قرآن کریم دنیا کی بہترین کتاب ہے اور اللہ رب العزت کا آخری کلام ہے۔ اس میں دین و دنیا کی سعادت، بنی نوع انسان کی ہدایت اور اُخروی نجات کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم علوم ومعارف اور حکمت ودانائی کا خزینہ ہے۔ اس کے محاسن کبھی ختم نہ ہوں گے اور اس کی تازگی کبھی متاثر نہ ہوگی۔ اس کی قوت تاثیر کا یہ عالم ہے کہ بڑے سے بڑے سخت مزاج کو وہ نرم کردیتا ہے اور بہت سے پتھردلوں کو موم کردیتاہے۔قرآن پاک جس دل کو متاثرکرتا ہے ، اس میں خشیتِ الٰہی اور انابت الی اللہ کی روح بھردیتا ہے اور جس سینے میں یہ اترتا ہے اسے منبع نور بنا دیتا ہے۔ خشیت الٰہی ، انابت الی اللہ، تعلق مع اللہ اور رجوع الی اللہ کی کیفیات قرآن کریم کی تلاوت اور اس میں غوروفکر سے پیدا ہوتی ہیں۔ کبھی یہ کیفیت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا ومافیہا سے بے نیاز کردیتی ہے۔ کیفیت کا درجہ قاری کے استفادے، استحضار اور اثر پذیری کی صلاحیت کے اعتبار سے ہے۔ قرآن پاک چوںکہ رہتی دنیا تک کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ اس لیے اس میں قلوب کو متاثر کرنے اور ذہن وفکر اور جذبات کو قابو میں لانے کی بے پناہ قوت رکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس قوت کا انکشاف ان لفظوں میں کیا ہے:
اللَّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ الَی ذِکْرِ اللَّٰہِ ذَٰلِکَ ہُدَی اللَّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَشَائ ُ وَمَن یُضْلِلْ اللَّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ۔ ﴿الزمر:۲۳﴾
’’اللہ تعالیٰ نے بہترین بات نازل کی ہے، یہ وہ کتاب ہے جو باہم متشابہ اور دہرائی ہوئی ہے۔ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے رونگٹے ﴿اسے پڑھ کر اور سن کر﴾ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کی کھالیں نرم ہوجاتی ہیں اور ان کے دل کی یاد میں محو ہوجاتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے ، وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں‘‘۔
مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کو نسخۂ کیمیا بنایا ہے۔ اس کی خاص صفت یہ ہے کہ وہ قلب اور قالب، ظاہر اور باطن ، ذہن اور جذبات سب کو ذکرِ الٰہی میں مشغول کردیتا ہے ، وہ انسان پر خوف و خشیت کی غیر معمولی کیفیت طاری کردیتا ہے۔چناں چہ قاری یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ پورے عجز ونیاز کے ساتھ خدائے ذوالجلال کے حضور میں کھڑا ہے اور متلاطم جذبات کے ساتھ اشکوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔ مفسر قرآن حافظ اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن کی تلاوت فرماتے تھے توصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے نرم پڑجاتے تھے‘‘۔
قرآن کریم میں خوف و خشیت پیدا کرنے کی جو قوت رکھی گئی ہے، وہ ایسی ہے کہ اگر یہ کتاب پہاڑ جیسی سخت ترین مخلوق پر نازل ہوجاتی تو اسے بھی ہلاکر رکھ دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی اس قوت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُراٰنَ عَلَٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہ‘ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون۔ ﴿الحشر:۲۱﴾
’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے، اوریہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور کریں‘‘۔
انسان جب کلام الٰہی کو سنتا ہے اوراس میں غور کرتا ہے تو اس کو اپنی حقیقت اور اپنی حیثیت، اپنا مقام ، اپنا مقصد ، اپنی راہ، اپنی منزل ، سب کچھ نظر آتی ہے۔ قرآن انسان کو مخاطب کرتا ہے اُسے راست روی کی دعوت دیتا ہے ، کج روی سے روکتا ہے اور اپنا محاسبہ کرنے اور اپنا قلب درست کرنے پر متوجہ کرتا ہے۔ قرآن حکیم اللہ کی یاد، اللہ کا خوف اور اس سے تعلق کا بار بار مطالبہ کرتا ہے ، وہ خوابیدہ دلوں کو جھنجھوڑتا ہے اور کہتا ہے:
الَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۔ ﴿الحدید:۱۶﴾
’’کیا مومنوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے خشیت پائیں اور جو کچھ اللہ نے برحق نازل کیا ہے‘‘۔
قرآن کریم کی تلاوت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کا دل اور دماغ اور پورا وجود قرآن کی خدمت میں حاضر ہو۔ انسان اسے سمجھے اور اپنے دل میں خشیت الٰہی کی کیفیت پیدا کرے۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ جب ان پر قرآن حکیم نازل ہوتو وہ اسے پوری خشیت کے ساتھ حاصل کریں‘‘۔ ﴿ابن کثیر﴾
قرآن کریم کے نزول کی بشارت اور نبی آخرالزماں
ö کی بعثت کی پیشین گوئی سابقہ آسمانی کتابوں توریت وانجیل میں بھی دی گئی تھی۔ وہ علماء اہل کتاب جو ان بشارتوں کو جانتے تھے، پھر قرآن کریم کو سنتے تھے ان میں خوف و خشیت کا عجیب عالم برپا ہوجاتا تھا، قرآن پاک نے ان کی خشیت وانابت کی کیفیت کا تذکرہ کیا ہے:
انَّ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِہاذَا یُتْلَٰی عَلَیْہِمْ یَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّداً۔وَّیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَآ ان کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً۔ وَیَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیْدُہُمْ خُشُوعاً۔﴿بنی اسرائیل۱۰۷۔۱۰۹﴾
’’جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیاگیا ہے انھیں جب یہ قرآن سنایا جاتا ہے تو وہ تھوڑیوں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں پاک ہے ہمارا رب اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا اور وہ تھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور ان کی خشیت اور بڑھ جاتی ہے‘‘۔
پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ قرآن حکیم پڑھتے اور سنتے وقت خشیت طاری ہوتی تھی۔ آپﷺ حامل قرآن تھے، وحی کے رمز شناس تھے۔ کلام اللہ کے محرم راز تھے اور قرآن کے مخاطب اول تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا کلام سب سے زیادہ آپﷺ کو مسحور کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی تلاوت فرماتے یا سماعت فرماتے تو دونوں حالتوں میں جذب و کیف اور وجد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل قرآن کریم سے وابستہ ہوجاتا تھا۔ حضرت مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول پاک ﷺ کے پاس حاضر ہوا ، آپﷺ نماز میں مشغول تھے اور اس طرح رو رہے تھے کہ جیسے ہانڈی میں کوئی چیز ابل رہی ہو‘‘۔ ﴿شمائل ترمذی﴾
حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کرو ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک تو آپ ﷺ پر نازل ہوا اور میں آپﷺ کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی جرأت کروں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! میرا جی چاہتا ہے کہ میں قرآن پاک کسی اور سے سنوں۔ چناں چہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت تک پہنچا:
فَکَیفَ اذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَٰی ھؤُ ٓلَاء شَہِیْداً۔ ﴿النساء : ۴۱﴾
’’وہ حالت کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپﷺ کو ان تمام گواہوں پر گواہ بنائیں گے‘‘۔
یہ آیت سن کر آپﷺ نے فرمایا بس کرو اور آپﷺ زاروقطار رونے لگے‘‘۔ ﴿بخاری﴾
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھتے تھے اور خشیت وانابت کے جذبات آپﷺ کے دل میں موجزن رہتے تھے۔ قرآن پاک کی تلاوت کا یہی اسوہ آپﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کے لیے چھوڑا، اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بکثرت روایات ہیں کہ جب وہ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تھے تو روتے، گڑگڑاتے اور خو ف و خشیت الٰہی سے بے حال ہوجاتے تھے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی دادی اسمائ بنت ابی بکرؓ سے پوچھا کہ قرآن پاک سنتے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی تو انھوں نے فرمایا:
’’تدمع عیونہم وتقشعر جلودہم‘‘
’’ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں اور ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘‘۔ ﴿روایتِ بیہقی﴾
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سورہ النجم کی یہ آیت نازل ہوئی:
اَفَمَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَلَاتَبْکُوْن۔
تو اصحاب صفہ رونے لگے اور ان کے آنسو ان کے چہروں پر بہنے لگے۔ ﴿ایضاً﴾
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکے میں اپنے گھر میں ایک مسجد بنا رکھی تھی، اس میں وہ نماز ادا کرتے اور قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے۔ مشرکوں کی عورتیں اور بچے ان کو دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتے اوران کو اس حالت میں دیکھ کر تعجب کرتے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گریہ والے آدمی تھے، جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اپنے آنسو روک نہیں پاتے۔ ﴿ایضاً﴾
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو زاروقطار روتے، ان کے بارے میں عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں فجر کی جماعت میں آخری صف میں تھا اور حضرت عمر ؓ نماز پڑھا رہے تھے ، انھوں نے سورہ یوسف کی تلاوت کی، جب وہ اس آیت تک پہنچے :
انَّمَا اشکُوْابثی وَحزْنِیْ اِلَی اللّٰہ۔
تو رونے لگے اور ان کے آنسو چہرے پر بہنے لگے۔ ﴿ایضاً﴾
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے حضر ت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں ان کے غلام نافع کہتے ہیں کہ جب جب وہ سورہ البقرۃ کی آیت :
’’وَا نْ تُبْدُوْا مَافِیْٓ اَنْفُسِکُمْ أَوْتُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہ‘‘۔کی تلاوت کرتے تو رونے لگتے‘‘۔ ﴿ابن جوزی، صفۃ الصفوہ﴾
ایک مرتبہ حضر ت عبداللہ بن عمرؓ نے سورہ ویل للمطففین کی تلاوت کی، جب اس آیت تک پہنچے :
’’یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘
تو رونے لگے اور بعد کی آیات کی تلاوت نہ کرسکے‘‘۔ ﴿ایضاً﴾
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں جناب قاسم روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر ان کو سلام کرنے گیا۔ دیکھاکہ وہ نماز میں مشغول ہیں اور سورہ طور کی آیت :
’’فَمَنِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَاب السَّمُوم‘‘
کی تلاوت کر رہی ہیں اور رورہی ہیں اور بار بار اسے دہرا رہی ہیں۔ میں کسی کام سے بازار چلا گیا۔ لوٹ کر آیا تو دیکھا کہ وہ بدستور نماز میں مشغول ہیں ، تلاوت کر رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ ﴿ایضاً﴾
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ سورۃ الانفطار کی آیت :
’’یَآأَیُّہَاالْاِنْسَانَ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْم ۔ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَک‘‘
کی تلاوت کرتے تو رونے لگتے‘‘۔
غرضے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تلاوت پر سوز اور پُرکیف ہوا کرتی تھی۔ وہ قرآنی آیات سے عبرت وموعظت اخذ کرتے اور ان کے دل خوف وخشیت الٰہی سے معمور ہوتے۔ صحابہ کرامؓ کی یہ وراثت تابعین عظام میں منتقل ہوئی اور ان سے تبع تابعین اور مابعد میں۔ یہ سلف صالحین جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو ان کے سینے انوار قرآنی کے لیے کھل جاتے اور ان کے دل خشیت الٰہی سے لبریز ہوجاتے۔
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں ان کی زوجہ فاطمہ بنت عبدالملک کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے دیکھا کہ وہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور اس آیت کی تلاوت کی:
’’یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْث وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَاالْعِہِنِ الْمَنْفُوْش‘‘۔
تووہ چیخ پڑے۔ پھر وہ کودے اور گرپڑے، میں نے سمجھا کہ شاید ان کی جان نکل جائے گی، پھر ان کو سکون سا ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ روح پرواز کرگئی۔ پھر ان کو افاقہ ہوا تو وہ پھر پکارنے لگے واسوہ صباحاہ۔پھر وہ گھر میں چکر لگانے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ اس دن میری تباہی ہے جس دن لوگ بکھری ہوئی تتلیوں کی مانند ہوں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوں گے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رات بھر ان کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ ﴿مناقب عمر بن عبدالعزیز۔ ابن جوزی﴾
حضرت فضیل بن عیاضؒ کی خشیت کے بارے میں بہت سے واقعات مشہور ہیں۔ سعد بن زنبور کہتے ہیں کہ ہم لوگ فضیل بن عیاض کے دروازے پر گئے اور داخل ہونے کی اجازت طلب کی، ہمیں اجازت نہیں ملی ۔ کہلا یا کہ وہ اس وقت تک نہیں نکلیں گے جب تک کہ قرآن نہ سن لیں ، ہم میں ایک شخص مؤذن تھا اور اچھی قرأت کرتا تھا، ہم نے اس سے درخواست کی تو اس نے سورہ الہاکم التکاثر کی تلاوت کی۔ فضیل بن عیاضؒ یہ سورہ سن کر روتے ہوئے باہر نکلے اور ان کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوچکی تھی، وہ کپڑے سے آنسو پوچھ رہے تھے۔ ﴿متفقہ الصفوہ﴾
حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں قاسم بن معن فرماتے ہیں کہ ایک رات وہ سورۃ القمر کی آیت:
’’بَلِ السَّاعَۃِ مَوعِدَہُمَ وَالسَّاعَۃِ ادھی وَامر‘‘
کی تلاوت کررہے تھے، بار بار اسے پڑھ رہے تھے اور زار وقطار روتے جاتے تھے۔
حضرت مالک بن دینار کے بارے میں حارث بن سعید کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک قاری تھا جو سورہ الزلزال کی تلاوت کر رہا تھا، جب وہ اس آیت پر پہنچا :
’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہ‘۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًایَّرَہ‘‘‘۔
تو مالک رونے لگے، ان کی چیخ نکل گئی، وہ بے ہوش ہوگئے۔
حضرت یحییٰ بن سعید القطان کے بارے میں علی بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مسجد سے نکلا، جب وہ اپنے گھر کے دروازے تک پہنچے تو ٹھہر گئے، ہم بھی ٹھہر گئے، ان کے پاس ایک شخص گائون پہنے آیا۔ حضرت یحییٰ بن سعید القطان نے ہم سب لوگوں کو گھر کے اندر چلنے کو کہا، جب سب آگئے تو انھوں نے اس آدمی سے کہاکہ قرآن پاک کی تلاوت کرو، اس نے سورہ الدخان کی تلاوت شروع کی، جب اس آیت تک پہنچا:
’’ا نَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتَہُمْ اَجْمَعِیْن‘‘۔
تو حضرت یحییٰ کی چیخ نکل گئی، وہ بے ہوش ہوگئے، ان کا دروازہ قریب تھا جب پلٹے تو دروازے سے چوٹ لگ گئی، پیٹھ میں زخم آگیا ، خون رسنے لگا، عورتیں رونے لگیں۔ ہم لوگ گھر سے باہر آگئے، پھر ان کو افاقہ ہوگیا اور نیند کی حالت میں وہ اسی آیت کی تلاوت کر رہے تھے، پھر اسی زخم کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا‘‘۔ ﴿ایضاً﴾
سلف صالحین اور بزرگان دین کے سیکڑوں واقعات ہیں جو تلاوت قرآن پاک یا سماعت قرآن پاک کے وقت ان کی خشیت الٰہی اور آہ وزاری کی تفصیلات بیا ن کرتے ہیں۔ آج بھی جو حضرات حرمین شریفین میں تراویح کی نماز میں شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں وہ ایسے دل کش مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ۱۳/ جولائی ۲۰۱۲ء کی تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا، راقم عمرہ کے لیے خانہ کعبہ میں حاضر تھا،فجر کی نماز امام حرم جناب خالدالغامدی نے پڑھائی۔ انھوں نے سورہ الحجرات کی تلاوت فرمائی اور جب وہ اس آیت پر پہنچے:
قُلْ أَتُعَلَّمُوْنَ اللّٰہَ بِدِیْنَکُمْ وَاللّٰہُ یُعَلَّمُ مَافِی السَّمٰواتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیْم۔ ﴿الحجرات: ۱۶﴾
’’کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتلاتے ہو حالاں کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے‘‘۔
امام حرم رونے لگے، بار بار وہ اس آیت کو پڑھتے رہے روتے رہے اور پورا حرم سسکیوں اور آہ وبکا میں ڈوب گیا ، یہ منظر میرے لیے لاثانی اور لافانی تھا۔
عجمی ملکوں میں جو لوگ قرآن کی زبان عربی سے واقف نہیں ہیں وہ اس لذت سے کما حقہ آشنا نہیں ہوتے۔ اگر ہم قرآن پاک کو سمجھنے لگیں ، اس کے معانی و مطالب سے آگاہ ہوجائیں تو ہمارے دل خشیت الٰہی کی لذت سے آشنا ہوجائیں۔ تعلق باللہ اور انابت الی اللہ کی وہی کیفیت ہمارے اندر پیدا ہونے لگے جو سلف صالحین میں تھی اور ہماری موجودہ کیفیت بدل جائے۔ علامہ ماہرالقادری نے کہا تھا :
دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ نم ہوتیں ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012