ہندتو کا سب سےاہم اور بنیادی بیانیہ قوم پرستی کا بیانیہ ہے۔ اس کے تصور قوم پرستی پر ہم جولائی اور اگست 2021 میں تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ مذکورہ مضامین میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ ہندتو کی قوم پرستی، قومیت کا ایک انتہا پسندانہ تصور ہے۔ یہ تصور اصلاً نشاة ثانیہ کے دور کے یورپی قوم پرستانہ تصورات سے مستعار ہے اور ان میں بعض مقامی فلسفوں اور مشرکانہ تصورات کی آمیزش کرکے اسے ہندوستانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے احوال میں یورپی تصور درآمد کرنے کی یہ کوشش غیر فطری اور نقصان دہ ہے۔
لیکن ہندتو کے علم بردار اس تصور کو ایک جذباتی مسئلہ بنادیتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو لوگ اُن کے مخصوص تصورِ قومیت اور اس سے وابستہ علامتوں کو تسلیم نہیں کرتے وہ ہندوستان اور یہاں کے عوام کے مخالف اور ملک دشمن ہیں۔ اس حوالے سے قومیت کا ایک ایسا متبادل بیانیہ سامنے لانا ضروری ہے جو معقول، ہندوستانی احوال سے ہم آہنگ اور یہاں بسنے والے تمام طبقات کےلیے قابل قبول ہو۔
تاریخی پس منظر
جیسا کہ عرض کیا گیا، قومیت یا قوم پرستی کا نظریہ دیگر ماڈرنسٹ نظریات کی طرح یورپ کی نشاة ثانیہ کی پیداوارہے۔ صنعتی انقلاب نے یورپی معاشرے میں دو بڑی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ شہروں کی طرف مہاجرت نے روایتی قبائلی اور خاندانی وابستگیوں کو کم زور کردیا تھا اور چرچ کے زوال نے لوگوں کو جوڑنے والی مذہبی قوت کو کم زور کردیا تھا۔ نئی معیشت کی یہ ضرورت تھی کہ انسانوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر جوڑنے والی اور ان کے اجتماع کو جواز دینے والی کوئی شکل ایجاد کی جائے۔ چناں چہ قوم پرستی کا ایک نیا تصور ایجاد کیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ افراد کے اجتماع یعنی ان کے مل کر اجتماعی وجود بنانے کے لیے فطری بنیاد ان کی نسل یا قوم ہے۔ ایک نسلی گروہ مشترک زبان، مشترک تہذیب و تہذیبی ورثہ، مشترک تاریخ، مشترک ہیرو اور مشترک روایات وغیرہ کی وجہ سے جذباتی طور پر ایک اکائی بنتا ہے۔ ایسی اکائی کے افراد آپس میں قربت محسوس کرتے ہیں اس لیے انھیں مل کر ایک قوم بنانی چاہیے۔ ہر نسلی قوم (ethnonation) ایک آزاد سیاسی وجود رکھتی ہے۔ اس کو اپنے اجتماعی معاملات آزادانہ طور پر چلانے کا حق حاصل ہے۔ ہر قوم خود مختار ہے، کسی اور کو اس کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہر قوم اپنے معاملات کے نظم و انصرام کے لیے آزاد ریاست (State) وجود میں لائے گی جو قوم کے عوام کی رائے کے ذریعے یعنی جمہوریت کی بنیاد پر چلے گی۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہر قوم کی اپنی ایک جداگانہ تہذیب ہوتی ہے، وہی اس کی اصل شناخت ہوتی ہے۔ اس تہذیب سے وابستگی ہر فرد کی ذمے داری ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ریاست بھی اس تہذیب کو مسلط کرنے کا حق رکھتی ہے۔[1]
چناں چہ یورپ میں ان بنیادوں پر الگ الگ قومیں وجود میں آئیں۔ انھوں نے خود کو صنعتی اور معاشی لحاظ سے ترقی یافتہ اور خود کفیل بنانے کی کوشش کی۔ اپنی اپنی قوموں کو دوسروں سے آگے بڑھانے کے لیے تیسری دنیا کے ملکوں کو غلام بنانے اور ان کی دولت کو لوٹنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ بعد میں ان یورپی قوموں میں مفادات کا ٹکراؤ شروع ہوا تو قوم پرستی کے نظریات نے وہ انتہا پسندانہ شکل اختیار کی جسے نسلی قوم پرستی (ethnic nationalism) یا انٹیگرل نیشنلزم (integral nationalism) یا فسطائیت یا زینو نیشنلزم (xenonationalism) کہا جاتا ہے۔
انٹیگرل نیشنلزم
انٹیگرل نیشنلزم (integral nationalism) قوم پرستی کا نہایت انتہا پسندانہ تصور ہے۔ یہ تصور یوں تو یورپی نشاة ثانیہ ہی کے زمانے سے ظہور پذیر ہونےلگا تھا، لیکن سیاسی بساط پر اس کا پرزور اظہار گذشتہ صدی کے اوائل میں شروع ہوا، اور گذشتہ صدی کے نصف تک یہ تصور یورپ کے منظرنامے پر چھایا رہا۔ یورپ میں بھی، خاص طور پر جرمنی اس قوم پرستی کا نمائندہ بنا۔ اسی تصور نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو جنم دیا اور لمبے عرصے تک قوموں کے درمیان کش مکش کا ذریعہ بنا رہا۔ اس تصور کی کچھ نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱۔ قوم پرستی کے اس تصور میں قوم، نسل، تہذیب اور ریاست، ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا گیا۔ نسل کی بنیاد پر قوم، قوم کی ایک مشترک تہذیب، اس تہذیب کی اساس پر اس کی ‘قومی شناخت’ اور اس قوم کا اپنی ریاست بنانے، اپنے معاملات آزادانہ طور پر چلانے اور اپنی تہذیب کو اجتماعی طور پر اختیار کرنے کا حق، ان سب عناصر سے مل کر قوم پرستی کا انٹیگرل تصور تشکیل پایا۔
۲۔ اس میں فرد کے مقابلے میں قوم کو غیر متوازن اہمیت دی جاتی ہے۔ قومی مفاد، قومی سلامتی، قومی تفاخر وغیرہ، اس قوم پرستی کے محبوب ترین موضوعات ہوتے ہیں اور اکثر ان مقاصد کی خاطر فرد کے مفادات (انفرادی آزادی، انسانی حقوق وغیرہ) بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ اس لیے اس طرح کی قوم پرستی کو انفرادیت کی دشمن (anti-individualistic) بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ چوں کہ ریاست کو قومی مفاد کی محافظ اور علم بردار سمجھا جاتا ہے اس لیے ریاست کو غیر معمولی اہمیت اور اختیارات دیے جاتے ہیں۔ افراد سے ریاست کی مکمل وفاداری کا مطالبہ ہوتا ہے اور ریاست کی مخالفت کو قوم کی مخالفت باور کرایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک استبدادی نظام قائم ہوتا ہے جو لوگوں کی آزادیوں کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔ اس لیے ریاست پرستی (statism) کو بھی اس تصور کا اہم جز سمجھا جاتا ہے۔
۴۔ اس استبدادی نظام کی بقا اور قومی مفاد کو ترجیح دینے کے جذبے کی ترویج کے لیے مبالغے کے ساتھ قومی احساس برتری پیدا کیا جاتا ہے اور یہ یقین پیدا کیا جاتا ہے کہ ہماری قوم ہی دنیا میں افضل ترین قوم ہے اور اسے ہی پوری دنیا کی رہ نمائی اور قیادت کا حق حاصل ہے۔ اس لیے دوسری قوموں خاص طور پر پڑوسی قوموں کے ساتھ کشمکش اور تنازعات، اس قوم پرستی کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔
۵۔ چوں کہ قوم کی شناخت تہذیب اور تہذیبی علامتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اس لیے اگر ملک میں اکثریتی تہذیب سے ہٹ کر جداگانہ تہذیبی تشخص کے حامل گروہ بھی موجود ہوں تو یہ گروہ اس قوم پرستی کے غیظ و غضب اور نفرت کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ عملاً اکثریتی تہذیب کو سب پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو گروہ اس کی مزاحمت کریں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ قوم پرستی گویا اکثریت پرستی (majoritarianism) پیدا کرتی ہے۔ قوم پرستی کے لیے ہمیشہ ایک دشمن ضروری ہوتا ہے۔
۶۔ قوم کو جوڑنے کے لیے اندرونی اور بیرونی دشمن تلاش کیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف شدید نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ دشمن سازی کے عمل کے لیے تاریخ نگاری سے مدد لی جاتی ہے۔ اس قوم پرستی کا اہم ترین ہتھیار تاریخ ہوتا ہے۔ تاریخ کی من مانی تاویلات کے ذریعے قومی تفاخر اور دشمن سے نفرت پروان چڑھائی جاتی ہے۔ پرانی جنگوں اور لڑائیوں کی یادیں تازہ کر کرکے دشمنی کے جذبات کی انگیٹھی کو مشتعل رکھا جاتا ہے۔
۷۔ تاریخ کے حقیقی یا خود ساختہ روشن دور سے جذباتی وابستگی کے لیے قدیم روایتوں کا احیا کیا جاتا ہے اور تاریخی علامتوں سے وابستگی کی کوشش کی جاتی ہے۔
۸۔ قومی علامتوں اور قومی تہذیب کے ساتھ تقدس وابستہ کرکے ایک نئے ‘قوم پرست مذہب’ کی تشکیل کی جاتی ہے۔ قومی علامتوں کو وہی تقدس اور اہمیت دی جاتی ہے جو مذاہب اپنے شعائر کو دیتے ہیں۔
۹۔ تہذیب، ریاست، خوف، غصہ، احساسِ برتری اور احساسِ مظلومیت، ان چھ بنیادوں پر ایسی اجتماعی نفسیات تشکیل دی جاتی ہے جو ایک طرح کا اجتماعی جنون (mass hysteria) پیدا کرتی ہے۔
۱۰۔ اس اجتماعی جنون کے نتیجے میں قومی علامتیں، ‘قومی تہذیب’، ‘قومی زبان’ وغیرہ جیسی جذباتی چیزیں اصلاً پوری قوم کی توجہات کا مرکز بن جاتی ہیں۔ معاشی ترقی اور خوش حالی جیسے امور پس پشت چلے جاتے ہیں۔ ایسی ترقی کے لیے جو داعیات، جو اتحاد و رواداری اور وسعت قلبی اور وسعت نظری درکار ہے وہ مفقود ہوجاتی ہے۔ اس لیے تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی قوم پرستی کے ساتھ ہمیشہ قوموں کا زوال اور ان کی پس ماندگی و کم زوری وابستہ رہی ہے۔
اس وقت ان دس باتوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ باتیں ہندتو کی تحریک کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے یورپ میں انھی تصورات کی حکم رانی تھی اور انھوں نے ہی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو اور نازی ازم اور فسطائیت جیسی تحریکوں کو جنم دیا تھا۔ وہیں سے یہ تصورات ہندوستان میں درآمد ہوئے اور جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں، ہمارے ملک میں ان قوم پرستانہ تصورات کو مذہبی شکل دینے کی بھی کوشش کی گئی اور قوم کو ایک قابل پرستش دیوتی کے روپ میں پیش کیا جانے لگا گویا یورپی قوم پرستی کی آگ کو مذہبی جذبے کا ایندھن فراہم کرکے، دو آتشہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے اس انتہا پسندی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اندیشہ یہ ہے کہ ہندوستان کو اس کا نقصان، اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو یورپ نے گذشتہ صدی میں اٹھایا ہے۔
بیسویں صدی کے وسط تک قومیت اور انٹیگرل قوم پرستی کے یہ تصورات تقریباً ہم معنی تھے۔ اس میں وطن قومی تہذیب کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا تھا۔ وطن سے تعلق اور محبت کا مطلب قومی تہذیب سے گہری وابستگی تھی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں متعدد اسلامی مفکرین نے اس تصور پر شدید تنقیدیں کیں۔ مولانا مودودیؒ کی کتاب ‘مسئلہ قومیت’،[2] علامہ اقبالؒ کی مشہور نظم ‘وطنیت’[3] اور ان کے مضامین[4] وغیرہ انھی غالی تصورات کا رسپانس تھے۔ لیکن جلد ہی مغرب کی علمی دنیا میں بھی قومیت کے اس انتہا پسند تصور کے مقابلے میں متبادل تصورات کا ظہور شروع ہوا۔
قومیت کے مابعد جدید تصورات
عالمی جنگوں اور فسطائیت نے جو قیامت ڈھائی اور ان کے نتیجے میں یورپ میں جوبھیانک معاشی تباہی آئی، اس نے ان تصورات پر سوالیہ نشانات کھڑے کیے۔ جلد ہی فسطائیت اور نازیت کے خلاف رائے عامہ بیدار ہوئی اور جن نظریات نے یورپ پر برسوں حکومت کی تھی وہ یورپی معاشرے میں شدید قابل نفرت نظریات بلکہ گالی بن گئے اور قومیت کے تصورات پر بھی سنجیدہ ریویو شروع ہوگیا ۔
اس زمانے میں قوم پرستی کے خلاف طاقت ور ترین آواز غالباً مشہور برطانوی مورخ پروفیسر آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے بلند کی۔ پروفیسر ٹائن بی نے اپنی مشہور کتاب ‘تاریخ کا ایک مطالعہ’ (A Study of History)کی بارہ جلدوں میں انسانی تاریخ میں تہذیبوں کے عروج و زوال کا تفصیل سے تجزیہ کیا۔ انھوں نے قوم پرستی کو ایک بڑی برائی اور ان اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا جن کی وجہ سے تہذیبیں زوال اور موت کا شکار ہوتی ہیں۔ اس موضوع پر ٹائن بی کے افکار کا خلاصہ ‘انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا’ اس طرح بیان کرتا ہے:
‘‘تہذیبیں اس وقت انتشار کا شکار ہوجاتی ہیں جب اس کے قائدین مسائل کا تخلیقیت کے ساتھ سامنا کرنا چھوڑدیتے ہیں اور اس کے بعد تہذیبیں ڈوبنے لگتی ہیں قوم پرستی کے سبب، فوجی جارحیت کے سبب اور جابر اقلیت کے ظلم کے سبب۔’’[5]
اس زمانہ میں پروفیسر ٹائن بی نے اپنے ایک لیکچر میں یورپی قوموں اور خاص طور سےان کی قوم پرستی پر شدید تنقید کی۔ انھوں نےیورپ کے قوم پرستانہ رجحان کے لیے ایک نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی اور محاورے کی حیثیت اختیار کرگئی، یعنی ‘یورپ کا خود کو بونا بنانے کا عمل’ (the dwarfing of Europe)۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسے زمانے میں جب کہ دنیا یورپی تہذیب سے فائدہ اٹھا رہی تھی، یورپ کو ایک قدآور عالمی رہ نما بننے کا موقع حاصل تھا، روس جیسے ممالک مغربی قدروں کو اختیار کرکے عالمی طاقت بن رہے تھےاور صنعتی ترقی اور جمہوری عمل گلوبلائزیشن کو مستحکم کررہا تھا، اس تاریخی موڑ پر یورپ نے اپنی ‘روایتوں کے مردہ بوجھ’ تلے دب کر فنا ہونے کا راستہ اختیار کیااور اس نے فرسودہ قوم پرستانہ تصورات کے ذریعے خود کا قد خود ہی پست کرلیا یعنی خود کو ‘بونا بنالیا’۔[6]
ٹھیک یہی تاریخ ہمارے ملک میں بھی دہرائی جارہی ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ ہمارے ملک کو حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ عالمی رسوخ حاصل ہے، ہم اُسی بل میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے یورپ ڈسا جاچکا ہے۔ بظاہر یہ عزم ہے کہ بھارت کو ‘وشو گرو’ بنانا ہے لیکن جارح قوم پرستی کی پالیسی دراصل ملک کو بونا بنانے کا عمل ہے۔
گذشتہ پچاس برسوں میں قوم پرستی پر لکھنے والے تمام اہم ماہرینِ سیاسیات اور مورخین نے اس فلسفے پر شدید تنقیدیں کی ہیں۔ ان میں نمایاں نام امریکی دانش ور ہانس کون (Hans Kohn-1891-1971)، کارل ڈچ (Karl Deutch-1912-1992)، ایرنسٹ گیلنر (Ernst Gellner-1925-1995)، ایریک ہوبسبام (Eric Hobsbaum-1917-2012) جان ہچنسن ( John Hutchinson–لندن اسکول آف اکنامکس میں نیشنلزم کے پروفیسر) وغیرہ کے ہیں۔ ان حضرات نے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ‘قوم’ ایک مصنوعی تاریخی تشکیل (artificial historical construct) ہے، ایک ‘ایجاد شدہ روایت’ (invented tradition) ہے جسے سیاسی اشرافیہ نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تخلیق کیا ہے۔[7]
جان ہچنسن کا کہنا ہے کہ ‘‘اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے عوام کے اندر ‘قومی شناخت’ کا کوئی شعور پایا جاتا تھا۔’’[8] یعنی قوم پرستی یا ماڈرنسٹ معنوں والی ‘قوم’ کا نہ کوئی فطری وجود ہے اور نہ یہ انسان کی فطری ضرورت ہے بلکہ تاریخ کے ایک دور میں بعض مفادات کی تکمیل کے لیے مصنوعی طور پر تخلیق کردہ ایک تصور ہے۔ ایرنسٹ گیلنر کہتے ہیں کہ ‘‘قوم پرستی قوموں کے ذاتی شعور کی بیداری نہیں ہے بلکہ جہاں قوم موجود نہیں ہے وہاں اس کی ایجاد ہے۔[9] (یعنی سیاسی ضرورتوں کے تحت افراد کے کسی بھی مجموعے کو قوم قرار دے دینا ہے)’’
البرٹ آئنسٹائن نے قوم پرستی کو بچپن کی بیماری اور ‘انسانیت کا خسرہ’ (measles of mankind) قرار دیا۔[10] (یعنی ایسی بیماری جو بچپن کے بے شعوری کے دور میں لاحق ہوتی ہے اور اس کے اثرات زندگی بھر ستاتے رہتے ہیں) بزرگ برطانوی مورخ اریک ہوبسبام کو ہمارے عہد کا قوم پرستی کا سب سے بڑا مورخ مانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک دل چسپ بات یہ لکھی ہے کہ:
‘‘قوموں اور قوم پرستی کی تاریخ پر نظر رکھنے والا کوئی سنجیدہ مورخ وفادار قوم پرست نہیں ہوسکتا… قوم پرستی کے لیے ایسی باتوں کو قبول کرنا اور ان پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا ہے جو حقیقت واقعہ نہیں ہیں۔ ایک قوم بننے کے لیے ایک غلط تاریخ کو تخلیق کرنا ضروری ہوتا ہے۔ (جوسنجیدہ اور دیانت دار مورخ نہیں کرسکتا)’’[11]
ان دانش وروں نے یہ بات بھی واضح کی کہ قوم پرستی کا انتہا پسندانہ تصور انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے متصادم ہے۔ یہ تصور انسانوں کو تقسیم کرتا ہے۔ اور آبادی میں ایک طاقت ور اور بااثر گروہ کے کم زور گروہ پر ظلم و استبداد کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ ہنس کون نے بہت صحیح لکھا ہے۔
‘‘قو م پرستی اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جو آبادی کی اکثریت میں پھیل جاتی ہے اور آبادی کے تمام ارکان کی نمائندگی کا (غلط ) دعوی کرنے لگتی ہے۔’’[12]
کارل ڈچ نے اور زیادہ وضاحت کے ساتھ جارح قوم پرستی کے فریب کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
‘‘قوم ان لوگوں کے مجموعے کا نام ہے جن کا نقطہ اشتراک اپنی نسل کے سلسلے میں غلط تصور اور اپنے پڑوسیوں سے ناپسندیدگی ہوتا ہے۔’’[13]
شہری قومیت کا تصور
ان افکار نے انٹیگرل نیشنلزم یا شدت پسند قوم پرستی کے مقابلے میں قومیت کے اُس مابعد جدید تصور کو عام کیا جسے شہری قومیت (civic nationalism) کہتے ہیں۔ یہ تصور بالکل نیا تصور نہیں ہے بلکہ جدیدیت کے زمانے میں جب قوم پرستی کی بحث اٹھی تھی اسی وقت یہ تصور بھی زیر بحث آیا تھا۔ جان اسٹوارٹ مل (1806-1873)[14] اور جوسیف رینان[15] (1823-1892)جیسے انیسویں صدی کے مفکرین کے افکار میں وضاحت کے ساتھ انٹیگرل نیشنلزم کی مخالفت اور اس کے مقابلے میں شہری قومیت سے مماثل تصور ملتا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں نے جرمن اور فرنچ تصورات میں فرق کیا ہے۔ جرمن تصور انٹیگرل نیشنلزم کا تصور تھا (یعنی نسل کی وحدت اور تہذیب کی یکسانیت کی بنیاد پر ایک سیاسی قوم کی تشکیل) جب کہ فرنچ تصور میں قومیت کی بنیاد محض ساتھ رہنے کی خواہش (wiilingness to live together) تھی۔[16] فرانسیسی انقلاب نے جس ‘ریپلکن سوسائٹی’ کا تصور دیا وہ کچھ قدروں اور اصولوں پر مبنی سوسائٹی تھی اور یہ سمجھا گیا تھا کہ ایسے کچھ اصولوں پر اتفاق کے نتیجے میں ایک قوم اور اس کی بنیاد پر ایک ریاست کی تشکیل ممکن ہے۔ بدقسمتی سے عالمی جنگوں سے قبل کے جذباتی ماحول میں یہ فرانسیسی تصور قبول عام حاصل نہیں کرسکا اور بیسویں صدی کے نصف تک دنیا میں قومیت سے مراد، عام طور پر، جرمن قوم پرستی یا انٹیگرل نیشنلزم ہی لیا جاتا رہا۔
گذشتہ صدی کے نصف کے بعد یعنی سرد جنگ کے زمانے میں جب اکثر مغربی ملکوں میں کثیر تہذیبی معاشرے وجود میں آنے لگے تو شہری قومیت کے تصورات کو قبول عام حاصل ہونے لگا۔ عملاً اس کا آغاز امریکہ میں بہت پہلے ہوچکا تھا، بعد میں یہ رجحان یورپی ملکوں میں بھی عام ہونے لگا۔ جرمن ماہر عمرانیات جرگن ہابرماس (Jürgen Habermas–پیدائش 1929) نے اسےتفصیل اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔[17]
شہری قومیت کے نظریے کے علم بردار قومی ریاست کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے لیے تہذیب، نسل، زبان وغیرہ کی وحدت کو ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ ریاست یا ‘قوم’ کوئی تہذیبی اکائی نہیں ہوتی بلکہ محض ایک سیاسی انتظام ہوتا ہے۔ شہری قومیت میں ایک جمہوری ریاست کی شہریت کا اشتراک افراد کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہ قومیت، زبان، نسل یا تہذیب کے ذریعے متعین نہیں ہوتی بلکہ ملک کے دستوراور کچھ متفقہ اصولوں کے ذریعے متعین ہوتی ہے۔
شہری قومیت کے تصور میں افراد کو بھر پور آزادی حاصل ہوتی ہے۔ الگ الگ تہذیبوں، زبانوں اور رواجوں کو پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ریاست کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار بہت محدود ہوتا ہے۔ جمہوری عمل کا مطلب اکثریت کی رائے نہیں بلکہ مختلف تہذیبی گروہوں کا اتفاق رائے ہوتا ہے۔ یعنی حکومت کے دائرہ عمل و دائرہ اختیار کو اُن امور تک محدود کرنے کی کوشش ہوتی ہے جن پر تمام گروہ متفق ہوں اور باقی معاملات میں افراد اور گروہوں کو آزادی دی جاتی ہے۔ کسی بھی نسل یا زبان کے افراد، قوم کے ممبر یعنی شہری بن سکتے ہیں۔ اس طرح یہ قومیت نسل، زبان یا تہذیب کے بجائے کچھ معاہدوں کی بنیاد پر افراد کو جوڑتی ہے۔ ملک کے دستور کی حیثیت معاہدے کی ہوتی ہے اور اس معاہدے میں شریک ہوکر افراد قوم کا حصہ بنتے ہیں۔
جدید معاشروں میں افراد کے جمع ہونے اور مل کر رہنے کی متعدد چھوٹی بڑی شکلیں رائج ہوچکی ہیں۔ ان سب شکلوں کی بنیاد معاہدے ہی ہوتے ہیں۔ عقد ِنکاح ایک معاہدہ ہے جو ایک مرد اور عورت کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ تجارتی کمپنیوں میں بھی افراد آرٹیکل آف ایسوسی ایشن کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔ رفاہی سوسائٹیاں، ادبی و ثقافتی انجمنیں، پیشہ ورانہ تنظیمیں، جماعتیں اور پارٹیاں یہ سب بھی اپنے بائی لاز، دساتیر، یا آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن کی بنیاد پر افراد کو جوڑتی ہیں۔ شہری قومیت کا تصور اسی رجحان کی ملک گیر سطح پر توسیع کرتا ہے اور ملک کے دستور کو ایک معاہدہ قرار دے کر، اسے افراد کے اجتماع کی اساس قرار دیتا ہے۔
جن یورپی ملکوں میں قوم پرستی کے ماڈرنسٹ تصورات نے جنم لیا تھا اور جہاں قوم پرستی کے نام پر انسانی تاریخ کی بدترین جنگیں لڑی گئی تھیں، خود وہاں آج صورت حال یہ ہے کہ شہری قومیت کا مذکورہ تصور اب پوری طرح مقبول عام ہوچکا ہے۔ اس کی سب سے عمدہ مثال یورپی یونین ہے۔ جرمنی، اٹلی جیسے قوم پرستی کے بڑے بڑے علم بردار ممالک نے اپنی قومی خود مختاری کا بڑا حصہ سرنڈر کرکے ایک بڑی بالائے قوم (supranational) یورپی یونین کا حصہ بننا منظور کیا۔ ان ‘قومی ریاستوں’ نے جو کبھی ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں، اپنی اپنی قومی کرنسیوں کی قربانی دے کر ایک مشترک کرنسی کو فروغ دیا۔ یورپی یونین آج صرف تعاون باہمی کی تنظیم نہیں ہے یاصرف شہریوں کو آزادانہ آمد و رفت اور آزاد تجارت کی سہولت فراہم نہیں کرتی بلکہ اس کی اپنی پارلیمان ہے، اپنا مرکزی بینک ہے، اس کے اپنے قوانین ہیں جن کا دائرہ اب عدل و انصاف اور نظم و نسق کے معاملات اور امور داخلہ تک بھی توسیع پاچکا ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کے لیے اپنی عدالت ہے۔ یورپی یونین کے معاہدے (Treaty on European Union or Maastricht Treaty)کو لگ بھگ وہی حیثیت حاصل ہے جو ملکوں کے دساتیر کو حاصل ہوتی ہے۔[18] سچی بات یہ ہے کہ 1993 میں جب یورپی یونین موجودہ شکل میں قائم ہوئی تو یہ قوم پرستی کے اپنے وطن میں، قوم پرستی کے ماڈرنسٹ تصور کے خاتمے کا اعلان تھا۔ مختلف یورپی ملکوں میں بعض علاقوں کے ملک میں رہنے یا نہ رہنے پر جس طرح آزادانہ بحثیں ہورہی ہیں بلکہ ریفرنڈم ہورہے ہیں (نیدرلینڈ، فرانس، نیوزی لینڈ، امریکہ، برطانیہ ان سب ملکوں میں گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں ایسے ریفرنڈم ہوچکے ہیں)[19] اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اب پورے یورپ میں ریاست کا تصور قومی تہذیب کے بجائے عوام کی رائے اور ان کی سہولتوں سے جڑچکا ہے۔ لوگوں میں یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ معاہدے کی بنیاد پر ریاست تشکیل پائے گی اور معاہدے کی تبدیلی سے اس کی صورت بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔[20] اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں جو بحثیں ہوئیں ان میں تہذیب وغیرہ کے جذباتی مسائل کہیں نہیں تھے بلکہ بحثوں کا رخ یہی تھا کہ معاشی لحاظ سے اور دیگر افادی پہلوؤں سے برطانیہ کے اندر موجودگی زیادہ مفید ہوگی یا علیحدگی زیادہ فائدہ مند ہوگی؟ افادی پہلوؤں ہی کو سامنے رکھ کر اسکاٹش ووٹروں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کی تائید میں ووٹ دیا۔[21]
اس وقت ساری مہذب دنیا میں یہی تصور، یعنی شہری قومیت کا تصور، اصلاً ریاستوں کی بنیاد ہے۔ ایک طرف ہر جگہ کثیر تہذیبی معاشرے وجود میں آچکے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے ممالک ایک دوسرے سے اس طرح جڑ چکے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انٹیگرل قوم پرستی کے تصورات، معاصر حقیقتوں سے، مضحکہ خیر حد تک غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ ایسے میں ان فرسودہ تصورات کی طرف الٹے پاؤں واپسی کس قدر تباہی کا باعث ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ ہر باشعور انسان کر سکتا ہے۔
انٹیگرل نیشنلزم کے موکلین کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ افراد کو جوڑ نے کے لیے طاقت ور جذباتی بندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہری قومیت کا خشک اور روکھا پھیکا کاغذی تصور وہ جذباتی بندھن فراہم نہیں کرسکتا اس لیے قوم پرستی ضروری ہے۔ لیکن یہ لوگ اتنی بات نہیں سمجھ پاتے کہ اندھے جذبات کی عمر ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصلاً انسانوں کو ایک جنسِ واحد بناکر ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے پیدا کیا ہے۔ نسل، ذات، رنگ اور قبیلے کے اختلافات کے باوجود دنیا بھر کے انسان اور انسانوں کے مختلف طبقات اور گروہ، اپنی مختلف ضرورتوں کے لیے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ایک ہی نسل، ایک ہی زبان یا ایک ہی تہذیبی پس منظر کے حامل لوگوں میں اگر کچھ قدریں اور کچھ سماجی طلب مشترک ہے تو ایسا اشتراک اپنی نسل اور زبان کے باہر کے لوگوں کے ساتھ بھی ہے۔ ایک یورپی سائنس داں، ماحولیاتی جہد کار، بزنس مین یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے ہم پیشہ لوگوں سے جڑا ہوا ہے اور ان پر اس کا غیر معمولی انحصار ہے۔ اندھے جذبات نہ اس کا پیٹ بھر سکتے ہیں اور نہ اس کی پیشہ وارانہ ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔ ٹکنالوجی نے جس طرح لوگوں کو جوڑ دیا ہے، اس کے بعد اب قوم پرستی کے ماڈرنسٹ تصورات کی کوئی عملی اہمیت باقی نہیں رہ گئی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک سیاسی نعرہ اور ووٹ بٹورنے کا ایک پاپولسٹ ٹول (populist tool) بن کر رہ گئے ہیں۔
فرضی تاریخ، من گھڑت افسانہ تراشی، دشمن سازی اور نفرت و پروپیگنڈے کی بنیاد پر جذباتی لہر پیدا کرکے کوئی ‘قوم’ تخلیق کر بھی لی جائے تو وہ محض ریت کا ناپائدار گھروندا ہوتی ہے- اعلیٰ انسانی قدریں، بہتر معاشرے، بہتر دنیا کا خواب اور اس کے اصول ہی افراد کو جوڑنے کی پائدار بنیاد ہوتے ہیں۔ شہری قومیت کا تصور ان بنیادوں پر ریاست سازی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس میں جذباتی شدت چاہے کم ہو، لیکن پائداری و استحکام کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ ہندوستان کو اسی کی ضرورت ہے۔
قومیت کے تصورات اور ہندوستان
ہمارے ملک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سے کئی قومیں، نسلیں اور زبانیں موجود رہی ہیں۔ جس کثیر تہذیبی صورت حال کا سامنا امریکہ کو انیسویں صدی میں اور یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کرنا پڑا، وہ صورت حال ہمارے ملک میں صدیوں سے پائی جاتی ہے۔ اس لیے قوم پرستی کے اخلاقی و نظریاتی پہلو سے قطع نظر، عملاً بھی یہ نظریہ اس ملک کے لیے کبھی قابل عمل نہیں رہا۔ یہ ملک کئی نسلوں، ذاتوں، زبانوں، تہذیبوں اور مذاہب کا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں سو سے زیادہ ‘بڑی زبانیں’ ہیں جب کہ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق جملہ زبانوں کی تعداد انیس ہزار پانچ سو ہے۔[22] چھ بڑے مذاہب ہیں۔ متعدد علاقے اور علاقائی تہذیبیں ہیں۔ علاقہ، مذہب، زبان، ذات، فرقہ اور قبیلہ، یہ سب شناختیں گڈ مڈ ہیں اور ایک دوسرے کو اوورلیپ کرتی ہیں۔ تہذیبی امور پر یہ سب شناختیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان الگ الگ شناختوں میں بہت کم مشترک اور بہت کچھ مختلف ہے۔ ان کی سماجی طلب ( social demand) میں مشترک عناصر کم اور مختلف عناصر زیادہ ہیں۔ ایسی صورت حال میں یورپی تصور کی بنیاد پر قوم پرستی کا نظریہ تشکیل دینا کس قدر غیر حقیقی اور خلاف واقعہ عمل ہے!!
یعنی ہندوستان جیسے ملک میں وہ وسائل بھی دست یاب نہیں ہیں جو جذباتی بندھن بن سکیں۔ مشترک تاریخ، مشترک ہیرو، مشترک تہذیبی روایات، مشترک زبان یا مشترک ادب و ثقافت کے بغیر انٹیگرل نیشنلزم کی کوئی اساس سرے سے قائم ہی نہیں ہوسکتی۔ اس کا حل اس طرح نکالا جارہا ہے کہ ان وسائل کو مصنوعی طور پر تخلیق کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور ان مصنوعی وسائل کو بالجبر مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مشترک زبان موجود نہیں ہے تو سنسکرت کو زبردستی مشترک لسانی ورثے کی حیثیت دینے کی کوشش ہورہی ہے۔ فلموں کے ذریعے مشترک ہیرو پیدا کیے جارہے ہیں۔ تاریخ کو بگاڑ کر ملک ہی میں رہنے والے بعض گروہوں کو بیرونی حملہ آور قرار دے کر دشمن بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ کھینچ تان کر ایسے نقاط اشتراک تلاش کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو بڑی سے بڑی آبادی میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جن باتوں کو ہندوستان کی مختلف آبادیوں میں مشترک قرار دیا جاسکتا ہے، اس طرح کی باتوں کا اشتراک براعظم ایشیا میں رہنے والی پوری آبادی میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے سچی بات یہ ہے کہ نسلی یا تہذیبی قومیت کا تصور ہندوستان کے لیے ہمیشہ ایک اجنبی تصور رہا ہے جس کا ہندوستان کے سماجی حقائق سے کبھی کوئی رشتہ نہیں رہا۔ اب قومیت کے مابعد جدید تصورات کے اس دور میں تو اس کی کوئی معنویت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ انٹیگرل قوم پرستی کے تصورات نو آبادیاتی دور میں ہندوستان میں در آمد کیے گئے۔ مولانا مودودیؒ نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑی اہم بات کہی ہے:
‘‘(انگریزی اقتدار اور ہندوستان کے درمیان) تصادم محض سیاسی نہیں بلکہ فکری اور عمرانی بھی ہے، اور یہ عجیب بات ہے کہ فکری اور عمرانی تصادم کو جو نتیجہ ہوا ہے وہ سیاسی تصادم کے نتیجے سے بالکل برعکس ہے۔ انگریزی سیاست کے جور و استبداد اور معاشی لوٹ نے تو ہندوستان کے باشندوں کو آزادی کا سبق دیا اور ان میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ بند غلامی کو توڑ کر پھینکیں۔ لیکن انگریزی علوم و فنون اور انگریزی تہذیب و تمدن نے ان کو پوری طرح مغرب کا غلام بنادیا۔ اور ان کے دماغوں پر اتنا زبردست قابو پالیا کہ اب و ہ زندگی کا کوئی نقشہ اس نقشے کے خلاف نہیں سوچ سکتے جو ان کے سامنے اہل مغرب نے پیش کیا ہے۔ وہ جس قسم کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کی نوعیت صرف یہ ہے کہ ہندوستان سیاسی حیثیت سے آزاد ہو، اپنے گھر کا انتظام آپ کرے اور اپنے وسائل معیشت کو خود اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے۔ لیکن یہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر کے انتظام اور اپنی زندگی کی تعمیر کا جو نقشہ ان کے ذہن میں ہے وہ از سرتاپا فرنگی ہے۔ ان کے پاس جتنے اجتماعی تصورات ہیں، جس قدر عمرانی اصول ہیں، سب کے سب مغرب سے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر فرنگی نظر ہے۔ ان کے دماغ فرنگی دماغ ہیں۔ ان کی ذہنیت پوری طرح فرنگیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ بلکہ انقلابیت کے بحران نے ان کو (یا کم از کم ان کے پرجوش طبقوں کو) فرنگیوں میں سے بھی اس قوم کا متبع بنادیا ہے جو انتہا پسندی میں تمام فرنگی اقوام کو پیچھے چھوڑچکی ہے۔’’[23]
یہی وہ پس منظر تھا جس میں انٹیگرل قوم پرستی کا اجنبی تصور ہندوستان میں در آمد ہوا۔ یہ نوآبادیاتی عہد میں یورپ کی کند ذہن فکری غلامی تھی جس نے ہندوستان کی تنظیم کے لیے ایسے اجنبی تصورات کی پناہ تلاش کی جن کا ہمارے ملک کی زمینی حقیقتوں سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس تصور کی کوئی جھلک نہ قدیم ہندو فلسفوں میں ملتی ہے نہ عہد متوسط کے ہندوستانی سیاسی تصورات میں۔ اس زمانے میں کانگریس کے اکثر قائدین یورپی رومانٹک تصوراتِ قوم پرستی کے اسیر ہوگئے اور اسے جدوجہد آزادی کی بنیاد بنانے کی کوشش کی۔ کانگریس ہی کے بعض شدت پسند عناصر نے (جنھیں مولانا مودودیؒ نے پرجوش طبقات کہا ہے) اس تصور کو انتہا پر پہنچایا اور ہندو احیا پرستوں نے اس تصور کو ملک میں پیدا شدہ ہندو مسلم کش مکش سے جوڑ کر ایک نیا زہر تخلیق کیا۔
اس زمانے کے بھی بعض نسبتاً اعتدال پسند قائدین کے بیانات اور تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انٹیگرل نیشنلزم کے یورپی تصور کو ہندوستان کے احوال سے غیر متعلق اور نامناسب سمجھتے تھے۔ مثلاً گاندھی جی کی متعدد تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قومیت کی بنیاد، ہندوستان کی مشترک اور متفق علیہ قدروں کو قرار دیتے تھے۔ وہ ہندوستانی دیہات کو ملک کی قومیت کامظہر قرار دیتے تھے اور سادہ طرز زندگی، فطرت سے مطابقت، رو حانیت، متفق علیہ اخلاقی قدروں یا ان کے مشہور تین اصولوں سودیشی، ستیہ گرہ اور سوراج کو ہندوستانی قومیت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ وہ قوم پرستی کے اُس تصور کے ناقد تھے جو انسانی مساوات اور وحدت کے تصورات کے خلاف ہو۔ چناں چہ ان کا مشہور اقتباس ہے۔
‘‘جس طرح وطن پرست یہ تلقین کرتے ہیں کہ ایک فرد کو اپنے خاندان کے لیے قربانی دینی چاہیے، خاندان کو گاؤں کے لیے، گاؤں کو ضلع کے لیے، ضلع کو صوبہ کے لیے اور صوبہ کو ملک پر قربان ہونے کے لیے تیار ہونا چاہیے اسی طرح ملک کو یہ آزاد ی ملنی چاہیے کہ ضرورت پڑے تو عالمی انسانی مفاد کے لیے وہ خود کو قربان کرے۔ میرا تصور قومیت یہ ہے کہ میرے ملک کو اس بات کی آزادی ملنی چاہیے کہ نسل انسانی کی بقا کے لیے ضرورت متقاضی ہو تو پورا ملک خود کو قربان کرسکے۔ (میرے تصور قومیت میں) نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی میرا تصور قومیت ہے۔’’[24]
اسی طرح ہندوستان کے قومی ترانے کے خالق، رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:
‘‘تاریخ کا سفر ایک ایسے (تشویش ناک) مرحلے میں داخل ہو رہا ہے کہ جب ایک اخلاقی انسان، ایک مکمل انسان نادانستہ طور پر ایک ادھورے انسان کے لیے جگہ بنا رہا ہے…ایک سیاسی انسان کے لیے، ایک کمرشیل انسان کے لیے، ایک محدود مقصد کے حامل انسان کے لیے۔ سائنس کی حیرت انگیز ترقیوں کی مدد سے یہ عمل غیر معمولی طاقت حاصل کررہا ہے اور انسان کا اخلاقی توازن درہم برہم کر رہا ہے۔ انسان کا انسانی وجود ایک بے جان تنظیم کے سائے میں غائب ہو رہا ہے۔ اس کی آہنی گرفت ہماری زندگی کی جڑوں میں محسوس ہورہی ہے۔ انسانیت کی خاطر ہمیں اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور خبردار کرنا ہوگا کہ یہ قوم پرستی ایک خوں خوار وبا ہےجو دور حاضر کی انسانی دنیا کو لپیٹ میں لے رہی ہے اورحیات انسانی کی اخلاقی توانائی کو مکمل ختم کرنے کے درپے ہے۔’’[25]
ایک اور جگہ اپنے ناول کے کردار کی زبان سے کہلواتے ہیں:
‘‘میں اپنے ملک کی خدمت کے لیے ہر دم تیار ہوں لیکن جہاں تک عبادت و عقیدت کا تعلق ہے وہ اس حق کے لیے مخصوص ہے جو میرے وطن سے کہیں عظیم تر ہے۔ خدا کی طرح وطن کی عبادت کرنا دراصل وطن کے لیے مصیبت لانا ہے۔’’[26]
ان حضرات کی یہ باتیں، شہری قومیت کے ان تصورات سے قریب تر ہیں جو بعد کے زمانوں میں سا منے آئے۔ لیکن اس وقت کے جذباتی ماحول میں اور یورپی افکار سے بے پناہ مرعوبیت کے پس منظر میں ان افکار پر بہت کم توجہ ہوسکی اور قوم پرستی کی مختلف قسمیں اور مختلف درجات ملک کے سیاسی منظر نامے میں کارفرما رہے۔
آج جب کہ انٹیگرل قوم پرستی کے نقصانات بہت واضح ہوچکے ہیں، اس بات کی ضرورت ہے کہ ہندوستانی عوام میں شہری قومیت کا متبادل بیانیہ فروغ دیا جائے اور عدل و انصاف کی قدروں کی بنیاد پر قوم سازی (nation building) کا متبادل تصور عام کیا جائے۔
اسلام اور تصور قومیت
اسلام ایسے تمام تصورات کی نفی کرتا ہے جو انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، ذات، قوم وغیرہ کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔ اسلام کا پیغام وحدت انسانی کا پیغام ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے کی دعوت دیتا ہے کہ سارے انسان ایک خدا کی مخلوق اور بندے ہیں اورایک مرد اور عورت کی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
یاأَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ‘‘اے لوگو۔ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔’’ (سورة الحجرات، 13)
اس آیت میں انسانی وحدت کا اسلامی اصول بیان ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِی عَلَى عَجَمِی، وَلَا لِعَجَمِی عَلَى عَرَبِی، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى.
‘‘کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر (فضیلت ہے تو) صرف تقویٰ کی بنیاد پر’’[27]
اسی طرح اسلام فرد کی آزادی کا قائل ہےاور ریاست کا فرد کی آزادی پر استبدادی کنٹرول اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لیے فسطائیت اور انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات کی بلاشبہ اسلام مذمت کرتا ہے۔
سورة الحجرات کی مذکورہ آیت میں جہاں انسانی مساوات کا اعلان ہے وہیں قبائل اور شعوب کے وجود اور ان کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ فرمایا لیکن قبائل کے وجود کو ختم نہیں کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی قبیلے باقی رہے اور قبیلوں کے حوالوں سے لوگ پہچانے جاتے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم اسلام کو منظور نہیں ہے لیکن زمانے کے حالات کے لحاظ سے، اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انسانوں کا جمع ہونا، کسی اجتماعی شکل کو اختیار کرنا اور اس سے اپنی شناختوں کو وابستہ کرنا اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے۔
اسلام نے وطن سے محبت کے فطری جذبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ظلم کی بدترین شکل قرار دیا ہے کہ لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا جائے۔ أُذِنَ لِلَّذِینَ یقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ (39) الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ بِغَیرِ حَقّ ‘‘اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے۔’’ (سورہ الحج آ 39-40 )
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کے قریب آتے تو فرط شوق میں سواری کی رفتار تیز فرمادیتے أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا۔[28] آپ ﷺ دعا فرماتے تھے: اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَینَا المَدِینَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ۔[29] (اے اللہ، ہمارے دل میں مدینے کی ویسی ہی محبت پیدا فرما جیسی مکّہ کی پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔) واضح رہے کہ یہ فطری جذبہ انٹیگرل نیشنلزم کے اس مصنوعی جذبے سے مختلف ہے جس میں وطن کو ‘قوم سازی’ کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور پوری قوم کو ایک تہذیب میں ڈھالنے کی غیر فطری کوشش ہوتی ہے۔ ایک جگہ ساتھ رہنے والے مل کر جب ایک ریاست بنائیں اور ان کے بعض مفادات مشترک ہوجائیں تو اپنی جگہ سے محبت اور اس کے مفادات کی حفاظت کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہوجاتا ہے۔ یہاں یہی مراد ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انسان ایک سماجی جان دار ہے اور اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے طرح طرح کی اجتماعی شکلیں اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ ہر اجتماعی ہیئت وفاداری چاہتی ہے۔ اور آدمی جب اس سے وابستہ ہوتا ہے تو معاہدےکی شرائط کے مطابق اس سے وابستگی اور وفاداری کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اس کے تئیں محبت بھی اس کے دل میں فطری طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی جب شہر میں گھومتا ہے تو اپنے محلے اور کالونی کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اور اس نسبت سے دھیرے دھیرے محبت بھی اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ کالونی کے مشترک مسائل پر کالونی کے لوگ مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح ضلع، علاقہ، ریاست ان سب سے فرد کی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ کسی کمپنی میں کام کرتا ہے تو اس کمپنی کا وفادار ہوتا ہے۔ جس کرکٹ یا فٹ بال کی ٹیم میں کھیلتا ہے، اس کا وفادار ہوتا ہے اور اس کو جتانے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتیں، انجمنیں اور تنظیمیں اپنے کارکنوں سے وفاداری کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں رہنے والے لوگ ایک مشترک سیاسی نظام تشکیل دیں اور ایک دستور پر متفق ہوجائیں تو اس کی بنیاد پر ایک قوم کا بن جانا اور جائز امور میں اس قوم کی حمایت اور اس سے وفاداری اسلام کے اصولوں سے متصادم بات نہیں ہوگی۔
یہ وفاداری، وابستگی یا محبت دو صورتوں میں جرم بنے گی۔ اس کی وضاحت بھی ہم کو نصوص میں ملتی ہے۔ ایک تو اس وقت جب یہ فطری محبت یا وابستگی احساس برتری کا ذریعہ بنے اور آدمی دوسری قوموں کو حقیر سمجھنے لگے۔ اور دوسرے اُس وقت جب نا انصافی اور ظلم میں قوم کا ساتھ دیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا: یا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنَ الْعَصَبِیةِ أَنْ یحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ یا رسول اللہ کیا اپنی قوم کے آدمی سے محبت کرنا عصبیت ہے؟ آپ نے جواب دیا: لَا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِیةِ أَنْ یعِینَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْم‘‘[30] نہیں، البتہ یہ عصبیت ہے کہ تم اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرو۔’’
بلاشبہ سیاسی نظام کس بنیاد پر چلایا جائے اور اس کے اصول کیا ہوں؟ اس حوالے سے اسلام کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اہل اسلام کی یہ ذمےد اری ہے کہ اسلام کے ان اصولوں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور انھیں رو بعمل لانے کی کوشش کریں اور جہاں ریاست کی زمام ان کے ہاتھوں میں ہو وہاں ان اصولوں کو نافذ کریں۔ یہاں زیر بحث مشترکہ سماجوں کی صورت حال ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ریاست میں موجود ہوں۔ ایسی صورت حال میں امن و امان اور عدل و انصاف کے مقاصد کی خاطر کسی دستور پر متفق ہونا اور اس کی بنیاد پر ریاست کا چلایا جانا، یہی قابل عمل راستہ ہے۔
ان حدود کا لحاظ کرتے ہوئے مشترک معاہدوں کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور اس کے رکن بنے رہنے کی نظیر تو خود اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت سے ملتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں جو ریاست تشکیل فرمائی اس میں یہودی اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ شامل تھے۔ چناں چہ معاہدہ کے الفاظ میں یہ عبارت بھی تھی کہ وَإِنَّ یهُودَ بَنِی عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ، لِلْیهُودِ دِینُهُمْ وَلِلْمُسْلِمِینَ دِینُهُم‘‘[31] (بنو عوف کے یہودی، مومنوں کے ساتھ ایک امت ہوں گے۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین ہوگا اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین)’’ بعد میں اسی طرح کا معاہدہ آپ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ فرمایا تھا۔[32] اور ان کے علاوہ بھی متعدد غیر مسلم قبائل سے اس قسم کے معاہدے فرمائے۔[33] (ان معاہدوں پر اور آں حضرت ﷺ اور خلفائے راشدین نیز بعد کے ادوار کی مسلمان حکومتوں کی تہذیبی اکائیوں کے تئیں پالیسی پر ہم دسمبر2021 کے اشارات میں گفتگو کرچکے ہیں) یہ دو الگ الگ ملکوں یا ریاستوں کے درمیان معاہدہ نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ریاست تشکیل دی تھی۔ آپ ﷺ خود اس کے سربراہ تھے۔ اس ریاست کا نظم کچھ معاہدوں کی بنیاد پر تھا۔ ان معاہدوں کی خصوصیت یہی تھی کہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات خود چلانے کی آزادی دی گئی تھی۔ انھیں اپنے دین پر عمل کی آزادی دی گئی تھی۔ اُن معاملات کی واضح نشان دہی موجود تھی جو مسلمانوں، غیر مسلموں اور ریاست کے تمام شہریوں کے درمیان مشترک ہوں گے اور ان کو چلانے کے اصول و آداب کا وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا۔ یہی معاملہ جدید ریاستوں میں دساتیر کا ہوتا ہے اس لیے متعدد سیرت نگاروں اور مصنفین نے یہود کے ساتھ آپ ﷺ کے معاہدے کو ‘پہلا تحریری دستور’ قرار دیا ہے۔ اس سے اسلام کی یہ خصوصیت اجاگر ہوتی ہے کہ وہ نہ افراد پر اپنا دین بالجبر مسلط کرتا ہے اور نہ تہذیبی گروہوں کے تشخص کو ختم کرکے انھیں زبردستی اپنے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ افراد کو بھی آزادی دیتا ہے اور تہذیبی گروہوں کو بھی تہذیبی آزادی دیتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ نبوی ماڈل شہری قومیت کے تصورات سے قریب تھا۔ مماثلت کا پہلو یہ تھا کہ اس میں بھی مذہبی و تہذیبی تنوع کے حامل گروہوں کو ملاکر ایک مشترک ریاست، دستور کی بنیاد پر تشکیل پائی تھی۔
اہم سوال یہ رہ جاتا ہے کہ شہری قومیت اور مسلمانوں کے ملی وجود میں کیا نسبت ہے؟ اس موضوع پر نومبر 2021کے شمارے میں ہم اپنے خیالات پیش کرچکے ہیں۔ اس بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک ملت اور امت کی حیثیت ان کی ہندوستانی قوم کی حیثیت سے متصادم نہیں ہے۔ قوم کے وہ معنی لیے جائیں جو یورپی قوم پرستی کے پس منظر میں متعین ہوئے تھے تو بے شک مسلمانوں کے تہذیبی تشخص پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک شہری قومیت جو دستوری معاہدے کی بنیاد پر ہو، وہ الگ الگ تہذیبی گروہوں کو معاہدے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ مسلمان اپنی منفرد تہذیبی قدروں کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہتے ہوئے، اس شہری قومیت کا حصہ بنے رہ سکتے ہیں۔
خلاصہ بحث
جارح قوم پرستی کی علم بردار ہندتو کی تحریک، قوم پرستی کے اُس یورپی تصور کو یعنی انٹیگرل نیشنلزم کوہندوستان میں درآمد کررہی ہے جو اب ساری دنیا میں مسترد کردیا گیا ہے اور جس کے نقصانات واضح ہوکر سامنے آچکے ہیں۔ یہ تصور ہندوستان کے لیے ایک اجنبی اور غیر ملکی در آمد شدہ تصور ہے۔ ہندوستان کے مخصوص احوال میں یہ تصور اس لیے بھی غیر متعلق ہے کہ یہاں کوئی ایک زبان بولنے والی، مکمل طور پر یکساں تہذیبی ورثہ اور تہذیبی قدریں رکھنے والی یا ایک ہی قبائلی شناخت کی حامل ‘قوم’ نہیں بستی۔ یہ ملک ‘نیشن اسٹیٹ’ نہیں بلکہ ‘اسٹیٹ نیشن’ ہے۔ یعنی ایک ایسی قوم ہے جو دستور کے معاہدے کی بنیاد پر مختلف گروہوں کو جوڑکر تشکیل دی گئی ہے۔ اسےایک متجانس قوم میں بدلنے کا عمل ایک غیر فطری عمل ہے جو ملک کے عوام کو ایک دوسرے سے جدا کرنے اور ملک میں افراتفری اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کے سوا کوئی اور مقصدحاصل نہیں کرسکتا۔
انٹیگرل نیشنلزم کے مقابلے میں اب ساری دنیا میں سِوِک نیشنلزم (civic nationalism) یا شہری قومیت کا تصور عام ہے۔ ہمارے ملک میں متعدد قومی رہ نماؤں نے یہی تصور عام کیا تھا۔ دستور ہند کا تصور بھی یہی ہے۔[34] اس تصور کے تحت، دستور اور دستور کی قدروں کو مختلف تہذیبی گروہوں کو جوڑنے اور ایک ملک بنانے کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر کے تکثیری معاشروں میں اب یہی رویہ عام ہے اور ہندوستان کے احوال میں تو یہی قابل عمل راستہ ہے۔ اکثریتی تہذیب کی بالادستی یا اسے قومی تہذیب قرار دینا یا اس تہذیب کو قوم سازی کی اساس بنانا، نہ صرف احمقانہ حد تک غیر عملی ہے بلکہ اصلاً قومی انتشار کا ذریعہ ہے۔ یہ قوم کی تعمیر کا نہیں بلکہ تخریب کا راستہ ہے۔ اس تخریب کی زد میں صرف مسلمان نہیں آتے بلکہ یہاں کے تمام تہذیبی و لسانی گروہ اور پورا ہندوستان بلکہ پورا جنوبی ایشیا آتا ہے۔
انٹیگرل نیشنلزم کے تصورات اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ مشترکہ سماجوں میں شہری قومیت کا راستہ ایک قابل عمل راستہ ہے۔ ایسے معاشروں میں اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اسلام کے علم بردار اور اس کے سفیر بن کر معاشرے میں رہیں گے اور معاشرے میں اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے۔ اس لیے دستوری معاہدے کی بنیاد پر بننے والے ملک میں مسلمان ایک نظریاتی و تہذیبی گروہ کے طور پر رہیں گے۔ وہ ملک کے بھی وفادار رہیں گے اور اپنے دین و تہذیب سے بھی ان کی اٹوٹ وابستگی ہوگی۔ اپنے اصولوں کی معقولیت وہ اہل ملک پر واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اور ساتھ ہی دستور کی متفق علیہ قدروں کو روبعمل لانے اور باقی اہل ملک کے ساتھ مل کر ملک میں امن و امان، عدل و انصاف اور تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔
حواشی و حوالہ جات
[1] قوم پرستی کی جدید تاریخ کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو:
Hans Kohn (1965) Nationalism: Its Meaning and History, revised edition; Van Nostrand Reinhold Company; New York.
[2] مولانا مرحومؒ کا یہ کتابچہ اس مجموعے میں شامل ہے:
مولانا سید ابوالاعلی مودودی (1963) تحریک آزادی ہند اور مسلمان(حصہ اول) اسلامک پبلیکیشنز؛ لاہور
[3] علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال (2001) کلیات اقبال اردو؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی ص 132-133
[4] علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال (2011) مقالات اقبال (مرتبہ عبدالواحد معینی) جغرافیائی حدود اور مسلمان (ص 264) اور اسی مجموعے میں ‘ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر’ (ص152تا 183)
[5] ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں مضمون، آرنلڈٹائن بی:
https://www.britannica.com/biography/Arnold-Joseph-Toynbee; retrieved on 06-08-2022
[6] The Chapter ‘‘Dwarfing of Europe’’ in Arnold Toynbee (1948) Civilisation on Trial; Oxford University Press; London; pp. 97-125.
[7] Azar Gat and Alexander Yakobson (2013). Nations: The Long History and Deep Roots of Political Ethnicity and Nationalism; Cambridge University Press; London p. 8.
[8] John Hutchinson (1994) Modern Nationalism; Fontana Press; London p.11.
[9] Ernst Gellner (1964) Thought and Change; Chicago Uni. Press; Chicago; p. 174.
[10] Walton Isaacson (2008) Einstein: His Life and Universe; Simon and Schuster; London p. 386.
[11] E.J.Hobsbawm (1990) Nations and Nationalism since 1780; Cambridge Uni. Press; Cambridge UK. p. 12.
[12] Hans Kohn(2008) The Idea Of Nationalism: A Study In Its Origins And Background; Transaction Publishers; New Jersey; p. 16.
[13] Karl Deutch (1969) Nationalism and Its Alternatives; Knopf, [distributed by Random House); New York; p. 3.
[14] John Stuart Mill; ed. Robson J.M.; Considerations on Representative Government, Collected Works of John Stuart Mill, vol. 19; University of Toronto Press; Toronto; 1977, pp. 546.
[15] Ernst Renan; What is a Nation; English Translation from ‘Qu’est-ce qu’une nation?’, Oeuvres Completes (Paris, 1947-61), vol. I, pp. 887-907. at https://web.archive.org/web/20110827065548/http://www.cooper.edu/humanities/core/hss3/e_renan.html retrieved on 6-08-2022
[16] اس بحث کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوسکتا ہے:
R.Brubaker. (1992) Citizenship and Nationhood in France and Germany; Harvard University Press; London.
[17] Jürgen Habermas (1998); Struggles for Recognition in the Democratic State; MIT Press; Cambridge; p. 228.
[18] تفصیل کے لیے یونین کی ویب سائٹ ملاحظہ ہو:
https://european-union.europa.eu/index_en
[19] Matt Qvortrup (2021) The Good, the Bad and the Ugly: Independence Referendums in Comparative Perspective in https://revistaidees.cat/en/the-good-the-bad-and-the-ugly-independence-referendums-in-comparative-perspective/ retrieved on 16-08-2022
[20] Eze Ozlem Atikan; The Shifting Will of People: the Case of EU Referendums; in Julie Smith Ed. (2021) The Palgrave Handbook of European Referendums; Palgrave Macmillan; London. pp. 109-132.
[21] اس ڈبیٹ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
Michael Keating (2017) Debating Scotland: Issues of Independence and Union in the 2014 Referendum; Oxford University Press.
[22] https://indianexpress.com/article/india/more-than-19500-mother-tongues-spoken-in-india-census-5241056/
[23] مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی(1963)؛ تحریک آزادی ہند اور مسلمان؛ حصہ اول؛ اسلامك پبلیکیشنز (لمیٹیڈ)؛ لاہور؛ص 59
[24] M.K. Gandhi (1927) Indian Village p. 170 as referred in Shriman Narayan Ed.(1968) The Selected Works of Mahatma Gandhi; Navjivan Publishing, Ahmedabad. pp. 247-248.
[25] Sir Rabindranath Tagore (1917) Nationalism; The book Club of California; San Francisco; pp. 27-28.
[26] Rabindranath Tagore (1985). The home and the world; Penguin; London; p. 29.
[27] مسند احمد، باقی مسند الانصار، حدیث رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رواہ ابی نضرة صححه الالبانی فی الصحیحة
[28] صحیح البخاری، کتاب فضائل المدینة، باب المدینة تنفی الخبث رواہ انس بن مالك
[29] صحیح البخاری، كتاب المرضٰی؛ باب عیادة النساء الرجال؛ روته عائشة
[30] سنن ابن ماجہ؛ کتاب الفتن؛ باب العصبیة ~ حدیث رقم 3974
[31] الحافظ ابن کثیر (1991) البدایة والنھایة؛ الجزء الثالث؛ مکتبة المعارف، بیروت؛ ص 225
[32] احمد بن یحیی البلاذری(1957) فتوح البلدان؛ دارالنشر؛ القاهرة؛ ص 364
[33] ان معاہدوں کی مکمل دستاویزات ملاحظہ ہوں:
الدکتورمحمد حمید اللہ(1941) الوثائق السیاسیة للعھد النبویؐ، مطبعة لجنة التالیف والترجمة ؛القاهرة۔
[34] اس موضوع پر ششی تھرور کا درج ذیل مضمون نہایت اہم مضمون ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور دستور ہند کے معتبر شارحیں کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ دستور ہند کی آئیڈیولوجی شہری قومیت ہی ہے اورکسی ایک تہذیب کو قومیت کی بنیاد بنانا یہ دستورہند سے متصادم رویہ ہے۔
Shashi Tharoor (2022) Patriotism Vs. Nationalism in Journal of the Harvard Club of India; Dec 2021; New Delhi pp. 139-142.
یہ بحث ان کی درج ذیل کتاب میں بھی زیادہ تفصیل سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
Shashi Tharoor (2020). The Battle of Belonging: On Nationalism, Patriotism, and what it Means to be Indian. India: Aleph Book Company; New Delhi.
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022