یہ بات ایک ناقابلِ تردیدحقیقت بن چکی ہے کہ اس وقت پوری انسانی تاریخ میں صرف رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے حالات کامل صحت کے ساتھ موجود ہیں۔ آپﷺکی تایخ پیدایش، جاے پیدایش، زمانۂ بعثت، ہجرت، غزوات اور وفات سمیت آپ سے متعلق ایک ایک بات اور ایک ایک عمل کو تاریخ و سیرت کی کتابوں میں محفوظ کیاگیا ہے۔ آپﷺپر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید حرف بہ حرف کسی بھی تبدیلی یا ترمیم کے بغیر لاتعداد سینوں میں بھی محفوظ ہے اور تحریری شکل میں بھی۔ آپ کی سیرتِ پاک تمام دنیا کے لیے قابلِ تقلید ورہ ہنمائی ہے۔ آپﷺکی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ اس کامطالعہ کسی بھی فرق و امتیاز اور بھید بھاؤ کے بغیر ہر ایک کے لیے باعثِ ہدایت وروشنی ہے۔ آپﷺکی سیرت کی یہ خصوصیت بالکل منفرد ہے کہ آپﷺنے جو بھی تعلیمات انسانوں کے سامنے پیش فرمائی ہیں، پہلے ان پر خود عمل فرمایاہے۔ بل کہ آپ کی تعلیمات کی تکمیل ہی اسی وقت ہوتی ہے، جب ان کا ثبوت آپ کی زندگی سے ملتاہے۔ اسی کو ہم شریعت کی اصطلاح میں سنت کہتے ہیں۔ چوں کہ سنت کو اسلامی شریعت میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، اس لیے آپ کے ہرعمل اور ہرقول کو کامل تحقیق کے بعد احادیث کی کتابوں میں محفوظ کردیاگیاہے۔ تاکہ دنیا کے تمام انسان انھیں اپنے لیے شمع ہدایت و رہ نمائی بناسکیں۔
اس وقت ہمارے درمیان سب سے بڑا فتنہ ہمارے درمیان کامن و توکا فرق ہے، قبائل اور برادریوں کابھید بھاؤ ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے، جس سے ہمارا دنیوی اور دینی دونوں ارتقا متاثر ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اِن تمام چیزوں سے بلند ہوکر ہماری تخلیق فرمائی ہے۔ اس کے ہاں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے فرمایا:
یٰآَیُّھَاالنَّاسُ انَّا خَلَقْنَکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنَکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ط
’’لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگارہے۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت سے صاف اور واضح طورپر یہی مفہوم سامنے آتاہے کہ جس نے دنیا میں اللہ سے ڈرکر زندگی گزاری، لین دین، معاملات، لباس، دین، سیاست، معیشت، معاشرت، انفرادیت اور اجتماعیت غرض کہ ہر پہلو سے اللہ کے خوف اور تقوے کو اپنا شعار بنایا، وہی سب سے زیادہ عظمت و فضیلت والا ہے۔ یہ آیت نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان ساری مصنوعی عظمتوں اور بلندیوں کی رسی کاٹ دی، جنھیں آج کے انسان نے سینے سے لگارکھاہے۔ اس نے تو بس تقوے اور پرہیزگاری کو شرف و بزرگی کامعیار بنایاہے۔
وَمَآاَرْسَلْنَاکَ اِلَّاکَآفَّۃً لِلّنَّاسِ بَشِیْراًوَّنَذِیْراًo ﴿سبا: ۱۳﴾
ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور ہوش یارکرنے والا بناکر بھیجاہے۔
قرآن مجید کی یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺرسولِ کائنات تھے، وہ صرف اہلِ عرب کے لیے دنیا میں نہیںمبعوث کیے گئے تھے اور نہ کسی ایک قوم یا خطے کے لیے انھیں ہادی و یا قائد بناکر بھیجاگیاتھا۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے انسانوں کے لیے بشیر ونذیر یا ہادی ورہ بر بناکر مبعوث فرمایاتھا۔ پوری انسانیت کو سیدھار ستا دکھانا، انھیں ان کے خالق ومالک کی رضا و خوش نودی کی راہ پر چلانا اور گم راہی و بے راہ روی کی صورت میں اس کے عذاب سے ڈرانا اور اس کی وعیدیں سنانا ان کے فرض منصبی میں شامل تھا۔
ایسی صورت میں ہم پر لازم ہے کہ ہم رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺکو اسی حیثیت سے دنیا کے انسانوں کے سامنے پیش کریں، جس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں پیش فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَّسُوْل اللّٰہِ وَ خَاتَم النَّبِیْنَ ﴿الاحزاب:۴۰﴾
محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، وہ تو اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔
قرآن مجید کی یہ آیت حضرت محمدمصطفیﷺ کو ہمارے سامنے ایک ایسے مصلح اور رسول کے طورپر پیش کرتی ہے، جس کی اصلاح و رہ نمائی کادائرہ تمام انسان ہیں۔ یہ دائرہ کار سال دو سال یا صدی دو صدی کے لیے نہیں قیامت تک کے لیے ہے۔ کسی بھی عہد یا کسی بھی خطّے اورعلاقے کا کوئی فرد اس دائرے سے خود کو باہر یا مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔
رسولِ رحمت ﷺے انسان کو اس کی زندگی کے ہرشعبے میں ہدایت ورہ نمائی عطا فرمائی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ آپﷺکی عطا کردہ ہدایت و رہ نمائی سے محروم نہیں رہا۔ آپﷺنے انسان کی پوری زندگی اور اس کے ہرشعبے کو ایک وحدت اور اکائی کے طورپر دیکھا اور برتا ہے۔ اِسی اعتبار سے کسی فرق و امتیاز کے بغیر اس کو اپنی ہدایت و رہ نمائی کے نور سے روشن اور منور کیا ہے۔
رسول کریم ﷺنے اپنے تمام ماننے والوں کو اس بات پر خصوصیت کے ساتھ متوجہ کیاہے، بل کہ اسے ان کی عملی زندگی میں فرض کی حیثیت سے داخل کیا ہے کہ وہ تمام ابناے آدم کو اچھائیوں کی طرف بلائیں اور برائیوں سے نفرت دلائیں اور روکیں۔ یہی وہ فرض ہے جسے ہم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عنوان سے جانتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کایہ فریضہ ہم پر، آپ پر اور تمام مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے۔ یہ ایسا فریضہ ہے کہ اس سے روگردانی کرکے ہم مسلمان نہیں رہ سکتے۔ یہ فریضہ تمام امت محمدیہ ﷺکی زندگی کا مشن بن جانا چاہیے۔ جب تک اِس روے زمین پر کوئی برائی موجود ہو، اپنے اِس مشن میں ہمیں مشغول و منہمک رہناہے۔ اِس فریضے کی ادائی میں کسی بھی قسم کی سستی یا کاہلی ہمارے لیے سخت خطرناک اور مہلک ہے۔ اس کی ادائی میں کسی بھی رشتے داری، قرابت یا میل محبت کا خیال نہیں روا رکھاجائے گا۔
انسان بنیادی طورپر ضرورت مند اور محتاج ہے۔ وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی اپنی اِس کم زوری سے آزاد نہیں ہے۔ خصوصاً دو ضرورتیں ایسی ہیں، جو اس کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان سے بہ ہرحال اُسے سابقہ پیش آنا ہے۔کسی بھی لمحہ ان سے وہ صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ ان میں پہلا درجہ وسائل و ذرائع کو حاصل ہے۔ وسائل و وذرائع کو انسانی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ وسائل و ذرائع سے ہی انسان اپنی مادّی ضرورتیں پوری کرتاہے۔ یا یوں کہیے کہ وسائل و ذرائع سے انسان اپنے جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں دوسرا درجہ اُن ہدایات اور رہ نمائیوں کو حاصل ہے، جن کی روشنی میں انسان اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند اور مستحکم بنیادوں پر کرسکتا ہے۔
چوں کہ اللہ تعالیٰ ربّ کائنات ہے۔ سب کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمّے داری ہے اور وہ پوری کرتاہے، اِس لئے وہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ انسان کی اول الذکر ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے زمین و آسمان میں معیشت کے وسائل کا ایک ایسا خزانہ ودیعت فرمایا ہے، جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ انسان اِسی خزانے سے اپنی ضرورت وحاجت پوری کرتا ہے۔ پوری کائنات اسی سے اپنی ضرورت و حاجت کے مطابق فائدہ اٹھاتی ہے اور ہر چھوٹا بڑا انسان اسی سے فیض یاب ہورہاہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آخرالذکر ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات وقوانین دے کر انبیائ ورسل کو مبعوث فرمایا، جنھوںنے انسانوں کو زندگی کی حقیقت اور اس کی قدر وقیمت سے روشناس کرایا، انھیں زندگی کی معنویت سمجھائی اور بتایاکہ زندگی کو کس طرح برتا یا گزارا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت انسانی زندگی کے ہر عہد اور ہر قرن میں جاری رہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے آخری نبی حضرت مصطفی ﷺکو مبعوث فرماکر آپ پر دین کو مکمل کردیا۔ فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ السْلَامَ دِیْناً ﴿المائدہ:۳﴾
آج ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کردیا اور تمھارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو بہ طورِ دین منتخب کیا۔
نبی اور سول دنیا میں اسی لیے تشریف لائے کہ وہ انسان کو عبد اور معبود کے رشتے سے آگاہ کریں، اللہ کی وحدانیت ، رسول کی رسالت اور مرنے کے بعد کی زندگی سے باخبر کریں اور اُسے دنیا میں رہ کر صحیح اور سیدھی راہ پر چل کر زندگی گزارنے کے آداب سکھائیں۔
اللہ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴿الحدید:۲۵﴾
ہم نے اپنے رسول واضح نشانیاں دے کر بھیجے اور ان کے ساتھ قرآن ﴿کتاب ہدایت﴾ اور میزانِ عدل اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
مزید ارشاد فرمایا:
ہُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رُسُوْلَہ’ بِالْھُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ’ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰط﴿الفتح :۲۸﴾
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس کو تمام نظامِ زندگی پر غالب کردے۔
قرآن مجید میں اور بھی متعدد آیات ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ نبی ﷺکی بنیادی حیثیت داعی اور مصلح کی ہے۔ دعوت واصلاح کا کام اُن کا فرضِ منصبی تھا۔ اللہ کی ہدایت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانا اور انھیں اللہ کی کتابِ قانون و حکمت سے آگاہ کرنا ان کا مشن تھا۔ چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺتک تمام نبیوں اور رسولوں نے نہایت مستعدی اور تن دہی کے ساتھ اپنے اس فرضِ منصبی کو انجام دیا۔ یہ کام انھوںنے بے کم و کاست انجام دیا۔ ایک حرف بھی کمی و بیشی نہیں کی۔
رسول رحمت ﷺکی دعوت و اصلاح کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ جو تعلیم آپ نے انسانوں تک پہنچائی، اس پر سب سے پہلے آپ نے خود لبیک کہا، اُسے اپنی زندگی میں شامل کیا اور اس کے ایک ایک جزو پر عمل کرکے دکھایا۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ وَالْمُوْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٰ وَکُتُبِہٰ وَرُسُلِہٰ لَاْنُفَرِّقُ بَیْنَ أحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٰ وَقَاْلُوْاسَمِعْنَاَ وَاطَعْنَا﴿البقرہ:۵۸۲﴾
رسول اس ہدایت پر ایمان لایاہے ، جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اُس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے، یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اوراُن کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔
اِس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ کے رسول نے جو دعوت پیش کی ہے، پہلے خود اس کانمونہ بن کر دکھایا۔ پھر رسول کے ماننے والوں نے بے کم وکاست اس دعوت کو قبول کیا۔ رسول رحمت حضرت محمد مصطفی ﷺنے جو دعوت انسانوں کو دی آپﷺکی پوری زندگی اس کا روشن و تاب ناک نمونہ تھی۔ اِسی لیے آپﷺکی زوجہ مکرمہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کسی سائل کے جواب میں فرمایاتھا کہ آپ کی زندگی سراپا قرآن تھی۔ دنیا میں بے شمار مصلح، مبلغ اور فارمرآئے، لیکن یہ خصوصیت صرف آپ کو حاصل ہے کہ آپ گفتار کے ہی نہیں کردار و عمل کے بھی غازی تھے۔ آپﷺکی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا، جس پر آپ کے کردار وعمل کی چھاپ موجود نہ ہو۔
رسولِ اکرم ﷺکی دعوت واصلاح کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے جزوی اصلاح وانقلاب پر اکتفا نہیں فرمایا۔ آپ نے پورے معاشرے کی مکمل اصلاح و تبدیلی کا علم اٹھایا اور کسی ایک یا دو رخ پر توجہ کی بہ جاے انسان کی پوری زندگی میں اصلاح وانقلاب کی جدّوجہد کی۔ اس کے اخلاق و کردار کو سنوارا، اس کی معاشرت کی اصلاح کی اور اسے تہذیب وثقافت سے آراستہ کیا۔
رسولِ رحمتﷺکی دعوت اصلاح کی خصوصیات پر گفتگو کے ذیل میں یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے کہ آپ نے اصلاح و تبدیلی کا جو پروگرام بنایا اس کی کام یابی پرآپ کو غیرمتزلزل یقین تھا۔ آپ دیکھیں کہ جس زمانے میں مسلمانوں کی کشتی مخالفتوں اور معاندتوں کے طوفان میں گھری ہوئی تھی، ساحلِ مراد کا دور دور پتا نہ تھا، اس وقت بھی آپﷺپُراُمید رہے۔ انھی حالات میں ایک روز آپﷺبیت اللہ کے سامنے تشریف فرماتھے، ایک صحابی حضرت خباب رضی اللہ عنہ نہایت اضطراب اور بے چینی کے عالم میں آپ کی خدمت میں تشریف لائے، کہا: یا رسول اللہ ! اب تو پانی سر سے اونچا ہوتاجارہا ہے۔ آپ دعا فرمادیں۔ اللہ کے رسول کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ فرمایا: ‘‘خباب! تم ابھی سے گھبراگئے، پہلی امتوں کے حالات تمھارے سامنے نہیں ہیں۔ انھیں تو گڑھا کھود کر زندہ گاڑدیاگیا، ان کے سروں پر آرے چلائے گئے، بدن کے دو ٹکڑے کردیے گئے، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے بدن کا گوشت ہڈیوں سے جداکیاگیا، مگر پھر بھی ان کے پاے استقامت میں لغزش نہ پیدا ہوئی۔ خباب! صبر و ہمت سے کام لو۔ اِن شائ اللہ اللہ کا دین مکمل ہوکر رہے گا۔ دین کو غلبہ حاصل ہوگا۔’’
جب ہم مزیدغور کرتے ہیںاور سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی دعوت و اصلاح کی ایک بڑی خصوصیت یہ نظرآتی ہے کہ آپ نے ازبعثت تادمِ آخر اپنی دعوت کو پھیلانے اور عام کرنے کی جو ان تھک جدوجہد کی اس کی دوسری کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپﷺکاہرلمحہ اسی سوچ اور فکر مندی میں بسر ہوتاتھا کہ اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک کس طرح پہنچے اور انھیں آخرت کے گھاٹے اور خسران سے کس طرح بچایاجائے۔ اس سلسلے میں یہ ایک واقعہ پیش کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا: ایک بار آپ دن بھر کی دعوتی و اصلاحی جدوجہد اور دشمنوں کی ایذا رسانیوں سے چور ہوکر شب میں گھر تشریف لائے۔ بدن بخار سے کانپ رہاتھا۔ آپ نڈھال ہوکر چندمنٹ کے لیے لیٹ گئے۔اچانک اطلاع ملی کہ مکے سے چند میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی کے نیچے ایک قافلہ آکر ٹھہراہوا ہے۔ آپ فوراً اٹھ کھڑے ہوے، تاکہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ قافلے والوں سے صبح ملاقات مناسب رہے گی۔ آپ نے نہایت اضطراب کے ساتھ فرمایا: ‘‘کیا خبر مجھے شب میں موت آجائے یا وہ قافلہ رات ہی میں کسی وقت وہاں سے منتقل ہوجائے۔ ایسی صورت میں ایک فرض کی ادائی رہ جائے گی۔’’
اس واقعے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ دعوت وتبلیغ کے کام کو اللہ کے رسول نے کتنی اہمیت دی ہے اور اُسے اپنی زندگی کے لیے کس قدر ناگزیر جانا ہے۔ فرض شناسی کی یہ ایک مثال ہے، جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس چھوٹے سے واقعے کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی کا احتساب کرناچاہیے۔
رسول اکرم ﷺکے دعوتی ، اصلاحی اور تبلیغی مشن کی سب سے بڑی اور روشن ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اپنے عہدکے حالات کے مطابق یہ کام کیا۔ بے حکمتی سے خود بھی پرہیز کیا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی تلقین کی۔ اس لیے کہ یہ چیز اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بعثت کے فوراً بعد آپ نے نہایت حکمت و دانش مندی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کاکام شروع کیا اور خاموشی کے ساتھ قریبی حلقوں تک اپنی بات پہنچاتے رہے۔ پھر قبیلے کے معززین کو خصوصی دعوت دے کر انھیں کھانے پر بلایا اور انھیں اللہ کے پیغام سے آگاہ کیا۔ آہستہ آہستہ آپ ایک ایک قبیلے، ایک ایک خاندان،ایک ایک گروہ اور ایک ایک فرد تک پہنچے اور ان کو اللہ کے پیغام سے روشناس کرایا۔ چھوٹی چھوٹی مجلسوں اور نجی گفتگوئوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات وہاں کے لوگوں تک پہنچائیں۔ ایک وقت ایسابھی آیاکہ آپﷺکو شعبِ ابی طالب میں محصور کردیاگیا۔ اس صورت میں آپ فرداً فرداً جن لوگوں سے مل سکتے تھے، ملے اور انھیں دعوت پیش فرمائی، پھر جب مکّے میں تمام راہیں مسدود ہوگئیں، دعوت و تبلیغ کے امکانات تقریباً مفقود ہوگئے تو آپ شہر سے باہر جاکر میلوں اور جلسوں میں شریک ہوکر مختلف قبیلے کے لوگوں سے ملے اور دعوت پیش فرمائی۔ طائف کا سفر کیا، دوسرے قبائل کو اپنی دعوت کے لیے مخاطب فرمایا۔ اس سعی و کاوش کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں میں گنجایش پیدا ہوئی اور اسلامی دعوت کے لیے ایک نیا مرکز میسر آگیا۔ پھر جب مدینے میں اسلام کو قوت حاصل ہوئی اور اقتدار ملا تو آپ نے اپنی پوری قوت و توانائی اسلامی دعوت کے فروغ کے لیے وقف کردی۔
اللہ کے رسول ﷺکی دعوت کا محور روے زمین پر اللہ کے قانون کا نفاذ تھا۔ آپ داعی الی اللہ تھے۔ پوری دنیا میں اللہ کے قانون کو جاری و ساری دیکھنا چاہتے تھے۔ جب ہم آپ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ آپ نے دعوت و اصلاح کے اس کام کو دنیا کے تمام دوسرے کاموں پر فائق اور مقدم رکھا۔ اسلام کی دعوت انسانی تاریخ کے ہردور میں دی جاتی رہی ہے۔ ہر عہد کے نبیوں اور مصلحین نے اپنے اپنے حالات اور دائرۂ کار کے مطابق اس کام کو انجام دیا ہے۔ لیکن آج ہم پوری دنیا کے ہر خطے میں جو اسلام کو پھلتا پھولتا اور پھیلتا دیکھ رہے ہیں اور ہر جگہ اسلام کو ایک ہمہ گیر، طاقت ور اور مستحکم دین کے طورپر دیکھاجارہا ہے، یہ سب رسول ِکریم ﷺاور آپﷺکے سچے، پکے مخلص اور اولوالعزم نام لیوائوں اور جاں نثاروں ہی کی توجہ ، جدوجہد اور سعی و کاوش کا نتیجہ ہے۔ اِن شائ اللہ یہ قیامت تک اِسی طرح پھلتا، پھولتا اور پھیلتا رہے گا۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2010