فکر و عمل کو ترقی دینے اور زندگی کے رخ کو صحیح سمت دینے کے لیے رمضان المبارک سے بہتر مہینہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ماہِ رمضان صرف سَحَر وافطار اور تراویح کی سرگرمیوں پر موقوف نہیں، یہ توبہ واستغفار،اعمال کی اصلاح، اللہ کا قرب حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی عظمت بخشنے والی اور زندگیوں میں انقلاب برپا کرنےوالی روشن کتاب کا نزول ہوا۔ یہی وہ مہینہ ہے جواہلِ ایمان کے لیے نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومنوں کی روحانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اخلاق کی بھر پور تربیت ہوتی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والے اپنے نفوس کا تزکیہ اوراپنے دلوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اہلِ ایمان برائیوں کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرلیتے ہیں۔ روزہ اس مہینے کی خاص پہچان ہے۔ نمازہی کی طرح یہ بھی دین کا بنیادی ستون ہے۔ جو اہلِ ایمان پر فرض ہے۔ جس کی فرضیت کا ثبوت آیتِ ذیل سے ملتا ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (سورہ بقرہ: ۱۸۳)
“ اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ ’’
(كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ) سے معلوم ہوا کہ روزہ صرف اس امت پر فرض نہیں کیا گیا ہے بل کہ اس سے پہلے کے لوگوں پر بھی روزہ فرض تھا۔ اس لیے ایمان والوں کو چاہیے کہ پوری خوش دلی سے روزہ رکھیں اور اسے مشکل سمجھ کر ہرگز نہ چھوڑیں۔
روزہ اورحصولِ تقویٰ
روزے کا عظیم مقصدتقویٰ وپرہیز گاری کا حصول ہے۔ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ) سے اسی بات کی تعلیم ملتی ہے۔ یہ اِتِّقاءٌسے بنا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے بچنا۔ اس کی اصل وِقایۃٌہے یعنی بچانا۔ لسان العرب میں ہے:
أَصْلُ الْحَرْفِ وَقَى یقی(اس نے بچایا)حدیث میں آتا ہے: إِنَّما الإِمَامُ جُنَّۃٌ یتَّقَى بِہِ وَیقاتَلُ مِنْ وَرَائِہِ،أَی أَنَّہُ یدْفَعُ بِہِ العَدُوُّ ویتَّقَى بِقُوّتِہِ۔ (لسان العرب)
‘‘قائد ڈھال ہے۔ اس سے بچاؤ کیا جاتا اور اس کا سہارا لے کر جنگ لڑی جاتی ہے۔ یعنی اس کے ذریعے دشمن کو دفع کیا جاتا اور اس کی قوت کا سہارا لے کر بچاجاتاہے۔ ’’
گویااہلِ ایمان سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسلسل ایک ماہ روزہ رکھ کراپنے اندر ایسی ایمانی وروحانی طاقت پیدا کرلیں جس کے ذریعے وہ احکامِ الٰہی کے پابند بن جائیں اور حدودِ الٰہی کو توڑنے سے بچ جائیں۔ یہی تقویٰ کا حاصل ہے۔ بس روزہ کے ذریعے اگر ہم نے اپنےاندر تقوے کی یہ صفت پیدا کرلی تو ہمارے لیے نیکیوں کے راستے پر چلنا اور برائیوں کے راستےسے بچنا آسان ہوجائے گا۔ تو کیا ہم روزےکے ذریعے تقوی کی یہ صفت اپنےاندر پیدا کرنا چاہتے ہیں؟کیا ہمیں سب سے زیادہ حصولِ تقویٰ کی فکر اور کوشش نہیں کرنی چاہیے؟رمضان میں اگر سب کچھ مل گیا مگر تقویٰ نصیب نہیں ہوا تواس سےبڑھ کر محرومی ونامرادی کی بات اور کیاہوگی؟
روزہ کے ذریعے تقوی کی صفت کیسے پیدا ہوتی ہے؟ روزے میں نفس کو حرام چیزوں سے بچنے کا پابند بنایا جاتا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ جس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے اور اس سے ‘‘ضبط نفس’’ اور حرام چیزوں سے بچنے پر‘‘قوت’’ حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی ‘‘گناہوں سے رکتا ’’ ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(سورہ نازعات: ۴۰۔ ۴۱)
‘‘اور رہاوہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا،تو بے شک (اس کا) ٹھکاناجنت ہی ہے۔ ’’
لہٰذا ماہِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ اسی حصولِ تقویٰ کی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ‘‘حَسَنات’’ کوخوب انجام دیں اور‘‘سَیِّئات’’ سے اپنا تعلق توڑ لیں۔
روزہ اور ترکِ معاصی
روزہ کو عربی میں صَوْم اور صِیَام کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی ہوتے ہیں رکنا۔ تہذیب اللغہ میں ہے:
الصَّوْمُ فِی اللُّغَۃِ الإِمْسَاكُ عَنِ الشَّیءِ والتَّرْكُ لَہُ، وَقِیلَ لِلصَّائِمِ صائمٌ لإِمْسَاكِہِ عَنِ المَطْعَم والمَشْرَبِ والمَنْكَحِ، وَقِیلَ لِلصَّامِتِ صَائِمٌ لإِمْسَاكِہِ عَنِ الْكَلَامِ، وَقِیلَ لِلْفَرَسِ صَائِمٌ لإِمساكِہِ عَنِ العَلَفِ مَعَ قیامِہِ۔
‘‘کسی چیز سے رکنے اور اسے چھوڑدینے کو لغت میں صوم کہتے ہیں۔ روزہ دار کو صائم اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے اور جِماع سے رک جاتا ہے۔ خاموش رہنے والے کو صائم اس لیےکہتے ہیں کہ وہ بات چیت سے رک جاتاہے۔ اسی طرح گھوڑاجب کھڑا رہے اور چارہ نہ کھائے تو اسے بھی صائم کہتے ہیں۔ ’’
گھوڑے کو‘فَرَسٌ صَائِمٌ’ اس لیے کہتے ہیں کہ اسے بھوکا پیاسا رکھ کر اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ کھائے پیے بغیردیر تک میدانِ جنگ میں ڈٹا رہے۔ بالکل اسی طرح رمضان میں اہلِ ایمان روزہ رکھ کر گناہوں سے رکے اور بچے رہنے کی خوب مشق کرتے ہیں۔
یہ صیام جس کے معنی ‘‘رکنے’’ کے ہیں اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ آدمی روزہ رکھ کر ہر برائی سے اپنے آپ کو روک لے۔
او ر اس سے اپنے دامن کو بچا لے۔ رمضان میں جب کچھ وقت کے لیے حلال چیزیں بھی حرام ہوجاتی ہیں تو حرام چیزوں سے بچنا کتنا ضروری ہوجاتا ہے۔ بس آدمی کو چاہیے کہ روزہ رکھ کرحرام چیزوں سے،چھوٹے بڑے گناہوں اور حدودِ الٰہی کوتوڑنے سے بچے۔ مگریہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ روزہ دار پیٹ کے ساتھ جسم کے ایک ایک حصے کا روزہ رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ پیٹ تو روزہ رکھنے کا پابند ہو اور جسم کے دوسرے اَعضا آزاد ہوں۔
اگر روزہ رکھ کر آدمی بری اور گندی چیزیں دیکھنا نہ چھوڑے، اجنبی عورتوں کی طرف نگاہ اٹھانا بند نہ کرے، گندی فلموں اور فحش تصویروں کودیکھنے سے باز نہ آئے،اگر روزہ دار بری باتیں اور فحش گانےسننا نہ چھوڑے،اگر روزہ کی حالت میں آدمی اپنی زبان پر لگام نہ لگائے، غیبت کرنا،جھوٹ بولنا،جھوٹ پھیلانا،جھوٹ کا ساتھ دینا،جھوٹے نظام کاآلہ کار بننا،فحش بکنا اور گالی دینا نہ چھوڑے،اگر روزہ رکھ کر انسان اپنے ہاتھوں کوغلط استعمال سے نہ روکے،اپنے ہاتھوں سے دوسروں کوتکلیفیں پہنچانااور اذیّتیں دینا نہ ترک کرے،اگر روزہ داراپنےپیر وں سے چل کربرائی کے ارتکاب سے باز نہ آئے،اگر وہ روزہ کی حالت میں اپنے دل سے برے ارادے نہ نکالے اور گندے خیالات سے دل کو پاک صاف نہ کرے توکیا عام دنوں میں حرام چیزوں سے بچنا اس کے لیے آسان ہوگا؟کیا رمضان کے مقابلے میں گناہوں سے بچنے کا کوئی دوسرا مہینہ مفید ہوسکتا ہے؟کیا روزہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ آدمی اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو حدودِ الٰہی کا پابند بنائے اور ہر چھوٹی بڑی برائی سے اپنا رشتہ توڑلے؟
کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے؛کیوں کہ وہ صرف پیٹ کا روزہ رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روزے کی صحیح قدر اورروزے کا حق ادا نہیں کرپاتے ہیں۔ تو کیا ایسے روزہ داروں کے لیے روزہ تربیتی وروحانی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے؟کیا ایسے لوگوں کی زندگیوں میں روزے سےمطلوبہ تبدیلی آسکتی ہے؟کیا ایسے لوگوں کے لیے روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال بن سکتا ہے؟جب کہ مسلسل ایک ماہ روزہ رکھ کر ہمیں گناہوں سے بچنے کی‘‘مشق ’’ کرائی جاتی ہے۔ حدیث میں ہے: مَن لَمْ یدَعْ قَوْلَ الزُّورِ والعَمَلَ بِهِ، فَلَیسَ لِلّٰہِ حَاجَةٌ فِی أنْ یدَعَ طَعَامَهُ وشَرَابَهُ (بخاری: ۱۹۰۳)۔
‘‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی روزہ رکھتا ہے اور روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے اور جھوٹی بات پر عمل کرنے سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’گویا کہ اُس نے صرف بھوک اور پیاس برداشت کی ہے۔ بس وہ بھوکا رہا ہے۔ اب بھوکا رکھنے کا تو ایک مقصد تھا کہ اس سے جھوٹ بولنا رُک جائے، جھوٹ کے نظام کا ساتھ دینا چھوڑ دے، اس پر عمل کرنا چھوڑ دے۔ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر اُس نے روزے سے کیا اثر لیا!اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو اس کے روزے کی ضرورت نہیں،اُس نے تو بڑی زیادتی کی ہے کہ روزے کا جو اصل مقصد تھا، وہ فوت کردیا۔
اسی طرح ایک آدمی نے رات کو جاگ کر عبادت کی، لیکن اُس نے فسق و فجور اور خرابیاں نہیں چھوڑیں تو اس کے رات کو جاگنے کا کیا فائدہ؟ جاگنا تبھی فائدہ مند ہے، جب اس کے ذریعے زندگی میں ایک تبدیلی آئے۔ کھرے کھوٹے میں تمیز پیدا ہوجائے۔ جھوٹ اور سچ کی پہچان ہوجائے۔ بددیانتی، حسد، کینہ، بغض، عداوت جیسے گناہوں سے انسان توبہ کرلے۔
ماہِ رمضان میں ہمارے اندر حرام چیزوں اور تمام گناہوں سے ایسی ‘‘نفرت’’ پیدا ہوجائے کہ رمضان تو کیا اس کے باہر بھی گناہ کرنے کے بارے میں نہ سوچیں۔ اگر لوگوں کے اندر اس ‘‘روحانی مہینے’’ میں حرام اور گناہ سے بچنے کی اتنی مشق نہ ہوئی تو یہ توقع کرنا مشکل ہے کہ وہ عام دنوں میں گناہوں سے بچ سکیں گے۔
رمضان اورقرآن
ماہِ رمضان ماہِ قرآن ہے۔ اس کا نزول رمضان کی مبارک رات میں ہوا۔ نزول کا مقصد پوری انسانیت کی ہدا یت ہے۔ یہ خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت پر خدا کا شکر ضروری قرار دیا گیا۔ جس کی شکل یہ بتائی گئی کہ اہلِ ایمان رمضان بھر روزہ رکھیں۔ فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (سورہ بقرہ: ۱۸۵)
‘‘رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہ نمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔ ) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمارہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور ( یہ آسانیاں اس لیے ہیں ) تاکہ تم (روزوں کی) تعداد پوری کرلو اور تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی اورتاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ ’’
سورہ قدر میں کہا گیا: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ (سورہ قدر: ۱)
‘‘بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ ’’
وہ قرآن جس کے نزول کے لیے رمضان کی مبارک رات کا انتخاب ہوا، ہدایت ہے۔ روشن نشانیوں پرمشتمل ہے۔ حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ خدا کی پہچان کرانے والا ہے۔ بھٹکے ہوئے راہی کو سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ اس کی آیتیں نہایت روشن ہیں۔ اس کی تاثیر بلا کی ہے۔ اس کی شان بڑی عجیب ہے۔ اسے پڑھو تو اس سے بہتر کوئی وظیفہ نہیں۔ اس کا علم سیکھو تو اس سے بڑھ کر کوئی علم نہیں۔ اسے دستور زندگی بناؤ تو اس سےبڑھ کر کوئی قانون نہیں۔ اگر اس کے حقائق کھولو تو اس سے بہتر حکمتیں نہیں۔ اگر اس کی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلو تو اس بڑھ کر سکونِ قلب کوئی نہیں۔
اس قرآن کا حق یہ ہے کہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں اہلِ ایمان اس کی طرف جھک جائیں۔ اس سے گہری وابستگی پیدا کرلیں۔ اپنے شب وروز اس کی صحبت میں گزاریں۔ اپنی خلوتوں میں اس کی تلاوت کریں۔ قیامِ لیل میں اس سے محظوظ ہوں۔ اس میں غور وفکر کریں۔ اس کی حکمتیں تلاش کریں۔
اس قرآن کا حق یہ ہے کہ اہلِ ایمان اس کے الفاظ میں پوشیدہ معانی کی سمجھ پیدا کریں۔ معانی کی تہہ میں حقائق کی معرفت حاصل کریں،حقائق کے تحت معارف کا ادراک کریں اور معارف میں موجود کیفیات کو اپنے دلوں پر طاری کریں۔
اس قرآن کا حق یہ ہے کہ مومن بندےاس کے ذریعے اپنے قلوب واذہان کی تربیت وتزکیہ کریں۔ اس کے پیغام کو کماحقہ سمجھیں۔ دل کے کانوں سےاس کی باتیں سنیں۔ اس کی دکھائی ہوئی راہ کو اپنائیں۔
اس قرآن کا حق یہ ہے کہ ہم اس کا اثر قبول کریں۔ اس کی خوش خبریوں سےتحریک پائیں اوراس کی دھمکیوں سے ڈرجائیں۔ وہ جن جن برائیوں سے روکے ہم ان سے رک جائیں اورجن جن کاموں کو کرنے کی تاکید کرے انھیں اپنی زندگیوں میں اتار لیں۔
اس طرح اہلِ ایمان مسلسل ایک ماہ قرآن سے جڑ کر،قرآن کے سایے میں اپنے شب وروز گزار کر اپنے آپ کو قرآن کے سانچے میں ڈھال لیں۔ لیکن صورت حال یہ رہتی ہے کہ رمضان آتا ہے، آکر گزرجاتا ہے مگرقرآن سے ہماری سچی وابستگی پیدا نہیں ہو پاتی ہے۔ قرآن کی تلاوت ہمارے اعمال کا حصہ نہیں بن پاتی ہے۔ فہم قرآن کا ذوق نہیں پیدا ہو پاتا ہے۔ تدبر قرآن ہمارا مشغلہ نہیں بن پاتا ہے۔ ہماری سوچ قرآنی سوچ نہیں بن پاتی ہے۔ قرآن کے اثرات ہماری زندگیوں پر نمایاں نہیں ہوپاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ رمضان میں قرآن کی صحبت نہیں اختیار کی جاتی ہے۔ قرآن کوبھرپور وقت نہیں دیا جاتا ہے۔ قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھا جاتا ہے۔ قرآن میں غور وفکر نہیں کیا جاتا ہے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ماہِ قرآن میں بھی قرآن سے بے رخی قرآن کے ساتھ کتنی بڑی نا انصافی ہے! اگر کچھ تلاوت ہوتی بھی ہے تو فہمِ قرآن سے خالی رہتی ہے۔ سارا زور بس ختم قرآن پر دیا جاتا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں قرآن سے تبدیلی آسکتی ہے؟ رمضان آتا تو صحابۂ کرام اورصلحائے امت قرآن کی طرف یک سو ہوجاتے۔ اپنے اوقات کا بیش تر حصہ قرآن کے ساتھ گزارتے۔ قرآن میں غور وفکر کرتے۔
ہم عہد کریں کہ رمضان میں قرآن کو پورا پورا وقت دیں گے۔ اسے سمجھیں گے۔ اس میں تدبر کریں گے۔ ایسا کریں گے تبھی جاکر قرآنی حقائق مجسّم ہوکر سامنے آئیں گے۔ اس کی حقیقی لذتوں سے ہم آشنا ہوں گے۔ اس کے انوار ہم پر ضو فشاں ہوں گے۔ اس کی خوش بوئیں ہم کو سرشار کریں گی۔ اس کی برکتوں سے ہم نہال ہوں گے۔
رمضان اورہم دردی
یہ مہینہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مومن بندے اپنے اندر ہم دردی کا جذبہ پروان چڑھائیں۔ وہ اس میں جہاں اللہ کی خوب خوب عبادت کریں وہیں اس کےمحتاج بندوں کی حاجت روائی بھی کریں،کم زوروں کی مدد بھی کریں اور غریبوں کے ساتھ ہم دردی بھی کریں۔ اس میں پیچھے نہیں آگے آگے رہیں۔ نبی اکرم ﷺ نےاس مہینے کے بارے میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ رمضان المبارک ‘‘شہر المواساۃ’’ یعنی انسانی ہم دردی کا مہینہ ہے۔ ہر انسان چاہے وہ کسی فرقے اور کسی نسل کا ہو، اس کے ساتھ خیرخواہی کی جائے۔ ایک ہے ‘‘موالات’’، جو صرف مسلمان جماعت کے ساتھ ہو اور ایک ہے ‘‘مواسات’’، ہم دردی اور خیرخواہی، جس میں دنیا کا ہر انسان شامل ہے۔ اگر وہ مظلوم ہے تو ظالم کا ہاتھ روک کر اُس مظلوم کے ساتھ ہم دردی کرنی ہے۔ گویا انسانیت پر ہونے والے مظالم، انسانیت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کی فکر کرنا بھی اس مہینے کا بنیادی تقاضا ہے۔
رمضان اور انفاق
انفاق سے نِفاق دور ہوتا ہے۔ انفاق کا پہلاالف نکال دینے سےنفاق بن جاتا ہے۔ منافقین کی روش یہ ہوتی ہے کہ وہ انفاق سے بھاگتے ہیں۔ سورہ منافقون میں منافقین کی اس برے رویے پر شدید مذمت کی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ کے جاں نثاروں پر خرچ کرنے سے روکتے تھے۔ سورہ کے آخر میں اہلِ ایمان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ مال واولاد کی محبت میں گرفتار ہوکر ذکرِ الٰہی سے غافل نہ ہوں اور اللہ نے انھیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کریں۔ فرمایا:
وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (سورہ منافقونَ:۱۰)
‘‘ اور ہم نے تمھیں جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔ ’’
اور فرمایا: یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ (سورہ بقرہ: ۲۵۴)
‘‘اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمھیں عطا کیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔ ’’
زکوٰۃ سال بھر میں ایک بار نکالی جاتی ہے جب کہ انفاق سال بھر میں بار بار کیا جاتا ہے۔ گویا انفاق کا سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے۔ رمضان انفاق کا بہترین موقع ہے کہ اس سے ایک طرف ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور دوسری طرف اللہ کاقرب حاصل ہوتا ہے۔ اپنی استطاعت کے مطاق ہر کوئی انفاق کرے مگر مال داروں کو چاہیے کہ اس میں سب سے آگے رہیں۔
عام دنوں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کو رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ انفاق اور فیاضی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول کی زندگی ہمارے لیے بہترین مثال ہے۔ انفاق کے سلسلے میں رمضان المبارک میں اللہ کے رسول کا کیا معمول تھا اس کا تذکرہ ہمیں احادیث میں ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ‘‘رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا توآپ قیدیوں کو آزاد فرما دیتے اور ہرسائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ ’’(بیہقی) دوسری حدیث میں آپ کی سخاوت کو کثرت و زیادتی کے لحاظ سے تیز ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (بخاری، مسلم)
عام مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں رسول اللہ ﷺکی سخاوت کا تذکرہ جو یہاں کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا معمول تھا کہ عام دنوں کے مقابلے رمضان میں زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ضروری ہے کہ ہم بھی رسول اللہ کے اسوہ کو اختیار کریں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری فیّاضی سے فیض یاب ہونے والے کسی مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے نہ ہوں۔ اللہ کے بندوں کی ضروریات کو بلا تفریق مذہب و ملت ہر ممکن پورا کرنا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بل کہ ہماری عبادات کا حصہ ہے۔
رمضان میں کثرتِ اعمال
رمضان کثرتِ اعمال کا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کی کھیتی لگانے کا مہینہ ہے۔ اس لیے اللہ کی رضا کی خاطر نیکیوں کا باغ لگانے کی جد وجہد ہونی چاہیے۔ تبھی جاکر اعمال کی کھیتی تیار ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ رمضان میں محنت ومشقت کرنے کے بہ جائے آرام کا منصوبہ حاوی ہوجائے۔ نہیں،اس میں تو ہمیں محنت وجاں فشانی زیادہ کرنی ہوگی۔ تھوڑا آرام زیادہ کام یہی ماہِ رمضان میں نبی کریمﷺ کا معمول تھا۔ جو لوگ صدقِ دل سے عبادت کی ہر ادا اپناتے، فرائض اور نوافل ادا کرتے اورایمانی کیفیت سے سرشار ہوکر،اجرِ آخرت کی نیت سےنیکیوں کی راہ میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے یہ مہینہ اللہ کی رحمتوں کے نزول کا باعث بنتا ہے۔ رحمتوں کا نزول یہ ہے کہ اللہ کے انوار و تجلیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں گویا کہ رحمتوں کا موسم اپنے شباب پر ہے۔ اس موسم میں جتنے اچھے طریقے سے ہم اپنے’’ نیک اعمال ‘‘کی فصل کاشت کریں گے، اُتنا ہی وہ پھلے پھولے گی اور آگے بڑھے گی۔ کیا رمضان سے بہتر کوئی اور مہینہ ہے جس میں کثرت کے ساتھ اعمالِ خیر کرنا ممکن ہو؟ ہمیں چاہیےکہ اس مہینے میں کثرت سے ایسے اعمال کریں، جن کے ذریعے سے وہ رحمت جو برس رہی ہے، بارش کے وہ قطرات جو ہمارے دلوں پر پڑ رہے ہیں، وہ برگ و بار لائیں۔ وہ ترقی کریں؛کیوں کہ رمضان ا لمبارک اعمالِ خیر میں ‘‘ترقی’’ کا مہینہ ہے۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جو عملِ صالح میں ترقی چاہتے اور اس کے لیے ‘‘محنت ومشقت’’ اٹھاتے ہیں۔ مگر جو لوگ نیک اعمال کرنےکے بہ جائے غفلت میں پڑ ے رہتے ہیں وہ کتنے بدنصیب ہیں!کتنے ہی ایسے روزہ دار ہیں جو دن کو سو کر اور رات کو لہو ولعب میں پڑ کر گزارردیتے ہیں اور انھیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کتنے قیمتی مہینے کوضائع و برباد کررہے ہیں۔ کاش لوگ ‘‘فصلِ اعمال’’ کے اس بیش بہا مہینے کی قدر کرکے نیکیوں کے میزان میں اضافہ کرتے!
رمضان اورتبتل الی اللہ
ماہِ رمضان اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے۔ اگراس ماہِ مبارک میں دلوں کے اندر اللہ کے ساتھ سچے تعلق کا بیج ڈال دیا جائے تو وہ برگ و بار لاتا ہے۔ دل اللہ کی طرف کھنچ رہے ہوتے ہیں۔ آسمان سے انوار الٰہیہ کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ اب کون ہے، جو اپنے تعلق کو اللہ سے جوڑے ؟ کون ہے، جو اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرے؟
رمضان ‘‘تبتل الی اللہ’’ کا مہینہ ہے۔ اللہ کی طرف مکمل یک سوئی کو تبتل کہتے ہیں۔ اس لیے جس قدر ہوسکے اس کیفیت کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے خلوتوں کے لمحات سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ اگر درج ذیل کام کیے جائیں تواس کیفیت میں کافی اضافہ ہوگا اور ہم اس کیفیت کواپنے اوپر طاری ہوتی ہوئی محسوس کریں گے:
تلاوتِ قرآن: ماہِ رمضان میں سکون کی فضا میں ہم قرآن کے ساتھ بیٹھیں۔ سمجھ کراس کی تلاوت کریں۔ اس میں غوروفکر کریں۔ اس کی آیتوں سے اثر لیں۔ تلاوت سے اللہ کا ذکر،اس کی قدرت کا ذکر،اس کی عظمت کا ذکر، اس کی رحمت کا ذکر،اس کی شان کا بیان، اس کے کرشموں کا بیان، اس کی نعمتوں کا بیان جب بار بار ہوتا ہے تو اس سے ‘‘اللہ’’ اور بس’’اللہ’’ دل ودماغ پر چھایا رہتا ہے۔ یہی خدا اور بندے کے درمیان وہ رابطہ ہےجسے کسی بھی حال میں ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ قرآن کی تلاوت اگر اس انداز سے کی جائے تو یقیناً ‘‘تبتل الی اللہ’’ کی کیفیت میں گونا گوں اضافہ ہوگا۔ ہاں یہ چیز ‘‘محنت وریاضت’’ چاہتی ہے۔
نمازِ تہجد: اس نماز کے ذریعے تبتل الی اللہ میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ہم رات میں ذرا آرام کرکے اٹھ جائیں اور اس نماز کا اہتمام کریں۔ یہ خلوت کی وہ روحانی ونورانی عبادت ہےجس میں بندہ اپنے خدا سے ملاقات ومناجات کرتا ہے۔ اپنے دل کی بات دل دینے والے رب کے حضور پیش کرتا ہے۔ اللہ سے توبہ واستغفارکے ذریعے اس کی رحمت ومغفرت کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ رمضان میں نمازِ تہجد کا ادا کرنا بڑا آسان ہوجاتا ہے۔ اگر سحری سے ایک دوگھنٹے پہلے بے دار ہوجائیں تو اس نماز کو ادا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کتنے اللہ والے ایسے ہیں جو وقتِ سَحَر کو یادِ الٰہی میں گزارتے ہیں۔ ہمیں بھی ان میں شامل ہوجانا چاہیے۔
اذکارودعا: اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ چاہےذکرِ لسانی ہو یاذکرِ قلبی۔ ذکر کے ذریعے بندہ کو اللہ کی طرف توجہ اور یک سوئی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اذکار کے جتنے الفاظ یاد ہوں ان کے ذریعے اللہ کی یاد کو اپنے دل میں بسائیں۔ رمضان میں جہاں تک ممکن ہو اللہ سے خوب خوب دعائیں کریں۔ اس سے ایک طرف تبتل الی اللہ بڑھے گا تودوسری طرف اللہ کے سامنےاپنے دل کی باتیں پیش کرنے کا بھر پور موقع ملے گا۔ اب کون ہے جو یہ دعا کرے کہ: ’’ اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِی لِذِكْرِكَ ‘‘ (اے اللہ! میرے دل کے کانوں کو اپنے ذکر کے لیے کھول دے) اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے کان کھولے، دل کی آنکھیں کھولے، دل کی عقل اور شعور کھولے اور ہمت و ارادہ مضبوط بنائے۔
اعتکاف: اعتکاف دراصل اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کردینے کا نام ہے۔ رمضان میں چند دنوں کے لیے جب بندہ اپنے آپ کومسجد میں قید کرلیتا ہے اور دنیا ومافیہا سے الگ تھلگ ہوجاتا ہےتو اللہ کی طرف ایسی یک سوئی حاصل ہوجاتی ہے جو لاکھ کوشش کے باوجودعام دنوں میں نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر اعتکاف کی توفیق ملے توضرور اعتکاف کریں۔ مگر یہ اعتکاف رسمی نہ ہو۔ بے جان نہ ہو۔ بے روح نہ ہو۔ بے مقصد نہ ہو۔ اعتکاف میں جان اسی وقت پیدا ہوگی جب کہ معتکِف حضرات یہ پروگرام بنائیں کہ وہ اپنے اعتکاف کو بار آور بنائیں گے۔ وہ یہ طے کریں کہ اعتکاف کی حالت سے نکلتے نکلتے ان کے اندر ایک بڑی تبدیلی آچکی ہوگی۔ وہ یہ منصوبہ بنا کراعتکاف کریں کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کریں گے۔ ہر طرف سے کٹ کربس اسی کی طرف متوجہ رہیں گے۔ مادی دنیا سے کٹ کرروحانی دنیا سے جڑ جائیں گے۔ اسی غرض کے لیے توآپﷺ، آپ کی ازواجِ مطہّرات اورصحابۂ کرامؓ ہر سال رمضان المبارک میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اسی شعور اوراسی جذبہ کے تحت معتکف حضرات کو اعتکاف کرنا چاہیے۔
رمضان اورامن وامان
ماہِ رمضان رحمت کا مہینہ ہے۔ اس میں امن وامان کی فضا برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کو اس میں کسی بھی طرح بدنظمی، بداَمنی، قتل، لڑائی،جھگڑا،کسی فتنہ، کسی فساد پیدا کرنے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اس سے روحانی ماحول متاثر اورعبادت میں خلل واقع ہوگا۔ لوگ ذہنی الجھن کا شکار ہوں گے۔ جتنا ہوسکے رمضان میں صبر وتحمل کی مشق ہونی چاہیے؛کیوں کہ یہ مہینہ ‘‘قوّتِ برداشت’’ پیدا کرنے کے لیے بے مثال ہے۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ اس مہینے میں مسلمان صبر وتحمل سے کام لینے کے بہ جائے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بات پرلڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے۔ ماردھاڑ کے لیے آستینیں چڑھ جاتی ہیں۔ زبانیں بے لگام ہوجاتی ہیں۔ یہ در اصل روزہ اور رمضان کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
الصِّیامُ جُنَّةٌ، فَلاَ یرْفُثْ وَلاَ یجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، فَلْیقُلْ إِنِّی صَائمٌ – مَرَّتَینِ (بخاری،کتاب الصیام،۱۸۹۴)
‘‘روزہ (گناہوں ) سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گلی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہوناچاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ ) دو مرتبہ (کہہ دے )۔ ’’
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024