کچھ اسلامی ممالک کا موجودہ معمول
متعدد اسلامی ممالک کے معاصر شرعی قوانین میں یہ رائے اختیار کی گئی ہے کہ کفاءت لزوم نکاح کے لیے شرط ہے، خلافت عثمانی کے عائلی قوانین ۱۹۱۷ء میں یہی بات درج ہے[1]، یہ قانون ابھی بھی لبنان میں اہل سنت کے لیے نافذ العمل ہیں۔ اس کے دفعہ ۴۵ میں لکھا گیا ہے کہ “نکاح کے لزوم کے لیے شرط ہے کہ مرد، مال اور پیشہ جیسے امور میں عورت کے کفو ہو، مال میں کفو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر مہر کی فوری ادائیگی اور بیوی کا خرچ اٹھانے پر قدرت رکھتا ہو۔ پیشہ میں کفاءت یہ ہے کہ شوہر کی تجارت یا خدمت بیوی کے ولی کی تجارت یا خدمت کے مانند باعزت ہو”۔ عدم کفاءت کی صورت میں بیوی یا ولی کے لیے فسخ نکاح طلب کرنے کے حق پر گفتگو اگلی دفعات یعنی (۴۷-۴۸-۴۹) میں کی گئی ہے۔
شام کے عائلی قانون ۱۹۵۳[2] میں کہا گیا ہے کہ : “شادی کے لزوم کے لیے یہ شرط ہے کہ مرد عورت کا کفو ہو” (دفعہ: ۲۶)، “اگر بالغ خاتون اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کر لے تو شوہر کے کفو ہونے کی صورت میں عقد لازم ہوگا، ورنہ ولی کو فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق ہوگا” (دفعہ: ۲۷)، “کفاءت میں اعتبار علاقہ کے عرف کا ہوگا” (دفعہ: ۲۸)، “حق کفاءت بیوی اور ولی کا حق ہے” (دفعہ: ۲۹)، “عورت حاملہ ہو جائے تو عدم کفاءت کی بنیاد پر حق فسخ ساقط ہو جاتا ہے” (دفعہ: ۳۰)
مراکش کے عائلی قوانین (قانون نمبر: ۷۰۰۳، ۲۰۰۴ء) میں کفاءت کا کوئی تذکرہ نکاح کی صحت یا لزوم کی شرط کے طور پر نہیں ہے، اس قانون میں بس ان عیوب کے تذکرہ پر اکتفا کیا گیا ہے جن کی بنیاد پر زوجین کو ازدواجی رشتہ ختم کیے جانے کے مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے (دفعہ: ۱۰۷)م غلامی کے خاتمہ کے بعد اب آزادی میں کفاءت کی شرط کا کوئی اعتبار حاصل نہیں بچا، دین و دینداری میں کفاءت کو بظاہر زوجین کی رضا مندی پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس کی بابت کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے۔
یمن کے عائلی قانون میں لکھا گیا ہے[3]، “دین و اخلاق میں کفاءت معتبر ہے، اس کی بنیاد باہم رضامندی پر ہے، اور کفاءت نہ پائے جانے پر زوجین کو فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق ہے”، (دفعہ: ۴۶)۔
قطر کے عائلی قانون[4] میں کہا گیا ہے کہ “کفاءت شادی کے لزوم کے لیے شرط ہے، کفاءت کے لیے عقد کے وقت دینی و اخلاقی حالت میں صلاح کا اعتبار ہوگا” (دفعہ: ۳۳)، “یہ لڑکی اور اس کے ولی کا مخصوص حق ہے” (دفعہ: 33)، زوجہ کے حامل ہو جانے یا شادی پر ایک سال گزر جانے کی صورت میں فسخ نکاح کے مطالبہ کا یہ حق ختم ہو جائے گا” (دفعہ: ۳۷)۔
مسئلہ کفاءت کی بابت ہماری رائے
اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کی روشنی میں نکاح میں کفاءت کی بابت ہمارے رائے کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے:
عقد نکاح کی صحت یا اس کے لزوم کے لیے کفاءت کے شرط ہونے کی کوئی دلیل قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اس سلسلہ کی اکثر روایات درجہ صحت تک نہیں پہنچی ہیں۔ اور جو صحیح روایات ہیں ان سے زیر بحث مسئلہ پر استدلال بہت کم زور ہے۔
اس مسئلہ کی بابت وارد صحیح احادیث کفاءت کو دین، اخلاق اور آزادی تک محدود رکھتی ہیں، اب چوں کہ غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے اس لیے اب نکاح کے سلسلے میں کفاءت کا اعتبار صرف دین و اخلاق کے پہلو سے ہوگا، مالکیہ کا مسلک یہی ہے، اور اکثر محدثین اسی جانب رجحان رکھتے ہیں، جن میں سب سے پہلا نام امام بخاریؒ کا ہے، جنھوں نے ایک باب کا عنوان یوں لگایا ہے: “باب الاکفاء فی الدین” (دین کے اعتبار سے کفو) اسی طرح دیگر محدثین کی کتابوں کے عناوین ان کا رجحان اسی جانب بتاتے ہیں، صحیح مسلم کا ایک عنوان ہے “فی نکاح ذات الدین” (دین دار خاتون سے نکاح) سنن ترمذی کا عنوان ہے: “باب اذا جاءکم من ترضون دینہ فزوجوہ” (جب کسی ایسے شخص کا پیغام تمھارے پاس آئے جن کے دینی حال سے تم مطمئن ہو تو ان سے نکاح کر دو)، امام ابو داود نے عنوان قائم کیا ہے “باب ما یؤمر بہ من تزویج ذات الدین” “دین دار خاتون سے شادی کا حکم” امام ابن ماجہ کی کتاب کا ایک عنوان ہے “باب الاکفاء” (کفو کا بیان)، اس عنوان کے تحت جو احادیث درج کی گئی ہیں وہ سب کی سب اخلاق و دین سے ہی متعلق ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مسالک کے جمہور فقہا دین و اخلاق میں کفاءت کو معتبر مانتے ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ لیکن یہ تمام احادیث نکاح کے وقت دین و اخلاق میں کفاءت پر تو دلالت کرتی ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے جو عقد کی صحت یا اس کے لزوم کے لیے کفاءت کو شرط قرار دیتی ہو۔
قرآن و حدیث میں درج نقلی دلائل، عام مبادی، مقاصد شریعت اور نکاح و کفاءت سے متعلق نصوص نسب، مال یا پیشہ کے نکاح کی صحت اور اس کے لزوم کے لیے شرط نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں، اس سلسلے میں بعض فقہا نے ایسی آرا ظاہر کی ہیں جو شریعت کے عام مبادی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن کچھ آرا ایسی بھی ہیں جو شریعت کے عام مبادی کے خلاف ہیں۔
کچھ فقہا نے لکھا ہے کہ نسب، مال یا پیشہ میں کفاءت کو نکاح کی صحت اور اس کے لزوم کے لیے شرط جمہور نے مانا ہے، فقہا کی کتابوں میں عام طور پر پائی جانے والی یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ ان مسائل کی بابت ہر مسلک میں بہت اختلافات ہیں، اس سلسلے میں کسی بھی مسلک کے فقہا کو آپ ایک رائے پر متفق نہیں پائیں گے۔ امام احمدؒ سے اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں، اور صحیح قول عدم اشتراط کا ہے، امام شافعی سے ایک قول یہ مروی ہے کہ کفاءت کا اعتبار محض دین میں ہے، احناف میں بھی امام کرخی اور امام جصاص نے رائج رائے سے اختلاف کیا ہے، اور مالکیہ تو کفاءت کا معیار محض دین کو ہی مانتے ہیں۔
عقد نکاح کے لزوم کے لیے کفاءت کو شرط ماننے والے تمام فقہا اس کو اپنے زمانہ کے عرفوں سے مربوط مانتے ہیں، اس لیے کہ (صحیح نصوص کی عدم موجودگی میں) ان کی بنائے اجتہاد ازدواجی زندگی کے صحیح طور پر چلنے کی ان کی خواہش ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے زوجین کے درمیان کفاءت کے سلسلے میں عرفوں کی رعایت لازمی ہے، اسی لیے یہ فقہا کہتے ہیں: عرف اگر تبدیل ہو جائے اور نسب عرف میں بطور معیار کفاءت معتبر نہ رہے تو وہ کفاءت کی شرط نہیں بچے گا، اسی طرح مالی حالت کے کفاءت کے سلسلے میں معتبر ہونے کی بابت احناف میں اختلاف ہے کہ کیا صرف مہر کی ادائیگی پر قدرت کی شرط ہے یا مہر و نفقہ دونوں کی استطاعت شرط ہے، اس اختلاف کی بنیاد عرفوں میں اختلاف پر ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پیشے کی بابت کفاءت عرفوں کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے، کہ کوئی پیشہ کہیں حقیر سمجھا جاتا ہے اور کہیں نہیں۔
پوری دنیا میں آج عرف بہت بدل گئے ہیں، نسب بھی ماضی کی طرح خالص نہیں رہے، اور نسب پر فخر بھی اب کوئی اچھی چیز نہیں سمجھی جاتی، ماضی میں جن پیشوں کو حقیر سمجھا جاتا تھا اب لوگوں کا ان کی بابت نظریہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب ہر پیشہ انسان کے لیے باعزت سمجھا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو۔ اسلامی شعور کے عام ہونے سے عرفوں کی بڑی اصلاح ہوئی ہے۔ معاصر عرفوں نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی غیر مسلم ممالک میں اقلیتوں کی صورت میں رہتی ہے، ایسے مسلمان ان غیر مسلم معاشروں کے عرفوں سے متاثر ہوتے ہیں، بہت سے مسلمان مختلف شہریت رکھنے والوں میں شادیاں کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے کفاءت میں نسب کا اعتبار نہایت شاذ و نادر ہو گیا ہے۔
لہذا ہماری رائے یہ ہے کہ کفاءت کا اعتبار بس دین و اخلاق کے پہلو سے ہو۔
اس لیے کہ اس حد تک کفاءت پر تو تقریبًا اجماع ہے
پیچھے مذکور صحیح و صریح نصوص سے اس کی تائید ہوتی ہے
اسلام کے مبادی اور مقاصد شریعت سے بھی اس کی راہنمائی ملتی ہے
کفاءت کے لیے معیار قرار دیے گئے دیگر امور کے معتبر ہونے پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔
اور اس لیے کہ کفاءت میں نسب، پیشہ اور مال کے اعتبار کی بنیاد فقہا نے ایک عقلی دلیل ازدواجی زندگی کے بحسن و خوبی جاری رہنے کی خواہش پر رکھی ہے، اور اس کو انھوں نے عرفوں سے مربوط کیا ہے، اور آج یہ عرف تبدیل ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ہم “دین و اخلاق میں کفاءت” کو بھی بس شریعت کی نگاہ میں بہتر سمجھتے ہیں، اسے نکاح کے لزوم یا اس کی صحت کے لیے شرط باور نہیں کرتے ہیں، اس لیے کہ ہمارے نزدیک عقد نکاح کی صحت کے لیے لڑکی کی رضا مندی شرط ہے، اور اس کے ولی کی موافقت نکاح کے لزوم کے لیے شرط ہے، اور اس سے مطلوبہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے، اس لیے کہ لڑکی یا اس ولی کی رضامندی کفاءت پائے جانے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اس کی آگے ہم تشریح کریں گے۔ اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ اگر نکاح لڑکی کی مرضی کے خلاف ہوا ہو تو اسے نکاح کو کالعدم قرار دیے جانے کے مطالبہ کا حق حاصل ہے، اور اگر نکاح ولی کی قبل از عقد اجازت کے بغیر ہوا ہو تو کسی مشروع سبب کے پائے جانے پر ولی کو فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق حاصل ہے اور نکاح کو جاری رکھنے، اس کو باطل قرار دینے یا اسے فسخ کرنے کا فیصلہ قاضی کو کرنا ہوگا۔
یورپی ممالک میں ہونے والے نکاحوں میں کفاءت
یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں ہونے والے عقد نکاح کو ہم تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
اول: کسی مسلم ممالک کے شرعی قوانین کے مطابق انجام پانے والے عقد نکاح، ایسے نکاح میں کفاءت کا حکم اس ملک کے قوانین کے مطابق ہوگا، اس پر گفتگو کی ہمیں ضرورت نہیں۔
دوم: مسلمانوں میں رائج طریقہ پر ہونے والے نکاح، جو کسی شرعی یا غیر شرعی مرتب و مدون قانون کے تحت نہ ہوئے ہوں، انھیں عرفی نکاح کہتے ہیں، اگرچہ یوروپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ نے مسلمانوں کو ایسے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، اور ان کو ممنوع بتایا ہے، لیکن ہمارے نزدیک اگر کوئی عقد اس طرح کا ہو تو اس میں کفاءت (خاص طور میں دین و اخلاق میں کفاءت) کی حیثیت بس ایک ایسے امر مستحسن کی رہے گی، جس کی رعایت دونوں طرف کے لوگوں کو رکھنی چاہیے، تاکہ نکاح کے مقاصد حاصل ہو سکیں، کفاءت کو ہم شرط صحت یا شرط لزوم قرار نہیں دے سکتے، اس لیے کہ ان ممالک میں شرعی قاضی موجود نہیں ہوتا، جس کے پاس عدم کفاءت کی صورت میں فسخ نکاح کے لیے مطالبہ کیا جا سکے۔
سوم: وہ نکاح جو یوروپی قوانین کے تحت انجام پائیں، ہم سب جانتے ہیں کہ ان ممالک کے قوانین کی رو سے کفاءت نکاح کی صحت یا اس کے لزوم کی شرط نہیں ہے، لہذا اب بس یہی امکان بچتا ہے کہ طرفین نکاح کے لیے راضی ہوتے وقت کفاءت کی رعایت کر لیں۔
یوروپی مسلمانوں کی مخصوص صورت حال کے پیش نظر کفاءت سے متعلق تجویز کے لیے میں یہ تجویز کونسل کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اسے فیصلے کی شکل دے دے: “کسی متعین خاتون سے نکاح کے لیے مرد کا (وہ بھی بس دین و اخلاق کے اعتبار سے) کفو ہونا ایک مشورے کے قبیل کی چیز ہے جس کی رعایت شادی سے پہلے طرفین کو کرنی چاہیے، مالکیہ کے یہاں یہ نکاح کی صحت یا اس کے لزوم کی شرط نہیں ہے، عصر حاضر کے عرفوں اور غیر مسلم ممالک کے نافذ قوانین کی رعایت کرتے ہوئے کونسل اس رائے کو اختیار کرتی ہے، لیکن لڑکی اور اس کے گھر والوں کو اس امر کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتی ہے، تاکہ ازدواجی زندگی بخیر و خوبی جاری و ساری رہے، اور مقاصد شریعت حاصل ہو سکیں، جن میں اہم تر ایک مسلم خاندان کی تعمیر ہے” ۔
حوالہ جات
[1] قانون حقوق العائلۃ: المجلۃ القضائیۃ، مطبعۃ صادر، ص: ۳
[2] شرح قانون الأحوال الشخصیۃ: ڈاکٹر مصطفی سباعی، المکتبۃ الاسلامی، دمشق، طبع ہفتم، ۱/ ۱۴۰ اور آگے صفحات
[3] احکام الاسرۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ: ڈاکٹر علی احمد قلیصی، ۱/۵۹، مکتبۃ الجیل الجدید، صنعاء
[4] الاسرۃ فی التشریع الاسلامی، ڈاکٹر محمد دسوقی، ص ۱۴۵، دار الثقافۃ، دوحہ
مشمولہ: شمارہ مئی 2023