موجودہ زمانے میں تعلیم و تربیت نے ایک مستقل علم (Scince)کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک، تدریس وطریق تعلیم کی اتنی شاخیں اور قسمیں ہوگئی ہیں کہ ان کے تفصیلی بیان کے لیے کئی ضخیم جلدیں درکار ہیں۔ تعلیمی میدان میں قدم رکھنے والا ہر شخص تعلیم کی ان بے شمار قسموں میں سے کسی ایک قسم کو اختیار کرتا ہے اور اپنی عمرعزیز کا ایک بڑا حصہ اس کے حصول میں صرف کردیتا ہے۔ دنیا میں جتنے علوم وفنون پائے جاتے ہیں، سب کی تدریس کا انداز جدا اور الگ ہے۔ ایک انسان ان میں سے ہر چیز کی تدریس اور طریق تعلیم کا ماہر نہیں ہوسکتا۔ علمی میدان کی اس بے پنا ہ وسعت اور اندازِ تربیت کے تنوع کے بہت سے فائدے بھی ہیں اور کچھ نقصانات بھی۔ لیکن یہاں یہ موضوع زیرِ بحث نہیں ہے۔ بل کہ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ تعلیمی میدان میں اس حیران کن تبدیلی اور پھیلاؤ سے مسحور ہوکر نئی نسل خصوصاً مسلم نوجوانوں نے اس نظامِ تعلیم کو ہی سب سے بہتر،مفیداورثمرآورسمجھ لیاہے۔ اس نظامِ تعلیم اور اس کی اساس کا قرآن کے نظریۂ تعلیم کے ساتھ موازنہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے، نئی نسل کے وہم وگمان میں دور دور تک بھی یہ بات نہیں پائی جاتی کہ تعلیم کے سلسلے میں قرآنِ حکیم بھی ایک جامع نظریہ رکھتا ہے۔ ایک ایسا نظریۂ تعلیم جس کے اندر علم کی بے پناہ وسعتوں تک رسائی حاصل کرنے کے امکانات بھی ہیں اور علم کے مقصدِ اصلی سے مکمل طورپر نفع اندوز ہونے کا یقین بھی۔
ایک اہم قرآنی اصول
قرآن کے نظریۂ تعلیم کے مطالعے سے پہلے یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن ایک آفاقی کتاب ہے۔ اس کو کسی ایک نقطے کی تبدیلی کے بغیر قیامت تک پیش آنے والے ہر انسانی مسئلے کا حل پیش کرنا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے ہر ملک، ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر زمانے میں اسی سے رہ نمائی حاصل کرنی ہے۔ تعلیم، تربیت، اخلاق، معیشت، معاشرت، حکومت، سیاست غرض کہ ہر انسانی شعبے کی ہر زمانے میں قیادت اور رہ نمائی کرنا قرآن کا مقصد ہے۔ ایسی صورت میں کسی طرح بھی یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ قرآن کو ان مذکوربالا فنون یا شعبہ ہائے حیات میں کسی ایک کے لیے خاص کردیاجائے اور اس بات کا دعویٰ کیاجائے کہ اس شعبۂ حیات کے ہر کلّی اور فروعی مسئلے کو قرآن میں پیش کردیاگیاہے اور اب ان مسائل میں کسی مسئلے کا اضافہ ناممکن ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انسانی زندگی تغیرپزیر ہے۔ ہر زمانے اور ہر علاقے کے اپنے مطالبات ہوتے ہیں، لہٰذا اس طرح کا کوئی بھی دعویٰ ہر اعتبار سے مہمل اور فضول قرار دیاجائے گا۔
قرآن مجید کا طریق ہدایت یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل کے متعلق تفصیلات میں گھسے بغیر چند ایسے رہ نما اصول وضع کردیتا ہے، جو اپنے اندر معانی و مطالب کا ایک جہان لیے ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ بہت مختصر اور محدود نظرآتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ انتہائی وسیع اور لامحدود ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس زمانے اور علاقے میں کسی فرد یا معاشرے کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتاہے، وہ قرآن مجیدسے رجوع کرکے ایسے ہمہ گیر اصول حاصل کرلیتا ہے، جن میں اس کو درپیش تمام مسائل کا حل موجود ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ یہ قرآنی اصول و ضوابط ایسے جامع، ہمہ گیر اور ناقابلِ رد ہیں کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں اور دنیا کے کسی بھی حصے میں ان اصول و ضوابط کی ناکامی کا دعویٰ نہ کیاجاسکا اور نہ کبھی کیاجاسکے گا۔ یہ اصول انسانی فطرت (Human Nature)کا حصہ ہیں، لہٰذا ان کے ٹوٹ جانے یا ناکام ثابت ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قرآن کریم کا یہی اصول نظریۂ تعلیم کے سلسلے میں بھی ہے۔ قرآن نے علم کی تعریف کردی، ہرزمانے میں اس کا مطلوبہ مقصد بتادیا، اہل علم کے مقام کا تعین کیا، علم کے منافع سے باخبر کردیا، اولاد کی تعلیم و تربیت کی کچھ اچھی مثالیں پیش کردیں اور حصولِ علم کے زیادہ سے زیادہ مراحل طے کرلینے کے باوجود خود کو کم علم سمجھنے کی ہدایت دی اور اضافۂ علم کی دعا بھی سکھادی۔ ان رہ نما خطوط (Guide Line)کو واضح کردینے کے بعد انسان کو آزاد چھوڑدیا کہ وہ ان خطوط کو سامنے رکھ کر جس طرح کا چاہے علم حاصل کرے۔
تعلیم کا مقصد
سورۂ علق کی یہ ابتدائی پانچ آیات قرآن کی پہلی وحی بھی ہیں اور حصولِ علم کا پہلا حکم الٰہی بھی:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ oخَلَقَ الْانسَانَ مِنْ عَلَقٍ oاقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ oالَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ oعَلَّمَ الْانسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْo
’پڑھو اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ہے۔ بنایا آدمی کو جمے ہوئے خون سے۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے علم سکھایا قلم سے۔ سکھایا آدمی کو جو وہ نہ جانتاتھا۔‘
ان آیات سے جہاں دوسری بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں، وہیں مقصدِ علم کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ان آیات میں علم کا تعلق رب سے جوڑکر یہ بات طے کردی گئی کہ تمھارے علم کا محور صرف اپنی ذات، اپنا نفع، مال و دولت یا عزت و شہرت نہ ہو، بل کہ اصل مدار تمھارے رب کی ذات ہو۔ علم حاصل کرکے تم اپنے لیے، اپنے بال بچوں کے لیے، اپنے گھربار کے لیے یا کسی اور کے لیے ہر وہ کام کرسکتے ہو جو تمھارے رب کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔
قرآن کے اس مقصدِ تعلیم کو پڑھ کر موجود زمانے میں اصولِ علم کے مقاصد پر نظر ڈالیے۔ موجودہ نظامِ تعلیم میں تعلیم وتربیت سے کسی بھی طرح کی سعادت کا تصور کلی طورپر ختم ہوچکا ہے۔ علم کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان کو اچھی سی ملازمت مل جائے،اس کی زندگی مالی اعتبار سے اچھی گزرے اوروہ سماج میں عزّت و وقار کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم برائے سرمایہ کو توخوب وسعت ملی لیکن تعلیم برائے تربیتِ ذات، ماضی کی داستان بن گئی۔ تعلیم کے بالکل ابتدائی مراحل سے ہی بچوں کے ذہنوںمیں کیریئر کی فکر مسلّط ہونے لگی۔ ماں باپ نے امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کام یابی پر اتنا زور دینا شروع کردیاکہ بچے مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکارہوگئے اور ہر سال ایک بڑی تعداد کم نمبرات آنے کی وجہ سے اقدامِ خودکشی پر بھی مجبور ہوتی رہتی ہے۔ غرض کہ تعلیم کا مقصدِ اصلی بہت پیچھے رہ گیا، اس کی روح نظراندازہوگئی اور نئی نسل ہزار تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود صرف کمائی کی مشین بن کر رہ گئی۔ اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر اس تشویش ناک صورت حال کا بالکل صحیح عکاس ہے:
کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مرگئے
علم: وجہِ شرافت
سورۂ بقرۃ کی آیت نمبر ۳۰ سے ۳۹ تک قصۂ تخلیق آدم کاذکر ہے۔ اس میں ایک مقام پر فرمایاگیاہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الأَسْمَآئَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِ ٰٓکَۃِ ﴿البقرہ:۳۱﴾
’اللہ نے آدم کو تمام اشیا کے نام سکھائے اور ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔‘
اس آیت سے اس بات کاواضح اشارہ ملتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے علم کو اشرف المخلوقات بنانے کاذریعہ بنایا ہے۔تعلیم کے ذریعے انسان کو کائنات کی سب سے بہتر مخلوق کا درجہ ملا ہے۔ لہٰذ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کی لاج رکھے اور وہ دنیاکو سب سے مہذب، سب سے لطیف اور سب سے زیادہ بااخلاق، سنجیدہ اور نفع بخش مخلوق بن کر دکھائے۔ اس آیت سے علم کی اہمیت بھی ظاہر ہوئی اور اہلِ علم کی ذمہ داریوں کا رخ بھی متعین ہوگیا کہ انھیں اپنے علم کے ذریعے کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ہونے کا ثبوت دینا چاہیے اور اپنے علاوہ دوسری مخلوقات کو اپنے دریاے خیر سے سیراب کرناچاہیے۔
تعلیمی اساس پر زور
ماں باپ یا اساتذہ کے لیے قرآن کریم کی سب سے اہم ہدایت یہ ہے کہ وہ تعلیم کے بنیادی مقصد رضاے الٰہی اور تربیتِ ذات کو بچوں کی نگاہ سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیں۔ بل کہ ہر حال میں ان کو مقصدِ اصلی سے جوڑے رکھیں تاکہ ان کی تعلیم کی پوری عمارت مضبوط اور درست بنیادوں پر قائم ہوسکے۔ سورۂ لقمان کی آیت نمبر ۱۲سے ۱۹ تک وہ تعلیمات ذکر کی گئی ہیں جو حضرت لقمان نے اپنے صاحب زادے کو فرمائی تھیں۔ ان میں سب سے پہلی تعلیم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ انھوں نے فرمایا:
یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ ط انَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌo﴿لقمان:۳۱﴾
’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا، بے شک شرک بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام اللہ کے حق کی ادائی کی تعلیم کے بعد اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہیں اور پھر عام انسانوں سے بات چیت کے آداب کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ بچوں کی تعلیمی اساس کو مضبوط کرنا کس قدر ضروری ہے۔ اساس کی پختگی کے بعد وہ جو علم بھی حاصل کریں گے، وہ ان کے لیے بھی نفع بخش ہوگااور پوری انسانیت کے لیے بھی سود مند ثابت ہوگا۔
وقتاً فوقتاً احتساب کی تعلیم
قرآنِ کریم کے نظریۂ تعلیم میں یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اساتذہ یا ماں باپ وقتاً فوقتاً اپنی اولاد کا احتساب کرتے رہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت صحیح نہج پر جاری ہے یا نہیں؟ حصولِ علم کے جو بنیادی اصول ان کے دل و دماغ میں بٹھائے گئے تھے، وہ اپنی جگہ پر باقی ہیں یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تعلیم کے حقیقی مقاصد کی جگہ پر غیرحقیقی یا مادی مقاصد نے لے لی ہو۔ لہٰذا موقع بہ موقع احتساب کے ذریعے اطمینان کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے واقعے کے ذریعے قرآن کریم انسانوں کو اس اہم اصولِ تعلیم کی طرف متوجہ کرتا ہے:
اذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْم بَعْد ﴿البقرۃ:۳۳۱﴾
’کیا تم وہاں موجود تھے جب یعقوب کی وفات کا وقت آگیا اور انھوںنے اپنی آل اولاد سے پوچھاکہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے۔‘
حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کا ﴿جن کی اولاد میں حضرت یوسف جیسا رفیع المرتبت نبی بھی شامل ہیں﴾ اپنی اولاد سے یہ سوال پوچھنا اور قرآن کریم کااس واقعے کو خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس واقعے کے تذکرے سے یہی مقصود ہے کہ انسان کو اپنی اولاد کے فکری اور ذہنی صورتِ حال کاجائزہ لیتے رہنا چاہیے اور ان کو صحیح اور مضبوط بنیادوں پر لگاکر اس دنیا سے رخصت ہونا چاہیے۔
کم علمی کا دائمی احساس
قرآن کے نظریۂ تعلیم کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ انسان ہزار اہلِ علم ہونے کے باوجود یہ نہ سمجھے کہ اس کو مکمل علم حاصل ہوگیا ہے۔ اور علم کے اعتبار سے اس سے بڑا کوئی نہیں ہے۔ بل کہ اسے ہمیشہ یہ سمجھتے رہنا چاہیے کہ اس کے پاس جو علم ہے وہ بہت معمولی اور تھوڑا ہے۔ حقیقی اور کامل ترین علم تو اللہ کے پاس ہے۔ قرآن کریم میں فرمایاگیا:
وَمَآ اُوتِیْتُم مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً ﴿بنی اسرائیل:۸۵﴾ ’اور تم کو تو بہت معمولی علم دیاگیا ہے۔‘
اپنی کم علمی کے اس دائمی احساس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ ہر وقت انسان کا علمی ارتقا ہوتا رہے گا۔ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ علم کی تلاش و جستجو میں لگارہے گا۔ اس کے اندر تواضع اور انکسار کی وہ اعلیٰ صفت پیدا ہوگی جو موقع پڑنے پر اسے اپنے سے چھوٹے انسان سے بھی استفادہ کرنے میں جھجک محسوس نہیں ہونے دے گی۔ اس طرح اس کا علم ہمیشہ ترقی پزیر رہے گا۔
قرآن کریم علم میں اضافے کے لیے ایک مختصر اور نہایت جامع دعا بھی سکھاتا ہے:
ربِّ زِدْنِیْ عِلْماً ط ’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرمادے۔‘
یہ دعا اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو سکھائی گئی ہے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کو من جانب اللہ کائنات کے بے پناہ علوم حاصل تھے، ان کو اس دعا کی ہدایت کرنے سے علم کی اہمیت اور تعلیمی میدان کے لامحدود ہونے کاپتا چلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’ترقی کابڑا اصول یہ ہے کہ علمی ترقی کی کوئی انتہا قرار نہ دی جائے۔ یعنی انسان ترقی کی کسی حد تک پہنچ کر قانع نہ ہو اور یہ خیال رکھے کہ ابھی ترقی کے اور منازل طے کرنے باقی ہیں۔ اس مسئلے پر اسلام نے اس قدر زور دیاکہ خود جناب سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کوجو علومِ لدنیہ سے ممتاز تھے، ان الفاظ سے مخاطب کیا:قل رب زدنی علماً ﴿کہو کہ اے اللہ! مجھ کو اور زیادہ علم دے۔﴾ ﴿الکلام،ص:۲۵۷،۲۵۸﴾
یہ قرآن مجیدکے نظریۂ تعلیم کے چند اہم پہلو ہیں۔ ورنہ ان کے علاوہ اور بھی متعدد گوشے ہیں، جن کی طرف قرآن کریم رہ نمائی کرتا ہے اور ان سب کو ملاکر ایک جامع اور فطری نظام تعلیم وضع کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تیار ہونے والی نسل کے افراد دولت کمانے کی مشین ہونے کے بجائے حقیقی انسان ہوں گے۔ وہ اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہوںگ ے، اپنے ماں باپ کے لیے بھی کارآمد ہوں گے اور پورے انسانی معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔
موجودہ نظامِ تعلیم اور اس کے نتائج کو سامنے رکھ کر جب ہم قرآن کے نظامِ تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک روحانی سکون سا محسوس ہوتا ہے اور پتا چلتاہے کہ دنیا میں ہزاروں اورلاکھوں کالجوں، یونی ورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے باوجود نئی نسل میں روز بروز بڑھنے والی اخلاقی بے راہ روی کا حل صرف اور صرف قرآن مجیدکے فطری اور مکمل نظامِ تعلیم میں ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2012