حقیقت نماز

(3)

مفتی کلیم رحمانی

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے جب جماعت کی نماز کے ذریعہ تمام مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا پیغام دیا تو خود نمازیوں میں نماز کے طریقہ کی بنیاد پر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نمازیوں کا یہ اختلاف کم علمی او ر ناقص علمی کی وجہ سے ہے اور پھر تنگ نظری اور تعصب نے اسے اور بڑھا چڑھا کر  پیش کر دیا، ورنہ جہاں تک طریقہ نماز کا تعلق ہے تو وہ دور نبوی سے لے کر آج تک ایک ہی رہا ہے اور پوری امت مسلمہ آج بھی اسی طریقہ سے نماز ادا کر رہی ہے ، چاہے کوئی حنفی ہو، یا شافعی ہو یا مالکی ہو یا حنبلی ہو، یا اہل حدیث ہو، اور پھر امت میں نماز کی ادائیگی   کے متعلق جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ بنیادی نوعیت کا اختلاف نہیں ہے بلکہ وہ جزوی نوعیت کا اختلاف ہے اور یہ سب سنت رسولؐ اور سنت صحابہؓ سے ثابت ہے ،بلکہ اس اختلاف کو اختلاف کا نام دینا ہی صحیح نہیں ہے اسے عمل رسولؐ اور عمل صحابہؓ کی الگ الگ ہیتیں کہنا چاہئے اور اس پر خوش ہونا چاہئے کہ آنحضورﷺ اور صحابہؓ نے جن جن طریقوں سے نماز ادا کی ہیں الحمد اللہ وہ تمام طریقے نہ صرف یہ کہ کتابوں میں محفوظ ہیں بلکہ امت کے عمل میں بھی محفوظ ہیں۔

آج امت میں نماز کی ادائیگی کے طریقہ کے متعلق جو اختلاف پایا جاتا ہے حالانکہ وہ جزوی نوعیت کا ہے لیکن یہ اختلاف اسلئے شدید ہو گیا ہے چونکہ امت میں نماز کے متعلق صرف نماز کی ادائیگی کی تحریک چل رہی ہے نماز کو زندگی میں اور معاشرہ میں قائم کرنے کی تحریک نہیں چل رہی ہے اور چل بھی رہی ہے تو بہت محدود پیمانہ پر ، ظاہر ہے نماز کے متعلق جب صرف پانچ فیصد حصہ پر عمل ہوگا اور پچانوے فیصد حصہ کو نظر انداز کر دیا جائیگا تو اس کا منفی رد عمل ہی سامنے آئیگا ، پانچوں وقت کی نمازوں کی ادائیگی میں دن و رات کے چوبیس(۲۴) گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے جس کا تناسب پانچ فیصد آتا ہے اور دن و رات کے بقیہ تئیس(۲۳) گھنٹے جن کا تناسب دن و رات کے وقت میں پچانوے فیصد آتا ہے یہ حصہ نماز کو قائم کرنے سے تعلق رکھتا ہے اور نماز کو قائم کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے نماز میں پڑھی جانے والی آیات قرآنی اور تکبیرات و تسبیحات کے پیغام کو اپنی زندگی میں علمی و عملی طور پر قائم کرنا ہے ، ساتھ ہی دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا ، جب مسلمانوں میں اقامت نماز کی تحریک چلے گی تو مسلمانوں میں ادائیگی نماز کے متعلق جو جزوی اختلافات ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں گے یا دب جائینگے اسلئے کہ یہ فطری بات ہے کہ جب ایک بڑی چیز سامنے آتی ہے تو چھوٹی چیز خود بخود ہٹ جاتی ہے یا لوگوں کی توجہ اس کی طرف سے ہٹ جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے اختلافات اور جھگڑوں کا معاملہ ہے جب سے مسلمانوں نے باطل سے اختلاف کرنا اور باطل سے جھگڑنا چھوڑ دیاتو مسلمان حق سے اختلاف کرنے میں اور آپس میں جھگڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان حق کی بنیاد پر اتحاد ہو تو انہیں باطل سے اختلاف کرنا ہوگا اسی طرح اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آپس کی لڑائیاں ختم ہوں تو انہیں باطل سے لڑنا ہوگا، ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلمان باطل سے اختلاف بھی نہ کرے اور باطل سے لڑائی بھی نہ کرے اور ان کے آپس کا اختلاف اور لڑائی ختم ہو جائے۔

چنانچہ پوری اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب تک مسلمان باطل سے اختلاف کرتے رہیں اور باطل سے لڑتے رہیں تب تک وہ متحد رہیں اور آپسی لڑائی سے بچے رہیں اور جب بھی مسلمانوں نے باطل سے اختلاف کرنا اور باطل سے لڑنا چھوڑ دیا تو وہ آپسی اختلافات اور آپسی لڑائی میں مبتلا ہو گئے ، چاہے وہ ہم سے پہلے کی امت مسلمہ بنی اسرائیل کا دور ہو، یا پھر موجودہ امت مسلمہ بنی اسماعیل ؑ کا دور ہو، لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان باطل کی حمایت کرکے اور باطل سے دوستی کرکے اپنے آپسی اختلافات اور آپسی دشمنی کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نا ممکن ہے۔باطل کا لفظ ہر غیر اسلامی فکر و طرز عمل کو شامل ہے چاہے کوئی مسلمان کی حیثیت سے اختیار کرے، یا غیر مسلم کی حیثیت سے اختیار کرے، اسلئے بہت سے مسلمانوں کا یہ قومی اتحاد اور قومی اختلاف کا فارمولہ بھی مسلمانوں کو آپسی اختلافات اور آپسی لڑائی سے نجات دینے والا نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں میں بے شمار افراد ہیں جو اسلامی فکر اور اسلامی طرز زندگی کے مخالف اور باطل کے حامی و آلہ کار بنے ہوئے  ہیں ، اسی طرح غیر مسلموں میں بے شمارافراد اسلامی فکر اور اسلامی طرز زندگی کے حامی اور باطل کے مخالف ہیں، اگر مسلمان حق و باطل کی بنیاد پر معاشرہ میں تحریک چلائیں تو جہاں کچھ مسلمان ان کے مخالف ہوں گے تو بہت سے غیر مسلم ان کے حامی ہوں گے۔قومی اتحاد کی ناکامی کو مسلمان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔

جس طرح مسلمانوں کے لئے ان کا قومی اتحاد ان کے لئے ناکامی اور نامرادی کا باعث ہے اسی طرح ان کا وطنی اتحاد بھی ان کے لئے ناکامی و نامرادی کا باعث ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اس لئے کہ آزادی سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کو وطنی اتحاد کے سبز باغ دکھا کر ہی مطمئن کیا گیا تھا اور بد قسمتی سے اس میں بہت سے علماء بھی پیش پیش تھے لیکن بہر حال جو چیز غلط ہوتی ہے وہ غلط ہی رہتی ہے اور اس کا انجام بھی غلط ہی ہوتا ہے کسی اچھے شخص کے قبول کر لینے سے وہ اچھی نہیں ہوتی، جس طرح کسی قوم میں اس قوم کے بہت سے دشمن ہوتے ہیں اسی طرح کسی وطن میں اس وطن کے بہت سے دشمن ہوتے ہیں، اور پھراگر اس وطنی اتحاد میں ایسی قوم شامل ہو جائے جس کو انصاف اور انسانیت ہی سے دشمنی ہے تو پھر اس وطن اور ملک کا خدا ہی حافظ ہے پھر ایسے وطن و ملک میں کسی کمزور اور مغلوب قوم کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے چنانچہ آزادی کے بعد سے اس ملک میں بہت سی کمزور اور مغلوب قوموں کی زندگیاں اجیرن بنی ہوئی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ مسلمان قوم کی زندگی ہی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق لیں اور قومی و وطنی اتحاد کے نعروں سے نکل کر انسانی و اسلامی اتحاد کا نعرہ بلند کریں اسی میں مسلمانوں کا بھلا ہے اور اسی میں پوری انسانیت کا بھلا ہے اوراس سلسلہ میں نماز کا پیغام بڑا موثر کردار ادا کر سکتا ہے بشر طیکہ مسلمان اس کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں نافذ کریں نماز کے متعلق صرف ادائیگی نماز پر اکتفا کرنا اور صرف ادائیگی نماز کی دعوت دینا ایک طرح سے صرف پانچ فیصد بندگی رب کو اختیار کرنا اور صرف پانچ فیصد بندگی رب کی دعوت دینا ہے، اور پچانوے فیصد بند گئی رب کو چھوڑ دینا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص زندگی بھر بھی پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں ادا کرتا رہا تو اس نے گویا صرف زندگی کا پانچ فیصد حصہ بندگی میں گزارا،جب کہ ایک مسلمان کو پوری زندگی بندگئی رب میں گزارناضروری ہے، اور پیغام نماز میں اسی بندگئی رب کی دعوت ہے ۔

نمازمیں اللہ کے حکم کی بڑائی اور دینی اتحاد کے ساتھ ساتھ پاکی صفائی اور ستر پوشی کی بھی تعلیم ہے چنانچہ نماز کی ادائیگی میں جو چودہ فرائض ہیں ان میں سے تین فرائض کا تعلق پاکی و صفائی سے ہے یعنی نماز کی جگہ کا پاک ہونا، نمازی کے جسم اور کپڑوں کا پاک ہونا ، جگہ جسم اور کپڑوں کی پاکی صفائی انسانی اور اسلامی تقاضوں میں سے ہے اور چونکہ نماز پورے انسان اور اسلام کی ترجمان عبادت ہے اسلئے پاکی صفائی نماز میں فرض قرار دی گئی ہے، اسی طرح انسانی اور اسلامی ایک تقاضہ بدن کو کپڑے سے ڈھانپنا بھی ہے تو یہ چیز بھی نماز میں فرض قرار دی گئی، اسی طرح وقت کی پابندی بھی ایک انسانی و اسلامی زندگی کا تقاضہ ہے اس لئے پانچ نمازیں بھی وقت کے ساتھ فرض کی گئیں تاکہ انسانوںاور خصوصاً مسلمانوں میں کسی کام کے کرنے کے متعلق وقت کی قدر و قیمت کا احساس ہو سکے، انسانی فطرت اور اسلامی تقاضہ کے طور پر انسانی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے کسی ایک سمت اور ایک رخ کی بڑی اہمیت ہے تو اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی کے لئے خانہ کعبہ کی طرف رخ کو فرض قرار دیا اسی طرح انسانی اور اسلامی لحاظ سے کسی بھی کام کو صحیح طور سے انجام دینے کے لئے اس کام کی دل سے نیت ضروری ہے بغیر نیت و ارادہ کے کوئی بھی کام صحیح نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی کے لئے نیت کو فرض قرار دیا ،اور اس میں پیغام یہی ہے کہ بندگئی رب کا ہر کام دل کے ارادہ سے کیا جائے نماز کے یہ وہ سات فرائض ہیں جن کا تعلق نماز کی شروعات سے پہلے کے عمل سے ہیں جن کو فقہ کی اصطلاح میں نماز کی شرائط کہا جاتا ہے ،رہے وہ سات فرائض جن کا تعلق نماز کے اندرونی عمل سے ہے اور جنہیں فقہ کی اصطلاح میں نماز کے ارکان کہا جاتا ہے  ان کا پیغام بھی بہت اہم اور وسیع ہے ان میں سب سے پہلے تکبیر تحریمہ یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرَ سے نماز شروع کرنا ہے۔ جس کے معنی اللہ سب  سےبڑا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کا حکم سب سے بڑا ہے یہ تکبیر و ہ کلمہ ہے جو ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں چھ مرتبہ دُہرایا جاتا ہے اس سے اس کلمہ کے پیغام کی اہمیت و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لحاظ سے دن بھر کی صرف پانچوں فرض نمازوں کی رکعتیں  سترہ ہو جاتی ہیں اور ہر رکعت میں یہ تکبیر چھ مرتبہ کے حساب سے ایک سو دو مرتبہ ہو جاتی ہے تو جو نمازی صرف ایک دن میں حالت نماز میں اور وہ بھی مسجد میں اللہ کے حکم کو سب سے بڑا کہے گا کیا ایسا شخص نماز کے بعد اللہ کے حکم سے کسی اور کے حکم کو بڑا سمجھے گا؟ اور اگر وہ پھر بھی نماز کے بعد کے عمل میں اللہ کے حکم کے علاوہ کسی اور کے حکم کو بڑا سمجھ رہا ہے تو کیا اس نے حالت نماز میں مسجد میں کھڑے ہو کر صرف ایک دن میں ایک سو دو (۱۰۲) مرتبہ جھوٹ نہیں بولا؟ نماز کا دوسرا رکن قیام ہے یعنی حالت نماز میںتقّدس و احترام کے ساتھ کھڑا ہونا مطلب یہ کہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا ہوا سمجھنا، قیام کا پیغام یہ ہے کہ صرف حالت نماز ہی میں تقّدس و احترام کے ساتھ کھڑا ہونا جائز ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے تقّدس و احترام کے ساتھ کھڑا ہونا جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ خود آنحضورﷺ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ صحابہؓ  آپؐ کے تقّد س و احترام میں کھڑے ہوں، اس سے معلوم ہوا کے تقّد س و احترام کے ساتھ کھڑا ہونا عبادت کا حصہ ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کی کی جا سکتی ہے۔

اللہ کے علاوہ کسی اور کیلئے تقّد س و احترام میں کھڑا رہنا کھلا ہوا شرک ہے ،لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان بہت سے مواقع پر اس شرک کے مرتکب ہوتے ہیں،جو پیغام نماز کے صریح طور پر خلاف ہے اسی طرح قیام کے علاوہ نماز میں تقّد س و احترام کے اظہار کے تین اور ارکان رکھے گئے ہیں، اور وہ ہیں رکوع ، سجدہ اور قعدہ ، مطلب یہ کہ تقّد س و احترام کے ساتھ سرکو جھکانا اللہ کے لئے خاص ہے اسی طرح تقّد س و احترام کے ساتھ سر کو زمین پر رکھنا بھی اللہ ہی کے لئے خاص ہے اور تقّد س و احترام کے ساتھ  زمین پر بیٹھنا بھی اللہ ہی کے لئے خاص ہے، نماز کے مذکورہ چار ارکان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ایک انسان کیلئے کسی کے سامنے تقّد س و احترام کے اظہار کیلئے چار ہی صورتیں ہو سکتی ہیں اور یہ چاروں ہی صورتیں نماز کا حصہ بنا کر یہ پیغام دید یا گیا کہ یہ عبادت میں داخل ہیں اور عبادت صرف اللہ ہی کی جاسکتی ہے ،لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان تقّد س و احترام کے اظہار کے لئے اللہ کے علاوہ دوسروں کے سامنے بھی جھکتے ہیں اسی طرح دوسروں کے سامنے سجدہ بھی کرتے ہیں اور قعدہ بھی کرتے ہیں یعنی تقّد س و احترام کے اظہار کے لئے کسی کے سامنے بیٹھتے بھی ہیں جو کہ کھلا ہوا شرک ہے اور پیغام نماز کے خلاف بھی ہے ۔نماز کا ایک اہم رکن قرآت قرآن ہے اور یہ پوری نماز کی اصل روح ہے اور اس کا پیغام یہی ہے کہ نماز پڑھنے والے کا قرآن سے فکری اور عملی تعلق قائم رہے۔نماز کا آخری رکن اپنے ارادہ سے نماز کو ختم کرنا ہے مطلب یہ کہ یوں ہی نماز سے نہ نکل جائے بلکہ نیت و ارادہ کے ساتھ نکلے، اس رکن کا پیغام یہی ہے کہ کوئی بھی کام نیت و ارادہ کے ساتھ ہی ختم کیا جائے جس طرح نیت و ارادہ کے ساتھ ہی شروع کیا گیا تھا۔

جماعت کی نما ز میں امام صاحب سے اگر کوئی بھول اور غلطی ہو جائے تو مقتدیوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ امام صاحب کی بھول اور غلطی کو یوں ہی برادشت نہ کرے بلکہ لقمہ دیکر اس کی اصلاح کرے، اور امام صاحب کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کے لقمہ کو قبول کرے، اگر امام صاحب کی بھول اور غلطی پر مقتدیوں نے لقمہ نہ دیا تو نما زکی خرابی کے وہ بھی ذمہ دار ہوںگے، اسی طرح امام اگر مقتدیوں کے لقمہ کو قبول نہ کرے تو وہ بھی نماز کی خرابی کا ذمہ دار قرار پائیگا ، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اجتماعیت کے سلسلہ میں امیر و مامور کو کیا تعلیم دی ہے وہ یہ کہ دینی جماعت کے امیر سے بھول اور غلطی ہو جائے تو مامورین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے امیر کی بھول اور غلطی پر امیر کو ٹوکے اور امیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مامورین کے ٹوکنے کو قبول کرے اور اپنی بھول اور غلطی کی اصلاح کر لے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نہ اسلامی جماعت کا امیر آزاد و خود مختار ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے حکم دے اور نہ اسلامی جماعت کے مامورین کے لئے جائز ہے کہ وہ امیر کی بھول اور غلطی پر خاموش رہیں۔لیکن افسوس ہے کہ آج دینی جماعتوں میں امیر و مامور کے متعلق یہ رجحان بہت کم ہو گیا ہے کہیں امیر آزاد و خود مختار بنے ہوئے ہیں اور کہیں مقتدی آزاد و خود مختار بنے ہوئے ہیں ،کہیں امیر اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں اور کہیں مقتدی اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں، جب کہ امیر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی امارت کے فرائض انجام دے اور مامورین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں امیر کی اتباع بھی کرے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں امیر سے اختلاف بھی کرے، اور یہ سب اسلامی اجتماعیت کے لازمی تقاضے ہیں ، بہر حال ادائیگی نماز کے سلسلہ میں اما م کی بھول اور غلطی پر لقمہ دینے کا پیغام  یہ ہے کہ زندگی میں اور معاشرہ میں نماز کو قائم کرنے کے متعلق امام و امیر سے بھول اور غلطی ہو جائے تو جماعت کے دوسرے افراداُنھیں ٹوکے ، یہی طریقہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امارت کا تھا اور یہی طریقہ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی امارت کا تھا، اور جب تک یہ طریقہ تھا ان کی امارت خلافت رشدہ کا حصہ تھی ۔ اور جب سے اسلامی اجتماعیت سے یہ طریقہ نکلا خلافت بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔

یقینا دورِ بادشاہت میں بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں لیکن کچھ برے کا م بھی ہوئے ہیں کیونکہ طریقہ بادشاہت ایک نبی کے لئے تو درست ہو سکتا ہے کیونکہ وہ براہ راست اللہ کی نگرانی میں کام انجام دیتا ہے اور اس کا کوئی حکم اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا، لیکن ایک عام انسان کے لئے طریقہ بادشاہت صحیح نہیں ہو سکتا ، یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہونے کے باوجود آپؐ نے اپنے لئے نہ بادشاہ کہلوانا پسند کیا اور نہ آپؐ نے نبوت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے بادشاہت کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ آپؐ نے مشاورت کے طریقہ کو اختیار کیا اور اللہ کی طرف سے بھی آپ کو اسی کا حکم تھا اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلامی اجتماعیت میں نہ تو مطلق العنان بادشاہت ہے اور نہ مطلق العنان جمہوریت ہے بلکہ قرآن و حدیث کی اتباع سے جڑی ہوئی امارت و مشاورت ہے لیکن افسوس ہے کہ آج دنیا میں زیادہ تر اجتماعیتں یا تو بے لگام بادشاہت سے جڑی ہوئی ہے یا بے لگام جمہوریت سے جڑی ہوئی ہے اور ان ہی اجتماعیتوں کے غلط اثرات مسلمانوں کی دینی جماعتوں پر پڑے ہوئے ہیں چنانچہ اسو قت کچھ دینی جماعتیں بے لگام بادشاہت کے طرز پر کام کر رہی ہیں اور کچھ جماعتیں بے لگام جمہوریت کے طرز پر کام کر رہی ہیں اور بہت کم جماعتیں اسلامی امارت و مشاورت کے طرز پر کام کر رہی ہیں۔ ادائیگی نماز میں کسی واجب کے بھول کر چھوٹنے کی صورت میں سجدہ سہو کے ذریعہ تلافی کی بھی صورت رکھی گئی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیر ہ میں التحیات پڑھنے کے بعد دو سجدے کئے جائے سجدہ سہو کی یہی حقیقت و حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں نماز کو قائم کرنے کے سلسلے میں کوئی بھول ہو جائے تو اس کی تلافی کے لئے اللہ کے سامنے زیادہ جھکا جائے جس طرح سجدہ سہو کے دو زائد سجدے رکھے گئے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کیلئے وضو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے ، وضو میں در اصل بے شمار جسمانی بیماریوں سے بچائو ہے ، وضو کی افادیت و حکمت وہ افراد زیادہ سمجھیں گے جن کا ڈاکٹری کے پیشہ سے تعلق ہے اور وضو نماز کے لئے اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ نماز میں زندگی کے تمام مسائل کا حل ہے اور زندگی کا ایک اہم مسئلہ جسمانی پاکی صفائی اور جسمانی صحت و تندرستی بھی ہے ، چنانچہ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں تک پانی سے دھوئیگا اور سرو گردن کا مسح کرے گا اسے بے شمار بیماریوں سے خود بخود نجات مل جائیگی اسی طرح نماز کے ارکان کی ادائیگی کا طریقہ کچھ اس طرح رکھاگیا ہے کہ ایک انسان کو جسمانی لحاظ سے تندرست رہنے کے لئے روزانہ جتنی و رزش کی ضرورت ہے وہ نماز کی ادائیگی کے عمل میں خود بخود شامل ہے بشرطیکہ نمازی سنتوں اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرے۔

نماز کی ادائیگی کے طریقہ سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام مسلمانوں پر نماز فرض قرار دے کر جس طرح ان کی ایمانی صحت و تندرستی کا انتظام کر دیا اسی طرح ان کی جسمانی صحت و تندرستی کا بھی انتظام کر دیا، اس لئے آج کل ہندوستان میں ’’یوگا ‘‘کے نام پر جو ایک غیر اسلامی طریقہ عبادت کو جسمانی ورزش کے طور پر اسکولوں ، کالجوں اور معاشرہ میں حکومتی سطح سے عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مسلمانوں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ مسلمانوں کے پاس نماز کی ادائیگی کے عمل کے ذریعہ ہزاروں سال سے جسمانی ورزش کا بھی با ضابطہ نظم ہے اور فرض ہے، پھر ہندو مذہب کی تاریخ و تہذیب سے یہ بات واضح ہے کہ ’’یوگا‘‘ صرف ورزش ہی نہیں ہے بلکہ وہ ہندو مذہب کا ایک طریقئہ عبادت ہے اور ایک مسلمان کیلئے کسی بھی دوسرے مذہب کے طریقئہ عبادت کی پیروی جائز نہیں ہے، بلکہ وہ شرک کے درجہ میں آجاتی ہے اور شرک سے بچنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ، لیکن نماز کی ادائیگی کے عمل سے جسمانی ورزش کا فائدہ اسی وقت حاصل ہوگا جب کہ نماز بہت زیادہ نرم چٹائی اور نرم مصلے پر ادانہ ہو،بلکہ ذرا سخت یا کم نرم چٹائی اور مصلے پر ادا ہو، اسی لئے فقہاء کرام نے نماز میں نرم جگہ پر سجدہ کو مکروہ قرار دیا اور نماز کی ادائیگی کے عمل میں صرف پیشانی ہی سجدہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں جسم کاجو حصہ بھی زمین پرٹکتا ہے وہ سجدہ کا حصہ ہے ، مثلاً دونوں پیر ، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے ، اور ناک، لیکن افسوس ہے کہ آج کل مسجدوں میں بہت زیادہ نرم چٹائیوں اور مصلّوں کو بچھانے کا رواج بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، چنانچہ مسجدوں میں نرم قالین ، غالیچے اور اسپنچ بچھانے کا عام رجحان ہو گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلام دشمنوں کی نمازیوں کو نماز کے جسمانی فوائد سے محروم کرنے کی عالمی سازش ہے ،جس کا مسلمان بڑی آسانی سے شکار ہو گئے ہیں ،اور چند سالوں پہلے تک مسجدوں میں سخت گھانس کے تنوں اور سوت کے موٹے تاگوں کی جو چٹائیاں اور دریاں ہوا کرتی تھیں وہ ناپَید ہو تے جارہی ہیں، مسلمانوں کیلئے یہ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ نمازیوں کا ایک بڑا طبقہ تو نماز کی آیات اور سورتوں کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے پہلے ہی سے نماز کے ایمانی و روحانی فائدوں سے محروم ہو چکا ،لیکن اب نماز کے جسمانی فائدوں سے بھی محروم ہوتے جا رہا ہے،ویسے اسلام عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی کو کسی بھی شعبہ میں پسند نہیں کرتا مگر شعبۂ عبادت میں عیش و آرام و تن آسانی اور بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے اوقات کچھ اسطرح رکھے  گئے ہیں کہ مسلمانوں کے عیش و آرام و تن آسانی پر روک لگے، چنانچہ فجر کی نماز ایسے وقت رکھی گئی ہے جب کہ گہر ی اور میٹھی نیند کا وقت ہوتا ہے اور نیند سے بیدار ہونا نفس کیلئے ذرا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ظہر کی نماز ایسے وقت رکھی گئی ہے، جب کہ دھوپ کی شدت بڑھ جاتی ہے، اور کام کا وقت بھی شباب پر ہوتا ہے، اور اس وقت بھی نماز کے لئے وقت نکالنا نفس پر ذرا گراں گزرتا ہے، اسی طرح عصر کا وقت بھی کاروبار اور کام کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے، اسی طرح مغرب اور عشاء کا وقت بھی کھانے پینے اور سونے کا وقت ہوتا ہے، اور نماز کے لئے وقت نکالنا تن آسانی کے خلاف ہوتا ہے، اور صرف نماز ہی نہیں اسلام کی دوسری عبادتوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہ مسلمانوں کو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی سے نکالنے کا ذریعہ ہے، جیسے رمضان کے روزہ ہی کو دیکھ لیا جائے جو سحری سے شروع ہوتا ہے اور افطار پر ختم ہوتا ہے، چنانچہ اس میں جو شرائط رکھی گئی ہیںوہ ایک روزہ دار کو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی سے نکالنے والی ہیں جیسے کھانے پینے اور مباشرت سے اجتناب ، اسی طرح زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کا عمل ہے ۔

حج کی ادائیگی کے عمل میں تو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی کی تمام چیزوں کو قربان کر دینے کی اعلیٰ صفات رکھ دی گئیں ہیں ، مثلاً اپنے مال کی ایک بڑی مقدار کا خرچ احرام جیسے سادہ لباس میں اپنے آپ کو  ملبوس رکھنا ، حالت احرام میں بعض حلال چیزوں سے بھی پرہیز ، میدان عرفات اور منیٰ میں بغیر مکان کے قیام اور اس کے علاوہ سفر کی بہت سی مشکلات و پریشانیوں کو برداشت کرنا، مذکورہ اسلامی عبادات کے طریقوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کس طرح کا نظام زندگی دینا چاہتا ہے لیکن افسوس ہے کہ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو اپنی عبادات کے ذریعہ اللہ کی رضا کی خاطر محنت و مشقت برداشت کرنے اور عیش و آرام کی زندگی کو قربان کرنے کی تعلیم دی ہے آج اسی دین کے نام لیوا عیش و آرام کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔یہاں تک کہ نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں بھی عیش و آرام کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اس طرز فکر و عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے آنحضورﷺ نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری اور عیش و آرام کی زندگی کو کبھی اپنے لئے پسند نہیں کیا چنانچہ شمائل ترمذی میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اسی طرح شمائل ترمذی ہی میں روایت ہے کہ حضرت حفصہؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں نبیﷺ کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دہرا کر کے ہم نبیﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھا دیاجائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا، چنانچہ میںنے اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا، صبح کو آپؐ نے پوچھا رات میں میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی، میں نے کہا وہی ٹاٹ کا بستر تھا، البتہ آج رات میں نے اس کوچوہرا کرکے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہو جائے ، نبی ﷺ نے فرمایا اس کو دہرا ہی رہنے دیا کرو، رات بستر کی نرمی تہجد کے لئے اٹھنے میں رکاوٹ بنی۔ شمائل ترمذی ہی میں اسی سلسلہ کی ایک اور روایت حضرت عائشہؓ سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک انصاری خاتون ہمارے گھر آئی اور اس نے نبی ﷺ کا بستر دیکھا، گھر جاکر اس خاتون نے اُون سے بھر کر ایک بستر تیار کیا اور نبیﷺ کے لئے بھیجا، جب آپؐ گھر تشریف لائے اورنرم بستر دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ ایک انصاری خاتون نے آپؐ کے لئے بھیجا ہے آپؐ نے فرمایا کہ اسے واپس کردو، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہ بستر مجھے بہت پسند تھا لیکن آپؐ نے واپس کرنے پر اتنا اصرار کیا کہ مجھے واپس کرنا ہی پڑا۔ مذکورہ روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ؐ  عیش و آرام کی  زندگی   سے کتنا زیادہ پرہیز کرتے تھے ۔ علامہ اقبالؒ نے بھی امت مسلمہ کو اور خصوصاً نوجوانوں کو اسلام کی اسی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین اور عیش و آرام کی زندگی سے بچنے کی تلقین اپنے چند اشعار سے کی ہے ۔ فرماتے ہیں۔

تیرے صوفے ہیں افرنگی تیری قالین ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رُلاتی ہے جو انوں کی تن آسانی

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

ائے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن

بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

خلاصہ کلام یہ ہے کہ معاشرہ میں فہم نماز اور پیغام نماز کی تحریک زور و شور سے چلائی جائے تاکہ نمازیو ں کا اپنی نمازوں سے علمی و عملی تعلق قائم ہو۔ اس کے لئے مسجدوں میں جگہ جگہ نماز فہمی اور قرآن فہمی کے حلقے قائم کئے جائیں۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau