ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب بھی روشنی نمودار ہوتی ہے، تاریکی اس کو نگلنے کی کوشش کرتی ہے، جب بھی بہار کا موسم آتا ہے، اور کلیاں کھلتی ہیں اور پھول مہکتے ہیں تو خزاں کا بہار پر حملہ ہوتا ہے، جب بھی دنیا کے کسی گوشہ میں حق کی آوازہ بلند ہوتی ہے تو باطل اس پر حملہ آور ہوتا ہے، نور وظلمت کی یہ کشمکش ،بہار اور خزاں کی آویزش ،حق اور باطل کا معرکہ دنیا کی تاریخ میں موجود رہا ہے، اسلام تاریخ انسانی کی سب سے بڑی روشنی اور سچائی ہے، لیکن اسلام کو بھی باطل کے ساتھ کشمکش کا سامنا کرنا پڑا ہے، کچھ لوگ اس نور حق کی حمایت کے لئے کھڑے ہوئے، اور انھوں نے ظلمت کی مخالفت میں امکان بھر حصہ لیا، اسی کوشش کا نام اسلام کی اصطلاح میں جہاد ہے، جہاد کا مقصد نہ تو ملک گیری ہے،اور نہ جہاں بانی کا حوصلہ دکھانا ہے ،نہ توسیع پسندانہ پالیسی اختیار کرنا ہے اور نہ نوک شمشیر سے ملکوں کے جغرافیے بدلنا ہے، مقصد نہ مال غنیمت ہے نہ کشور کشائی ہے ، بلکہ حق کی بلندی اور اس کی اشاعت کے لئے ہر قربانی اور ایثار کو گوارا کرنا ہے، اور شرکی پیش رفت کو روکنا ہے۔اوردارالاسلام کی حفاظت کرنا ہے۔
حقائق کا تقاضا:
جن لوگوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک صرف اپنی حقانیت کے بل بوتے پر اور اصولوں کی پاکیزگی کی بنا پر کامیاب نہیں ہوتی، بلکہ کامیابی کے پیچھے وہ جماعت ہوتی ہے ، جو حق کی حمایت کے لئے عیش وآرام اور جان ومال کو داؤ پر لگا دیتی ہے، یہی مجاہدانہ ذوق ہے جو حق کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے، مسلمانوں نے مکہ میں سخت ترین مظالم کو برداشت کیا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ انھیں ہجرت کرنا پڑی لیکن مدینہ پہنچ کر بھی تلواروں کے سائے میں انھیں زندگی بسر کرنی پڑی ،راتوںکو پہرہ دینا پڑا، اور انھیں اپنے مذہب اور سر زمین دونوں کا دفاع کرنا پڑا ، حقیقت یہ ہے کہ حق کی راہ کٹھن ہے، یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، اسی لئے انسان کو نرم وگرم دونوں قسم کے اخلاق کی حاجت ہوتی ہے۔ ایک انگریز مفکر نے بجا طور پر کہا ہے’’تحمل اپنی جگہ پر ایک اچھی چیز ہے لیکن تم اس کو تو برداشت نہیں کرسکتے جو تم کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور تمہاری گردن قلم کردینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے‘‘۔ انسان کو اور ہر جماعت کو اپنی تحریک کی کامیابی کے لئے اخلاقی حدود کےاندر نرمی کے ساتھ سختی کو بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔ حق کی خاطر پیغمبروں کو بھی جنگیں لڑنی پڑی ہیں، یہ اس لئے کہ کبھی ایسی صورت حال پیش آتی ہے، کہ قوت کا (ضوابط کے تحت) استعمال ایک اخلاقی ضرورت بن جاتا ہے، جب آزادی پر ہر طرف سے حملے ہونے لگیں ، جب عبادت گاہیں خطرے میں پڑ جائیں، جب آبرو اور جان ومال کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جائے تو محض تماشائی بن کر کے بیٹھا نہیں جاسکتا، بلکہ جائز حدود میں تمام ضروری تدابیر اختیار کرنی ہوتی ہیں۔
جہاد کا مقصد:
شرائط اور حدود کی رعایت کے ساتھ اسلام نے حق کی حمایت اور باطل کی شکست کی خاطر جنگ ، اسلامی ریاست کے لیے، جائز قرار دی ہے، یہ جنگ سلطنت وحکومت کی ہوس پوری کرنے کے لئے نہیں کی جاتی تھی، اسلام نے دین کی جبری اشاعت کی بھی ممانعت کی تھی، اور صاف کہہ دیا تھا کہ ’’لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ‘‘ (البقرہ) یعنی دین کے معاملے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے، دوسری جگہ قرآن میں ہے، أَنَّمَا عَلَی رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ (المائدہ) یعنی ہمارے نبی پر یہی فرض ہے کہ وہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں، لیکن ہوا یہ کہ پیغمبر ﷺ کو طرح طرح کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، پر امن تبلیغ کی بھی اجازت نہیں دی گئی، مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی باطل کی قوتیں باربار آپ پر اور آپ کی اتباع کرنے والوں پر حملہ آور ہوئیں، ایسی صورت میں اگر آپ مقابلہ نہ کرتے اور تلوار نہ اٹھاتے تو دنیا کے لئے ایسی مثال پیش کرتے جس پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا، اس لئے اسلام نے ایک بلند مقصد کے لئے آخری تدبیر کے طور پر تلوار اٹھانے کی اجازت دی، پھر باطل طاقتوں نے مسلسل سازش اور لڑائی کا وطیرہ اختیار کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل حق کو فتح یاب کیا، اور دنیا کے بہت سارے علاقے اسلام کے زیر نگیں آگئے، ان فتوحات کی روداد اسلامی تاریخ کا حیرت انگیز باب ہے۔
نظم وضبط:
جہاد میں سب سے زیادہ ضروری چیز ڈسیپلین ہے، انسان اگر غور کرے تو محسوس کر لے گا کہ اسلامی عبادات میں یہ ڈسپلین پورے طور پر ہے، نماز میں ڈسپلن اور تربیت کی شان موجود ہے، وقت کی پابندی، فرض شناسی، چستی اور محنت، صفوں کی ترتیب اور درستی اور ایک امام کی اطاعت یہ وہ ساری باتیں ہیں جن میں فوجی ڈسپلین موجود ہے، اور پھر جس طرح سے فوجی کیمپ لگتے ہیں اسی طرح سے جمعہ، عید اور حج کے موقع پر مسلمان ڈسپلین اور نظم وضبط کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، اور جس طرح سے ایک فوجی تکلیف برداشت کرنے کی مشق کرتا ہے اسی طرح سے روزے میں بھی ایک مسلمان بھوک پیاس کی مشق کرتا ہے، گویا ایک مسلمان کی زندگی شروع سے آخر تک جدوجہد کی تربیت ہے، جہاد کا مقصد دلوں پراللہ تعالیٰ کی حکومت قائم کرنا ہے، اور دنیا سے ظلم اور زیادتی کو مٹا نا ہے، اور عدل وانصاف کو پھیلانا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرامؓ نے تاریخ میں ایسے نمونے چھوڑے ہیں جن پر اگر دنیا عمل کرے تو ہمیشہ امن وامان قائم رہے، جہاد کا مقصد خونریزی کا انسداد اور امن وامان کا قیام اور دین کے قبول کرنے کے معاملہ میں جبر کو ختم کرنا ہے ۔
آنحضرت ﷺ کی تربیت سے ایسے بہادر ، دلیر، جانباز سپہ سالار پید ا ہوئے جن کے کارنامے دنیا کی تاریخ میں مشعل ہدایت کا کام دیتے ہیں، یہ مجاہدین کوئی ظالم وجابر فاتح نہ تھے، بلکہ انسانیت کے خادم تھے، اور بندگان خدا کے لئے خیر خواہ اور ہمدرد تھے، ان کے ہاتھوں سے ضرور کچھ شرپسندمارے گئے لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، زمین جور وستم سے پاک ہواور اپنی مرضی سے جودین اسلام قبول کرے اس پر ظلم نہ ہو ۔اسلام نے، آداب و شرائط کے ساتھ جنگ کی اجازت ضرور دی ہے لیکن صرف ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہوںیا آمادۂ جنگ ہوںاور اشاعت دین میں مزاحم ہوںاور دین اسلام قبول کرنے والوں پراور اپنی رعایا پر ظلم روا رکھتے ہوں حالت جنگ میں بھی کوئی صلح کی پیشکش کرے تو اسے قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جنگ کے اسلام نے وہ اخلاقی قوانین طے کردئے ہیںجو اس وقت پوری دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے تھے اور اب بین الاقوامی قانون جنگ میں اس کا عکس پایا جاتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے ۔
اصول و آداب:
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت یزید بن ابی سفیان کو شام کے علاقہ کی ایک مہم پر روانہ فرمایاتو یہ نصیحتیں کیں: کچھ لوگ اپنی عبادتوں میںمشغول ہوں گے ان سے تعرض نہ کرنا ، عورتوں کو ، بچوں کو اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا،کسی پھل دار درخت کو نہیںکاٹنا ،کسی آبادی کو نقصان نہیںپہونچانا( صرف فوج سے لڑنا)اگر تمہاری فوج کو غذا کی کمی پیش آجائے اور مجبوری نہ ہوتو کسی کی بکری اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا،کسی باغ کوآگ نہ لگانا ، کسی حال میں بدعہدی نہ کرنا اور کسی لاش کا مثلہ نہ کرنا۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے مفتوح ممالک میں غیر مسلموں کے ساتھ بیہمانہ سلوک نہیں کیا جیسا کہ عیسائیوں نے اندلس میں مسلمانوں کے ساتھ کیا، مسلمانوں نے سب کو مذہبی آزادی دی، نہ کسی کے رسم ورواج میں رکاوٹ ڈالی نہ کسی کا پرسنل لا ختم کیا ،یہی وجہ ہے کہ بہت سے مفتوح ملکوں میںآج بھی اکثریت غیر مسلموں کی ہے جیسے ہندوستان میں، یہ اسلام اور مسلمانوں کی رواداری کا بہت بڑا ثبوت ہے، مسلمانوں کا میدان جنگ میں قدم رکھنا شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا تھا اور اپنی جان ومال اوراپنے گھر اور عیش وآرام کواللہ کی راہ میں قربان کرنا تھا اوریہ اللہ کی خوشنودی کے لئے تھا اور اسلام کے خلاف جبر وقہر کو روکنے کے لئے تھا، جب وہ میدان جہادکے لئے نکلتے تھے تو وہ زبان حال سے کہتے تھے:
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
کامیابی کی شرائط:
اسلامی تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ مجاہدین کی ایک چھوٹی سی جماعت نے کئی گنا لشکر پر فتح حاصل کی ہے، دس ہزار مسلمانوں کے لشکر نے ایک لاکھ کی فوج کو شکست دی ہے ۔آج دنیا میں مسلمان مظلوم ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو زدو کوب کیا اور ان کو ان کے وطن سے نکال دیا ، برما میں بدھسٹـوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ، کسی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں تب بھی مظلومیت کا شکار ہیں۔یہ سوال اہم ہے کہ مسلمانوں پر نصرت الٰہی کا نزول کیوں نہیں ہورہا ، ان سوالات کے جواب اہل فکر ونظر کو دینے ہیں اور موجودہ صورتحال کے اسباب کی نشان دہی کرنی ہے۔
راقم سطور کے نزدیک کچھ خصوصیات ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے یہ خصوصیات اگر امۃ مسلمہ میں نہیں پائی جائیں گی تو اللہ کی مدد نازل نہیں ہوگی ۔ اگر یہ خصوصیات نہیں پائی جائیں گی تو جس کے پاس عددی طاقت زیادہ ہوگی اور جس کے پاس اسلحے زیادہ اور ترقی یافتہ ہوں گے کا میابی اس کے لئے مقدر ہوگی۔ اللہ کی مد د نازل ہو اس کے لیے ذیل کی صفات کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ مقصد غلبہ اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق ہو ۔
۲۔ اسلام کی راہ میں شہادت کا شوق غالب ہو ۔
۳۔ توجہ الی اللہ ہو اور احکام الٰہی پر عمل ہو ۔
۴۔ وہ تمام ضروری تدابیر اختیار کی جائیں جو اسباب کی دنیا میں اختیار کی جاتی ہیں۔
تدابیر:
موجودہ دور میں مسلمانوں کی شکست وہزیمت، مذکورہ صفات سے عاری اور تہی دامن ہونے کی وجہ سے ہے۔مسلمان وہ ضروری اور ظاہری تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے جو تاریخ میں فاتحین اور مجاہدین نے اختیار کی تھیں، تاریخ اسلام میں جو جنگیں ہوئیں اور جن میں مسلمان غالب اور غازی ہوئے ان جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد اور کافر فوجیوں کی تعداد میں فرق اور تفاوت تو پایا جاتا تھا یعنی مجاہدین اسلام کی تعداد کم ہوتی تھی اور دشمنان اسلام کی کئی گنا زیادہ لیکن سامان جنگ اور اسلحہ کا زیادہ فرق نہیں پایا جاتا تھا۔ اگر دشمنوں کے پاس تلواریں ہوتی تھیں تو مسلمانوں کے پاس بھی تلواریں تھیں، اگر کافروں کے پاس تیر اور نیزے ہوتے تھے تو مسلمانوں کے پاس بھی تیر اور نیزے ہوتے تھے، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ دشمنان اسلام کے پاس تو وہ تمام اسلحے ہوںجو اس زمانہ میں ہواکرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس صرف پتھر ہوں یا ڈنڈے ہوں، اگر عہد حاضر میں ناکامیوں کا تجزیہ کریں تو اس کی وجہ یہ نظر آئے گی کہ مسلمانوں نے وقت کے معیار کے اسلحے نہیں بنائے، مسلمان دولت مندملکوں کے پاس کسی طرح کی کوئی صنعت نہیں ، ہر چیز مستعار اور باہر سے منگائی ہوئی ہے اور یہ روش قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے۔اس وقت مسجداقصیٰ کی باز یابی کے لئے اور فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے فلسطین کے گرد وپیش کی مسلم حکومتوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ در پردہ روابط قائم کئے صنعت اورا سلحہ سازی کے کام کو پس پشت ڈال دیا اور دنیا کی جو حکومتیں انہیں پامال کرتی ہیں انہی کے سامنے اسلحہ کے لئے کشکول گدائی لے کر جانا انہوںنے سیکھا ۔ ان نااہل حکومتوں کے بجائے عالمی مسلم رائے عامہ کی نمائندہ حکومتوںکی ضرورت ہے۔ لیکن مسلم رائے عامہ باشعور نہیں ۔ اس کے شعورکو بیدار کرنا چاہئے۔
اللہ تعالی نے اس دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے ، ایمان قوی اور عمل صالح کی نعمت کے ساتھ اہل حق کے پاس صنعت اور ٹکنالوجی آجائے گی توانشاء اللہ ، اللہ تعالیٰ کی نصرت کا پھر سے مشاہدہ ہونے لگے گا اور اقبال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا :
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میںنے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
مشمولہ: شمارہ اپریل 2019