امىر جماعت اسلامى ہند، جناب سىد سعادت اللہ حسىنى نے اسلامک سرکل نارتھ امرىکہ کى دعوت پر ان کے سالانہ کنونشن سے آن لائن خطاب کىا تھا۔ اس خطاب کا ترجمہ ىہاں شائع کىا جارہا ہے۔ اس مىں مغربى ملکوں مىں کام کررہى اسلامى تحرىکوں کے لىے بعض اہم مشورے ہىں جو ہمارے ملک کے حالات سے بھى مناسبت رکھتے ہىں۔
محترم و مکرم ڈاکٹر محسن انصارى صاحب، صدر اسلامک سرکل آف نارتھ امرىکہ، دىگر مہما نان گرامى اور معزز سامعىن، خواتىن و حضرات،السلام علىکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ىہ مىرے لىے بڑى مسرت اور بڑے اعزا ز کى بات ہے کہ اسلامک سرکل آف نارتھ امرىکہ کے اس کنونشن مىں آن لائن ہى سہى لىکن جڑنے کا موقع مل رہا ہے۔ اکنا کا ىہ سالانہ کنونشن اب دنىا بھر مىں اسلام سے تعلق رکھنے والوں کے لىے دل چسپى کا باعث بن چکا ہے۔ جس بڑے پىمانے پر اس کنونشن مىں مرد، عورتىں، نوجوان اور بچے شرىک ہوتے ہىں اور اسلام کے کاز کے سلسلے مىں جس جوش و خروش اور حوصلہ و امنگ کا ىہاں اظہار ہوتا ہے ىقىناً ہم جىسے لوگوں کو اسے دىکھ کر بہت خوشى ہوتى ہے۔ اللہ تعالىٰ سے دعا ہے کہ اس کنونشن کو اپنے مقاصد مىں کام ىابى عطا فرمائے اور آپ سب کا ىہاں جمع ہونا، انسانىت کے لىے اور آپ کے ملک کے لىے خىر کا باعث ہو۔ آمىن۔
محترم دوستو، جو لوگ امرىکہ مىں دعوت اسلامى کا کام کررہے ہىں وہ نہاىت خوش قسمت لوگ ہىں۔ مىں نے حال ہى مىں ىہى بات لندن کے سفر مىں وہاں کے مسلمانوں سے بھى کہى تھى کہ آپ کو اىک نئى قوم اور اىک نئے بر اعظم مىں اسلام کے تعارف، اس کى دعوت اور اسلام کى سفارت کے لىے اللہ تعالىٰ نے منتخب فرماىا ہے۔ ىہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پورى اسلامى تارىخ مىں چند ہى نسلوں کو ىہ عظىم اعزا ز حاصل ہوا ہے۔اىک تو خود صحابہ کرامؓ تھے جن سے اللہ تعالىٰ نے مشرق وسطى اور شمالى افرىقہ کے بڑے علاقے مىں اسلام کى دعوت کا کام لىا۔ صدىوں بعد، تاجروں کى اور صوفىا کى جماعتىں تھىں جنھوں نے برصغىر ہند، انڈونىشىا اور ملىشىا وغىرہ مىں اسلام کى نمائندگى کى۔ اب گذشتہ صدى سے اللہ تعالىٰ نے اىک نئى زمىن پر، مغربى دنىا مىں اسلام کے تعارف کا موقع پىدا کىا ہے۔ اور ىہ عظىم سعادت آپ حضرات کے نصىب مىں آرہى ہے کہ آپ ىہاں اسلام کے سفىر بنىں۔ اس لىے آپ اسلامى تارىخ کے خوش قسمت ترىن گروہوں مىں سے اىک ہىں۔ ىہ آپ کى ذمہ دارى ہے کہ اپنے اس مقام و منصب کو سمجھىں اور اس کے تقاضوں کى ادائىگى کى فکر کرىں۔
اللہ کے دىن کا قىام ىعنى اقامت دىن ہمارى ذمہ دارى ہے۔ ىہ فرىضہ ہمىں اس ملک مىں انجام دىنا ہے۔ اس کے لىے پہلى ضرورت ىہ ہے کہ ہم جس ملک مىں ہىں، اسے اپنا ملک سمجھىں۔ ىہاں کے مسائل مىں دل چسپى لىں۔ ىہاں کے سماج سے متعلق ہوں۔ اپنے آبائى ملک سے کہىں زىادہ، اس ملک سے اور ىہاں کے عوام سے ہمارى دل چسپى ہو۔اللہ کے دىن کے قىام کے لىے ہمىں دعوت دىن کا کام بھى کرنا ہے ىعنى ىہاں رہنے والے لوگوں تک اسلام کا پىغام پہنچانا ہے۔ اسلام کى قولى شہادت کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع سے اسلام کى عملى شہادت کا بھى فرىضہ انجام دىنا ہے۔ مسلمانوں کى اصلاح کرنى ہے اور انھىں اور ان کے معاشرے کو اسلام کا عملى نمونہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کى سماجى قوت بڑھانى ہے۔انسانوں کى خدمت کے ذرىعے ان کے دل بھى جىتنے ہىں۔ ىہ سب کام ضرورى ہىں۔ لىکن آج مىرا عنوان اىک خاص کام سے متعلق ہے۔ ىہ کام اقلىتى معاشروں مىں اسلام کى نمائندگى کے لىے نہاىت ضرورى کام ہے۔ ىعنى عدل و قسط کے لىے جدوجہد کا کام، عدل و قسط کى سىاست کا کام۔ مىں اس پر قدرے تفصىل سے روشنى ڈالنے کى کوشش کروں گا۔
محترم سامعىن، ٹھوس سىاسى پروگرام کے بغىر کسى اسلامى تحرىک کا تصور نہىں کىا جاسکتا۔ اقلىتى ممالک مىں بھى اسلامى تحرىکوں کے پاس اىک سىاسى پروگرام اور سىاسى وژن ہونا چاہىے۔ لىکن وہ سىاسى پروگرام کىا ہو؟ وہ سىاسى پروگرام ىہ نہىں ہوسکتا کہ آپ صرف اپنے آبائى ملک اور وہاں کے مسائل سے دل چسپى رکھىں۔ بھارت سے آئے ہوئے مسلمان صرف ہندوستان کے احوال، ہندوستانى مسلمانوں کے احوال اور ان کے مسائل مىں دل چسپى لىں اور ىہى ان کى گفتگو کا اور ان کى فکر کا موضوع ہو۔ مختلف مسلم ملکوں سے آنے والے مسلمان صرف اپنے اپنے ملکوں کى سىاست کو اپنى دل چسپى کا موضوع بنائىں۔
اسى طرح اقلىتى ممالک مىں اسلامى تحرىک کا سىاسى پروگرام صرف مہاجرىن ىا نقل مکانى کرنے والوں کے مسائل پر مبنى پروگرام بھى نہىں ہوسکتا۔ اس کا دائرہ صرف امرىکى مسلمانوں کے اىشوز تک بھى محدود نہىں ہوسکتا۔ ہم ىہ کرىں گے تو ىہ اسلام کى صحىح شہادت نہىں ہوگى۔اس کے نتىجے مىں اسلام کا پىغام آفاقى عالمگىر پىغام نہىں رہے گا بلکہ کسى خاص کمىونٹى کا مفاد سمجھا جائے گا۔ ہمارى ذمہ دارى ىہ ہے کہ ہم اپنے اپنے ملکوں مىں عدل کے علم بردار بن کر ابھرىں۔ عدل و انصاف صرف مسلمانوں کے لىے نہىں، تمام انسانوں کے لىے۔ ہر اىک کو عدل ملے، ىہى ہمارى سىاست کا مقصد اورہمارے سىاسى بىانىہ کا سب سے اہم اور نماىاں عنوان بن جائے۔
محترم سامعىن، صرف اپنے مسائل تک محدود رہنا اور اپنے مسائل ہى کو اپنا مطمح نظر بنانا نسلى اور قومى گروہوں ىا فرقوں کا کام ہوتا ہے ىا طبقاتى جدوجہد مىں کسى طبقے کا انداز سىاست ہوتا ہے۔مسلمان ان مىں سے کچھ بھى نہىں ہىں۔ مسلمان کسى نسل کا نام نہىں ہے۔ىہ کسى لسانى گروہ کا نام نہىں ہے۔ کوئى جنس بھى نہىں ہے۔ کسى خاص رنگ، شکل و شباہت ىا ذات کا نام بھى نہىں ہے۔ مسلمان کوئى طبقہ بھى نہىں ہىں۔ ان کى دل چسپى کبھى اپنى شناخت اور اس سے متعلق مسائل تک محدود نہىں ہوسکتى۔ وہ عقىدہ، اصول اور نظرىات کى بنىاد پر بننے والا گروہ ہىں۔ اس گروہ سے وابستگى عقائد و نظرىات کى بنىاد پر ہے اور ہر رنگ، نسل، ذات، قوم، طبقہ، جنس اور لسانى گروہ کے لىے عام ہے۔ وہ خیرأمت ہىں، ىعنى ان کى ذمے دارى خود تک محدود نہىں ہوسکتى۔ وہ أخرجت للناس ہیں، سارے انسانوں کے لیے ذمے دار ہیں۔ شهداء على الناس ہىں۔ ان سب انسانوں پر انھىں حق کى گواہى دىنى ہے۔ وہ أمت وسط ہىں، لوگوں کو ہر طرح کى بے اعتدالى سے بچانے کا کام ان کے سپرد ہے۔ ان كى بنائے اجتماع ملة أبیكم إبراهیم ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایک آفاقی اور ہمہ گیر توحیدی وژن کے حامل ہیں۔ وہ قوامین بالقسط ہىں اور اللہ کے ہر بندے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ا ن کا مشن ہے۔
خواتىن و حضرات، قرآن مجىد مىں عدل و قسط کا ذکر اس قدر کثرت سے اور اتنے پىراؤں مىں آىا ہے کہ اس کو سامنے رکھا جائے تو عدل، اسلامى شرىعت کا عنوان اور اس کى نہاىت اہم خصوصىت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالىٰ نے اسے رسولوں کى بعثت کا مقصد قرار دىا ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَىنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِىزَانَ لِىقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔ (ىقىناً ہم نے اپنے پىغمبروں کو کھلى دلىلىں دے کر بھىجا اور ان کے ساتھ کتاب اور مىزان (ترازو) نازل فرماىا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہىں۔) خودقرآن نے اپنے بارے مىں کہا ہے کہ ىہ عدل و قسط کا بىان ہے۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ (اور تمھارے رب کا کلام سچائى اور انصاف مىں کامل ہے)۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا عمل اور ان کى پالىسى ہى نہىں بلکہ ان کا قول اور ان کا بىانىہ بھى عدل پر مبنى ہونا چاہىے۔۔ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ( اور جب تم بولو تو عدل کى بات بولو، خواہ کوئى تمھارا قرابت دار ہى ہو) قرآن نے خاص طور پر تاکىد کى ہے کہ عزىز و اقارب کى محبت، امىر غرىب کے تعصبات، اور نفس کى خواہش کوئى چىز بھى عدل کے راستے مىں رکاوٹ نہ بننے پائے۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا (اے لوگو جو اىمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھارى گواہى کى زد خود تمھارى اپنى ذات پر ىا تمھارے والدىن اور رشتہ داروں پر ہى کىوں نہ پڑتى ہو۔ فرىقِ معاملہ خواہ مال دار ہو ىا غرىب، اللہ تم سے زىادہ ان کا خىر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنى خواہش نفس کى پىروى مىں عدل سے باز نہ رہو۔ ) ہمارے مزاج اور ہمارى کم زورىوں کو محسوس کرتے ہوئے قرآن نے ىہ تنبىہ بھى ضرورى سمجھى ہے کہ کسى قوم کى دشمنى بھى عدل سے نہ پھىرنے نہ پائے۔ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔
حضرت عىسى علىہ السلام کى آمد اور اس کے بعد ان کى قىادت مىں دنىا مىں جو تبدىلى آئے گى وہ ہمارے لٹرىچر مىں آئىڈىل تبدىلى کا وژن ہے۔ اس کے بارے مىں صحىح حدىث مىں آىا ہے۔ ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا (قسم ہے اس ذات کى جس کے ہاتھ مىں مىرى جان ہے، عنقرىب تمھارے درمىان ابن مرىم انصاف پسند حاکم بن کر نازل ہوں گے) اور ىہ بھى کہا گىا کہ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ (مال کى اىسى افراط ہوگى کہ کوئى لىنے والا نہىں ہوگا)
ىہى وجہ ہے کہ ہمارے علما نے عدل کو اسلامى شرىعت کا مقصد اور دنىا مىں اسلام کے وژن کا اہم ترىن عنوان قراردىا ہے۔ ابن قىم اسلامى شرىعت کے بارے مىں فرماتے ہىں: مَقصُودُہُ اِقامة ُالعدلِ بینَ عِبادہِ وقیامُ النَّاسِ بِالقِسط۔( اسلامى شرىعت کا مقصد ىا آبجىکٹىو، انسانوں کے درمىان عدل و قسط کا قىا م ہے)۔
دوستو، ہمارے علمائے کرام نے اسلامى شرىعت کے مقاصد بتائے ہىں۔ اسلام صرف اُن مقاصد کا نام نہىں ہے بلکہ مقاصد کے حصول کے لىے جو احکام اللہ نے بىان کىے ہىں وہ بھى لازم ہىں۔ لىکن سىاست مىں اگر اُن تمام احکام کا فورى نفاذ ممکن نہ ہو تو ہمارے علما نے لکھا ہے کہ اس صورت مىں اىسى کوشش ہونى چاہىے کہ جس طرح بھى ہو اسلامى شرىعت کے مقاصد کى طرف ہم بڑھ سکىں۔ىعنى مثلاً امن و امان قائم رہے، ہر اىک کے ساتھ عدل ہو، وسائل کى منصفانہ تقسىم ہو، عوام کى بہبود ہو اور ہر اىک کى بنىادى ضرورتوں کى تکمىل ہو۔ السیاسة ُما كانَ من الافعالِ یَكونُ الناسُ معهُ اَقربَ الِى الصَّلاحِ وأبعد َعنِ الفسادِ وإن لم یَشرعه ُالرسولُ ﷺ–ولا نَزَل به وحیٌ (سىاست وہ عمل ہے جس کے ہوتے عوام فلاح و خىر سے قرىب تر اور شر و فساد سے بعىد تر ہوجائىں اگرچہ اس عمل کى تعلىم رسول نے دى ہو نہ ہى اس کا ذکر قرآن مىں آىا ہو۔)
دوستو، ىہ بات تحرىک اسلامى اول روز سے کہتى آرہى ہے۔خطبہ مدراس مولانا مودودى کا مشہور خطبہ ہے جس مىں انھوں نے تقسىم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے لىے اىک پروگرام تجوىز کىا تھا۔ اس مىں مولانا فرماتے ہىں:
‘‘ہندو (فرقہ پرستى) کا مقابلہ اگر آپ مسلم قوم پرستى سے کرنا چاہىں گے تو ىہ غلطى ہوگى۔اىسى چىزوں سے ہندو قومىت کو غذا ملے گى۔ ہندوؤں مىں آپ کو ‘مسلمانوں کے مطالبات’ کے بجائے ‘اسلام کے مطالبات’ لے کر کھڑے ہونے کى ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندوستانى مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائىں تو ان شاء اللہ صورت حال بدل جائے گى اور آج کے مسلمان آئندہ نسلوں کے لىے بہتر حالات پىدا کرنے مىں کام ىاب ہوجائىں گے۔ہندوؤں مىں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کررہے ہىں، اىک وقت آئے گا کہ وہ خود اس صورت حال سے بے زار ہوجائىں گے۔ ’’
اسى وجہ سے مىں عرض کرتا ہوں کہ مسلمان، خاص طور پر اسلامى تحرىک سے وابستہ مسلمان کبھى خود غرض اور مفاد پرست نہىں ہوسکتے کہ صرف اپنے مسائل ان کى توجہات کا مرکز بنىں۔ ان کى ىہ ذمہ دارى ہے کہ وہ جس معاشرے مىں رہ رہے ہىں اس کو تباہى کے راستے پر جانے نہ دىں۔ہم رحمان و رحىم پروردگار کے بندے ہىں۔ دىن رحمت کے ماننے والے ہىں۔ رحمۃ للعالمىن ﷺ کے امتى ہىں۔ ہمىں اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں کے لىے رحمت بننا ہے۔ قربانىوں کا نذرانہ دے کر اس معاشرے کو، ىہاں کے تمام انسانوں کو بچا نا ہے۔ ان سے سچى خىر خواہى ہى ہمارا مقصد و نصب العىن ہونا چاہىے۔ہمارى کوشش ہونى چاہىے کہ ہم ہداىت کى روشنى سے انھىں منور کرىں۔ ملک کا ہر مسئلہ ہمارے دم سے حل ہو۔
مکّہ مىں رسول اللہ ﷺ نے مظلوم مسلمانوں کى دادرسى کى بھى کوشش کى۔اسلام قبول کرنے والے غلاموں کو آزاد بھى کراىا۔ نظام اخوت کے ذرىعے غرىب و پرىشان حال مسلمانوں کى مدد بھى کى۔ ہجرت حبشہ کا انتظام بھى کىا۔ مدىنہ منورہ مىں بھى دھوکے باز ىہودى قبائل کى چىرہ دستىوں سے ان کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کىے۔ لىکن آپ کى جدوجہد مىں ىہ عنصر اىک ذىلى و ثانوى عنصر کے طور پر ىا اصل مقصد کى طرف پىش قدمى کى اىک ضرورت کے طور پر شامل تھا۔ اصل مقصد ىا آپ کى جدوجہد کا اصل عنوان تو لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد ( اللہ کے بندوں کو دوسرے انسانوں کى غلامى سے نجات دلانا اور ان کے رب کى غلامى مىں لے آنا) تھا۔ آپ کا ہدف تو ىہ صورت حال پىدا کرنا تھا کہ صنعا سے حضر موت تک اکىلى سفر کرنے والى عورت کو کسى کا خوف نہ ہو۔ آزادى، امن و امان اور عدل و انصاف کى ىہ صورت حال کسى مخصوص نسلى گروہ ىا کسى شناخت کے لىے مطلوب نہىں تھى سارے انسانوں کے لىے مطلو ب تھى۔
آج امرىکہ و ىورپ سمىت سارى دنىا مىں انسانى آبادىاں طرح طرح کے مسائل کى شکار ہىں۔ تمام سرماىہ دار معاشروں مىں معاشى نابرابرى عروج کو پہنچ چکى ہے۔ بے پناہ دولت پىدا ہورہى ہے لىکن غرىبى اور بھک مرى مىں کوئى کمى نہىں آرہى ہے۔وسائل پر چند لوگ قابض ہوتے جارہے ہىں۔ ہوا اور پانى زہر سے بھر چکے ہىں اور بنى نوع انسان کا وجود خطرے مىں ہے۔ نسل پرستى اور جارح قوم پرستى نے جگہ جگہ انسانوں کو تقسىم کررکھا ہے اور لاکھوں انسان طرح طرح کے مظالم کے شکار ہىں۔ فرانسىسى مصنف پىئر روسن وىلو (Pierre Rosanvallon)کى کتاب The Century of Populismحالىہ دنوں مىں بہت مشہور ہوئى۔ اس نے بہت صحىح کہا ہے کہ اس وقت جمہورىت کو خطرہ ڈکٹىٹرشپ سے کہىں زىادہ پاپولزم سے ہے۔ گذشتہ دہوں مىں عالمى سىاست نے اس طرح کروٹ لى ہے کہ متعدد ملکوں مىں اىسے چرب زبان مکار سىاست دانوں کو غلبہ حاصل ہو گىا جو پرفرىب لفاظى (rhetorics) کے ذرىعے تىز رفتار عوامى مقبولىت حاصل کرتے ہىں، عوامىت پسند (populist) نعروں اور اقدامات کى افىم عوام کو پلاتے ہىں، اپنے سحر کے ذرىعے ان کے شعور کو مفلوج کردىتے ہىں اور پھر ان کے مالک بن کر اُن کے سارے بنىادى حقوق کے درپے ہوجاتے اور ظلم واستحصال کا بازار گرم کرتے ہىں۔ پاپولزم کا ىہ مرض جمہورىت ہى کے بطن سے پىدا ہوتا ہے اور جمہورىت اور جمہورى قدروں کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔ اس کے نتىجے مىں وقتى استبداد ہى کو فروغ نہىں ملتا بلکہ فسطائىت، نسل پرستى، فرقہ پرستى، اکثرىت پرستى جىسى مہلک آدم خور بىمارىاں جنم لىتى ہىں۔ اس کا مشاہدہ اس وقت دنىا کے متعدد ملکوں مىں کىا جاسکتا ہے۔اىسے دسىوں مسائل ہىں جنھوں نے انسانوں کى زندگى اجىرن کر رکھى ہے۔
محترم بزرگو اور دوستو، اسلام کى تعلىمات ان سب مسائل کا متوازن حل پىش کرتى ہىں۔ ىہ اسلامى تحرىکوں کى ذمےدارى ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں مىں اسلام کى تعلىمات کى روشنى مىں پائىدار عدل کے ٹھوس فارمولے اور برىلىنٹ آئىڈىاز کے ساتھ آگے بڑھىں۔ نہ ہمارى جدوجہد صرف اپنے آبائى ملکوں کے مسائل تک محدود رہے اور نہ اسلامى عقائد اور بنىادى اخلاقى تعلىمات کى دعوت تک محدود رہے۔ اگر مسلمان ملکوں مىں اسلامى نظام ىا مکمل دىن کا قىام اسلامى تحرىکوں کا نصب العىن ہے تو مسلم اقلىتى ملکوں مىں وہ اىسى پالىسىوں کے فروغ کے لىے کام کرسکتے ہىں اور اىسا ڈسکورس کھڑا کرسکتے ہىں جس سے عدل و انصاف کى طرف پىش رفت ممکن ہوسکے۔ ىہ ہمارے دىن اور ہمارے اصولوں کا بھى تقاضا ہے اور اقلىت مىں ہونے کى حىثىت سے اپنے ملکوں مىں بہتر مستقبل اور باعزت زندگى کا راستہ بھى ىہى ہے کہ مسلمان اپنے خول سے نکلىں اور پورے ملک اور ملک کے تمام عوام کى دنىا و آخرت کى بھلائى کے لىے اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کى شناخت، عام دھارے سے کٹى ہوئى، نامعلوم رواىات اور انجان قدروں کى حامل اىک اجنبى قوم کى نہ رہے بلکہ ملک کے تمام انسانوں کى بھلائى اور ان کے فوز و فلاح کے علم بردار اىک متحرک، فعال اور درد مند گروہ کى بنے۔ ىعنى ہمىں عدل و قسط کا اس طرح علم بردار بن جانا چاہىے کہ عدل و قسط ہمارے اجتماعى وجود کا اہم ترىن حوالہ، ہمارى سىاست کا اصل عنوان اور ہمارى شناخت کا نماىاں ترىن جز بن جائے۔
اللہ تعالىٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے ملکوں مىں اسلام کے مقاصد کے لىے جدوجہد کا حق ادا کرنے کى توفىق بخشے۔ درست راستے کى طرف ہمارى رہ نمائى فرمائے اور اس راستے پر چلنے کى ہمت، حوصلہ، طاقت اور توفىق عطا کرے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2024