تاریخ کے ہر دور میں [مختلف] فنون نے قوموں اور سماجوں کی زندگی پر زبردست اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھی فنون نے نہ جانے کتنے مرتوں کو زندگی بخشی ہے، کتنوں کی رگوں میں خون دوڑا دیا ہے، کتنی ہی ثقافتوں اور رسوم ورواج کو انقلابات سے دوچار کیا ہے، کتنے وژن اور رائے عامہ کو ان فنون نے جنم دیا ہے، نہ جانے کتنی جنگیں انھی فنون نے بھڑکائی ہیں اور بھڑکتی آگ کو بجھا بھی دیا ہے، نہ جانتے کتنے دروازے کھولے اور کتنے بند کیے ہیں۔ کتنی شناختوں کو حصارِ حفاظت میں لیا اور کتنوں کو زندگی دی ہے۔ کتنے ہی سماج ان فنون کے طفیل یک جا و متحد رہے اور کتنے ہی دوسرے سماج ان کے سبب منتشر و پارہ پارہ ہو گئے۔
فعال و موثر فنون بڑی تبدیلیاں لانے کا باعث بنتے ہیں۔ فنون یا فن کی کوئی بھی قسم یا اس کا کوئی جز ثقافتوں کی ایجاد اور رائے عامہ کی تشکیل کے ضمن میں وہ انقلابات لاتا ہے جو ہزاروں وعظ ونصیحت اور ہزاروں کتابوں اور تحریروں سے ممکن نہیں ہو پاتا۔
قرآن میں حواس بالخصوص سمع، بصر اور فؤاد کا ذکر آیا ہے۔ یہ وہ حواس ہیں جو علم کے حصول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سماعت سمعی فنون کے لیے، بصر بصری فنون کے لیے اور سمع وبصر [کا مجموعہ]سمعی-بصری فنون کے لیے، جب کہ فؤاد زبانی (لغوی) فنون کے لیے ہے۔ قرآن نے ان تمام حواس کو مفرد اور جمع کے صیغوں میں بیان کیا ہے۔ قرآن میں ان کا ذکر یہ اشارہ دیتا ہے کہ حواس ہی معلومات لینے کا مصدر ہیں اور اسی لیے فنون سماعت، بصارت اور فؤاد [سمعی، بصری اور لغوی] کے اعتبار سے منقسم ہیں۔
لغوی فنون
اس صنف میں شعر، ادبی نگارشات، سیر و سوانح، عربی رسم خط اور اس کے مشابہ وہ فنون آتے ہیں جن میں اہل عرب نے مہارت تامہ حاصل کر رکھی تھی۔ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا، اس لیے کہ یہ لغت کا وہ بہترین مرقع ہے جس تک کوئی زبان پہنچ سکتی ہے۔ صنعت و بلاغت میں قرآنی عبارتوں کی مثال دی جاتی ہے۔ اس کی بلاغت سے ذہن و قلب کے اوپر یکساں طور پر پیدا ہونے والے اظہار و تاثیر کے سامنے عقل ٹھہر جاتی ہے اور وجدان اس سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ لغوی فنون اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ ان کا مقام ذوق فواد ہی ہے، انسان کا کوئی اور [عضوِ حسی(دل یا سینہ) نہیں]۔ عہد رسالت میں لغوی فنون کو ایک مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اللہ کے رسولﷺ کی ذات کے اثرات بھی لغوی فنون کو مستحکم کرنے، اس کو ابھارنے اور اس کی نگرانی کرنے میں رہے ہیں تاکہ انھیں مقاصد رسالت کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث بھی اس جانب اشار ہ کرتی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’قریش کی ہجو کرو، کیوں کہ ہجو ان پر تیروں کی بارش سے بھی زیادہ گراں گزرتی ہے۔ ‘‘حسان ؓبن ثابت نے اپنے اشعار کے ذریعے اس ذمے داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔ ان کی کارکردگی پر تبصرہ فرماتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو حسان سے بات کرتے ہوئے سنا: ’’جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس تمھاری تائید کرتے رہیں گے۔‘‘ وہ یہ بھی فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ ’’حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفا دی اور کافروں کی عزت کو تباہ کر دیا۔‘‘
۱۰۶۴ء میں غرناطہ کے تیسرے اور آخری حکم راں بادیس نے تخت شاہی اپنے وزیر یوسف کے لیے خالی کر دیا۔ اس نے موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومتی نظام یہودیوں کے حوالے کردیا۔ اس کی وجہ سے یوسف کے مخالفین اور عام اہل غرناطہ کے اندر غم و غصہ پھیل گیا۔ اس وقت کے فقیہ و زاہد ابواسحاق اِلبیری نے اپنا مشہور قصیدہ لکھا جس میں انھوں نے یہودیوں کی سرکوبی کرنے پر ابھارا۔ ڈاکٹر شوقی ضیف نے اس قصیدے کے حوالے سے یوں کہا ہے:
’’اہل غرناطہ اس قصیدے (قصیدہ ابو اسحاق) کی نقلیں تیار کرکے اسے گلیوں اور راستوں میں گنگنانے لگے۔ ان کے دل کھول رہے تھے اور انتقام کے لیے پرعزم تھے۔ وقت آچکا تھا۔ کیوں کہ یوسف ابن صمادح کے ساتھ اس بات پر اتفاق کر چکا تھا کہ وہ اپنی فوجیں غرناطہ کے لیے روانہ کر دے تاکہ اسے بادیس کے ہاتھوں سے چھین لینے کے بعد اپنے لیے خالص کرلے۔ چناں چہ جب رعایا پر اس کے ارادوں کا راز منکشف ہوا تو ماہ صفر 459ھ کی دسویں شب سنیچر کے دن کثیر تعداد میں رعایا نے اس کے محل کو گھیر لیا جو اس کو جان سے مار دینے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ وہ رعایا سے بچ کر اپنے عالی شان گھر میں چھپ گیا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور قتل کرکے اس کی لاش شہر کے دروازے پر لٹکا دی۔ ‘‘ (تاریخ الادب العربی: ۸/۲۲۵-۲۲۷)
قصیدہ اِلبیری پر تبصرہ
کوئی معاشرہ جو اس حال کو پہنچ گیا ہو، اس میں اس طرز حکم رانی کے طفیل لازمی طور پر شریعت کے اعلی مقاصد اور بنیادی تصورات ضائع ہو چکے ہوں گے۔ وہاں ایک ایسی حکومت ہوگی جہاں انسانوں پر تسلط ہوگا، ان کے مفادات کو ضائع کیا جائے گا، ان کے حقوق اس حد تک تلف کیے جائیں گے کہ وہ چیخ پکار کریں گے اور اس کے خلاف بغاوت اور اس سے جان چھوٹنے کے وقت کا انتظار کرنے لگیں گے۔
البیری اس قصیدے میں فساد کے ان مظاہر کا احاطہ کرتے ہیں جو اس وزیر کے ہاتھوں انجام پائے، اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو ذلت و خوردگی کا سامنا ہوا۔ یہ انقلاب انگیز قصیدہ اُن تکلیف دہ حالات کے بیان کے سوا کچھ نہیں تھا، جو مفادات عامہ کے ضیاع اورمقاصدِ شریعت کے خاتمےکے واقعات سے پُر تھے۔ اسی لیے لوگوں نے جھٹ یاد کر لیا اور اس کی نقلیں تیار کرکے گلیوں اور راستوں میں گانا شروع کر دیا یہاں تک کہ یہ قصیدہ ظلم وفساد کے خلاف غیظ و غضب کی مثال بن گیا۔ پھر ہوا یہ کہ عوام باغی اور بیدار و متحرک ہو گئے اور اس ظلم و زیادتی سے نجات حاصل کر تے ہوئے عام معاشروں کی حفاظت، کرامت انسانی کی حفاظت، عدل و انصاف کے حصول اور سماجی و معاشرتی امن و سلامتی کے حصول کے سلسلے میں مقاصدِ شریعت کے ساحل پر جا اترے۔
سمعی فنون
ہر وہ فن سمعی یا صوتی فنون میں آتا ہے جو [انسان کی] سماعت کو متاثر کرتا ہو اور کان اسے جذب کرتے ہوں، مثلاً موسیقی، گانا، قرآن کی تلاوت بحیثیت ایک مستقل فن کے۔ کیو ں کہ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے : ’’ہر شے کا ایک زیور ہوتا ہے اور قرآن کا زیور حسین آواز ہے۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق ۴۱۷۳)۔
ہم یہاں سماع کے سلسلے میں حکمِ شرعی سے تعرض نہیں کریں گے، کیو ں کہ اس میں فقہا کا اختلاف معروف و عام ہے۔
ضروری نہیں کہ یہاں سماع سے مراد وہی سماع ہو یا سماع کے نام سے ذہن اسی سماع کی طرف جائے جو فحش اور اقدار کو پامال کرنے والا، اخلاق کو ضائع کرنے والا اور عزت و عصمت کی پامالی کو حلال سمجھنے والا ہو اور اس وجہ سے مقاصد شریعت سے ٹکراتا ہو۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ سماع کا بڑا عظیم ترین نمونہ قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم سمعی فنون کا وہ نمونہ ہے جس کے نقش پر دیگر تمام فنون ڈھالے جاتے ہیں۔ سہروردی کا تو خیال ہے کہ حقیقی سماع قرآن کا سماع ہی ہے۔ قرآن کریم کی آیت (وإذا سمعوا ما أنزل إلى الرسول ترى أعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحقالمائدة: ۹۳)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ حقیقی سماع ہےجس کے بارے میں اہل ایمان کے درمیان دو رائے نہیں ہیں، اور یہ وہ سماع ہے جس کے اہل کے لیے ہدایت و دانش مندی کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔
اس لیے قرآن سمعی فنون کا اولین نمونہ ہے۔ اگر فن کار لوگ کوئی ایسا بلند صوتی یا سمعی فن ایجاد کرنا چاہتے ہوں جو قلب میں تاثیر پیدا کردے اور عبادت وبندگی کی طرف مائل کردے تو وہ قرآن کو نمونہ بناتے ہیں۔ یہ محض اتفاقات میں سے نہیں ہے کہ ہمیں موسیقی و غنا کے بعض ایسے قدیم وجدید اساطین ملتے ہیں جنھوں نے قرآن حفظ کر رکھا تھا، تجوید کا علم ان کے پاس تھا اور اس سے وہ [اپنے فن کے لیے] استفادہ کرتے تھے۔ برسبیل مثال ہم موجودہ دور میں عربی نغمہ نگاروں کی سربراہ اور عرب کا ساز سمجھی جانے والی ام کلثوم، شیخ ابوالعلامحمد، سید درویش، زکریا احمد، سید میکاوی وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔
عربوں کے یہاں سمعی (صوتی) فنون کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ عملی زندگی سے مربوط ہوا کرتے ہیں۔ اسی لیے موسیقی، نغمہ، اونٹوں کو ہانکنے والے گیت، نغمات، اذان اور ترتیل وغیرہ سمعی فنون کی جتنی بھی شکلیں ہیں وہ سب فرد مسلم کی عملی زندگی کا مظہر ہیں۔
عملی مثال
مصری نغمہ ’’یا بلح زغلول‘‘۔ یہ بدیع خیری کا نغمہ ہے جسے سید درویش نے موسیقی سے مزین کیا ہے اور نعیمہ المصری نے اسے گایا ہے۔
اس نغمے کا ایک سیاسی و تاریخی پس منظر ہے۔ اسی پس منظر میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی و سماجی حالات کی تبدیلی میں اور ملکوں کو غاصبوں سے آزاد کرانے میں سمعی فنون کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اس نغمے کی وجہ سے انیسویں صدی کے اواخر میں مصری عوام کا یہ جہاد ایک تاریخی جہاد بن گیا تھا۔ اس جدوجہد نے ۱۹۱۹ء کے انقلاب کو جنم دیا تھا۔ یہ انقلاب خاص طور سے اس واقعے کے بعد ابھرا جب انگریزوں نے سعد زغلول کے گھر کا گھیراؤ کیا اور مصری عوام نے انگریزوں کے خلاف ان کی جدوجہد کی شان میں اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔
اس انقلاب نے شدت اختیار کی اور مصر کے عوام سڑکوں، میدانوں، اسکولوں، مساجد اور کلیساؤں میں ہرجگہ ’’سعد زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے تو برطانوی حکومت کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ سعد زغلول کو قید کر لیے جانے کے احکامات جاری کر دے اور جو بھی سعد زندہ باد کے نعرے لگائے اسے بیس کوڑے مارے جائیں۔ ان احکامات کے بعد سید درویش نے ’’یابلح زغلول‘‘ کی موسیقی تیار کی اور بدیع خیری نے اس موسیقی کے الفاظ لکھے۔
اس نغمے کی تاثیر کا یہ عالم ہے اور جبر پر مبنی حکومتوں کا اس سے خوف اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ سو برس گزر جانے کے بعد، یعنی ۲۸؍ اگست ۲۰۲۰ء کو مصر کے ارباب اقتدارنے ایک ڈرامے میں اس نغمے کو پیش کرنے پر پابندی عائد کردی۔ پابندی کی وجہ یہ تھی کہ ارباب اقتدار نغمے کے الفاظ و خطابات کو سیسی کے سیاسی مخالفین سے جوڑ رہے تھے۔
مقاصدی نقطہ نظر سے تبصرہ
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ غاصب جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کردیتے ہیں اور بستی کے عزت داروں کی ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔ امن وامان غارت ہو جاتا ہے، مقاصد شریعت کے اصول محفوظ نہیں رہ پاتے، بلکہ ان کا ضیاع اور ان کا خاتمہ ہی ان غاصبوں کا شعار اور بنیاد بن جاتا ہے۔
مصر میں چوں کہ غاصب موجود تھے اس لیے سعد زغلول اور ان کے ساتھیوں نے ان سے ٹکر لی۔ مصر کے عوام نے قائد اور مزاحم کی حیثیت سے جب سعد زغلول میں امید کی کرن دیکھی تو ان کے گرد جمع ہو گئے۔ ان کے مقام و مرتبے کو عزت دی تاکہ غاصب اور اس کے مفاسد سے نجات حاصل کر سکیں اور اپنے فطری حقوق سے بہرہ مند ہو سکیں جو کہ مقاصد شریعت کا محور ہے۔
مقاصدی فکر، یعنی وسائل کے استعمال اور ان کی تجدید و ترقی میں مہارت، سے خود کو مربوط کرتے ہوئے مصر کے عوام اس نغمے کے توسط سے اپنے فن کاروں کا سہار لے کر اٹھے، کیوں کہ سعد زغلول کا نام لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لوگوں کے درمیان یہ نغمہ ایک سے دوسرے کو اسی طرح منتقل ہونے لگاجس طرح اِلبیری کا قصیدہ منتقل ہو رہا تھا اور اس کی نقلیں تیار کی جا رہی تھیں۔
جیسا کہ تاریخ کی کتابیں بیان کرتی ہیں، مصری عوام کی زبانوں پر رہنے والا یہ نغمہ، بشمول دیگر واقعات اور کارناموں کے، ۱۹۱۹ کے انقلاب مصر کو تیز کرنے والے عوامل میں ایک تھا۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ بالعموم فنون اور خاص طور سے سمعی فنون کے اندر مقاصد شریعت اور عوام الناس کے مفادات و مصالح کے حصول کے سلسلے میں بڑی تاثیر پائی جاتی ہے۔
ہندوستان سے دو مثالیں
ہندوستان کے پس منظر میں حبیب جالب کی نظم: ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ کے اثرات سےبھی سمعی فنون کی قوتِ تسخیرثابت ہوتی ہے۔
۲۰۱۹ میں بی جے پی کی حکومت نے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ/شہریت ترمیمی قانون) پارلیمنٹ میں لانے کا اعلان کیا تو اس کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہوگیا۔ لوگ بڑی تعداد میں سڑکو ں پر آ گئے۔ خاص بات یہ تھی کہ وہ خواتین جو اہم ضرورتوں کے علاوہ کبھی گھروں سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں، وہ بھی سڑکوں پر آ کر بیٹھ گئیں۔ اس احتجاج کی گونج بین الاقوامی سطح پر سنائی دینے لگی۔ اسی دوران سوشل میڈیا کے توسط سے ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ ویڈیو میں جے این یو کیمپس کے اندر چند طلبا وطالبات بیٹھےہیں۔ انھیں میں ایک نابینا طالب علم ’’ششی بھوشن‘‘ بھی ہے جو اپنی دل کش آواز میں سیاسی انقلابی شاعر حبیب جالب کی ایک نظم پڑھ رہا ہے۔ اس ویڈیو کے توسط سے نظم کا عام ہونا تھا کہ احتجاج کرنے والے ہر فرد کی زبان پر یہ نظم رواں ہوگئی۔ لوگ بڑے بڑے بینر اور پوسٹر کی شکل میں اس نظم کو لکھ کر ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے نظر آنے لگے۔ کوئی مقام ِاحتجاج شاید ہی ایسا رہا ہو جہاں یہ نظم کسی دیوار پر یا اسٹیج کے آس پاس لکھی ہوئی آویزاں نہ ہو۔ یہ نظم ان کے احتجاج کا نعرہ اور پرچم دونوں بن چکا تھا۔ ایسی تصاویر بھی سامنے آئیں کہ ایک طالبہ نے بڑے چارٹ پر اس نظم کو لکھ کر اسے اپنے اوپر شال کی طرح اوڑھا ہوا تھا۔ اس نظم کے اثرات احتجاجی فضا پر اتنے صاف نظر آنے لگے کہ فریق مخالف بوکھلا کر کھلے عام حملے کرنے پر اتر آیا۔ جے این یو کے کیمپس میں گھس کر طلبا پر حملہ ہوا، جس میں ششی بھوشن بال بال بچے۔ دراصل جب فسطائیت پروان چڑھتی ہے تو اس کے خلاف بغاوت جنم لیتی ہے اور ایسے موقع پر، ششی بھوشن کے بقول، اس طرح کے انقلابی شاعروں کی آواز ’’اور بلند ہو جاتی ہے۔ ‘‘
ابھی احتجاجی تحریک کا یہ جوش عروج پر تھا کہ فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ نےاس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ فیض کی اس نظم میں ’’خدا‘‘، ’’کعبہ‘‘ اور ’’اللہ‘‘ کا نام آیا ہے۔ اس تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے حکومت کو عوام کے سامنے بے بس کیا ہوا تھا۔ نظم میں مذکورہ مخصوص الفاظ کے استعمال سے فریق مخالف کویہ گمان ہوا کہ اب ان کے پاس تحریک کے زور کو ختم کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ انھوں نے ان الفاظ کو بنیاد بنا کر یہ کوشش کی کہ ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ جاری رہنے والے اس احتجاج کے شرکا میں مذہبی جذبات کی آڑ لے کر تفریق پیدا کر دی جائے۔ آئی آئی ٹی کان پور کے ایک جز وقتی ٹیچر نے اس کے خلاف شکایت درج کرائی کہ فیض کی یہ نظم ہندؤوں کے جذبات کو مجروح کرنے والی ہے۔ شکایت کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ وہ نظم کا اس پہلو سے جائزہ لے سکے۔ حالاں کہ شکایت اور کمیٹی کی تشکیل نہ تو تحریک کے زور کو کم کرسکی نہ احتجاج کرنے والوں کواحتجاج کے دوران اس نظم کو پڑھنے اور دہرانے سے روک سکی۔ یہ واقعہ احتجاجی تحریک کی کام یابی پر ان دونوں نظموں کے پڑنے والے اثرات کی واضح مثال پیش کرتا ہے۔
بصری فنون
بصری فنون وہ ہوتے ہیں جو بصارت پر اثرانداز ہوتے ہیں، آنکھ انھیں محسوس کرتی ہے، ان پر جا کر ٹک جاتی ہے، انھیں دیکھتی ہے، جس کے نتیجے میں دل اسے پسند کرتا ہے اور بار بار اس پر نظر ڈالتا ہے۔ اس فن کے تحت نقش نگاری، فن تعمیر، تصویر کشی، سنگ تراشی، مورتیاں اور چمن آرائی وغیرہ آتے ہیں۔
قرآن کریم نے جس طرح قوت سماعت کی جانب اشارہ کیاہے اسی طرح قوت بصارت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
قرآن کریم کے اندر بصری فنون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عمارہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کی سورتیں اس چیز سے بھری ہوئی ہیں جسے ہم ادبی و فنی مطالعات میں ’’تصویروں کے ذریعے تعبیر و اظہار‘‘ سے موسوم کرتے ہیں، یعنی اس طرح کی حسی تصویر کشی کہ اس کے ذریعے قرآن کی آیات افکار وفلسفے کو بیان کر نے لگیں۔‘‘ (مفاہیم الجمال: رؤیة اسلامیة: ۱۷)
مثال کے طور پر قرآن ایک منظر کو کینوس پر اتارتا ہے، جس میں ان کافروں کی تصویر کشی کی گئی ہے جنھیں حق، دعوت حق اور ہدایت حق سے کنارہ کشی نے اس اندھے بہرے جیسا بنا دیا جس کی عقلی صلاحیتیں بھی معطل ہوں۔ وہ ہذیانی کیفیت میں جو کچھ بکتے ہیں وہ کوّے کی کائیں کائیں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ [البقرة: ۱۷۱]
اس نوع کے فنون، یعنی بصری فنون کو دلوں تک پہنچنے والی ایمان کی پگڈنڈی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان آسمانوں، زمین اور آفاق و انفس میں غور و فکر کے ذریعے اللہ پر ایمان تک پہنچتا ہے۔ اس کے اندر اللہ کی قدرت و قہر اور اس کے جمال و جلال پر ایمان مستحکم ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کا ہر منظر یا حمد وشکر کی خوگر کسی بھی مخلوق پر نظر ڈالنا اس اللہ کی تسبیح اور ذکر کو لازم کرتا ہے جو خالق بھی ہے، باری بھی ہے، مصور بھی ہے اور مہیمن بھی ہے۔ اور یہ ذکر و تسبیح ہی ایمانی مقاصد کا لب لباب ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے بھی بصری فنون کو برتا ہے۔ معانی کو ذہن میں بٹھانے اور گفتگو کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بصری فنون کا استعمال کیا ہے۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں ذکر کیاہے:
’’اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ہاتھ سے ایک لائن کھینچی۔ پھر فرمایا: ’’یہ اللہ کا راستہ ہے، سیدھا‘‘ پھر آپ نے اس لائن کے دائیں اور بائیں ایک ایک لائن کھینچی اور فرمایا: ’’یہ وہ راستے ہیں جن میں سے کوئی بھی راستہ ایسا نہیں ہے جس پر شیطان اپنی طرف بلانے کے لیے موجود نہ ہو۔‘‘ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِیلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ[الانعام: ۱۵۳]
یہ سب چیزیں تعلیم وتربیت، معانی کی وضاحت، افکارونظریات کو ذہن نشین کرانے اور مقاصد کے حصول میں بصری فنون کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
عملی مثال: گیرنیکا پینٹنگ
اسپینی زبان میں اسے Guernicaکہا جاتا ہے۔ یہ پینٹنگ فن کار پیبلو پیکاسو نے تیار کی تھی۔ اس پینٹنگ کے توسط سے اس نے اسپین کی ۱۹۳۶ کی خانہ جنگی کو مختصراً بیان کر دیا ہے جس کا مرکز گیرنیکا نام کا گاؤں تھا۔ ۱۹۳۶میں شروع ہونے والی اس خانہ جنگی میں فتح ڈکٹیٹر جنرل فرانکو کو حاصل ہوئی تھی، جو فتح کے بعد چالیس برس سے بھی زیادہ عرصے تک اسپینی عوام کے سینے پر سوار رہا تھا۔ یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس سے لازمی طور پر پوری دنیا کو خوف زدہ ہونا تھا۔ گاؤں پر اس حملے کی وجہ سے ستر فی صد مکانات جل چکے تھے۔ تقریباً پچاس ٹن گولا بارود استعمال کیا گیا تھا اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۷۰۰۰کی مجموعی آبادی میں سے ۱۶۵۴ افراد ہلاک اور ۸۰۰ زخمی ہوئے تھے۔
پیکاسو نے سوچا کہ پینٹنگ کے ذریعے قتل اور اس کی سنگینی کو بیان کرے جو نازیوں کی مدد سے اہل وطن کے ہاتھوں انجام دیا گیا تھا۔
اس پینٹنگ کو شہرت حاصل ہوئی اور وہ ڈکٹیٹرشپ، فاشزم اور جنگ کو مسترد کرنے کی عالمی علامت بن گئی۔ اس نے بعد[کے ادوار] میں برپا ہونے والی جنگوں، مثلاً جنگ کوریا اور جنگ ویتنام کو مسترد کرنے والوں کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ شام، عراق اور افغانستان کے اندر حال کے ادوار میں پیش آنی والی جنگ کے زمانے میں گیرنیکا پینٹنگ کو لوگ[عوامی]مظاہروں کے دوران ہاتھوں میں اٹھائے رہتے تھے۔
مقاصدی نقطہ نظر سے تبصرہ
ہم نے یہ دیکھا کہ اس پینٹنگ نے کس طرح ایک ایسے المیے کو مرئی شکل عطا کردی جو اپنے ساتھ خوف ناک واقعات رکھتا تھا۔ یہ بھی دیکھا کہ اس پینٹنگ کے اثرات اسپین سے لے کر یوروپ اور امریکہ کے شہروں تک پھیل گئے یہاں تک کہ یہ پینٹنگ ڈکٹیٹرشپ اور فاشزم کے انکار کی ایک بین الاقوامی علامت بن گئی۔ یہ بھی دیکھا کہ اس پینٹنگ نے کس طرح سے جنگ کوریا اور جنگ ویتنام اور شام، عراق اور افغانستان کی جنگوں کومسترد کرنے والوں کے لیے مہمیز کا کام کیا اور ان کو حوصلہ عطا کیا۔
اس میں شک نہیں کہ جنگی جرائم کو مسترد کرنے کا انسانی رویہ مقاصد شریعت سے ہم آہنگ ہے۔ فاشسٹ اور ڈکٹیٹر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ان مقاصد کا ضیاع ہوتا ہے۔ اور معاشروں کو غصب کرنے اور انھیں تباہ کرنے والوں کو نیز معاشرے کے اساسی ڈھانچے کو منہدم کرنے والوں کا عوامی رد بلاشبہ مقاصدی عمل، مقاصدی فکر اور مقاصدی تحفظ کی انتہا کو پیش کرتا ہے۔
اس پینٹنگ نے جو کام کیا ہے اور متحدہ عوامی و اجتماعی اور سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں جو اثرات اس نے قائم کیے ہیں وہ مفکرین ومجددین اور علما کی بٹالین سے ممکن نہیں تھا۔ یہی وہ چیز ہے جواسلامی شریعت کے مقاصد کے حصول میں فنون کی اہمیت اور مرکزیت کو دوچند کرتی ہے۔
سمعی بصری فنون
سمعی بصری (audiovisual) فنون وہ ہیں جو بیک وقت سماعت و بصارت دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔ کان سنتے ہیں، آنکھیں دیکھتی ہیں اور فؤاد اس سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ مرکب فنون ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ان میں نغمہ و موسیقی کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں قرآن اور احادیث رسولﷺ کے آثار بھی ملتے ہیں۔
ڈاکٹر اسامہ قفاش کہتے ہیں کہ ہمارا ( مسلم)سمعی بصری فنِ قصہ و داستان گوئی مغرب کے فن سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ ہمارے فنون ایک مختلف علمی پس منظر اورایک ایسے دینی و مذہبی ماحول میں پروان چڑھے ہیں جن کا بنیادی مرجع اسلام ہے۔ حیاتی، ترکیبی اور عبادتی پہلو سے ان فنون کے اندر اسلامی فن کی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں، بل کہ ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان فنون کا بنیادی نمونہ و اسلوب قرآنی قصے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہکتی سیرت و زندگی ہے۔ ان سے توحید کی خوشبو ٹپکتی ہے اور اسی وجہ سے ان کے اندر سے ذمے داری اور محبت و شفقت کی اقدار برآمد ہوتی ہیں۔ قرآنی قصے اپنی شکل میں محض ایک قصہ یا واقعہ نہیں ہوتے، بل کہ یہ قصے ایسے علمی نمونے پیش کرتے ہیں جو ہمارے لیے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان سے ہم ایسا ایمانی وژن کشید کرتے ہیں جو دائمی ہو۔ قرآن میں ان کو بیان کرنے کے سبب کیا ہے اور ان کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟ اس سلسلے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’پس قصے بیان کرو، شاید وہ غور و فکر سے کام لیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۶)
گویا ان قصوں کا بیان دعوت غور وفکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ واقعات تحلیل وتجزیےاور وضاحت و تفصیل کے لیے ہیں۔ اس طرح یہ واقعات دعوت عمل بھی دیتے ہیں، یعنی اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ان قصوں میں جو علمی نمونے پوشیدہ ہیں ان کو برتنے کا التزام کیا جائے، اس لیے کہ یہ واقعات فنی وحیاتیاتی ساخت کے لیے نمونہ ہیں۔ یہ واقعات قطعی طور پر عبادت کا حصہ ہیں کیوں کہ قرآن کی تلاوت اور اس کے معانی پر غور وتدبر سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے۔
جن جن مقامات پر سمعی بصری فنون کو استعمال کیا جاتا ہے، ان میں اہم ترین تعلیمی میدان ہے۔ اس لیے کہ سمعی بصری فنون وہ اضافی وسائل ہیں جو تعلیم وتدریس کے عمل کا تکملہ بنتے ہیں اور پیش کی جانے والی معلومات کو پرمغز بناتے ہیں۔ اس طرح کے وسائل تعلیم کے عمل کو مخصوص شکل میں بہتر بناتے ہیں۔ ان وسائل کو زیادہ خرچ والے اضافی وسائل اور عام تعلیمی مواد کا تکملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات معلم کے اوپر چھوڑ دی جاتی ہے کہ وہ ان وسائل کو اختیار کر تا ہے یا نہیں۔
فنون کی یہ قسم (سمعی بصری) جس میدان میں استعمال کی جاتی ہے، اس کے لحاظ سے مختلف اہداف حاصل کرتی ہے۔ مثلاً تعلیمی میدان میں باہم ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والی حرکات کے درمیان تمیز کی تربیت دینے کے لیے استعمال کی جانے والی فلمیں۔ یا بعض تصویروں کو ویڈیو کی شکل میں پیش کرنا اور ان کے ساتھ سمعی (آڈیو) کی شکل میں کمینٹری دینا۔ یا مثال کے طور پر ’’نفسی حرکی‘‘ (psychomotor) کا میدان، جہاں ’’جسد وعقل‘‘ کے درمیان توافق کی کیفیت کو سمجھانے کے لیے ’’[بچوں کو]حرکی تجربات (kinetic experience) کے نمونے دیے جاتے ہیں، جن کی حیثیت تعلیمی پروسیس کے دوران استعمال کیے جانے والے مخصوص آلات کی ہوتی ہے۔ ایک مثال ’’میدانِ تاثیر‘‘ کی بھی ہے، جہاں فلم یا سمعی بصری فن پارہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ طلبا کے ذہنوں اور جذبات و احساسات کو قوی تر انداز میں متاثر کر سکے۔
اس کے علاوہ بھی دوسرے میدان ایسے ہیں جہاں سمعی بصری فنون اپنا کام کرتے ہیں اور ا س سے متعلق اہداف و مقاصد کو سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً سیاسی میدان، سماجی و ثقافتی میدان۔
عملی مثال: فلم ’’المخدوعون‘‘ (The Dupes /دھوکہ کھائے ہوئے لوگ)
یہ ایک شامی فلم ہے جو ۱۹۷۲ میں پردے پر آئی تھی۔ یہ فلم غسان کنفانی[1] کے ناول ’’رجال فی الشمس‘‘ (مطبوعہ ۱۹۶۳) پر مبنی ہے۔ اس کا شمار عرب سینما کی سو اہم فلموں میں ہوتا ہے اور قضیہ فلسطین اس کا موضوع ہے۔ اس کے اندر ۱۹۴۸ کی تباہی (نکبہ ۱۹۴۸) کے بعد سامنے آنے والے نتائج کو پیش کیا گیا ہے۔
مقاصدی نقطہ نظر سے تبصرہ
اس میں شک نہیں کہ صہیونی غاصب کے خلاف مزاحمت اور اس مزاحمت و جہاد کے تعلق سے شعور کی بیداری قضیہ فلسطین کے سلسلے میں ہمارے مقصد سے ہم آہنگ ہے۔ قضیہ فلسطین کا ہم سے تقاضا یہ ہے کہ وہ غاصب کے چنگل سے آزاد ہو جائے۔ مسجد اقصی، مقام اسرا، بیت المقدس اور دیگر مقدس مقامات آزاد ہو جائیں۔ فلسطین کی عورتیں، بچے، بوڑھے اور تمام اہل فلسطین محفوظ ہو جائیں اور وہاں کے مقدس آثار اُن صہیونی آلودگیوں سے محفوظ و مامون ہو جائیں جو صبح و شام انھیں آلودہ کر رہی ہیں۔
حقیقت میں اس فلم نے قضیہ فلسطین کے کافی سارے مقاصد، نیز قضیے سے متعلق مقاصدِ شریعت کو حاصل کیا ہے۔ دوسرے پہلو سے یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اثرات قائم کرنے، شعور کو تازہ کرنے اور عوام کو ’’دھوکے‘‘ سے نکال کر حقائق اور ان کے عملی تقاضوں سے روبرو کرانے میں کسی فنی کارکردگی کی اہمیت[مسلّم] ہے۔
ہندوستان کے حوالے سے
ہندوستان کے پس منظر میں مثال کے طور پر بھارتی سنیما کی ایک سے زائد مثالیں ایسی پیش کی جا سکتی ہیں جنھوں نے عوام کی اکثریت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور ایک خاص انداز میں رائے عامہ کی تشکیل کی ہے۔ ’’ٹھاکرے‘‘، ’’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘‘ اور مودی کے بارے میں ’’بایوپِک‘‘ اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں ’’غدر‘‘ نام کی ایک فلم ریلیز ہوئی، جس نے سینما گھروں میں طویل عرصے تک اپنا سکہ جمائے رکھا۔ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے فلمی تبصرہ نگار سآئندیب چودھری نے اسے ’’اسلاموفوبیائی‘‘ (islamophobic) فلم قرار دیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال بھارتی سنیما کی دو فلمیں ہیں۔ ایک ’’کیسری‘‘ (۲۰۱۹) اور دوسری ’’اُری: دی سرجیکل اسٹرائیک‘‘(۲۰۱۹)۔ اس وقت ملک کے اندر مسلمانوں کے خلاف جو تنفر پیدا کیا گیاہے، اس میں ان دو فلموں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف زاویوں سے پاکستان کا استعمال خوب کیا گیا ہے۔ فلم اُڑی کے ایک ڈائیلاگ نے فلم شائقین کے جذبات کو مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور انھیں مسلمانوں کے تعلق سے ایک خاص زاویے سے سوچنے کی راہ سجھائی۔
کیسری فلم سارا گڑھی قلعے کے ایک تاریخی واقعے پر مبنی ہے۔ اس واقعے سے متعلق تاریخی حقائق مختلف کتابوں اور خاص طور سے پٹھانوں کے خلاف صف آرا ۳۶ سکھ رجمنٹ کے لیفٹننٹ کرنل جان ہوٹن نے اپنی ڈائری میں لکھ دیے ہیں اور اس سوانح میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود ایک من گھڑت کہانی بنا کر اس فلم کو اسلاموفوبیائی رنگ دیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں (سارا گڑھی پٹھان قبیلے) نے سارا گڑھی کے قلعے میں گھس کر سکھوں کا قتل صرف اس لیے کیا کیوں کہ ایشر سنگھ نام کے ایک سکھ نے پٹھان قبیلے کی ایک لڑکی کو ان کے ہی چنگل سے آزادی دلائی تھی، جسے اس قبیلے کا ’’مُلّا‘‘ شریعت کی خلاف ورزی کے جرم سزائے موت دینا چاہتا تھا۔
سپریم کورٹ کے وکیل نظام پاشا نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’کہا جا رہا ہے کہ کیسری نے دو سو کروڑ روپے کمائے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس فلم کو ایک سو کروڑ لوگوں نے سنیما کے پردے پر جا کر دیکھا ہے اور آنے والے دنوں میں کروڑوں لوگ اسے ٹی وی پر دیکھیں گے۔ ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں فلمیں جتنے لوگوں تک پہنچتی ہیں اتنی کوئی تاریخ کی کتاب نہیں پہنچتی۔ لہذا کیسری کی نمائش کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں ساراگڑھی کی جنگ کی یہی تاریخ نقش ہوگی۔ پٹھانوں کی جنگ آزادی ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات سے کالعدم ہو جائے گی اور لوگوں کی نظر میں اس جنگ میں لڑنے والے پٹھان دھوکے باز، غیر تہذیب یافتہ اور ملک دشمن قرار پائیں گے، جو اسلام کے نام پرظلم و جبر پھیلانے کے لیے شریک جنگ ہوئے تھے۔‘‘
(http://thewireurdu.com/60797/kesari-film-hindutva-muslims-islam /)
فرضی واقعے کے گرد گردش کرنے والی اس فلم کے جو اثرات عوام کے ذہنوں پر مرتب ہوئے ہیں، اس کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سمعی بصری فنون سماج کے اندر مثبت یا منفی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسی طرح ’’اُری : دی سرجیکل اسٹرائک‘‘ کے فلم ساز نے خود اپنے ایک انٹرویو (بالی وُڈ ہنگامہ)میں اس فلم کے اثرات کو اس طرح بیان کیا: ’’بھارتی بہت غصے میں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ فلم ’’اُری‘‘ اسی غصے کی عکاس ہے۔ بھارتی اپنی طرف سے اس فلم کو احتجاج قرار دے رہے ہیں۔ اور اب بھارتی کھلے عام پاکستان کو اپنا دشمن کہہ رہے ہیں۔‘‘
فلم میں پیش کیے جانے والے حقائق پر تبصرہ کرتے ہوئے رینوکا ویاوہارے نے لکھا ہے: ’’اگرچہ سچے واقعات پر مبنی ہے، تاہم بہت کچھ بعید از قیاس لگتا ہے۔ اس لیے سوالات کے دائرے میں ہے۔ چند تخلیقی آزادیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، لیکن [فلم کے] نصف اول حصے میں ڈرامائی انداز میں جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔ فلم بھارتی فوج کو ان کے شایانِ شان تصوراتی بلکہ سنیمائی خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ یہ خامیوں سے پاک فلم نہیں ہے۔‘‘ (ای ٹائمز، یکم فروری ۲۰۹)
[1] غسان کنفاني ايک فلسطيني صحافي اور ناول نگار ہيں۔ ان کا تعلق پاپولر فرنٹ فار دي لبريشن آف پيلسٹائن سے تھا۔ ۸؍جولائي ۱۹۷۲ کو موساد نے انھيں لاڈ ايئر پورٹ کے قتل عام کے انتقام ميں بم دھماکے کے ذريعے ہلاک کر ديا تھا۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2022