اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین میں آباد کرتے وقت ان کی ضرورت کی تمام چیزیں فراہم کردیں اور کائنات کی تمام قوتوں کو ان کی خدمت میں لگادیا۔ ان کے اعضا وجوارح ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیںاور نباتات وحیوانات ان کی غذائی اوردوسری ضرورتوں کی تکمیل میں ۔چاند، سورج، ستارے، پہاڑ، دریا اور دسرے مظاہر نظام کائنات میں توازن قائم کیے ہوئے ہیں۔ ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سے ان کی زندگی کا تسلسل قائم ہے۔ ان مادی ضروریات کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی روحانی ضرورت کی تکمیل سے غافل نہیں رہاہے۔ اس نے ابتدا ہی سے اس کا بھی انتظام کررکھا ہے کہ انسانوں کو معلوم ہوکہ انھیں کیوں پیدا کیاگیا ہے؟ انھیں پیدا کرنے والا کون ہے اور وہ ان سے کیا چاہتاہے؟ دنیا میں انھیں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے؟
قُلْنَا اہْبِطُواْ مِنْہَا جَمِیْعاً فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ o وَالَّذِیْنَ کَفَرواْ وَکَذَّبُواْ بِاٰیَاتِنَا أُولٰئِٓکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ o ﴿البقرہ:۳۸-۳۹﴾
’’اور ہم نے کہاکہ ’’تم سب یہاں سے اترجاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکارکریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیا کی بعثت
ابتداء میں تمام انسان راہِ راست پر قائم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں زندگی گزارنے کا جو طریقہ بتایاتھا اس پر وہ عمل پیرا تھے۔لیکن آہستہ آہستہ ان میں انحراف آنے لگا، نفسانی خواہشیں سر اٹھانے لگیںاور وہ سیدھے راستے سے اِدھر اُدھر بھٹکنے لگے۔ اس وقت ان کے درمیان اتحاد واتفاق باقی نہ رہ سکا۔ کچھ لوگ سیدھی رام پر قائم رہے اور کچھ لوگ غلط راہوں پر جاپڑے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے یوںبیان کیاہے:
وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلآّ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُواْ ﴿یونس: ۱۹﴾
’’ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امت تھے، پھر انھوں نے اختلاف کیا۔‘‘
اس آیت میں ’’لوگوں کے ایک امت ہونے‘‘ کی بات کہی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداء میں راہِ حق پر قائم اور ہدایت یافتہ تھے:
کلہم علی شریعۃ من الحق ﴿ابن عباس﴾ کانوا علی الہدیٰ جمیعاً ﴿قتادۃ﴾
﴿ابوجعفرمحمد بن جریر طبری، جامع البیان عن تاویل آتی القرآن، المعروف بتفسیر الطبری، دارالمعارف مصر ۴/۵۷۲-۶۷۲، ابوعبداللہ، الجامع الاحکام القرآن المعروف بتفسیر القرطبی، الھیتۃ المصریۃ العامۃ للکتاب مصر، ۱۹۸۷ء۔ امام رازی نے لکھاہے: انھم کانو علی دین واحد وھوالایمان والحق وہو قول اکثر المحققین، بخرالدین الرازی، مفاتیح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، المتکبۃ التوفیقیہ، مصر ۶/۱۱﴾
بعد میں ان میں اختلاف برپا ہوا۔ اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانوںمیں تمام لوگ راہِ حق پر قائم نہ رہ سکے۔ بعض لوگوں میں طرح طرح کی بُرائیاں پیدا ہوگئیں۔ انھوںنے مختلف مظاہر کائنات کو خدائی میں شریک کرلیا، سورج، چاند، ستاروں، درختوں، جانوروں اور دریاؤںوغیرہ کی پرستش شروع کردی۔ مٹی پتھر کے بت بناکر انھیں پوجنے لگے۔ انسانی آبادی دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی اور مختلف قومیں وجود میں آگئیں۔ ان قوموں کے مذاہب جدا جدا ہوگئے۔ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کو فراموش کرکے اپنی خواہشوں کی پیروی شروع کردی۔ جاہلی رسمیں ایجاد کرلی گئیں اور انھی حقیقی دین سمجھاجانے لگا۔
اِنَّ ہَذِہٰٓ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِo وَتَقَطَّعُوآ أَمْرَہُم بَیْْنَہُمْ کُلٌّ اِلَیْْنَا رَاجِعُونَ ﴿الانبیا:۹۳-۹۲﴾
’’یہ تمھاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، مگر﴿یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ﴾ انھوںنے آپس میں دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔‘‘
اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے اور ان کے ساتھ اپنی روشن تعلیمات بھی بھیجیں۔ تاکہ لوگوں کے درمیان حق اور باطل، صحیح اور غلط کھل کر سامنے آجائے۔ ان پیغمبروں نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام پیش کیا، ایک خدا کی پرستش کی دعوت دی، شرک و بت پرستی سے روکا اور صاف الفاظ میں انھیں آگاہ کیاکہ کن کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتاہے اور کن کاموں سے ناراض۔ اس طرح پیغمبروں اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ ہوگیا اور حق وباطل میں امتیاز قائم ہوگیا۔ قرآن کہتاہے:
کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ ﴿البقرہ:۲۱۳﴾
’’﴿ابتدامیں﴾ سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے ﴿پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے﴾ تب اللہ نے نبی بھیجے جو ﴿راست روی پر﴾ بشارت دینے والے اور ﴿کج روی کے نتائج سے﴾ ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی ، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔
اس آیت میں انبیا کے لیے ’’مبشرین‘‘ ﴿بشارت دینے والے﴾ اور منذرین ﴿ڈرانے والے﴾ کے الفاظ آئے ہیں۔ مبشرین کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کے حکموں پر چلنے والوں کو بے پایاں اجرو انعام اور اچھے ٹھکانے کی خوش خبری دیتے ہیں اور منذرین کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور کفر کی روش اختیار کرنے والوں کو وہ سخت سزا، زبردست بازپرس اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیے جانے سے ڈراتے ہیں۔
﴿تفسیر طبری،۴/۲۸۰، ابوحیان الاندلسی البحرالمحیط، داراحیائ التراث العربی بیروت، ۲۰۰۲ء ۲/۲۱۸﴾
یہ اوصاف، جو انبیاے کرام کے فریضۂ منصبی اور مقصدِ بعثت کی وضاحت کرتے ہیں، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیے گئے ہیں:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ ﴿آیت:۴۸﴾
’’ہم جو رسول بھیجتے ہیں، اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ ﴿نیک کردار لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والے اور ﴿بدکرداروں کے لیے﴾ ڈرانے والے ہوں۔‘‘
[مزید : النساء:۵۶۱، الکہف:۵۶، الصافات:۲۷ وغیرہ]
آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلاً اِلَی قَوْمِہِمْ فَجَآؤُوہُم بِالْبَیِّنَاتِ﴿الروم:۴۷﴾
’’اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے۔‘‘
اس آیت میں بیان کیاگیاہے کہ انبیاے کرام اپنی قوموں کے پاس ’’بیّنات‘‘ لے کر گئے۔ ’’بیّنۃ‘‘ واضح دلیل کو کہتے ہیں خواہ وہ عقلی ہو یا حِسّی ﴿راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، دارالمعرفۃ بیروت، ۹۹۹۱ئ ص:۵۴﴿البینۃ الادلالۃ الواضحۃ عقلیۃ کانت أومحسوسۃ﴾ اس کا اطلاق انبیا کو دیے جانے والے معجزات پر بھی کیاگیاہے اور ان کے ذڑیعے انسانوں کو بھیجی جانے والی ہدایات اور تعلیمات پر بھی۔
تمام قوموں میں انبیا بھیجے گئے
انسانی آبادی دنیا میں جہاں جہاںپھیلی اور جوں جوں اس میں گم راہی عام ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کا سامان کیا۔ چنانچہ اس نے اپنے برگزیدہ بندوں کو صحیح تعلیمات اور واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا۔ یہ انبیا تمام قوموں میں مبعوث کیے گئے۔ البتہ قرآن میں صرف ان چند بڑی بڑی قوموں کے احوال ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔ ان کے پاس بھیجے جانے والے پیغمبروں اور ان کی دعوت کا بھی تذکرہ ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردی گئی ہے کہ یہ ہادی و رہ نما اور بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہر قوم میں بھیجے گئے۔آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے قرآن کہتاہے:
ِ اِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ﴿الرعد: ۷﴾
’’تم تو محض خبردار کردینے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک رہ نما ہے۔‘‘
اِنَّآ أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَاِن مِّنْ أُمَّۃٍ اِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ
﴿فاطر:۲۴﴾
’’ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔‘‘
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الأَوَّلِیْنَ ﴿الحجر:۱۰﴾
’’اے نبی! ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں میں رسول بھیج چکے ہیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی خطۂ زمین کے انسانوں کو اس حال میں نہیں رہنے دیاکہ ان تک اس کی ہدایت نہ پہنچی ہو۔مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن جلدچہارم میںاس سلسلے کی ایک غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے لکھاہے:
’’یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیںگزری ہے ، جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں۔ ﴿الرعد:۷، الحجر:۰۱، النحل:۶۳، الشعرائ:۸۰۲﴾ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیا بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہ نمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ رہیں اُس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجاجائے۔‘‘ ﴿ص:۲۳۰-۲۳۱﴾
انبیا ایک ہی دین کے علم بردار تھے
ساتھ ہی قرآن ایک دوسری حقیقت کو بھی واشگاف کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف علاقوں اور خطوں میں اور مختلف قوموں میں جتنے بھی انبیا بھیجے سب ایک ہی دین کے علمبر دار تھے اور سب کی بنیادی دعوت ایک ہی تھی۔ ہر نبی کو اسی چیز کی وحی کی گئی تھی کہ اس کائنات کو وجود بخشنے والا اور انسانوں کو پیدا کرنے والا صرف اللہ ہی ہے اس لیے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایاجائے۔ہر نبی نے اپنی قوم سے اسی کا مطالبہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَمَا أَٓرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ اِلَّا نُوحِیْ اِلَیْْہِ أَنَّہُ لَا اِلَہَ اِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون ﴿الانبیاء:۲۵﴾
’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجاہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت﴿النحل:۳۶﴾
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اوراس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیاکہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘
اس آیت میںانبیا کی بنیادی دعوت ، یہ قرار دی گئی ہے کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘ عربی زبان میں طاغوت کا مادہ ’’طغیٰ‘‘ ہے، اس کے معنی حد سے آگے بڑھنے ،سرکشی کرنے کے ہیں۔ طاغوت میں ہر وہ چیز داخل ہے، جس کی اللہ واحد کو چھوڑکر، پرستش کی جائے۔ علامہ قرطبیؒ نے اس کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:
اتیٰ اترکوا کل معبود دون اللہ کالشیطان و الکاہن والصنم وکل من دعا الی الضلال ﴿ابوعبداللہ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ﴿تفسطیرالقرطبی﴾ ۰۰۱/۳۰۱﴾
’’یعنی اللہ کے علاوہ ہر معبود کو چھوڑدو، جیسے شیطان، کاہن، بت اور ہر وہ چیز جو گم راہی کی طرف لے جائے۔‘‘
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
اجتنبوا عبادۃ ما تعبدون من دون اللہ، فسمیّ الکل طاغوتاً
﴿فخرالدین الرازی، مفاتیح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، ۰۲/۳۲،۴۲﴾
’’اللہ کے سوا جس جس کی عبادت کرتے ہو، سب کی عبادت ترک کردو، اللہ کے علاوہ تمام چیزوں کو طاغوت کہاگیاہے۔‘‘
علامہ ابن کثیرؒ نے ان آیات کی تشریح میں لکھاہے:
وبعث فی کل أمۃ ای فی کل قرن وطائفۃ من الناس رسولاً، وکلہم یدعون الی عبادۃ اللہ، و ینہون عن عبادۃ ماسواہ، فلم یزل تعالیٰ یرسل الی الناس الرسل بذلک۔ منند حدث الشرک فی بنی آدم، فی قوم نوح الذین أرسل الیہم نوح، وکان أول رسول بعثہ اللہ الی أہل الأرض، الیٰ أن ختمہم بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم الذی طبقت دعوتہ الانس و الجن فی المشارق والمغارب۔ ﴿بتفسیر ابن کثیر، مؤسۃ الریان بیروت، ۷۰۰۲ئ ۳/۳۹۹۲۱﴾
’’اللہ نے ہر زمانے میں اور لوگوں کے ہر گروہ کے پاس ایک رسول بھیجا۔ یہ سب اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے روکتے تھے۔ سب سے پہلے بنوآدم میں قوم نوح میں شرک پھیلا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا۔ وہ پہلے رسول تھے، جنھیں اللہ نے اہل زمین کے پاس بھیجاتھا۔ اس کے بعد وہ برابر لوگوں کی طرف رسول بھیجتارہا۔ یہاں تک کہ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کاخاتمہ کردیا۔ آپﷺ کی دعوت روئے زمین کے تمام انسانوں اور جنات کے لیے عام تھی۔‘‘
قرآن میں مختلف قوموں کے احوال اور ان کی طرف بھیجے جانے والے پیغمبروں کاتذکرہ تفصیل سے کیاگیاہے۔ اس ضمن میں ان کی دعوت بھی زیربحث آئی ہے۔ ہر پیغمبر نے اپنی قوم سے ایک ہی چیز کا مطالبہ کیا: ’’صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے احکام سے سرتابی نہ کرو۔‘‘ سورۂ الاعراف اور سورۂ ہود میں قوم نوح، عاد، ثمود اور مدین وغیرہ کاتذکرہ ہے۔ ہر قوم سے اس کے پیغمبر نے یہی کہا:
یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ اِلَ ہٍ غَیْْرُہُ ﴿الاعراف:۵۹،۵۶،۳۷،۵۸، ہود:۵،۶۱،۴۸﴾
’’اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔‘‘
ان قوموں کا تذکرہ سورۂ الشعرائ میں بھی ہے۔ وہاں ہر نبی کی دعوت ان الفاظ میں مذکور ہے:
أَلَا تَتَّقُونoاِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنo فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ
﴿الشعرائ:۱۰۶-۱۰۸،۴۲۱-۶۲۱،۲۴۱-۴۴۱،۱۶۱-۳۶۱،۱۷۷-۱۷۹﴾
’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
انبیا کی مشترک دعوت
تمام انبیا کی دعوت میں اشتراک پایاجاتاہے اور وہ ایک ہی مشن کے حامل تھے، اس کااظہار سورۂ الشوریٰ کی اس آیت سے بھی ہوتاہے:
شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحاً وَالَّذِیٰٓ أَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا بِہٰ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَیٰ أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ ﴿الشوریٰ:۳۱﴾
’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیاہے جس کاحکم اس نے نوحؑ کو دیاتھا اور جسے ﴿اے محمد ﷺ﴾ اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں۔ اس تاکید کے ساتھ کہ قایم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مخاطب کرکے فرماتاہے کہ ہم نے جو دین تمھاری طرف وحی کیاہے اسی کے ساتھ دوسرے پیغمبروں کو بھی بھیجاتھا۔ حضرت نوح علیہ السلام سب سے پہلے صاحبِ شریعت رسول ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری۔ درمیان میں حضرت ابراہیم(ؑ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے نام لیے گئے جو اوالوالعزم رسولوں میں سے تھے۔ ان رسولوں کا یکجا تذکرہ سورۂ الاحزاب ﴿آیت:۷﴾ میں بھی ہواہے۔ یہ تمام رسول جو دین لے کر آئے تھے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ﴿تفسیر ابن کثیر، ۴/۲۰۷۱﴾
ان آیات میں خاص طور سے مذکورہ رسولوں کاتذکرہ اس لیے کیاگیاکہ وہ اصحاب شرائع ہیں یا ان پر ایمان لانے والوں کی بڑی جمعیت ہے۔ ﴿تفسیرکبیر، ۲۷/۱۳۸ ﴿وانما خص ہولائ الانبیائ الخمسۃ بالذکر لانہم أکابر الانبیائ واصحاب الشرائع العظیمۃ والأتباہ الکثیرۃ﴾ تفسیر القرطبی، ۶۱/۱۱ ﴿وخصّ نوحاً وابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ بالذکر لأنہم أرباب الشرائع﴾‘‘
مشمولہ: شمارہ اپریل 2011