ تاریخ مسلمانوں کے غم ورنج کو تازہ کرتی رہے گی ،لہٰذا سب ہجرت پر متفق ہوگئے۔ انھوںنے ربیع الاول کے بجائے محرم سے تقویم کی ابتدا کی، کیونکہ ہجرت کا ارادہ محرم میں ہوا تھا، بیعت عقبہ ثانیہ ذوالحجہ کے مہینے میں ہوئی تھی جو ہجرت کا پیشہ خیمہ ثابت ہوئی۔ پس سب سے پہلا چاند اس بیعت کے بعد طلوع ہوا وہ محرم کا تھا، چنانچہ مناسب یہی خیال کیاگیا کہ محرم سے اسلامی تقویم کی ابتدا کی جائے۔ ان حجر فرماتے ہیںیہی وہ سب سے زیادہ مناسب سبب باور کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اسلامی تاریخ کا آغاز محرم سے ہوا‘‘۔ (سیرت عمر فاروق، ج۱، ص:۲۸۰)

اب آخری بات یہ ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہفتہ کے سات دن ، مہینے کے تیس یا انتیس دن اور سال کے بارہ مہینوں کا حساب کب سے مقرر کیاگیا ۔ اس سلسلے میں کوئی ثقہ دلیل یا ثبوت تو نہیں ملتا ہے کہ کب سے اس کی شروعات ہوئی لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ ابتدائی دنیا اسی قاعدے پر عمل کرتی رہی ہوگی۔ چاند کاگھٹنا بڑھنا، انسانوں کاروزکا مشاہدہ ہے اور اس سے وہ دنیاوی معاملات کو متعین کرتے آئے ہیں، جب اسلام آیا تو اس نے اپنے الہامی وآفاقی احکام و تعلیمات کے ساتھ ساتھ قمری کیلنڈرکو بھی اپنی اصل اورقدرتی ہیئت میں پیش کیا اور پھر اس کو اسلامی کیلنڈر کے طور پر رائج کیا۔ مثال کے طور پر رمضان کے ایام (انتیس یا تیس کا تعین) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت  حمل، رضاعت، عیدین، حج اور زکوٰۃ کے حسابات قمری کیلنڈر کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اپنا ہر کام اور ہر پروگرام تشکیل دیتے وقت قمری کیلنڈر کے مقابلے میں شمسی کیلنڈر کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ہمارے بیشتر اخبارات و رسائل میں شمسی کیلنڈر کو فوقیت دی جاتی ہے اور قمری کیلنڈر کو حاشیے میں رکھ دیاجاتا ہے بلکہ ہمارے جو ماہنامہ دینی رسائل ہیں وہ بھی شمسی کیلنڈر کے مطابق شائع ہوتے ہیں بلکہ مضامین اور خطوط لکھتے وقت بھی قمری کیلنڈر سے بے اعتنائی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ ہم شمسی کیلنڈر کی تاریخ تو لکھ دیتے ہیں مگر قمری کیلنڈر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اخبارات، رسائل، خطوط ومضامین میں اوراپنے ہر کام اور ہرپروگرام کو تشکیل دیتے وقت اسلامی کیلنڈر کے مطابق تاریخ لکھنے کی عادت ڈالیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ یہودو نصاریٰ کے عادات واطوار کے مقابلے میں اسلام کی امتیازی چیزوں کو اہمیت دیتے تھے اور کسی بھی ایسے فعل سے منع کرتے تھے جس سے یہودونصاریٰ اورد وسرے غیر اسلامی اقوام سے کسی طرح کی مشابہت و مماثلت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم اسلامی کیلنڈر کو اپنے ماہ وسال کی پہچان بنائیں اور اسلام کو ہر حیثیت سے آفاقی و الہامی دین کے طور پر پیش کریں۔

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۔              (آل عمران: ۱۹)

’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہے‘‘۔

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا۔(آل عمران: ۸۵)

’’اور جوشخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہوگا‘‘۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔                                                 (البقرہ: ۲۰۸)

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔

علامہ اقبال نے خوب فرمایا ہے ؎

اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب پر نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

مشمولہ: شمارہ اپریل 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223