اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضوراکرم ﷺ کوہمارے لئے بہترین مثال اورنمونہ (Ideal)قراردیاہے، ارشاد باری ہے:لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘۔ (الأحزاب:۲۱) ’’اللہ کے رسول میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘، آنحضرت ﷺ کی یہ مثالیت کسی ایک امرکے ساتھ خاص نہیں؛ بل کہ شعبہ ہائے زندگی کے تمام امورکے ساتھ متعلق ہے اوراللہ کے رسول ﷺنے امت کے سامنے بذات خوداس مثالیت کواس اندازمیںبرت کرپیش کیاہے، جس کی نظیرنہ توتاریخ کے خزاںرسیدہ کسی ورق میںمل سکتی ہے اورناہی بہاردیدہ کسی صفحہ میں۔
عصبیت سے اجتناب
نبی کریم ﷺنے اپنی زندگی میں جتنی بھی جنگیںلڑی ہیں، ان کاواحد مقصد اُس خالق کے کلمہ کو چہار دانگ ِعالم میں بلند اور غالب کرنا تھا، جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا، ان جنگوں میں نہ توذاتی مفاد کا دخل تھا اورناہی کسی عصبیت کااثر۔
جب ہم تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اورجنگوں کی تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں توہمیں صاف طور پر نظرآتاہے کہ لڑائیاں مفادپرستی اورعصبیت کی شکاررہی ہیں، کہیںقومی عصبیت کی جنگ ہے تو کہیں لسانی تنگ نظری کی لڑائی، کہیں معدنی تیل کے لئے معرکہ ہے توکہیں زمیں داری کے لئے ہنگامہ، کہیں بادشاہت کامفادکارفرماہے توکہیں صدارت کی غرض درپیش، کہیں ٹکنالوجی کی ترقی کا حسدہے تو کہیں معاشی استحکام کی جلن، غرض کسی نہ کسی مفاد اور عصبیت کے تحت جنگیں لڑی گئی ہیں موجودہ زمانہ میں ہم کھل کراس کامشاہدہ کررہے ہیں۔
انسانیت کا احترام
سن دوہجری میں کفارقریش اورمسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی، جو’’جنگِ بدر‘‘کے نام سے تاریخ کے صفحات میںمذکورہے، اس جنگ میں سترمشرکین کام آئے، جب یہ جنگ ختم ہوگئی توآپ ﷺ نے ان مقتولین کوکنویںمیںڈلوادیااوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی، یہ محض انسانیت کے احترام میں تھا — کیاآج کی جنگوںمیںانسانیت کے اس احترام کوملحوظ رکھاجاتاہے؟جنگوں میں توقصداً نعشوںکوبے گوروکفن چٹیل میدان میں چھوڑدیاجاتاہے؛ تاکہ انسانیت کا جوتھوڑااحترام باقی رہ گیا ہے، اسے جانور مل کرختم کردیں، چیرپھاڑکرنے والے پرندے اوردرندے اسے گھسیٹتے پھریں، کاش ! حضورﷺ کے اس عمل کوسامنے رکھ کرمیدانِ جنگ میںبھی انسانیت کااحترام کرناسیکھتے!!!
عورتوں کوہلاک کرنے کی ممانعت
اسلام ایک ایسادین ہے، جس نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔ جن سے مردمحروم ہیں، انھیںمیںسے ایک ’’جنگ میں ان کوقتل کرنے ‘‘ کی ممانعت بھی ہے؛ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی جنگ میںایک خاتون کومقتول پایاتوسختی کے ساتھ جنگ میں کسی خاتون کوقتل کرنے سے منع فرمادیا(بخاری، باب قتل النساء فی الحرب، حدیث نمبر: ۳۰۱۵)۔ کیاآج کی جنگوںمیںاس بات کاخیال رکھاجاتاہے کہ عورتیںہلاک نہ کی جائیں؟ آج تو اصل محارب کاسارا غصہ انھیںپراتاراجاتاہے اور جو محارب ہوتے ہیں، وہ نشانہ بننے سے کوسو ںدوررہتے ہیں، اوریہ صرف آج کی جنگوںکاہی حال نہیں ہے؛ بل کہ ماضی کی جنگوںمیںبھی ایسے ’’کارنامے‘‘ عورتوں کے ساتھ انجام د ئے گئے ہیں، جن کوسن کرآج بھی ہرذی شعورشخص کاجسم سن اوررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کاش ! آں حضرت ﷺکے طرزعمل کو ان جنگوں میں ا پنایا جاتا ! ! !
بچوں کوقتل نہ کرنے کاحکم
بچے ایسے پھول کی مانندہوتے ہیں،جسے ہرشخص محبت کی نظرسے دیکھتاہے، آں حضرت ﷺ کوبھی بچوں سے بے انتہامحبت تھی، آپ ﷺ کبھی ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کامعاملہ بھی نہیںفرماتے تھے، اگروہ کوئی غلطی کرتے توانھیںپیارسے سمجھاتے ، غزوۂ بدرکے بعد حضرت خبیبؓ مسلمانوںکی ایک جماعت کے ساتھ مشرکینِ مکہ کی خبر دریافت کرنے گئے۔ اتفاق سے گرفتارکرلئے گئے، گرفتاری کے بعدبنوحارث نے اپنے باپ کے بدلہ میں(جس کوحضرت خبیبؓ نے غزوۂ بدر میں قتل کیاتھا)قتل کرنے کے لئے خرید کر قیدکردیا، حضرت خبیبؓکویہ یقین ہوچکا تھا کہ ضرورقتل کئے جائیںگے؛ چنانچہ انھوںنے اپنے رب سے ملاقات کے لئے تیاری کی اورتنظیف وتطہیرکے لئے ایک استراادھارلیا، اسی دوران بنوحارث کی کسی خاتون کا چھوٹابچہ کھیلتے کھیلتے ان کے پاس پہنچ گیا، انھوں نے پیار سے اس بچہ کواپنی گودمیںبٹھالیا، ماںنے جب اپنے بچے کوایسے دشمن کی گودمیںدیکھا، جسے کل قتل کیاجاناتھااور وہ اس حال میں کہ ہاتھ میںا ستراتھاتووہ حواس باختہ ہوگئی، حضرت خبیبؓ نے ماں کی اس گھبراہٹ کوپہچان لیااورکہا: تم ڈررہی ہوکہ میںاسے قتل کردوںگا، میں اسے قتل نہیں کروںگااوربچے کوماں کے سپردکردیا(قصص من التاریخ الإسلامی، ص:۵۷)، بچوںکے ساتھ اس محبت کو اللہ کے رسول ﷺنے میدانِ جنگ میںبھی باقی رکھا اورحکم جاری کیاکہ ’’کسی بچہ کو قتل نہ کیا جائے‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب قتل الصبیان فی الحرب، حدیث نمبر: ۳۰۱۴ ، مسلم، حدیث نمبر: ۵۵۴۷)، اس حکم کوآپ ﷺ اورآپ کے صحابہ نے برت کر بھی دکھایا؛ چنانچہ جہاد کی تاریخ میںبچے کوقتل کرنے کی روایت ہمیںنہیں ملتی۔کیاآج بڑوںسے کہیں زیادہ بچوںکوموت کے گھاٹ نہیںاتاراجاتاہے؟ ان سے کس جرم کابدلہ لیاجاتاہے؟وہ تو دشمنی کے نام سے بھی واقف نہیں، کاش! آں حضرت ﷺ کی سیرت کامطالعہ کیاجاتااورجنگ میں بچوں کے زیادتی نہ کرنے کے حکم پرعمل کیاجاتا!
مُثلہ نہ کرنے کاامر
جنگوںمیں غصہ کے اظہارکاآخری طریقہ ’’مثلہ‘‘ ہے، جس میںمقتول کی بے حرمتی کے لئے اس کے اعضاء وجوارح کاٹ دئے جاتے ہیں، زمانۂ جاہلیت میںاس کارواج تھا، موجودہ زمانہ میںبھی دیکھنے کو ملتاہے، بس فرق طریقۂ کارکاہوتاہے، پہلے اعضاء ایک ایک کرکے کاٹے جاتے تھے اورآج بم برسا کر ایک ہی لمحہ میں چیتھڑے اڑادئے جاتے ہیں، ؟حضوراکرم ﷺنے جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان میں کہیںبھی مقتولین کے ساتھ بے حرمتی کاجرم نہیںکیاگیا؛ آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے بعدان کامثلہ کیاگیا، اگرآپ چاہتے تواس کابدلہ بعدکی جنگوںمیں لے لیتے؛ لیکن آںحضرت ﷺ نے غم کاکڑواگھونٹ تو پینا پسندفرمایا، انتقاماً بھی ایسی حرکت کوگوارانہیںفرمایا؛ بل کہ صراحۃً اس کی ممانعت فرمائی؛ چنانچہ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیںکہ: حضوراکرم ﷺجب بھی ہمارے درمیان خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تو صدقہ کاحکم دیا اورمثلہ کرنے سے منع فرمایا‘‘۔(مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۰۰۹۷)، کاش! جنگ کی آگ بھڑکانے والے آپ ﷺکے اس طرزعمل کواختیار فرما تے !
مذہبی پیشواؤں کونہ مارنے کا حکم
فاتح قوم دورانِ جنگ طیش وطنطنہ میںسب کچھ بھول جاتی ہے، اس کے سامنے مخالفین میں سے ہرشخص کی حیثیت ایک لڑائی کرنے والے کی ہوتی ہے، خواہ معابد کے ربی ہوںیاصوامع کے راہب، مندرکے پجاری ہوںیامسجد کے امام،بکریوں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی ڈنڈے سے سب کوہانک دیتے ہیں؛ حالاں کہ عموماً یہ لوگ معتدل مزاج اورجنگ وجدال سے دوررہنے والے ہوتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی جنگوں میں ان چیزوں کی رعایت ہوتی تھی ، ایک ہی ڈنڈے سے سب کو نہیں ہانکاجاتاتھا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ اجب اپنے لشکر کو بھیجتے تو حکم دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’…نہ تومثلہ کرو، نہ بچوں کوقتل کرو اورناہی صوامع والوں(مذہبی پیشواؤوں) کو قتل کرو‘‘ (مسنداحمد، حدیث نمبر: ۲۷۲۸) —- کاش! جنگوں میں آپ ﷺکے اس اسوہ کواپنایا جاتا!
دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک
غزوۂ بدرکے موقع پرحضرت حبابؓ کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے آں حضرت ﷺ نے بدرکے چشمہ پرقبضہ کرلیاتھا، اگرچاہتے توکسی کافرکو، جو خودانھیں کے ساتھ مقابلہ آرائی کے لئے بھی آیاہواہو، ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتے؛ لیکن قربان جایئے رسول اللہ ﷺپر! کہ کافروںکوپانی لینے کی عام اجازت دیدی۔کیاہم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایساہی رویہ اپناتے ہیں؟کیاہم اپنے دشمن کے بارے میں ہروقت ایذارسانی کے لئے نہیں سوچتے رہتے؟ حضوراکرم ﷺکے عمل سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں اوربالخصوص زندگی سے متعلق ایسی عام چیزوں سے قطعاً نہ روکیں، جوایک انسان کے لئے نہایت ضروری ہو۔
دشمن محسن کے ساتھ حسنِ سلوک
غزوۂ بدرمیں گھمسان کارن پڑنے سے پیشترآںحضرت ﷺ نے یہ فرمایاتھا کہ بنوہاشم اوردیگرقبائل کے کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اِس جنگ میں شریک ہوئے ہیں، لہٰذا اُنھیں قتل نہ کیاجائے،ابوالبختری بن ہشام اورعباس بن عبدالمطلب کوقتل نہ کیاجائے، بنوہاشم نہ صرف یہ کہ طوعاً وکرہاً جنگ میں آئے تھے؛ بل کہ شعب ابی طالب میں بھی آپ ﷺکے لئے تکلیفیں برداشت کی تھیں، ابوالبختری نے کئی مرتبہ شعب ابی طالب میں کھاناپہنچایا تھا، نیزمقاطعہ کے ختم کرنے میں بھی اس کااہم رول تھا، یہ سارے آپ ﷺ اورمسلمانوں کے محسنین تھے، لہٰذا آںحضرت ﷺنے ان کے احسان کااس طرح بدلہ چکایا۔
اب ہمیںسوچناہے کہ اپنے محسن کا کتناخیال رکھتے ہیں؟ کیاایسانہیں ہوتاکہ اپنے ذاتی مفادکی خاطر ہم اپنے محسن کی ٹانگ نہیں کھینچتے؟ ہم میں سے تو بہت سارے ایسے بھی ہیں، جواپنے محسن ہی کے دشمن بن جاتے ہیںاورجنگ کے موقع پر تومحسن اوردوست سب دشمن ہی کے صف میں ہوتے ہیں، جب کہ دشمنی میںہم کسی تفریق کے قائل نہیں،کاش! حضورﷺکے اس طرز کاہم بھی کچھ پاس ولحاظ کر لیتے!!!
قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک
غزوۂ بدرسے فارغ ہوکرآپ ﷺمدینہ پہنچے اور قیدیوںکوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا: استوصوابالأساری خیراً ’’قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو‘‘، جس کانتیجہ تھا کہ صحابہ ان کی رسیوں کوہلکی گرہ لگاتے؛ تاکہ تکلیف نہ ہو، نیز خودتوموٹاجھوٹاکھاتے؛ لیکن قیدیوںکوحسب ِاستطاعت عمدہ کھلانے کی کوشش کرتے اور ان کاہرطرح سے خیال رکھتے؛ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ماںشریک بھائی ابوعزیزکہتے ہیں: ’’میں بدرکے قیدیوںمیں انصارکے حصہ میںتھا، وہ لوگ آپ ﷺکے اس حکم کی وجہ سے صبح وشام مجھے روٹی کھلاتے ، جب کہ خودکھجورکھاتے تھے‘‘ (المعجم الکبیرللطبرانی، حدیث نمبر: ۹۷۷)۔
اس کے برخلاف آج قیدیوں کے ساتھ جانوروںسے بھی بدترسلوک کیاجاتاہے، ان پرکتے چھوڑے جاتے ہیں، بجلی کاشاٹ دیاجاتاہے، ناخن کھینچ لئے جاتے ہیں، پتھرکی سلوںپرمسلسل لٹایاجاتاہے، تیزروشنی کردی جاتی ہے؛ تاکہ قیدی پلک بھی نہ جھپکاسکے، مسلسل کھڑے رہنے پرمجبور کیا جاتاہے، کھانے پینے کے لئے ترسایاجاتاہے، سخت سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں کمرتک ڈوبے رہنے پرمجبور کیاجاتاہے، کاش! یہ لوگ آخری نبی ﷺکے قیدیوں کے ساتھ سلوک کامطالعہ کرتے اورایک انسان کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے آں حضرت ﷺ اورصحابہ کے عملی نمونہ کواپناتے، کاش…کاش…!!!
دورانِ جنگ دشمن کے حق میں دعا
غزوۂ احدمیں عبداللہ بن قمئہ کے حملہ کی وجہ سے آںحضرت ﷺزخمی ہوگئے اورآپ ﷺ کے سامنے کے دودانت بھی ٹوٹ گئے،ایسے وقت میں بھی آپ دعادیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ اے اللہ! میری قوم کوبخش دے، وہ نہیں جانتی‘‘(مسلم، باب غزوۃ أحد، حدیث نمبر:۱۷۹۲)، اسی طرح محاصرۂ طائف کے دوران بعض نے محصورین کے حق میں بدعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ ﷺ نے یہ دعادی: اللہم اہدثقیفا، وائت لہم ’’اے اللہ! ثقیف کوہدایت دے اورمیرے پاس آنے کی توفیق دے‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، ماجاء فی ثقیف، حدیث نمبر: ۳۳۱۶۳)۔کیاہمارا رویہ بھی ایساہی ہوتاہے؟ کیاہم معمولی بات پربددعادینانہیںشروع کردیتے؟ کیاہم بھی اپنے دشمن کے لئے ہدایت کی دعاکرتے ہیں؟ غزوۂ احدوحنین ہمیںیہ درس دیتے ہیں کہ دشمن کے حق میںبددعاکے راستہ کواپنانے کے بجائے اُن کے لئے ہدایت کی دعاکرنی چاہئے۔
سخت جاں دشمن کے ساتھ عفوودرگزر
اہل مکہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اہل اسلام کو تکلیف دینے میں کسی طرح کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی تھی، صحابہ کے جسموں سے اُن زخموں کے داغ مٹے نہیں تھے، جواہل مکہ نے ان پرلگائے تھے؛ بل کہ بعض صحابہ کے زخم تو رِس ہی رہے تھے، اہل مکہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے آپ ﷺ کے قتل کی سازش رچی تھی، جنھوں نے صحابہ کے گھرباراوردولت وجائدادپرغاصبانہ قبضہ کررکھاتھا، جنھوں نے اُن کو دیارِ غیر جانے پرمجبورکردیاتھا ، سن آٹھ ہجری میں اُنھیں لوگوں پرفتح حاصل ہورہی تھی، ان کے دلوں میں بھی کیا کیا اُمنگیں بدلہ لینے کی نہیں اُٹھی ہوں گی؟ انتقام لینے کی کیاکیاتدبیریں اِن کے حاشیۂ خیال میں گردش نہیں کررہی ہوں گی؟ لیکن صلح وعفوکی ایسی مثال قائم کی گئی، جس کی نظیرقدیم وجدیدتاریخ کے اوراق میں ملنی مشکل ہے۔آج معمولی دشمن پربھی ہمیں اگرغلبہ مل جاتاہے توہم اُس پراس طرح پِلْ پڑتے ہیں، جس طرح شیرِ نراپنے شکارپرپل پڑتاہے، معافی کا نام سنتے ہی ہمیں شاک لگ جاتاہے، ہم توبدلہ لینے کابہانہ تلاشتے رہتے ہیں اوراس کے لئے رائی کوپربت بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔کاش! فتح مکہ ہماری نگاہوں کے سامنے رہے اورہم اس کواپنے لئے اسوہ بناسکیں!!!
آگ میں جلا کر مارنے کی ممانعت
دورانِ جنگ ہرفریق کامقصد اپنے مخالف کوختم کرناہوتاہے، خواہ اس کے لئے کوئی سابھی طریقہ اختیارکرناپڑے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دورحاضر میں اس کے لئے مختلف قسم کے کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں، ایسے ہتھیار، جس سے انسان کاسارابدن جل کرخاک ہو جاتاہے؛ بل کہ آج کل زیادہ تر استعمال ہونے والے ہتھیارکاتعلق اسی قبیل سے ہے۔حضوراکرم ﷺنے اپنے کسی جنگ میںاس طرح سے اپنے مخالفین کونہیں ماراہے؛ بل کہ آں حضرت ﷺ نے صراحۃً اس طرح مارنے کومنع فرمایا ہے، حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک سریہ (وہ جنگ، جس میںحضورﷺ خود شریک نہ ہوئے ہوں)میں بھیجتے وقت فرمایا: ’’اگرفلاںفلاں کوقابومیں کرلوتوان دونوںکوجلادینا‘‘، دوسرے دن ایک قاصد کے ذریعہ سے پیغام بھیجا کہ’’میں نے ان دونوںآدمیوں کو جلانے کاحکم دیاتھا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے طریقے پرعذاب دینادرست نہیں؛ اس لئے اگران دونوں پر قابو پالوتوانھیں قتل کرنا‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، من نہی عن التحریق بالنار، حدیث نمبر: ۳۳۸۱۴)،آپ ﷺکااسوہ ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ ہم غیظ وغضب میں اس قدرآگے نہ بڑھ جائیں کہ لوگوںکوجلاکرمارناشروع کردیں۔
انتقامی جنگ سے دوری
حضرت سعدبن عبادہ صنے فتح مکہ کے موقع سے وفورِجذبات میں سرشاراورجوشِ جنوںمیں بے خودہوکریہ کہدیا: الیوم یوم الملحمۃ، الیوم تستحل الکعبۃ’’آج لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میںجنگ وجدل جائزہوگا‘‘،حضرت ابوسفیان نے آپ ﷺسے حضرت سعدکی شکایت کی توآپ ﷺنے فرمایا: کذب سعد، ولکن ہذا الیوم یعظم اللہ فیہ الکعبۃ، ویوم تکسی فیہ الکعبۃ۔ (بخاری، باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح، حدیث نمبر: ۴۰۳۰) ’’سعدنے غلط کہا، آج خانۂ کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس کوغلاف پہنایاجائے گا‘‘، چوںکہ حضرت ؓ کی اس بات سے انتقام کی بوآرہی تھی؛ اس لئے ان سے علم لے کران کے بیٹے قیس کودے دیا۔کیاآج کی جنگیں بھی انتقامی کارروائیوں سے خالی ہوتی ہیں؟ آج توجنگ لڑی ہی انتقاماً جاتی ہے، اگریہ انتقامی آگ کے لپٹ نہ اٹھے توسرے سے کوئی جنگ ہی وجودمیںنہ آئے، کاش! آج آنحضرت ﷺ کے اس اسوہ پرعمل کیاجاتا!!!
دورانِ جنگ عہد کا لحاظ
غزوۂ بدرمیںمسلمانوںکی تعداددشمنوںکے مقابلہ میںنہایت ہی کم تھی اورایک آدمی کااضافہ بھی باعث تسکین ہوتا، ایسے موقع پرحضرت حذیفہ اورحضرت ابوحسیل رضی اللہ عنہماکوکہیںسے آتے ہوئے کفارراہ میںروکتے ہیںکہ محمد(ﷺ) کی مددکوجارہے ہیں، یہ انکارکرتے ہیں اورعدم تعاون کاوعدہ کرتے ہیں، کفارانھیںجانے کی اجازت دیدیتے ہیں، یہ دونوںحضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر پوری بات بتاتے ہیںتوآپ ﷺ ان سے ہرحال میں وعدہ وفاکرنے کوکہتے ہیںاورجنگ میںشریک ہونے کی اجازت مرحمت نہیںفرماتے۔ہم اپناتجزیہ کریںکہ کیاہم بھی وعدہ کا اس قدرپاس رکھتے ہیں کہ سخت ضرورت کے وقت بھی اس سے نہ پھریں؟ ہماراحال توبہت براہے، وعدہ پروعدہ کرتے ہیں؛ لیکن وعدہ خلافی بھی ہماراشیوہ ہے، ہم تومعمولی معمولی باتوںپروعدہ کوتوڑبیٹھتے ہیںاورجنگ کوتو’’دھوکہ کامجموعہ‘‘ہی سمجھتے ہیں، پھروہاںدھوکہ سے باز کیسے آئیں؟کاش! حضورﷺ کے اس عمل سے ہم بھی ہر حال میںوعدہ کووفاکرناسیکھتے!!!
قیدیوں کی سزاؤوں میں تخفیف
غزوۂ بدرکے اختتام کے بعدقیدیوںکومدینہ لایاگیااوررسیوں سے باندھ کرمسجدنبوی میںرکھاگیا، رات کوبعض قیدیوںکی کراہ سنائی دی، قیدیوں کی کراہ سن کرآںحضرت ﷺبے چین ہوگئے اور بقیہ رات آنکھوںمیںکاٹی، جب صبح ہوئی توآپ ﷺنے ان کی بندشوںکوڈھیلاکرنے کاحکم دیا۔کیاآج بھی قیدیوںکی سزاؤوںمیںتخفیف کی جاتی ہے؟ کیاآج بھی کوئی قائدقیدیوںکی تکلیف سے بے چین ہوتاہے؟ آج کاقائدتو قیدیوں کو تنگ وتاریک سل میںبندکرکے چین کی بانسری بجاتے ہوئے محوخواب ہوجاتاہے اوران کی سزاؤوںمیں تخفیف کی بجائے اضافہ کی ہی سوچتاہے، کاش! آپ ﷺکے قیدیوں کے ساتھ اِس عمل سے سبق لیاجاتا!!!
قیدیوں کی رہائی
قیدی اس لئے نہیںہوتے کہ ان کے بال بچوںکوجیتے جی یتیم کرکے موت تک ان کوبندکرکے رکھاجائے؛ بل کہ قیداس لئے کیاجاتاہے؛ تاکہ ان کی مناسب فہمائش ہوجائے ، پھران سے وعدہ و عیدیابطورتنبیہ کے کچھ تاوان وصول کرکے چھوڑدیاجائے، آںحضرت ﷺنے غزوۂ بدرمیںان جنگی قیدیوںکے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا، جنھوںنے آپ ﷺ اورآپ کے ساتھیوںکوبے سروسامانی کی حا لت میں وطن چھوڑنے پرمجبورکردیاتھا، آپ ﷺ نے کچھ قیدیوںسے فدیہ لے کراورجوفدیہ دینے کے قابل نہیںتھے، انھیںبغیرفدیہ کے رہافرمادیا۔آج جنگی قیدیوںکوسب سے بڑامجرم سمجھاجاتاہے اور کوئی بھی حکومت انھیںآزاد کرنے کے لئے تیارنہیںہوتی؛ بل کہ جس قدر تنگ وتاریک کمرہ میسرہوسکے ، اس میںقیدکرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیادنیاکی کوئی حکومت آپ ﷺکے اس طرزعمل کا نمونہ پیش کرسکی ہے؟ قیدی بھی انسان ہوتے ہیں اورانسانیت کے احترام کے مستحق بھی ہوتے ہیں، کاش! حضواکرم ﷺ کے اس اسوہ پرعمل کیاجاتا!
مشمولہ: شمارہ اگست 2018