اس وقت ملّت اسلامیہ شدید اضطراب اور بے چینی سے گزر رہی ہے۔ تباہی وہلاکت اس کے استقبال کو کھڑی نظر آتی ہے،اُسے اِن سنگین حالات سے بچانے کی آئے دن کوششیں ہورہی ہیں، غوروفکر کیا جارہا ہے اور نئی نئی حکمت عملیاں کام میں لائی جارہی ہیں۔ لیکن سب بے سود وبے نتیجہ۔ آخر کیوں؟ اس پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے۔
دربارِ نبویﷺ سجا ہوا تھا۔ شاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبویﷺ کے فرش پر جلوہ فرما تھے۔ سامنے آپ ﷺ کے جاں نثارصحابہ کرامؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس پرسکون و سکوت طاری تھا۔ ادب واحترام کی وجہ سے ہر شخص ایسا ساکت و جامد بیٹھا تھا، جیسے اُس کے سر پر کوئی پرندا بیٹھا ہوا ہو۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہر شخص نگاہ اٹھاتا اور محبوب کائنات ﷺ کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو راحت اور روح کو قرار پہنچاتا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ کان بھی اس بات کے مشتاق تھے کہ زبانِ مبارک سے کوئی موتی جھڑے اور قوتِ سماعت لپک کر اس کو اپنے دامن میں ڈال لے۔ اچانک مجلس کی خاموشی ٹوٹی اور پوری فضا پر عجیب سی نغمگی چھاگئی۔ ارشاد ہوا:
’’یُوْشِکُ الأُمَمُ أَنْ تداعَی علیکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکْلَاۃُ االٰی قَصْعَتِہَا‘‘۔
’’وہ وقت قریب ہے جب تمھارے اوپر دوسری قومیں اس طرح ٹوٹ پڑیں گی، جیسے کہ بھوکے کے کسی پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘‘۔
کیا مطلب؟۔ یہ کیا فرمایا جارہا ہے ؟ ہماری حالت اتنی بری ہوجائے گی؟ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ میدان بدر میں ہم جرأت ایمانی کی عظیم تاریخ رقم کرچکے ہیں۔ اُحد کے میدان سے اب بھی ہمارے شہداء کے مبارک لہو کی خوشبو آرہی ہے۔ کفار مکہ ہماری بربادی سے تقریباً مایوس ہوچکے ہیں۔ ہمارے نام سے وقت کی عظیم ترین طاقتوں (Super Powers) کی پیشانی پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ہم مرسکتے ہیں، مٹ سکتے ہیں، مگر لقمۂ تر نہیں بن سکتے۔ لیکن زبانِ مبارک سے تو یہی فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کی قومیں ہمیں لقمۂ تر سمجھ کر ہر طرف سے ہمارے اوپر ٹوٹ پڑیں گی اورہم ایک بے جان اور بے حس پیالے کی طرح ان کا شکار ہوجائیں گے۔ اس طرح کے بے شمار سوالات ہر صحابی کے ذہن میں پیدا ہونے لگے ۔ آخر کار ایک صاحب نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:
’’و مِنْ قِلّۃِ نَحْنُ یَوْمَئِذِ؟‘‘
’’﴿یا رسول اللہ ﴾کیا ہماری یہ حالت اس لیے ہوگی کہ ہم تعداد میں بہت کم رہ جائیں گے‘‘؟
لیکن بصارت نبویﷺ تو کچھ اور ہی دیکھ رہی تھی۔ ارشاد ہوا:
’’بَلْ أَنْتُمْ یَؤمَئِذِِ کَثِیْر ولکِنَّکُمْ غُشائٌ کَغشائِ السیلُ، ولینزعنَّ اللّٰہُ من صدورِ عدوِّکُمْ المَہابۃَ مِنْکُمْ‘‘۔
’’نہیں، بل کہ اس وقت تم لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہوگے۔ لیکن تم لوگ سیلاب کی جھاگ اور خس و خاشاک کی طرح ہوجائوگے۔ اللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب نکال دے گا‘‘۔
زبانِ نبوت سے یہ الفاظ اداہورہے تھے اور صحابہ کرامؓ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوبے جارہے تھے۔ عقل ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آخر یہ کیا فرمایا جارہا ہے؟ اگر بیان کرنے والا کوئی اور ہوتا تو اسے جھوٹا اور غیر معتبر کہہ دیا جاتا۔ لیکن اس وقت تو یہ بھی ممکن نہ تھا۔ بیان کرنے والا صرف سچانہیں، بل کہ خود اپنی ذات میں کائنات کا ایک عظیم ترین سچ تھا اور تمام سچائیوں اور صداقتوں کا حوالہ تھا۔ ایسا سچ جس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والا خود مشکوک ہوجائے، جس کو سچ نہ سمجھنے والا پوری کائنات کی نظر میں سب سے بڑاجھوٹا قرار پائے۔ ہم لوگ سیلاب میں بہنے والے جھاگ اور خس وخاشاک کی طرح بے شمار اور بے حد و حساب ہونے کے باوجود اتنے حقیر ہوجائیں گے۔ جھاگ چاہے کتنا ہی ہو، ہے تو بہ ہرحال جھاگ ہی۔ ایک چھوٹا سا پتھر بھی اس پر پھینکو تو اس جھاگ کاسینہ چاک کرتا ہوا پانی تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح سیلاب کے ساتھ بہہ کر آنے والے کوڑے کرکٹ کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے۔ پانی اسے جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے اور وہ پانی کے زور کے آگے دم مارنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا۔ لیکن اگلے ہی لمحے نبیوں کے سرتاج محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لفظ میں ان تمام اعتراضات کو ختم فرما دیا۔ ارشاد ہوا:
’’ولَیَقْذِ فَنَّ اللّٰہ ُفِیْ قُلُوْبِکُمْ الوَھْنَ‘‘۔
’’اس وقت اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں ’’وہن‘‘پیدا فرما دے گا‘‘۔
مجلس میں موجود ہر شخص سمجھ گیا کہ مستقبل میں اس خطرناک صورت حال کی جڑ یہی ’’وہن‘‘ بنے گی۔ لیکن آخر یہ ’’وہن‘‘ ہے کیا؟ ایک صحابی نے ہمت کرکے تعجب آمیز لہجے میں بڑی بے چینی کے ساتھ سوال کیا:
’’یا رَسولُ اللّٰہ! وَمَا الوَھْن؟‘‘
’’اے اللہ کے رسولﷺ! یہ وہن کیا ہوتا ہے؟‘‘
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حُبُّ الدُنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ المَوْت‘‘
’’دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی‘‘۔
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ہونے والی ’’وہن ‘‘ کی اس تشریح نے ہر اعتراض کو ختم کردیا۔ بے چینی دور ہوگئی۔ ذہنوں میں اٹھنے والا سوالات کا طوفان ٹھنڈا پڑگیا۔ مستقبل میں پیدا ہونے والے خطرناک حالات کا سرا ہاتھ آگیا۔ شکوک واعتراضات کی ہر گتھی سلجھ گئی۔
موت کو محبوب ترین شئے سمجھنا تو ہماری اصل پہچان ہے۔ ہم موت سے بھاگتے نہیں، اس کے انتظار میں رہتے ہیں کہ کب موت ہمیں اپنی آغوش میں لے اور ہم اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں۔ روح اپنی اصل منزل تک جاپہنچے۔ چند روزہ زندگی کی اس قید سے رہائی ملے۔ یہی جذبہ تو ہماری کام یابی کا راز ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب یہ جذبہ ہی ختم ہوجائے گا تو پھر ہم پر جو مصیبت بھی آئے وہ کم ہے۔ ہم کتنے ہیں بے وقار، بے حیثیت اور بے وقعت ہوجائیں، کوئی تعجب کی بات نہیں— اس طرح کے بہت سے خیالات کے ذہن میں آنے سے صحابہ کرامؓ نے یک گونہ اطمینان محسو س کیا۔
یہ ایک چونکا دینے والی حدیث ہے۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے اس مرض کی نشان دہی فرمائی ہے، جو مرض قوموں کے جسم کو اندر سے گھُن کی طرح چاٹ کر ختم کردیتا ہے اور ہڈی اور کھال کے سوا کچھ نہیں چھوڑتا۔ ظاہری طور پر وہ ایک جسم ہوتا ہے لیکن روح، طاقت اور وزن کے اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں جب ہم امت مسلمہ کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آج ’’وہن‘‘ نامی اس بیماری نے اُمت کو اندر سے بالکل ختم کردیا ہے۔
اِس وقت اُمت مسلمہ کے پاس تقریباً پانچ درجن ممالک ہیں، سوارب افراد ہیں، قدرتی خزانے ہیں ، لیکن حیثیت کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا جب تک اس بیماری کا علاج نہیں کیاجائے گا ،اس وقت تک اُمت کی نشاۃِ ثانیہ کا ہر خواب ادھورا رہ جائے گا۔ جیسے کسی سوکھے ہوئے درخت کو بچانے کے لیے اس کے پتوں کی دھلائی کی جائے، کاٹ چھانٹ کی جائے، آس پاس کی جنگلی جھاڑیوں کو کاٹا جائے لیکن اس کی جڑ تک پانی پہنچانے کی فکر نہ کی جائے۔ ایسی صورت میں وہ پیڑ ہر کوشش کے باوجود سوکھتا ہی چلا جائے گا، اس لئے کہ اس کے اصل مرض کا علاج کرنے کی بجائے دوسری تمام کمیوں پر توجہ دی گئی اور بنیادی کمی کوایسے ہی چھوڑ دیاگیا۔بالکل یہی معاملہ موجودہ دور میں اُمت مسلمہ کا بھی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کوئی سیاسی استحکام کو تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے ، کسی کو زوال کااصل سبب اقتصادی بے وزنی میں نظر آتا ہے، کسی کو مضبوط فوجی طاقت عروج کا ذریعہ محسوس ہوتی ہے اور کوئی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندگی کو موجودہ زوال وانحطاط کا باعث سمجھتا ہے۔ اصل وجہ کیا ہے، اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ رسول کائناتﷺ نے اس زوال کا بنیادی سبب کیابتایا ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرح کی کوششوں کے باوجود صورت حال بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔
یقینا اُمت کا سیاسی عدم استحکام، اقتصادی زوال، عسکری اور فوجی بے وزنی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں گراوٹ اور پسماندگی بھی نہایت تشویشناک مسائل ہیں، لیکن زوالِ امت کا اصل سبب یہ ہرگز نہیں ہیں۔ اگر ان تمام میدانوں میں امت مسلمہ عروج کی اعلیٰ چوٹی تک پہنچ جائے لیکن اللہ سے اس کا تعلق ختم ہوجائے اور ’’وہن‘‘ نامی جس مہلک بیماری کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا ، وہ امت کو لگی رہے تو اس کی حالت قوم عاد وثمود اور روم وفارس سے قطعاً مختلف نہیں ہوگی۔ وہ بھی دنیا میں ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور سیاسی، عسکری، اقتصادی اور سائنسی میدان میں بڑی بلندیوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ بس ایک کمی تھی۔ اللہ تعالیٰ سے ان کا رشتہ باقی نہیں رہا تھا۔ دنیا میں مگن اور موت سے غافل تھے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ وہ اس طرح نیست ونابود ہوگئے کہ کوئی نام لینے والا بھی باقی نہیں رہا۔ ہر میدان میں حاصل ہونے والی ترقی دھری کی دھری رہ گئی۔ ہر طرح کی حصولیابی خاک میں مل گئی۔
آج اگر امت مسلمہ کا کوئی فرد یا جماعت نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتا ہے تو اسے سب سے پہلے اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ تعلق مع اللہ پیدا کرنا ہوگا۔ دل میں حب الٰہی کی گرمی پیداکرنی ہوگی۔ اُسی ذات اقدس کو اپنا مطلوب بنانا ہوگا۔ اسی کی رضا اور خوشی کو اپنا مقصد حیات بنانا ہوگا۔ اس سے ملاقات کی آرزو پیدا کرنی ہوگی اور اس کی جدائی کے ایک ایک لمحے کو اپنے لیے بھاری بوجھ سمجھنا ہوگا۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے گی تو دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوگا۔ دنیا میں ڈوبے رہنے اور دنیوی زندگی کو اصل زندگی سمجھنے کی لعنت سے چھٹکارا نصیب ہوگا۔ موت اور اس کے بعد کی زندگی پر نظر رہے گی اور اس زندگی کی کامیابی ہی مقصد زندگی بن جائے گی۔ مختصراً یہ کہ ’’وہن‘‘ سے نجات مل جائے گی اور پھر زندگی کے جس شعبے کو بھی اپنی صلاحیتوں کا مرکز بنایا جائے گا ، اس کا خاطرخواہ نتیجہ سامنے آئے گا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012