اسلام قبول کرنے والے ہر شخص کا مسلم معاشرے میں کسی قدر استقبال واکرام کیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر اس کے لیے تحسینی کلمات اور استقامت کی دعا بھی کی جاتی ہے۔ اسے درپیش فوری ضروریات کے اخراجات بھی خوش دلی سے برادشت کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ جوش وولولہ، استقبال واکرام وقت کے ساتھ سرد پڑجاتا ہے۔ بڑی تعداد ایسے مسلمانوں کی بھی ہے جو نو مسلموں کے تعلق سے یکسر غافل ہے۔ ان کے مسائل ومصائب سے اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور فرض سے قابل افسوس حد تک لاپروا یا ناواقف ہے۔
مسلمانوں میں اس حوالے سے دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو وقتی طور پر نومسلموں کے تئیں جوش و خروش کا اظہار کرتے ہیں اور انھیں درپیش ضروریات کی تکمیل میں حصہ لیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نومسلموں سے یکسر غافل ہیں۔ جنھیں نومسلموں کے درد وکرب کا ذرا بھی احساس اور شعور نہیں ہے۔ مسلم معاشرے کا ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو داعیانہ مزاج اور تڑپ کی وجہ سے ان کی مستقل ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اسی کا ثمرہ ہے کہ آج ہندوستان میں ان گنت نو مسلم مسلمانوں کی رفاقت میں امن وسکون کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
ہماری فکر مندی مذکورہ بالا دونوں ہی طبقوں سے متعلق ہے۔ ان کی ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے رویہ اور سلوک کی وجہ سے بسا اوقات نو مسلم اسلام اور مسلمانوں سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ ایک نومسلم قبول اسلام کے بعد اجنبی ماحول اور اجنبی لوگوں میں آتا ہے۔ مسلمانوں کا رہن سہن، بود باش اور خورد و نوش اس کے سابقہ ماحول اور خاندان سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ایسے میں اسے اس نئے ماحول اور خاندان میں اجنبیت محسوس ہونا فطری بات ہے۔ وہ اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا محسوس کرتا ہے۔ نئے ماحول اور مزاج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا اس کے لیے کسی قدر مشکل ہوتا ہے، ایسے میں اگر اسے مسلمانوں کی طرف سے سہارا اور اپنائیت محسوس ہونے لگے تو اس کے درد کی دوا اور غم کا مداوا کسی قدر ہوجائے گا، اسے اپنے ٹوٹنے والے رشتے، بچھڑنے والے اعزہ واقارب، اسلام کی خاطر ظلم وستم کا نشانہ بننے اور مال واسباب سے محروم ہوجانے کا احساس کم ہوجائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان نومسلموں کے مسائل کو اپنا اجتماعی مسئلہ سمجھیں۔ مسلمانوں میں اس حوالے سے بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس مضمون میں مسلم معاشرے کو نومسلموں کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں خاص طور سے یاد دلائیں گے۔
مواخات کا نظام
اسلام ایک ابدی دین ہے اس میں رہتی دنیا تک آنے والے مسائل کا حل موجود ہے۔ سیرت نبویﷺ میں اس کی عملی شکل بھی ملتی ہے۔ نبی ﷺ نے مکہ سے ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار میں مواخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔ اس اخوت کے رشتے کے حیرت انگیز نتائج اور ثمرات حاصل ہوئے۔ مواخات مہاجرین اور انصار کی تاریخ پر نظر ڈالنا صورت مسئلہ کی تفہیم کے لیے ناگزیر ہے۔
مہاجرین مکہ سے بے سرو سامان نکلے تھے ۔ مدینہ وہ اس حال میں پہنچے جو ان میں خوشحال تھے وہ بھی ہجرت کے وقت سب کچھ مکہ ہی میں چھوڑ آئے تھے ۔ انصار کے گھر مہاجرین کے لیے مہمان خانے تھے۔ان کے لیے مستقل بندوبست کی ضرورت تھی ۔ علامہ شبلی نعمانی رقم طراز ہیں:
‘‘ اگرچہ مہاجرین کے لیے انصار کا گھر مہمان خانہ عام تھا۔ تاہم ایک مستقل انتظام کی ضرورت تھی۔ مہاجرین نذر اور خیرات پر بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ دست وبازو سے کام لینے کے خوگر تھے، چوں کہ نگھرلے تھے اور ایک حبہ تک پاس نہ تھا اس لیے آنحضرت ﷺ نے خیال فرمایا کہ انصار اور ان میں رشتہ اخوت قائم کر دیا جائے، جب مسجد کی تعمیر قریب ختم ہوئی تو آپﷺ نے انصار کو طلب فرمایا، حضرت انس بن مالکؓ جو اس وقت دہ سالہ تھے، ان کے مکان میں لوگ جمع ہوئے مہاجرین کی تعداد پینتالیس تھی، آنحضرت نے انصار کی طرف خطاب کرکے فرمایا ‘‘یہ تمھارے بھائی ہیں، پھر مہاجرین اور انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے یہ اور تم بھائی بھائی ہو اور اب وہ درحقیقت بھائی بھائی تھے۔ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر گھر کی ایک ایک چیز کا جائزہ دے دیا کہ آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔
مہاجرین کے لیے مکانات کا یہ انتظام ہوا کہ انصار نے اپنے گھروں کے آس پاس جو افتادہ زمینیں تھیں، ان کو دے دیں اور جن کے پاس زمینیں نہ تھیں انھوں نے اپنے مسکونہ مکانات دے دیے۔ سب سے پہلے حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے اپنی زمین پیش کی، بنو زہرہ مسجد نبوی کے عقب میں آباد ہو ئے، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے یہاں ایک قلعہ (جس کو گڑھی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) بنوایا، حضرت زبیر بن عوامؓ کو ایک وسیع زمین ہاتھ آئی، حضرت عثمانؓ، حضرت مقدادؓ، حضرت عبیدؓ کو انصار نے اپنے مکانات کے پہلو میں زمینیں دیں۔’’[1]
نبی ﷺ نے مواخات انصار و مہاجرین میں فرق مراتب یا مزاج اور مذاق کو بھی ملحوظ رکھا۔ نومسلموں اور مسلمانوں میں مواخات کا رشتہ قائم کرتے ہوئے ہمیں بھی اس چیز کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ جو جس مزاج ومذاق کا ہے اس کے شایان شان ہی اس کے کسی مسلمان بھائی کے یہاں اس کے قیام وطعام کا بندوبست کیا جائے۔
مواخات کا یہ رشتہ نو مسلموں کے مسائل کا کار گر اور قابلِ عمل حل ہے۔ اس کے بے شمار مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس سے انھیں اسلام کو سمجھنے اور اسلامی تعلیمات کو سیکھنے میں کئی گنا آسانی اور سہولت ہوگی۔
نبی ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرکے مہاجرین کی معاشی الجھنوں کو دور کر دیا اور انصار کے لیے مہاجرین کو کسبِ رزق میں معاون ومدد گار بنادیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بوجھ بننے کے بجائے مددگار اور معاون بن گئے، اس سے مہاجرین اور انصار کو معاشی آسودگی حاصل ہوئی۔ اس مواخات کے رشتہ نے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کے سبب سے پیدا معاشی دشواریوں اور معاشی عدم توازن کا بہترین حل نکالا۔
اگر ہمارے مسلم معاشرے میں نومسلموں کے لیے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ اور اجتماعی شعور بیدار ہوجائے تو اس مواخات کے نظام سے نومسلموں کے مسائل سمٹیں گے ہی نہیں بلکہ یکسر ختم ہوسکتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو کسی بوجھ کا احساس نہیں بھی نہیں ہوگا۔ بلکہ ان کے گھر ایک فرد کے آنے سے کام کرنے والے دو ہاتھ اور میسر آجائیں گے، اس کی برکت سے معاشی دشواری کے بجائے معاشی آسودگی اور رزق کی فراوانی کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ اس سے ان غیر مسلموں کو بھی حوصلہ ملے گا جو اس ڈر وخوف سے اسلام قبول کرنے سے رکے ہوئے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد انھیں دیگر پریشانیوں کے ساتھ معاشی دشواریاں بھی جھیلنا پڑیں گی۔ نیز اس سے نومسلم کے اہل خانہ کو بھی اطمینان نصیب ہوگا کہ ہمارے گھر کے فرد نے اگر اسلام قبول کرلیا ہے تو وہ بے گھر اور در بدر نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے کندھے سے کندھا ملانے والے مسلمان بھائی ہیں جو اسے اپنا حقیقی بھائی تصور کرتے ہیں۔ اس کوشش اور نظام سے نو مسلموں کے مسائل کا خاتمہ ہوگا۔ اور رہا اس پر اللہ کے یہاں اجر و ثواب تو اس کا اندازہ اور حساب ہم نہیں کر سکتے۔
عزت نفس کا خیال
ہر انسان امیر ہو یا غریب، مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا گناہ گار ہر ایک کو اپنی عزت نفس عزیز اور مطلوب ہوتی ہے۔ کسی انسان کو ہر طرح کی سہولیات وآسائش فراہم کرنے کے باوجود اس کی عزتِ نفس کا خیال نہ کیا جائے، اس کی عزت نفس کو مجروح اور ٹھیس پہنچائی جائے، اسے وقتًا فوقتًا احساس دلایا جاتا رہے کہ اسے ہمارا احسان مند ہونا چاہیے یا ایسے جملوں اور رویے سے پکارا جائے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہو تو اسے ملنے والی تمام سہولتیں، آسائشیں خوشی اور سکون فراہم نہیں کرسکتی ہیں۔ بلکہ وہ ضروریات کی ہر چیز ملنے کے باوجود خود کو بے سرو سامان، تنہا اور اکیلا محسوس کرے گا۔
مسلمانوں کے موجودہ اجتماعی رویے اور مزاج سے نو مسلم کبھی سخت نالاں ہوجاتے ہیں۔ ان کی ضروریات پوری کرتے وقت کہیں نہ کہیں انھیں احسان مندی کے بوجھ کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نومسلموں کی بہ طور خاص عزت نفس کا خیال رکھیں۔ اپنے کسی جملے، مزاج اور رویے سے ایسا محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ بلکہ انھیں یہ اطمینان حاصل ہو کہ آپ ان کی عزت نفس کا قابل قدر حد تک پاس و لحاظ کرتے ہیں۔
دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام
غیر مسلم سماج سے اسلام قبول کرنے والے مرد یا عورت دونوں اسلامی تعلیمات، عبادات، اور اسلامی آداب و مزاج سے ناواقف ہوتے ہیں۔ کچھ تعداد ایسے نومسلموں کی بھی ہوتی ہے جو قبول اسلام سے قبل اسلام کا اچھی طرح مطالعہ کرچکے ہوتے ہیں۔ اور اطمینان کی حد تک متاثر ہونے کی بعد ہی اسلام قبول کرتے ہیں۔ لیکن بڑی تعداد ایسے نو مسلموں کی ہوتی ہے، جو دعوتِ دین اور مسلمانوں کے اخلاق یا اسلام کی کسی تعلیم سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے ہیں۔ ایسے نومسلموں کی دینی تعلیم و تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں دعوتِ دین کی کوششیں کرنے والے افراد اور جماعتیں قابلِ قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی صاحب ایسے نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے انھیں سہ روزہ یا چالیس روزہ جماعت میں بھیج دیتے ہیں۔
نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں تمل ناڈو، ویلور میں اسلامک سنٹر کی کام یاب کوشش رہی ہے۔ جس کے بانی مرحوم جمیل احمد ہیں۔ اس ادارے نے باقاعدہ نومسلموں کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دو اور چار ماہ کے دو کورس تیار کیے۔ اس سنٹری میں تعلیم وتربیت سے بڑی تعداد میں نومسلم مستفید ہوئے اور بعد میں اسلام کے بہترین داعی ثابت ہوئے۔
جماعت اسلامی ہند نے اپنے ادارہ مدھر سندیش سنگم اور مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے متعدد کتابیں اور کتابوں کے ہندی تراجم نومسلموں کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیے ہیں۔ جو نو مسلموں کی دینی تربیت اور مزاج کی آبیاری میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔ تاہم ابھی ایسے مستقل لٹریچر کی ضرورت باقی ہے جو قلیل مدت میں نومسلموں کو ضروری مسائل، اسلامی آداب، نبوی تعلیمات اور قرآنی پیغام کی تفہیم کا ذریعہ بن سکے۔
ہمیں یہاں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ غیر مسلم خاندان سے آنے والے نو مسلم سب یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ شعوری طور پر مسلمان ہوتے ہیں۔ کچھ جذباتی واقعہ پیش آنے کی وجہ سے مسلمان ہوتے ہیں۔ کچھ قبول اسلام کے بعد اسلام کو پڑھتے ہیں اور کچھ قبول اسلام سے قبل ہی اسلام کا خاصا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اسلام ایک درخت کے مانند ہے اس دعوت اور اسلام کے نتیجے میں جو ثمر حاصل ہوں گے، ضروری نہیں کہ سب یکساں ہوں۔ کچھ پکے ہوں گے، کچھ کم پکے ہوں گے، کچھ کچے ہوں گے اور اسی طرح کچھ زیادہ کچے ہوں گے۔ اس لیے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ قبول اسلام کے بعد فوراً ہی ان کی زندگی بدل گئی ہوگی یا بدل جانی چاہیے۔ اس طرح کی توقعات ہمیں ان سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ان سے بدظن کردیں گی اور ہمارا رویہ ان کے ساتھ بدل جائے گا۔
نو مسلموں کے لیے اب تک جو لٹریچر کار آمد اور مفید ہے۔ اس میں چند کتابیں قابل ذکر ہیں:
- آداب زندگی (ہندی) مولا نا محمد یوسف اصلاحی
- سچا دین (ہندی) مولانا محمد یوسف اصلاحی
- اسلام دھرم کیا ہے ؟ (ہندی) مفتی سرور فاروق ندوی
- خطبات (ہندی) مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ
- رحمت عالم ﷺ (ہندی) علامہ سید سلیمان ندویؒ
- جیونی حضرت محمد ﷺ (ہندی) مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی
- اذان اور نماز کیا ہے؟ (ہندی) مولانا نسیم غازی فلاحی
موجودہ حالات میں نو مسلموں کی تعلیم وتربیت کے لیے اب کسی سینٹر میں قیام مشکل اور مسائل کا سبب ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے قلیل مدتی ورک شاپ اور لیکچرس کا اہتمام مفید رہے گا، جس سے سامع کی زبان میں عام فہم انداز میں اسلامی تعلیمات و آداب اور سیرت و تاریخ سے واقف کرادیا جائے۔ نیز انھیں ان عنوانات پر تیار کردہ کتابیں فراہم کردی جائیں۔ یہ ایک مناسب اور قابل عمل حل ہو سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نومسلم اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی صحیح تعلیم و تربیت نتیجہ خیز اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ نو مسلموں نے کیسے کیسے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ جس پر پوری ملت ناز کرتی ہے۔ ان میں مراد ہوف مینؒ(2020ء۔1931ء)، علامہ محمد اسد،ؒ (1992ء۔1900ء) مارما ڈیوک پکتھال مترجم قرآن بزبان انگریزی، مریم جمیلہ(2012ء۔1934ء)، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی حدیث کے مشہور عالم ومحقق (2020ء۔1943ء) اسی طرح بلال فلپس وغیرہ ہیں۔ ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے زیر بحث مقالے میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
نومسلم ہمارے لیے اس لیے مفید، کار گر ممد و معاون ہوسکتے ہیں، کیوں کہ وہ ہر رشتے کو چھوڑ کر، ہر رسم و رواج کو بالائے طا ق رکھ کر آتے ہیں اور ہر شئے سے زیادہ عزیز اسلام کو سمجھتے ہیں۔ اس کی خاطر ہر طرح کی قربانی و پریشانی قبول کرتے اور برداشت کرتے ہیں۔ احیاے اسلام میں ایسے لوگ قائدانہ رول ادا کرسکتے ہیں۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے ایسے ہی نفوس کی ضرورت ہے جو اسلامی کاز کی خاطر بڑا حوصلہ اور مضبوط جگر رکھتے ہیں۔
ہم دردی اور دل جوئی
نومسلم کی تسکین قلب کے لیے اور امن و امان کا احساس دلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے ہم دردی کی جائے اور اس کی دل جوئی کی جائے کیوں کہ اجنبی ماحول اور اجنبی لوگوں میں آنے کے بعد ہم دردی کا حصول اور اپنائیت کا احساس اس کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ نو مسلم اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور ہر طرح کی آسائشیں اور آرام کو ٹھوکر مار کر آتا ہے۔ اس کے دل کی کیفیت کو ہم محسوس نہیں کر سکتے ہیں۔
ایک نو مسلم کا واقعہ غور طلب ہے، جو لکھتے ہیں:
‘‘میں مسلمان تھا، مگر کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہیں۔ اب مجھے نماز پڑھنی تھی اور اسلام پر کاربند ہونا تھا۔ نماز سے پہلے طہارت اور وضو ضروری ہے۔ اس کا طریقہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ بہرحال نماز کا وقت آیا۔ میں نے اذان سنی۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ غسل کیا اور پہلی بار مسجد گیا، پہلی صف میں شریک ہوگیا۔ دائیں بائیں دیکھ کر نماز پوری کی، گھر لوٹ آیا دل کے اندر ایک نور سا محسوس ہوا اور بڑا سکون معلوم ہوا۔ عبادت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ ایمان کی لذت سے محظوظ ہوا۔ اور یہ سب کچھ زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا۔ امام صاحب سے سنے ہوئے کلمات لکھ کر دہرانے لگا۔ دو دن تک پانچوں وقت نہاتا رہا۔ تیسرے دن امام صاحب نے ہاتھ پکڑ مجھے روکا اور بلند آواز سے ڈانٹنے لگے کہ مسجد کے پڑوس میں رہتے ہو مگر نماز کے لیے نہیں آتے۔ میں نے ڈاڑھی رکھ لی تھی۔ صورت سے مسلمان معلوم ہوتا تھا۔ اس پر میں نے حضرت کو بتایا کہ میں نومسلم ہوں۔ ابھی حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ یہ سن کر سب خوش ہوگئے اور مبارک باد دی ۔’’ [2]
دل آزاری کی حد تک پوچھ تاچھ نہ کی جائے
مسلمان جب کسی نومسلم سے ملتے ہیں تو انھیں اس سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تاثرات جاننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں یہ جاننے کی خواہش اس لیے ہوتی ہے کہ آخر ایسی کون سی متاثر کن چیز ہے جس کی خاطر اس نے اسلام قبول کرلیا اور ہر طرح کی قربانی اور پریشانی کا سامنا کرنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ بعض نومسلم ان سوالات کا خوشی سے تسلّی بخش جواب دیتے ہیں۔ لیکن پے درپے ان سوالات کی بوچھار ان پر گراں گزرتی ہے۔ ایک نو مسلم خاتون جوآن میلوان (Joanne Melwan) نومسلموں کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں :
‘‘ہم‘نووارِدوں’کے حالات اور پس منظر سے واقف نہیں ہوتے۔ ایسے میں نو مسلم محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دق کیا جارہا ہے۔ یہ بات ہر طرح معقول ہے کہ نو مسلموں اور مائل بہ اسلام لوگوں سے دل چسپی ہو۔ مگر اس دل چسپی میں اعتدال ملحوظ رکھناچاہیے۔ سوالات کی بوچھاڑ سے لوگ زچ ہو جاتے ہیں۔’’[3]
یہ ہیں وہ باتیں جو مسلم معاشرے کو نومسلموں کے حوالے سے ملحوظ رکھنی چاہئیں۔ نومسلم ہماری توجہ، ہم دردی اور محبت کے خصوصی مستحق ہوتے ہیں۔ حکمت اور اخلاص کے ساتھ ان کی داد رسی اور دل جوئی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
حوالہ جات
سیرۃ النبی ﷺ علامہ شبلی نعمانیؒ، ص: 204 تا207،طبع جدید:2019ء
اسلام کی آغوش میں،مولانا محمد ثناء اللہ عمری ص :100۔101،طبع 2014ء ادارہ تحقیقاتِ اسلامی،عمرآباد
حوالہ سابق ص :240
مشمولہ: شمارہ جولائی 2021