قرآن اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف ہدایت اور رہ نمائی سے سرفراز کرتا ہے بلکہ ان کی جمالیاتی حس کو بھی تیز کر دیتا ہے۔ قرآن اور جمالیات کا گہرا رشتہ ہے۔ جن کو جمالیات میں زیادہ دل چسپی ہوتی ہے ان کے لیے قرآن کا فہم بھی آسان تر ہو جاتا ہے۔ اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے جمالیاتی ذوق کو جلا ملتی ہے اور جمالیاتی حس کا حامل شخص قرآن سے زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ جن کی طبیعت میں لطافت حس کی کمی ہو، قرآن کا مطالعہ انھیں لطافت حس سے مالامال کر سکتا ہے۔
لطافت ایک ذوق ہے جو اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر ودیعت فرمایا ہے۔ جو لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں ان کے اس ذوق کو ترقی ملتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات جمالیاتی حس کو بڑھاتی ہیں اور مطالعہ قرآن سے جمالیاتی ذوق بڑھتا ہے۔ جو لوگ فطرت کے خلاف چلنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے اندر بھونڈا پن ہوتا ہے اور پھوہڑ پن ان کی طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ان کے اندر لطافت، نزاکت اور احساسات کی باریکیاں مفقود ہوتی جاتی ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ حسن اور اس کی طلب ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ جمالیاتی ذوق کی تسکین ہماری فطرت کی طلب ہے۔ اللہ تعالی نے اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی ہمارے اندر پائی جانے والی لطافت حس اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان وافر مقدار میں کیا ہے۔
قرآن میں اپنے اندرون کی اس حس کے اظہار کے لیے جمیل، جمال، حسن، حسنی، زینت، سرور نظر، آنکھوں کی ٹھنڈک کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن ایک ایسی چیز ہے جس کی مقدار ناپ اور تول کر سامنے رکھی نہیں جا سکتی اور اسےکسی ایک چیز میں مقید کر کے تو لا نہیں جا سکتا۔ ایک باشعور انسان اپنے اردگرد کے ماحول پر اپنی نظریں دوڑائے تو ہر چہار جانب اسے حسن ہی حسن نظر آئے گا۔ جدھر نظر اٹھے ادھر کےحسین مناظر اس کا دل لبھاتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق کے ہر گوشے میں اسے فن کاری نظر آتی ہے۔ حسن،کاریگری اور توازن کا نمونہ ہر پتہ، ہر بوٹا ہر کلی اور ہر گل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مناظر کائنات ہر فریم میں اپنی موزونیت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ حسن کا تصور ایک وسیع آئیڈیا ہے جسے کائنات کے چپے چپے میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حسن کسی پیکر کا نام نہیں ہے بلکہ ایک صفت ہے۔ جمال، حسن، حسنی، سرور، رونق اور زینت کسی وجود کا نہیں بلکہ لطیف آئیڈیا کا نام ہے۔
حسن کسے کہتے ہیں؟ اس کے جواب میں فلسفیوں کا کہنا ہے کہ حسن کا فیصلہ اول مرحلے میں عقل کرتی ہے۔جو چیز عقل کو حسین لگے اس پر حسین ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا ہے اور وہ دلیل کا محتاج نہیں ہے۔[1] کسی سے آپ پوچھیں کہ تاج محل زیادہ حسین ہے یا میرا اپنا گھر۔ وہ برجستہ اور لامحالہ کہے گا کہ کہاں آفتاب اور کہاں ذرہ خاک!! کسی سے یہ پوچھا جائے کہ کشمیر حسین ہے یا میرا قریہ تو وہ برجستہ جواب دے گا کہاں جنت اور کہاں تمھاری بے رونق خار دار بستی!! یہ عقل کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حسن کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ وہ نفس کو اچھا لگے۔ یہ اور بات ہے کہ نفس کو اچھی لگنے والی چیزوں میں بعض مباح ہیں اور بعض حرمتوں کے دائرے میں آتے ہیں۔
زُینَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآب [آل عمران: 14]
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان دار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہے۔
حسن کا ایک اور پیمانہ یہ بھی ہے کہ وہ احساسات کو اچھا لگے۔ کسی خوش مزاج پخته فکر سلیقہ مند نورانی شخصیت سے ملاقات ہونے پر ایک اچھا تاثر ملتا ہے۔ایک اچھی اذان کانوں میں رس گھولتی ہے، ایک اچھی قرأت وجدان کے تاروں کو چھیڑتی ہے۔ مترنم غزل، درد بھری شاعری، محبت آمیز نعت اور روح پرور نغمہ گوئی خوش گوار جذبات سے ہمیں سرشار کرتی ہیں۔ سرور بخش احساسات کی ایک لمبی فہرست ہے جو دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس پوری بحث سے معلوم ہوا کہ جو چیز حسین ہوتی ہے وہ دلنشین ہوتی ہے۔ حسن دلوں میں گھر کر لیتا ہے، چوں کہ اس کا اثر دلوں پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کے باطن میں ایک مسرت کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔ سرور کا پر کیف اثر انسانی روح اور جسم پر ہوتا ہے۔ جو چیز اچھی ہوتی ہے وہ لطف اندوز بھی ہوتی ہے اور انسان اس کی تمنا کرتا ہے۔انسان چاہتا ہے کہ وہ خوش پوشاک ہو، خوب صورت نظر آئے، اس کا گھر خوب صورت ہو اور اندر سے رنگ ڈھنگ ہو اور سلیقہ مندی اور حسن جھلکے۔ اچھا کھانا کھانا اس کی چاہت ہے، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے مناظر کی دید اس کے اندرون کی طلب ہے۔ زینت،حسن اور سرور کی کیفیات فطرت سے اٹھتے ہیں اور دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ حسن اور جمال سبب ہیں اور اس کا تاثر طمانیت قلب اور روحانی مسرت ہے۔ زینت طبیعت کو جلا بخشتی ہے اور مزاج میں فرحت پیدا کرتی ہے۔ جو چیز اچھی ہوتی ہے، جو بات اچھی لگتی ہے، جو آواز خوش کن ہوتی ہے، جس کا برتاؤ اچھا ہو، جو فلسفہ دل لگتا ہو، جو عمارت اچھی لگے، جو عبادت سنجیدہ ہو، جو تحیات امن اور سلامتی والا ہو اس کا اثر سرور نظر اور طمانیت قلب کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ کائنات اور خدا کی مخلوقات کی دید سے جو روحانی مسرت ہوتی ہے قرآن میں جابجا اس کا ذکر ہوا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کے نزدیک حسین شے ہی نیکی ہے، وہی اصل خیر ہے، وہی نور کی شکل میں ڈھلتی ہے۔ اس کے برعکس ظلم، گناہ اور بدی اپنی طبیعت میں حسن سے عاری ہوتی ہیں۔ اس کے اندر فی نفسہٖ قبح ہے۔ ان برائیوں کی قباحت فطرت جانتی ہے۔ جو چیز تمھارے دل کو اچھی لگے وہی نیکی ہے اور جو چیز تمھارے دل میں کھٹکے وہ برائی ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث شریف :
نواس بن سمعانؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
‘‘نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس بات کو ناپسند جانے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں۔’’ [مسلم: 14،15]
نیکیوں کو اگر جسم عطا کیے جائیں تو وہ ایسے حسین پیکر ہوں گی جنھیں دیکھ کر آنکھوں کو سرور، دلوں کو خوشی اور طبیعت کو فرحت ملے گی۔ جب کہ ظلم گناہ اور برائیوں کو جسم عطا کیے جائیں تو وہ خوف ناک اور کالے پیکر ہوں گے۔ ثواب میں خوشی ہے عذاب میں غم ہے۔ جمالیاتی پہلو سے عمل جیسا ہوگا ویسے ہی احساسات ہوں گے اور ویسا ہی انجام بھی ہوگا۔ نیکی اپنے آپ میں ایک انعام ہے اور برائی اپنے آپ میں ایک سزا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن جمالیات کا ایک پورا آئیڈیا دیتا ہے اور قرآن جمالیاتی حس کو بڑھاتا بھی ہے۔
قرآن میں جمالیات
سرور نظر
بنی اسرائیل کو ایک گائے کی قربانی کا حکم ہوا تو انھوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے پے در پے سوالات کیے کہ وہ گائے کیسی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالی نے رہ نمائی کی کہ جمالیاتی پہلو سے وہ ایسی خوب صورت ہو کہ دیکھنے والوں کی نظروں کو سرور ملے۔
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یبَینْ لَنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ یقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِینَ [البقرة: 69]
بولے اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ واضح کرے کہ اس کا رنگ کیا ہو ؟ اس نے کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ سنہری ہو، شوخ رنگ، دیکھنے والوں کے لیے دل پسند۔
جانوروں کی خوب صورتی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ گائے کے حسن کا مقابلہ آج بھی ہوتا ہے۔ ہریانہ میں Bovine beauty pageants ہوتے ہیں۔ کسان اپنی گایوں کو روایتی لباس اور آرائش و زیبائش میں لاتے ہیں۔ ماہر جج فیصلہ کرتے ہیں اور انعامات دیتے ہیں۔[2]
چوپایوں میں حسن
عربوں کا سرمایہ ان کے چو پائے ہوتے تھے۔ جس کے پاس جتنا بڑا ریوڑ ہوتا وہ اتنی شوکت کا مالک ہوتا۔ بھیڑ اور بکریاں انسان دوست جانور ہیں۔ ان کی آنکھوں کی پتلی مربع نما ہوتی ہے۔ ان کی سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے۔ وہ اپنے گروپ کے پچاس سے زیادہ جانوروں کو چہروں سے شناخت کر سکتے ہیں۔ ان کی اپنی بھی ایک پیچیدہ شخصیت ہوتی ہے۔ صبح میں چراگاہ کی طرف لے جانے اور شام میں جب وہ کھا پی کر فربہ ہو جائیں تو گھر کی طرف لوٹا کر لانے میں بھی ایک حسن و جمال ہوتا ہے۔[3]
وَلَكُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ [النحل: 6]
اور ان کے اندر تمھارے لیے ایک شان بھی ہے جب کہ تم ان کو شام کو گھر واپس لاتے ہو اور جس وقت کہ ان کو چرنے کو چھوڑتے ہو۔
جنت کی نعمتیں
ہماری پوری زندگی جنت میں داخل ہونے کے حتمی مقصد کے ساتھ بسر ہوتی ہے۔ ہر وہ بندہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے احکام اور مرضیات کے مطابق زندگی گزارے وہ جنت کا متمنی ہوتا ہے اور اس کے دل میں تجسس ہوتا ہے کہ وہ جنت کیسی ہوگی۔ اس کی اصل حقیقت یقینی طور پر صرف اللہ ہی جانتا ہے، لیکن قرآن میں جنت کا بیان قرب فہم کے لیے بہت خوب صورت پیرائے میں اتنی کثرت سے بیان ہوا ہے کہ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ کوئی صفحہ اس کے تذکرے سے خالی نہیں ہے۔ گل پوش وادیوں اور گل ریز گلشنوں کے بیچ، بہتے دریاؤں اور اچھلتے فواروں کے کنارے، گھنے سایوں اور پھلوں سے لدے ہوئے باغوں میں سرفراز لوگوں کے حسین بنگلے اور بدوی زندگی کے طرز کے خیمے لگے ہوئے ہوں گے۔ کبھی جنتی خوب صورت جگہوں پر بیٹھے خوش گپیاں کر رہے ہوں گے جہاں درختوں کے سائے سے روشنی چھن کر کچھ دھوپ اور کچھ چھاؤں کا منظر پیش کر رہی ہوگی۔ کھانے پینے کے حوالے سے نفیس ترین برتن ان کے سامنے کھنکھنائے جائیں گے۔ وہاں انھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ تمنا کریں گے۔ وہاں کی نعمتیں ایسی ہوں گی جن کی دید سے آنکھوں کو لذت ملے گی۔ زبان کی لذت سے تو ہر عام آدمی آشنا ہوتا ہے مگر آنکھوں کی لذت کا تعلق جمالیات سے ہے جو لذت کام و دہن سے بڑھ کر ہوگی۔ کہیں اسے آنکھوں کی لذت کہا گیا اور کہیں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا گیا ہے۔ وہاں بندہ مومن کے لیے ایسی چیزوں کا اہتمام ہوگا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کے وہم و خیال میں گزرا ہوگا۔ ان چیزوں کی دید سے روح کے اندر مسرتوں کی لہریں دوڑ پڑیں گی۔
قرآن کہتا ہے:
یطَافُ عَلَیهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ وَفِیهَا مَا تَشْتَهِیهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْینُ وَأَنْتُمْ فِیهَا خَالِدُونَ [الزخرف: 71]
ان کے سامنے سونے کی طشتریاں اور سونے کے پیالے پیش کیے جائیں گے اور ان میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لیے لذت بخش ہوں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔
وہاں کی نعمتوں کے بارے میں رسول اللہﷺنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو فلا تعلم نفس ما أخفی لهم من قرة أعین ’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔’’(صحیح بخاری حدیث: 3244)
نہ صرف بیرون کا ہر ذرہ، جنت کا ہر چپہ، باغوں کا ہر پھول اور بوٹا، اور بہشت بریں کا ہر گوشہ مجسم حسن و جمال ہوگا بلکہ جنتی بھی اپنے ظاہری حسن اور کپڑوں کی زینت فاخرہ میں جمالیات کی اعلی ترین تصویر پیش کر رہے ہوں گے، جس سے انسانی نفوس آسودہ ہوں گے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جنت میں ایک بازار ہے جس میں وہ ( اہل جنت ) ہر جمعہ کو آیا کریں گے تو ( اس روز ) شمال کی ایسی ہوا چلے گی جو ان کے چہروں پر اور ان کے کپڑوں پر پھیل جائےگی، وہ حسن اورزینت میں اور بڑھ جائیں گے، وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں گے تو وہ ( بھی ) حسن وجمال میں اور بڑھ گئے ہوں گے، ان کےگھر والے ان سے کہیں گے: اللہ کی قسم! ہمارے ( ہاں سے جانے کے ) بعد تمھارا حسن وجمال اور بڑھ گیا ہے۔ وہ کہیں گے اور تم بھی، اللہ کی قسم! ہمارے پیچھے تم لوگ بھی اور زیادہ خوب صورت حسین ہوگئے ہو۔ ’’ (صحیح مسلم حدیث: 7146 )
جنت نما باغات زمین پر
اسلام کے تصور جنت کے عملی نمونے اسلامی تمدن کے آثاریات میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے دور کی عمارتوں اور اس کے اطراف کے ماحول کی تزئین و آرائش اور ان کی باریک تفصیلات پر غور کریں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تصور جنت سے وہ سب مستعار لیے گئے ہیں۔ان میں باغات اہم عنصر ہیں۔ ان باغات میں افادیت کے پہلوؤں کے علاوہ جمالیات کے ذوق کی بھی کار فرمائی رہی ہے۔
مسلم بادشاہوں نے چہار باغ کا تصور دیا۔ فارسی میں چہار باغ اور اردو میں چار باغ کہا جاتا ہے۔ یہ مسلم بادشاہوں کے طرز تعمیر کی ایک نمایاں علامت ہے۔ انھوں نے عمارتیں بنائیں، مقبرے تعمیر کیے اور فی نفسہٖ جو باغات انھوں نے بنائے ان کی قرآن میں مذکور جنت کے چار باغات پر مبنی چوکور باغ کی ترتیب ہوتی تھی۔ چوکور باغ کو واک ویز یا بہتے پانی کے ذریعے چار چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہوتا ہے۔[4]
مسلم سلطنت کے دوران پائے جانے والے باغات کی چار بڑی قسمیں ہو سکتی ہیں: (١) بادشاہوں کی حویلیوں سے ملحق باغات ؛ (٢) شاہی رہائش گاہوں کے طور پر کام آنے والے وہ باغات جہاں بادشاہ اپنے دوروں کے درمیان قیام کیا کرتے تھے؛ (٣) مزاروں کے اردگرد بنائے گئے باغات ؛ (٤)عام زمر ےکے وہ باغات جو تفریح کی غرض سے بنائے گئے جن کے بیچوں بیچ کبھی بارہ دری ہوتی ہے۔[5]
مغل دور حکومت کے عروج میں صرف لاہور میں پچاس سے زیادہ باغات پائے جاتے تھے ان میں سے ایک دنیا کے سب سے بڑے باغوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ باغات اپنے اندر جمالیاتی پہلو بھی رکھتے تھے اور مذہبی اقدار بھی۔[6]
مغل بادشاہ بابر نے کشمیر کو فتح کیا۔ اکبر نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ کشمیر میں قیام کیا اور وہ کشمیر کو ملک نہیں بلکہ باغات مانتا تھا۔ جہانگیر نے وہاں چودہ موسم گرما گزارے تھے۔ جہانگیر نے اپنی یادداشت تزک جہانگیری میں، پانی کے چشموں، جھرنوں، فواروں اور اونچے اونچے چنار کے درختوں کا تذکرہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہوں نے اپنے دور عروج میں کشمیر میں 700 سے زیادہ باغات بنائے۔ ان میں سے نشاط باغ، شالیمار باغ، پاری محل اور چشمہ شاہی نامور ہیں۔[7]
چار باغ کے بارے میں ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ سورہ رحمن میں اللہ تبارک و تعالی نے مومنین کے لیے جن دو اور دو جنتوں کا ذکر کیا ہے وہی چار باغات ہیں۔ ایک مصنف لکھتا ہے : ‘‘قرآن وعدہ کرتا ہے کہ اہل ایمان ایک ٹھنڈی پھل دار جنت میں رہیں گے اور ان پرکشش مقامات کی تفصیلات دیتا ہےجو وہاں ان کا انتظار کر رہی ہیں…مزید یہ سورہ باغات، سبزہ زار، کھجور کے درخت اور انار اور ٹھنڈے پویلین میں موجود حوروں کے بارے میں بتاتی ہے’’۔[8]
اس طرح قبروں سے منسلک باغات کو جنت کی عکاسی طور پر بنایا گیا۔ اس کے ساتھ یہ تصور بھی منسلک ہے کہ پھل والے پودوں سے زندگی وابستہ ہے اور صنوبر کے درخت موت کی نشان دہی کرنے کے لیے ہوتے ہیں ( کیوں کہ جب ہوائیں چلتی ہیں تو ان میں زندگی کے آثار نہیں دکھائی دیتے، وہ جھومتے اور جھولتے نظر نہیں آتے بلکہ صامت کھڑے کے کھڑے رہتے ہیں۔) غرض چارباغ اور مزار کے درمیان ایک لطیف رشتہ منسلک ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں موت جڑی ہوئی ہوتی ہے جنت کی پر بہار زندگی سے اور زمین جڑی ہوئی ہوتی ہے جنت بالا سے۔ جب زائر اس طرح باغات سے پرامن چہل قدمی کرتے ہوئے مقبرے تک پہنچتا ہے تو یوں محسوس کرتا ہے کہ صاحب قبر پھل دار جنت کی باہوں میں پر سکون آرام فرما رہے ہیں۔ اس طرح کے باغات کی اعلی ترین مثالیں مغل بادشاہ ہمایوں اور اکبر کے مقبرے ہیں۔[9]
ان تمام باغات کے لیے پانی کی بڑی مقدار کی ضرورت تھی۔ مغل بادشاہوں نے نہریں بنانے کی انجینئرنگ کو خصوصیت کے ساتھ ترقی دی۔ دلی کے باغات، دیوان خاص، حمام خواہ باغ، رنگ محل، زنانہ محل وغیرہ تک پانی پہنچانے کے لیے جمنا ندی سے خاص نہر نکالی گئ تھی جس کا نام ‘‘نہر بہشت’’ یعنی جنت کی نہر تھا۔[10]
خدا جمیل ہے
اسلام میں جمالیات کے لیے سب سے پائیدار اور مضبوط دلیل یہ ہے کہ خدا خود جمیل ہے۔ اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ خدا کے جمال کا اس کی تخلیق کائنات ہی میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے مگر خود اس کے جمال کا تصور ہمارے ذہنوں سے پرے ہے۔ جب بھی انسانوں نے خدا کے جمال کو آرٹ اور مصوری کی گرفت میں لانے کی کوشش کی اس کی شان میں کوتاہی ہوئی۔ یہ اس کی شان تنزیہ کے خلاف ہے۔مزید یہ کہ چوں کہ وہ جمال کو پسند کرتا ہے اس لیے اس کی بنائی ہوئی ہر چیز میں جمال عیاں ہے۔ ہر پتے میں حسن اور ہر بوٹے میں کاریگری نمایاں ہے۔ سورج چاند اور ستاروں کی تخلیق میں رونق مبرہن ہے۔ ہر جانور کا ڈیزاین حسین ہے اور ہر درخت میں فن کاری دکھائی دیتی ہے۔ ایک تتلی سے لے کر ایک وسیع کہکشاں تک کا مشاہدہ کر لیجئے، آپ کی عقل اور آپ کا قلب گواہی دے گا کہ خدا جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ یہ بات حدیث میں یوں آئی ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی،آپ نے فرمایا : ‘‘جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔’’ ایک آدمی نے کہا : انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں آپ نے فرمایا : ‘‘اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے. تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔’’ (صحیح مسلم: 91)
کائنات خوب صورت ہے
قرآن نے جابجا انسانوں کو نظام بالا کی طرف غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ سورج چاند ستاروں کے حسن کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ رات میں تاروں کا حسین منظر ہر دل کو لبھاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج کے جدید دور کے انسان تک کے لیے کائنات کا حسن اس کے غور و فکر اور مطالعہ کا موضوع رہا ہے۔ ان مناظر کے حسن میں جب وہ ڈوب جاتا ہے تو آرٹ شاعری مصوری اور نغمہ گوئی کی شکل میں ان حسین مناظر کی منظر کشی کرتا ہے اور اپنے احساسات کا تذکرہ کرتا ہے۔ ہمارے اطراف جو کائنات پھیلی ہوئی ہے وہ منظم، مستحکم، بے نقص اور بے عیب ہے۔ انسان حسین مناظر کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے، اسے کوئی چیز ایسی نہیں ملتی ہےجو جمالیاتی حس کے خلاف ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کے ذوق جمال کی تسکین جس سے نہ ہوتی ہو وہ اگر تمھیں نظر آئے تو بتاؤ !
الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ [الملك: 3]
جس نے بنائے سات آسمان تہ بہ تہ۔ تم خدائے رجحان کی صنعت میں کوئی خلل نہیں پاؤ گے۔ نگاہ دوڑاؤ، کیا تمھیں کوئی نقص نظر آتا ہے۔
تاروں بھرا آسمان
آسمان دنیا کو خوب صورت تاروں سے مزین کیا گیا ہے۔ سیاہ آسمان کی چادر پر چمکتے تاروں کی سجاوٹ آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرتی ہے اور یہ نظارہ انسان کے لیے کبھی پرانا نہیں ہوتا۔
وَلَقَدْ زَینَّا السَّمَاءَ الدُّنْیا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّیاطِینِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیرِ [الملك: 5]
اور ہم نے آسمان زیریں کو چراغوں سے سجایا اور ان کو شیاطین کو سنگ سار کرنے کا ٹھکانا بھی بنایا اور ان شیاطین کے لیے دوزخ کا عذاب بھی ہم نے تیار کر رکھا ہے۔
زمین بھی خوب صورت ہے
صرف اوپر کی دنیا ہی خوب صورت نہیں بلکہ جس زمین پر ہم چلتے پھرتے ہیں اس کا چپہ چپہ اپنے اندر کشش رکھتا ہے اور ہمارے ذوقِ جمال کی تسکین کا سامان ہر چہار طرف پایا جاتا ہے۔
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَینَا فِیهَا رَوَاسِی وَأَنْبَتْنَا فِیهَا مِنْ كُلِّ شَیءٍ مَوْزُونٍ [الحجر: 19]
اور زمین کو ہم نے بچھایا اور ہم نے اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں تناسب کے ساتھ اگائیں۔
آسمان کے حسن کی طرف اشارہ کرنے کے بعد زمین کا جو فرش ہمارے لیے بچھایا گیا ہے، قرآن اس کے حسن کی سیر کراتا ہے۔ اس زمین پر اس نے ہر چیز کو ایک موزونیت کے ساتھ بنایا اور ایک تناسب عطا کیا۔ کسی شے کی موزونیت اور تناسب بگڑ جائے تو یہ دنیا ہمارے لیے جینے کے قابل نہ رہے گی۔ اس نے زمین پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے جس سے زمین کا توازن برقرار ہے۔ پانی کی مقدار اس نے اس زمین کے مختلف حصوں میں اور فضاؤں میں رکھ دی اور ان کے درمیان توازن کے نتیجے میں انسان کو اپنی تمام ضروریات کے لیے پانی میسر آتا ہے۔ جس کی فطرت مسخ نہ ہوئی ہو وہ فطرت کے مناظر میں خدا کی کاریگری کا مشاہدہ ضرور کرے گا۔ ہری بھری وادیاں، گھنے گھنے باغات اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اپنی نزاکتوں اور مناسبتوں سے گواہی دیتی ہیں کہ یہ دنیا دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے بہت حسین ہے۔
ہر مخلوق خوب صورت ہے
جنگل و پہاڑ، بہتے چشمے اور گرتے آبشار، گل پوش وادیاں، ٹیولپ کی لیونڈر کھیتیاں، صحراؤں میں خاردار جھاڑیاں اپنے پیدا کرنے والے کے گن گاتی نظر آتی ہیں۔ باگھ کی دھاریاں، چیتے کے چھینٹے، زیبرا کی کالی سفید پٹیاں، خوب صورت نقوش والے ہرن اپنے صانع عظیم کے ثناخواں نظر آتے ہیں۔ ایک ایک پرندہ اپنے حسن و جمال، اپنی رنگت و نزاکت اور اپنی اداؤں سے خدا کی تعریف میں منہمک نظر آتا ہے۔ اونٹ اپنی تخلیق میں عجیب و غریب نظر آتا ہے مگر صحرائی سفر کا موزوں ترین جانور ہے۔ برفانی ریچھ نے اپنے شدید ترین سرد ماحول کے لیے مناسب ترین جسم و حسن پایا ہے۔ برف کے ٹھنڈے پانی میں نہاتی ہوئی سیل ( مچھلی ) ہو کہ کرہ ارض کے جنوبی قطب کے لاکھوں پینگوین ہوں، کون بلید شخص ہوگا جو ان مخلوقات کی زینت پر فریفتہ نہ ہو۔
الَّذِی أَحْسَنَ كُلَّ شَیءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِینٍ [السجدة: 7]
جس نے جو چیز بھی بنائی ہے خوب ہی بنائی ہے ! اس نے انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا۔
انسان کی تخلیق بھی خوب صورت ہے
انسان اپنے ظاہر میں ایک حسین ساخت رکھتا ہےاور اس کے جسم کا ڈھانچہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ انسان ظاہر کے اعتبار سے بھی اپنے اسٹرکچر میں دیگر تمام مخلوقات سے برتر ہے اور اپنے روحانی کمالات میں یکتائے روزگار ہے۔ اس کے جسم کا ایک ایک عضو متناسب ہے۔ لمبائی اور چوڑائی میں وہ اپنی بالشت میں تقریبا آٹھ بالشت واقع ہوتا ہے۔ لمبائی میں بھی اس کے چار نمایاں حصے ہیں اور چوڑائی میں بھی۔ یہ حیرت انگیز تناسب اسے وہ لچک عطا کرتا ہے جس سے دنیا میں وہ دوڑ دھوپ کرنے کے لائق بنا۔ اس پہلو سے یہاں احسن تقویم کا مطلب most perfect shape ہوگا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ [التین: 4]
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا
عمل کا بھی حسن ہوتا ہے
انسان کا اندرون بھی اپنی پیدائش کے لحاظ سے حسین ہے۔ مگر اس مقام پر اسے آزادی دی گئی کہ وہ اپنے عمل سے اپنی غیر مرئی شخصیت کو چاہے تو نکھار کر انتہائی حسین اور خوب صورت بنا سکتا ہے یا انتہائی بھیانک اور خوف ناک۔ انسان کے اعمال کا اثر اس کے اندرون کی اس شخصیت پر پڑتا ہے جسے لے کر وہ خدا کے سامنے حاضر ہوگا۔ خوب صورت شخصیت کی تراش خراش کرنے میں اگر وہ کام یاب ہوگیا تو خوب صورت انجام سے سرفراز ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالی کی دی ہوئی بہترین ساخت کو اس نے اگر خواہش نفس اور شیطان کی راہ پر چل کر شیطان نما بنا لیا تو شیطان کے ساتھ آگ میں اس کا ٹھکانا ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جسے قرآن نے اس طرح سے بیان کیا ہے:
الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیاةَ لِیبْلُوَكُمْ أَیكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ [الملك: 2]
جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔
ہمیں ایک خوب صورت کائنات میں بھیجا گیا ہے۔ ہمیں ایک خوب صورت زمین عطا کی گئی ہے۔ جب ہمارا گھر اور ہماری چھت خوب صورت ہو تو اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے اعمال بھی حسین و خوب صورت ہوں۔ جب ہمارے اطراف میں پھیلی ہر چیز خوب صورت ہو اور ہم ان میں اشرف المخلوقات قرار پائیں تو ہمیں بھی بدرجہ اولیٰ حسین و خوب صورت ہونا چاہیے۔ اور یہ یاد رہنا چاہیے کہ انسان کا اصل حسن اس کے ظاہر میں نہیں بلکہ اس کے باطن میں ہوتا ہے۔ اس کے اعمال اسے حسین اور اس کے اخلاق اسے باوزن بناتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان جمالیاتی لحاظ سے بلند ہوں، ان میں نفاست ہو، حسن کا شوق ہو، بھلے اور برے کی تمیز ہو یہاں تک کہ ان کا ہر عمل حسین تر ہوجائے۔
پاک صاف زندگی
اسلام کے مطابق چلنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں انسانوں کی زندگی ہر پہلو سے پاک صاف ہو جائے گی۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیینَّهُ حَیاةً طَیبَةً [النحل: 97]
جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، وہ ایمان پر ہے، تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے
خوب صورت انجام
قرآن ہمیں بار بار بتاتا ہے کہ تم نے دنیا میں جو خوب صورت اعمال انجام دیے ہیں اس کا بدلہ بھی آخرت میں خوب صورت نکلے گا۔
وَلَنَجْزِینَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا یعْمَلُونَ [النحل: 97]
اور ہم ان کو جو کچھ وہ کرتے رہے اس کا بہتر صلہ دیں گے
اسلام کے پانچوں ستون حسین
اسلام کی تمام عبادات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ان سب میں جمالیات کے بے شمار پہلو پائیں گے۔
توحید پر غور کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسلام کا تصور خدا، خدا کی عظمت کے شایان شان ہے۔ اس کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور پاک ہے جو ادیان باطل خدائے بزرگ و برتر کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ وہ بے مثل ہے اور یکتا ہے۔ اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ کائنات کو اس نے اپنی مرضی سے ایجاد کیا اور اپنے بل بوتے پر چلاتا ہے۔ اسے کسی شریک و سہیم کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے تمام اچھے نام ہیں۔ جو بندہ توحید مان لیتا ہے اس کی زندگی میں بھی حسن کے گوناگوں پہلو رونما ہوتے ہیں۔ زمین پر جب وہ چلتا ہے تو اس کی چال میں اکڑفوں نہیں بلکہ نرمی ہوتی ہے۔ اس کی گفتگو مغلظات و مفاخرت کی نہیں بلکہ تواضع اور انکساری کی ہوتی ہے۔ درشتگی کے بجائے اس کے پاس قول لین ہوتا ہے۔ جاہلوں سے پالا پڑے تو خوب صورتی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے دامن میں برائیوں کے دھبے نہیں ہوتے۔ اگر غلطی سے لگ بھی جائے تو اس کی پاک فطرت جلد از جلد اسے پاک کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور توبہ کے ذریعے سے اس کا دل پھر چمک اٹھتا ہے۔
نماز کے شرائط اور اس کی ہئیت پر آپ غور کریں گے تو دنیا میں پائے جانے والے تمام طریقہ ہائے عبادات میں نماز کو سب سےحسین طرز بندگی پائیں گے۔ نماز بندہ مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور عطا کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
روزہ انسان کے اندر ون کو پاک صاف کرتا ہے اور روحانی حسن و جمال عطا کرتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں وہ فرشتوں سے مشابہ ہو جاتا ہے۔ نفس پر جب توجہ نہیں دی جاتی تو دل کی کیفیت وحشت ناک ہوجاتی ہے۔ خواہشات کے جالے جابجا تنے ہوئے ہوتے ہیں۔ غضب اور حسد کے سانپ پھنکارتے رہتے ہیں، غیبت کی وجہ سے دل کے اندر مردہ لاشوں کا تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ ہوس پرستی کی گندگی کے ڈھیر دل کے بیچوں بیچ نظر آتے ہیں۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے نتیجے میں بندہ مومن خود اپنے خستہ حال دل میں اترنے کی ہمت کرتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے گندگی کے ڈھیر صاف کرتا ہے، لاشوں کو باہر نکالتا ہے، سانپوں کو مار دیتا ہے اور قلب کی ایسی صفائی کرتا ہے کہ پھر سے وہ روشن اور منور ہو جاتا ہے۔
زکوة مال کو صاف کرتی ہے۔ دولت پرست انسان کے مال کی کیفیت کی اگر اسکینگ ممکن ہو تو حرص و ہوس، حب دنیا اور حب مال اور بخل و تنگدلی کے کالے دھبے جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ انفاق کے نتیجے میں یہ دھبے مٹ جاتے ہیں اور انسان کا مال خوب صورت نظر آتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ زکوٰة سے نہ صرف مال خوب صورت ہوتا ہے بلکہ رویے بھی خوب صورت ہو جاتے ہیں اور زندگی بھی حسین ہو جاتی ہیں۔ اور ایسا شخص خاندان اور معاشرے کا نور نظر بن جاتا ہے۔
حج کی کیفیت کا کیا کہنا کہ جب حاجی حج کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو ایسا معصوم ہو جاتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا بچہ۔ بچہ خوب صورت اور دل آویز ہوتا ہے۔ حج کی عبادت بھی حاجی کے اندر زندگی کی کایا پلٹ کر کے اسے از سر نو نرم دل، نرم خو اور انسانیت نواز بنا دیتی ہے۔ اس طرح سے حاجی کی زندگی میں ایک جمال پیدا ہو جاتا ہے۔
قرآن کا کمیونی کیشن حسین
کمیونی کیشن کے ضمن میں قرآن کی تعلیم حسین ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ مومن جب گفتگو کرتا ہے تو سیدھی بات کہتا ہے، اچھی بات کرتا ہے۔ اس کی بات سیدھے دلوں تک پہنچنے والی ہوتی ہے۔ اس کی گفتگو نرم ہوتی ہے۔ اس کی باتوں میں لوگوں کے لیے آسانیاں ہوتی ہیں۔ وہ مشکلات میں ڈالنے والا نہیں ہوتا۔
اسلام کی سماجی تعلیمات بھی خوب صورت ہیں
اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ ادب سکھاتا ہے کہ کسی کے گھر ملاقات کے لیے جائیں تو تاک جھانک نہ کریں۔ دستک دیں یا سلام کریں اور جواب نہ ملنے پر بغیر کبیدہ خاطر ہوئے لوٹ جائیں۔ یہ دلوں کی صفائی کے لیے احسن ہے۔ اور اگر اندر آنے کے لیے کہا جائے تو اتنا انتظار کرلیں یہاں تک کہ گھر کا فرد اپنے آپ کو جمال سے آراستہ کر لے اور گھر کا ماحول بھی پاک صاف کر لے تاکہ آپ کی آنکھوں کو چبھن نہ ہو اور صاحب خانہ کو بار خاطر نہ ہو۔
اسلام کی جنسی تعلیمات بھی انتہائی حسین اور پاک صاف ہیں
اسلام کی جنسی تعلیمات میں سب سے اول سبق نگاہوں کو نیچی رکھنا ہے۔ یہ دلوں کو پاک صاف رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ عورت کی زینت اس کے شوہر کے لیے ہو، یا جو اس کے بالکل قریبی رشتے دار ہیں۔ وہ شمع انجمن نہ ہو۔ غیروں کے سامنے عورت کا سج دھج کر نکلنا اسلام کے نزدیک جاہلیت ہے۔ عورت کا حسن تقاضا کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے دعوت نظارہ نہ بنے۔ حیا حسن کا اعلی ترین مقام ہے۔ بےحیائی پھوہڑ پن ہے۔ نکاح کے ذریعے عورت کو اپنے نکاح کے قلعہ میں حفاظت کے لیے داخل کرنا معاشر تی حسن ہے۔ جنسی عمل کے آداب بھی اسلام میں انتہائی اعلیٰ اور ارفع ہیں۔جنسی خواہشات کے لیے ادھر ادھر منہ مارتے پھرنا بدذوقی ہے۔ میاں بیوی میں کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکے تو جدائی بھی جمیل طریقے سے ہونی چاہیے۔
حوالہ جات:
[1] اسلامی ثقافت، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، فیروز سنز لمیٹڈ لاہور۔
[2] https://indianexpress.com/photos/trending-gallery/beauty-is-beast-haryana-host-bovine-beauty-pageant-in-full-flurry-2790379/
[3] https://spca.bc.ca/news/fun-facts-about-sheep/
[4] https://en.wikipedia.org/wiki/Charbagh‘: ~: text=Charbagh%20or%20Chahar%20Bagh%20
[5] Dickie, J. (1985). The Mughal Garden: Gateway to Paradise. In O. Grabar (Ed.), Muqarnas Volume III: An Annual on Islamic Art and Architecture (pp. 128–137). Leiden: BRILL.
[6] Latip, Nurul Syala Abdul, et al. “An Architectural-Morphological Analysis Of The Mughal Gardens Of The 16 Th And 17 Th Centuries: Engaging Cultural Forms As Strategies For Passive Design For Urban Sustainability.”
[7] Haenraets, Jan, Alyssa Schwann, and Melissa Hollingsworth. “Paradise In Conflict: Reexamining And Safeguarding The Genius Of The Mughal Gardens Of Kashmir
[8] Moore, Charles W., William John Mitchell, and William Turnbull. The poetics of gardens. MIT Press, 1993.
[9] Krusche, Krupali Uplekar, et al. “History, Morphology And Perfect Proportions Of Mughal Tombs: The Secret To Creation Of Taj Mahal.” Archnet-Ijar 4.1 (2010)
[10] Fatma, Sadaf, and Sadaf Fatima. “Waterworks in Mughal Gardens.” Proceedings of the Indian History Congress. Vol. 73. Indian History Congress, 2012
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022