جان اور مال کی محبت ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘کی راہ میں بالعموم سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ جان کس کو عزیز نہیں ہوتی اور مال سے کون بے نیاز ہے! آدمی یہ سوچ کر سہم جاتا ہے کہ اگر باطل کو باطل کہوں، خصوصاً اس وقت جب کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے اور جور و ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤں، جب کہ ہر طرف اسی کی حکم رانی ہے، تو مجھے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر جسمانی موت سے بچ بھی جاؤں تو ہوسکتا ہے کہ معاشی موت واقع ہو جائے اور معاشی موت بعض پہلوؤں سے جسمانی موت سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے، لیکن یہ خوف اور ہراسانی مومن کی شان سے فروتر اور اس کے ایمان کی کم زوری کی دلیل ہے۔ زندگی اور اسباب زندگی کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ حق کے اظہار میں خوف کھانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی اور معاش کا مالک انسانوں کو سمجھتا ہے، یا کم سے کم اسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ بھروسا نہیں ہے جو فی الواقع ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ کا حکم ہے کہ جان و مال کے خطرات سے بے نیاز ہوکر معروف کا حکم دو اور منکر سے منع کرو۔ کیوں کہ یہی مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔
(معروف و منکر، ص 226)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022