کونوا قوامین بالقسط اقلیتی معاشروں میں اقامت دین کی راہ

امیر جماعت اسلامی ہند، جناب سید سعادت اللہ حسینی نے اسلامک سرکل نارتھ امریکہ کی دعوت پر ان کے سالانہ کنونشن سے آن لائن خطاب کیا تھا۔ اس خطاب کا ترجمہ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں مغربی ملکوں میں کام کررہی اسلامی تحریکوں کے لیے بعض اہم مشورے ہیں جو ہمارے ملک کے حالات سے بھی مناسبت رکھتے ہیں۔

محترم و مکرم ڈاکٹر محسن انصاری صاحب، صدر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ، دیگر مہما نان گرامی اور معزز سامعین، خواتین و حضرات،السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ میرے لیے بڑی مسرت اور بڑے اعزا ز کی بات ہے کہ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے اس کنونشن میں آن لائن ہی سہی لیکن جڑنے کا موقع مل رہا ہے۔ اکنا کا یہ سالانہ کنونشن اب دنیا بھر میں اسلام سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دل چسپی کا باعث بن چکا ہے۔ جس بڑے پیمانے پر اس کنونشن میں مرد، عورتیں، نوجوان اور بچے شریک ہوتے ہیں اور اسلام کے کاز کے سلسلے میں جس جوش و خروش اور حوصلہ و امنگ کا یہاں اظہار ہوتا ہے یقیناً ہم جیسے لوگوں کو اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کنونشن کو اپنے مقاصد میں کام یابی عطا فرمائے اور آپ سب کا یہاں جمع ہونا، انسانیت کے لیے اور آپ کے ملک کے لیے خیر کا باعث ہو۔ آمین۔

محترم دوستو، جو لوگ امریکہ میں دعوت اسلامی کا کام کررہے ہیں وہ نہایت خوش قسمت لوگ ہیں۔ میں نے حال ہی میں یہی بات لندن کے سفر میں وہاں کے مسلمانوں سے بھی کہی تھی کہ آپ کو ایک نئی قوم اور ایک نئے بر اعظم میں اسلام کے تعارف، اس کی دعوت اور اسلام کی سفارت کے لیے اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں چند ہی نسلوں کو یہ عظیم اعزا ز حاصل ہوا ہے۔ایک تو خود صحابہ کرامؓ تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے بڑے علاقے میں اسلام کی دعوت کا کام لیا۔ صدیوں بعد، تاجروں کی اور صوفیا کی جماعتیں تھیں جنھوں نے برصغیر ہند، انڈونیشیا اور ملیشیا وغیرہ میں اسلام کی نمائندگی کی۔ اب گذشتہ صدی سے اللہ تعالیٰ نے ایک نئی زمین پر، مغربی دنیا میں اسلام کے تعارف کا موقع پیدا کیا ہے۔ اور یہ عظیم سعادت آپ حضرات کے نصیب میں آرہی ہے کہ آپ یہاں اسلام کے سفیر بنیں۔ اس لیے آپ اسلامی تاریخ کے خوش قسمت ترین گروہوں میں سے ایک ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اس مقام و منصب کو سمجھیں اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی کی فکر کریں۔

اللہ کے دین کا قیام یعنی اقامت دین ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ فریضہ ہمیں اس ملک میں انجام دینا ہے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم جس ملک میں ہیں، اسے اپنا ملک سمجھیں۔ یہاں کے مسائل میں دل چسپی لیں۔ یہاں کے سماج سے متعلق ہوں۔ اپنے آبائی ملک سے کہیں زیادہ، اس ملک سے اور یہاں کے عوام سے ہماری دل چسپی ہو۔اللہ کے دین کے قیام کے لیے ہمیں دعوت دین کا کام بھی کرنا ہے یعنی یہاں رہنے والے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ اسلام کی قولی شہادت کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع سے اسلام کی عملی شہادت کا بھی فریضہ انجام دینا ہے۔ مسلمانوں کی اصلاح کرنی ہے اور انھیں اور ان کے معاشرے کو اسلام کا عملی نمونہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کی سماجی قوت بڑھانی ہے۔انسانوں کی خدمت کے ذریعے ان کے دل بھی جیتنے ہیں۔ یہ سب کام ضروری ہیں۔ لیکن آج میرا عنوان ایک خاص کام سے متعلق ہے۔ یہ کام اقلیتی معاشروں میں اسلام کی نمائندگی کے لیے نہایت ضروری کام ہے۔ یعنی عدل و قسط کے لیے جدوجہد کا کام، عدل و قسط کی سیاست کا کام۔ میں اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔

محترم سامعین، ٹھوس سیاسی پروگرام کے بغیر کسی اسلامی تحریک کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اقلیتی ممالک میں بھی اسلامی تحریکوں کے پاس ایک سیاسی پروگرام اور سیاسی وژن ہونا چاہیے۔ لیکن وہ سیاسی پروگرام کیا ہو؟ وہ سیاسی پروگرام یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ صرف اپنے آبائی ملک اور وہاں کے مسائل سے دل چسپی رکھیں۔ بھارت سے آئے ہوئے مسلمان صرف ہندوستان کے احوال، ہندوستانی مسلمانوں کے احوال اور ان کے مسائل میں دل چسپی لیں اور یہی ان کی گفتگو کا اور ان کی فکر کا موضوع ہو۔ مختلف مسلم ملکوں سے آنے والے مسلمان صرف اپنے اپنے ملکوں کی سیاست کو اپنی دل چسپی کا موضوع بنائیں۔

اسی طرح اقلیتی ممالک میں اسلامی تحریک کا سیاسی پروگرام صرف مہاجرین یا نقل مکانی کرنے والوں کے مسائل پر مبنی پروگرام بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کا دائرہ صرف امریکی مسلمانوں کے ایشوز تک بھی محدود نہیں ہوسکتا۔ ہم یہ کریں گے تو یہ اسلام کی صحیح شہادت نہیں ہوگی۔اس کے نتیجے میں اسلام کا پیغام آفاقی عالمگیر پیغام نہیں رہے گا بلکہ کسی خاص کمیونٹی کا مفاد سمجھا جائے گا۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے ملکوں میں عدل کے علم بردار بن کر ابھریں۔ عدل و انصاف صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، تمام انسانوں کے لیے۔ ہر ایک کو عدل ملے، یہی ہماری سیاست کا مقصد اورہمارے سیاسی بیانیہ کا سب سے اہم اور نمایاں عنوان بن جائے۔

محترم سامعین، صرف اپنے مسائل تک محدود رہنا اور اپنے مسائل ہی کو اپنا مطمح نظر بنانا نسلی اور قومی گروہوں یا فرقوں کا کام ہوتا ہے یا طبقاتی جدوجہد میں کسی طبقے کا انداز سیاست ہوتا ہے۔مسلمان ان میں سے کچھ بھی نہیں ہیں۔ مسلمان کسی نسل کا نام نہیں ہے۔یہ کسی لسانی گروہ کا نام نہیں ہے۔ کوئی جنس بھی نہیں ہے۔ کسی خاص رنگ، شکل و شباہت یا ذات کا نام بھی نہیں ہے۔ مسلمان کوئی طبقہ بھی نہیں ہیں۔ ان کی دل چسپی کبھی اپنی شناخت اور اس سے متعلق مسائل تک محدود نہیں ہوسکتی۔ وہ عقیدہ، اصول اور نظریات کی بنیاد پر بننے والا گروہ ہیں۔ اس گروہ سے وابستگی عقائد و نظریات کی بنیاد پر ہے اور ہر رنگ، نسل، ذات، قوم، طبقہ، جنس اور لسانی گروہ کے لیے عام ہے۔ وہ خیرأمت  ہیں، یعنی ان کی ذمے داری خود تک محدود نہیں ہوسکتی۔ وہ أخرجت للناس ہیں، سارے انسانوں کے لیے ذمے دار ہیں۔ شهداء علی الناس ہیں۔ ان سب انسانوں پر انھیں حق کی گواہی دینی ہے۔ وہ أمت وسط ہیں، لوگوں کو ہر طرح کی بے اعتدالی سے بچانے کا کام ان کے سپرد ہے۔ ان كی بنائے اجتماع  ملة أبیكم إبراهیم ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایک آفاقی اور ہمہ گیر توحیدی وژن کے حامل ہیں۔ وہ قوامین بالقسط ہیں اور اللہ کے ہر بندے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ا ن کا مشن ہے۔

خواتین و حضرات، قرآن مجید میں عدل و قسط کا ذکر اس قدر کثرت سے اور اتنے پیراؤں میں آیا ہے کہ اس کو سامنے رکھا جائے تو عدل، اسلامی شریعت کا عنوان اور اس کی نہایت اہم خصوصیت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے رسولوں کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔ (یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔) خودقرآن نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ یہ عدل و قسط کا بیان ہے۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ (اور تمھارے رب کا کلام سچائی اور انصاف میں کامل ہے)۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا عمل اور ان کی پالیسی ہی نہیں بلکہ ان کا قول اور ان کا بیانیہ بھی عدل پر مبنی ہونا چاہیے۔۔ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَیٰ ( اور جب تم بولو تو عدل کی بات بولو، خواہ کوئی تمھارا قرابت دار ہی ہو) قرآن نے خاص طور پر تاکید کی ہے کہ عزیز و اقارب کی محبت، امیر غریب کے تعصبات، اور نفس کی خواہش کوئی چیز بھی عدل کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے پائے۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَی أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَی بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَی أَنْ تَعْدِلُوا (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ ) ہمارے مزاج اور ہماری کم زوریوں کو محسوس کرتے ہوئے قرآن نے یہ تنبیہ بھی ضروری سمجھی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی عدل سے نہ پھیرنے نہ پائے۔ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد اور اس کے بعد ان کی قیادت میں دنیا میں جو تبدیلی آئے گی وہ ہمارے لٹریچر میں آئیڈیل تبدیلی کا وژن ہے۔ اس کے بارے میں صحیح حدیث میں آیا ہے۔ ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب تمھارے درمیان ابن مریم انصاف پسند حاکم بن کر نازل ہوں گے) اور یہ بھی کہا گیا کہ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ (مال کی ایسی افراط ہوگی کہ کوئی لینے والا نہیں ہوگا)

یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما نے عدل کو اسلامی شریعت کا مقصد اور دنیا میں اسلام کے وژن کا اہم ترین عنوان قراردیا ہے۔ ابن قیم اسلامی شریعت کے بارے میں فرماتے ہیں: مَقصُودُہُ اِقامة ُالعدلِ بینَ عِبادہِ وقیامُ النَّاسِ بِالقِسط۔( اسلامی شریعت کا مقصد یا آبجیکٹیو، انسانوں کے درمیان عدل و قسط کا قیا م ہے)۔

دوستو، ہمارے علمائے کرام نے اسلامی شریعت کے مقاصد بتائے ہیں۔ اسلام صرف اُن مقاصد کا نام نہیں ہے بلکہ مقاصد کے حصول کے لیے جو احکام اللہ نے بیان کیے ہیں وہ بھی لازم ہیں۔ لیکن سیاست میں اگر اُن تمام احکام کا فوری نفاذ ممکن نہ ہو تو ہمارے علما نے لکھا ہے کہ اس صورت میں ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ جس طرح بھی ہو اسلامی شریعت کے مقاصد کی طرف ہم بڑھ سکیں۔یعنی مثلاً امن و امان قائم رہے، ہر ایک کے ساتھ عدل ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، عوام کی بہبود ہو اور ہر ایک کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہو۔ السیاسة ُما كانَ من الافعالِ یَكونُ الناسُ معهُ اَقربَ الِی الصَّلاحِ وأبعد َعنِ الفسادِ وإن لم یَشرعه ُالرسولُ ﷺ–ولا نَزَل به وحیٌ (سیاست وہ عمل ہے جس کے ہوتے عوام فلاح و خیر سے قریب تر اور شر و فساد سے بعید تر ہوجائیں اگرچہ اس عمل کی تعلیم رسول نے دی ہو نہ ہی اس کا ذکر قرآن میں آیا ہو۔)

دوستو، یہ بات تحریک اسلامی اول روز سے کہتی آرہی ہے۔خطبہ مدراس مولانا مودودی کا مشہور خطبہ ہے جس میں انھوں نے تقسیم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک پروگرام تجویز کیا تھا۔ اس میں مولانا فرماتے ہیں:

‘‘ہندو (فرقہ پرستی) کا مقابلہ اگر آپ مسلم قوم پرستی سے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوؤں میں آپ کو ‘مسلمانوں کے مطالبات’ کے بجائے ‘اسلام کے مطالبات’ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندوستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورت حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آئندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ہندوؤں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کررہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اس صورت حال سے بے زار ہوجائیں گے۔ ’’

اسی وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ مسلمان، خاص طور پر اسلامی تحریک سے وابستہ مسلمان کبھی خود غرض اور مفاد پرست نہیں ہوسکتے کہ صرف اپنے مسائل ان کی توجہات کا مرکز بنیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کو تباہی کے راستے پر جانے نہ دیں۔ہم رحمان و رحیم پروردگار کے بندے ہیں۔ دین رحمت کے ماننے والے ہیں۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کے امتی ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں کے لیے رحمت بننا ہے۔ قربانیوں کا نذرانہ دے کر اس معاشرے کو، یہاں کے تمام انسانوں کو بچا نا ہے۔ ان سے سچی خیر خواہی ہی ہمارا مقصد و نصب العین ہونا چاہیے۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ہدایت کی روشنی سے انھیں منور کریں۔ ملک کا ہر مسئلہ ہمارے دم سے حل ہو۔

مکّہ میں رسول اللہ ﷺ نے مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کی بھی کوشش کی۔اسلام قبول کرنے والے غلاموں کو آزاد بھی کرایا۔ نظام اخوت کے ذریعے غریب و پریشان حال مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ ہجرت حبشہ کا انتظام بھی کیا۔ مدینہ منورہ میں بھی دھوکے باز یہودی قبائل کی چیرہ دستیوں سے ان کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کیے۔ لیکن آپ کی جدوجہد میں یہ عنصر ایک ذیلی و ثانوی عنصر کے طور پر یا اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کی ایک ضرورت کے طور پر شامل تھا۔ اصل مقصد یا آپ کی جدوجہد کا اصل عنوان تو لنخرج العباد من عبادة العباد إلی عبادة رب العباد ( اللہ کے بندوں کو دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اور ان کے رب کی غلامی میں لے آنا) تھا۔ آپ کا ہدف تو یہ صورت حال پیدا کرنا تھا کہ صنعا سے حضر موت تک اکیلی سفر کرنے والی عورت کو کسی کا خوف نہ ہو۔ آزادی، امن و امان اور عدل و انصاف کی یہ صورت حال کسی مخصوص نسلی گروہ یا کسی شناخت کے لیے مطلوب نہیں تھی سارے انسانوں کے لیے مطلو ب تھی۔

آج امریکہ و یورپ سمیت ساری دنیا میں انسانی آبادیاں طرح طرح کے مسائل کی شکار ہیں۔ تمام سرمایہ دار معاشروں میں معاشی نابرابری عروج کو پہنچ چکی ہے۔ بے پناہ دولت پیدا ہورہی ہے لیکن غریبی اور بھک مری میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔وسائل پر چند لوگ قابض ہوتے جارہے ہیں۔ ہوا اور پانی زہر سے بھر چکے ہیں اور بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں ہے۔ نسل پرستی اور جارح قوم پرستی نے جگہ جگہ انسانوں کو تقسیم کررکھا ہے اور لاکھوں انسان طرح طرح کے مظالم کے شکار ہیں۔ فرانسیسی مصنف پیئر روسن ویلو (Pierre Rosanvallon)کی کتاب The Century of Populismحالیہ دنوں میں بہت مشہور ہوئی۔ اس نے بہت صحیح کہا ہے کہ اس وقت جمہوریت کو خطرہ ڈکٹیٹرشپ سے کہیں زیادہ پاپولزم سے ہے۔ گذشتہ دہوں میں عالمی سیاست نے اس طرح کروٹ لی ہے کہ متعدد ملکوں میں ایسے چرب زبان مکار سیاست دانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا جو پرفریب لفاظی (rhetorics) کے ذریعے تیز رفتار عوامی مقبولیت حاصل کرتے ہیں، عوامیت پسند (populist) نعروں اور اقدامات کی افیم عوام کو پلاتے ہیں، اپنے سحر کے ذریعے ان کے شعور کو مفلوج کردیتے ہیں اور پھر ان کے مالک بن کر اُن کے سارے بنیادی حقوق کے درپے ہوجاتے اور ظلم واستحصال کا بازار گرم کرتے ہیں۔ پاپولزم کا یہ مرض جمہوریت ہی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اور جمہوریت اور جمہوری قدروں کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وقتی استبداد ہی کو فروغ نہیں ملتا بلکہ فسطائیت، نسل پرستی، فرقہ پرستی، اکثریت پرستی جیسی مہلک آدم خور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس کا مشاہدہ اس وقت دنیا کے متعدد ملکوں میں کیا جاسکتا ہے۔ایسے دسیوں مسائل ہیں جنھوں نے انسانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

محترم بزرگو اور دوستو، اسلام کی تعلیمات ان سب مسائل کا متوازن حل پیش کرتی ہیں۔ یہ اسلامی تحریکوں کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں میں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں پائیدار عدل کے ٹھوس فارمولے اور بریلینٹ آئیڈیاز کے ساتھ آگے بڑھیں۔ نہ ہماری جدوجہد صرف اپنے آبائی ملکوں کے مسائل تک محدود رہے اور نہ اسلامی عقائد اور بنیادی اخلاقی تعلیمات کی دعوت تک محدود رہے۔ اگر مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام یا مکمل دین کا قیام اسلامی تحریکوں کا نصب العین ہے تو مسلم اقلیتی ملکوں میں وہ ایسی پالیسیوں کے فروغ کے لیے کام کرسکتے ہیں اور ایسا ڈسکورس کھڑا کرسکتے ہیں جس سے عدل و انصاف کی طرف پیش رفت ممکن ہوسکے۔ یہ ہمارے دین اور ہمارے اصولوں کا بھی تقاضا ہے اور اقلیت  میں ہونے کی حیثیت سے اپنے ملکوں میں بہتر مستقبل اور باعزت زندگی کا راستہ بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنے خول سے نکلیں اور پورے ملک اور ملک کے تمام عوام کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کی شناخت، عام دھارے سے کٹی ہوئی، نامعلوم روایات اور انجان قدروں کی حامل ایک اجنبی قوم کی نہ رہے بلکہ ملک کے تمام انسانوں کی بھلائی اور ان کے فوز و فلاح کے علم بردار ایک متحرک، فعال اور درد مند گروہ کی بنے۔ یعنی ہمیں عدل و قسط کا اس طرح علم بردار بن جانا چاہیے کہ عدل و قسط ہمارے اجتماعی وجود کا اہم ترین حوالہ، ہماری سیاست کا اصل عنوان اور ہماری شناخت کا نمایاں ترین جز بن جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے ملکوں میں اسلام کے مقاصد کے لیے جدوجہد کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ درست راستے کی طرف ہماری رہ نمائی فرمائے اور اس راستے پر چلنے کی ہمت، حوصلہ، طاقت اور توفیق عطا کرے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2024

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223