یہ ایک حقیقت ہے کہ آج سیب کی پیداوار کے معاملے میں امریکہ دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ صرف مقدار کے معاملے میں نہیں بلکہ امریکہ اپنے سیبوں کے ذائقے اور معیار کے لئے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ آج کی دنیا کے یہ دو حقائق اس وقت انتہائی محیر العقول معلوم پڑتے ہیں جب انہیں ایک تیسری حقیقت کے بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے: ’’سترہویں صدی تک امریکہ کی سرزمین پر سیب کا وجود تک نہیں تھا۔ ‘‘
سیب کے معاملے میں صفر سے دنیا کے ثانی الثنین بننے کا یہ امریکی سفر خاصا طویل اور دلچسپ ہے۔ دراصل سیب امریکہ میں ان یورپی باشندوں کے ذریعہ آیا جو امریکہ پر یورپ کے نوآبادیاتی تسلط کے بعد یہاں بس گئے تھے۔ لیکن یہ اکا دکا پیڑ یا باغات جو جیسے تیسے لگادیے گئے تھے کس طرح پورے امریکہ پر چھاگئے؟ اس سوال کا جواب ہیں سیب کے عاشق جان چیپ مین۔ جان چیپ مین ۱۷۷۴ء میں پیدا ہوئے۔ خاندانی حالات کچھ ایسے تھے کہ انہیں بچپن ہی میں گھر سے نکلنا پڑا۔ اپنے مالک کے باغ میں کام کرتے ہوئے پہلی بار انہوں نے ایک انوکھے پھل کو دیکھا اور چکھا، چکھتے ہی انہیں ایسا لگا کہ جیسے کوئی امرت چکھ لیا ہو۔ یہ سیب سے ان کے عشق کی ابتدا تھی۔ آگے آگے کیا ہوا یہ دنیا نے دیکھا۔ اس وقت ان کی عمر بیس سے پچیس سال کے درمیان تھی۔ سیب کو چکھ کر انہوں نے دنیا کے لئے ایک حسین خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اپنی زندگی تج دی۔ ان کا خواب تھا کہ اتنے سیب پیدا کئے جائیں، اتنے سیب پیدا کئے جائیں کہ اس دنیا سے فقر و فاقہ کا نام و نشان مٹ جائے۔ اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کرنے کے بعد جان چیپ مین نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ ایک طرف منہ اٹھایا اور چل کھڑے ہوئے۔۔۔ اکیلے۔۔۔ دیوانہ وار! اس طرح کہ ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا ہوتا اور اس تھیلے میں سیب کے بیج جسے وہ راستے کے دونوں طرف، جنگلات میں، باغات میں، کھلی جگہ میں، پانی کے چشموں کے آس پاس بوتے ہوئے کسی نامعلوم منزل کی طرف چلتے چلے جاتے۔۔۔یا شاید سفر ہی ان کی منزل تھی۔
قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
ویسے لوک کتھاؤں میں جان چیپ مین کا ہیولہ کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ پاگل دیوانوںکی طرح سیب کے بیج بکھیرتے ہوئے چلے جارہے ہیں لیکن نئی آئی تحقیقات کے مطابق یہ حقیقت کا صرف ایک رخ ہے۔ حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جہاں کہیں انہیں سیب کی کاشت کے لئے مناسب قطعۂ زمین نظر آتا وہ اس سرزمین کو چن لیتے اور ٹوٹے ہوئے درخت کے تنوں اور جھاڑیوں سے اس جگہ کی گھیرا بندی کرتے، وہاں سیب کے بیج بوتے، اس کے بعد اس جگہ کو یا تو کسی کی نگرانی میں سونپ دیتے یا مختلف وقفوں سے خود ان چنندہ مقامات پر آکر پودوں کی دیکھ بھال کرتے، گھیرا بندی کو درست کرتے، صاف صفائی کرتے، ممکن ہوا تو درخت اور پھلوں کو فروخت کرنے کا کام بھی کرتے۔
دوردراز کے علاقوں میں کام کرنے کے دوران جان چیپ مین کا سابقہ متعدد جنگلی قبائل سے ہوا۔ انہوں نے بہت سے قبائل سے دوستانہ تعلقات پیدا کئے۔ سیکڑوں قبائلیوں سے ذاتی سطح پر دوستی کی۔ اپنے کام کو کماحقہ انجام دینے کے لئے انہوں نے کئی قبائلی زبانوں کو سیکھا اور کوشش کرتے کہ مخصوص قبیلے سے انہی کی زبان میں گفتگو کرسکیں تاکہ اپنی بات کا ابلاغ موثر طریقے پر کرسکیں۔ ویسے تو جان چیپ مین غریب نہیں تھے کیونکہ سیب، سیب کے درخت اور سیب کے باغات فروخت کرنے سے ان کے پاس کافی روپئے جمع ہوگئے تھے۔ لیکن چیپ مین یا تو ان پیسوں کو زمین میں دبا دیتے یا پھر کسی کو دے دلا کر ختم کردیتے۔ اپنے مقصد سے ان کی لگن خود سے بے پروائی کی حد تک تھی۔ ایک موٹا سا بورا جس میں بازوؤںکے لئے سوراخ کیا گیا ہو ان کا لباس تھا، اور امریکہ کے سرد سے سرد علاقے میں بھی وہ بغیر جوتے چپل کے ننگے پاؤں پھرتے تھے۔ پچاس سال کی انتھک جدوجہد کے دوران جان چیپ مین کو نہ شادی کرنے کی فرصت ملی نہ بیمار ہونے کی۔ آخر کار ۱۸۴۵ء میں اکہتر سال کی عمر میں جب وہ بیمار ہوئے تو اسی بیماری میں چل بسے ۔ یہ واقعہ ہے کہ امریکہ کی متعدد ریاستوں مثلاً ایلی نوائے، کینٹکی، انڈیانا، پنسلوانیا، اور اوہائیومیں سیب انہی کی کوششوں کی وجہ سے پہنچا۔آج دنیا کے لئے جان چیپ مین اپنے نام سے زیادہ جانی ایپل سیڈ کے لقب سے معروف ہیں۔
ہندوستان میں فاشسٹ قوتیں اپنے بل بوتے پر سیاسی اقتدار حاصل کرچکی ہیں۔ اس الیکشن سے قبل تک ہندوستانی سیکولرزم اور جمہوریت پر ہمارا اعتماد کچھ اس طرح قائم تھا کہ ہمارا ہر دانشور اس بات کی پیشینگوئی کرنے میں ذرابھی تامل سے کام نہیں لیتا تھا کہ ہندوستان میں فسطائی طاقتیں کبھی اپنے بل بوتے پر حکومت نہیں بنا سکتیں، بالفرض محال اگر ان کی حکومت بنی بھی تو اتحادیوں کی بیساکھی کے سہارے ہی بنے گی۔ بہتوں کا اعتماد اب بھی مجروح نہیں ہوا ہے کہ فیس بک اور وہاٹس ایپ کے متعدد مسلم دانشوران یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے وگرنہ مودی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ حالانکہ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ اس بات کے علاوہ کچھ ثابت نہیں کرتا کہ ملک میں سیکولرزم کی جڑوں کے بالمقابل فسطائی طاقتوں کا نفوذ گہراہے۔ سیکولرزم اور جمہوریت کے کچھ علمبردار اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ مودی کی یہ حکومت ایک عجیب و غریب بلکہ ’’ناقابل فہم اتفاق‘‘ کے ذریعہ بنی ہے اور پانچ سال بعد پھر سیکولر حکومت بن جائے گی۔ خواہشات کی حد تک تو اس قسم کی باتیں ٹھیک ہیں لیکن فسطائی طاقتیں جس طرح ملک کی رگ و پے میں سرایت کرچکی ہیں اس سے یہ بات اتنی بھی آسان نظر نہیں آتی۔ ویسے اگر نقل مایوسی مایوسی نہ باشد تو متعدد دانشوران مودی کی اس حکومت کو جرمنی میں ہٹلر کی جمہوری فتح سے بھی تشبیہہ دے رہے ہیں جس کے بعد ہٹلر نے جمہوریت ہی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ مودی اگر ہندوستان میں ایسا کچھ کرتے ہیں تو شاید یہاں کے باشندوں کو اس سے زیادہ تعجب نہ ہوگا جتنا ہٹلر کے ویسا کرنے پر جرمنوں کو ہوا ہوگا۔ مقصود یہاں ان سوالات اور اٹکلوں پر کوئی رائے قائم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ دکھانا ہے کہ انتخابات کے بعد ملک کے سنجیدہ طبقے کے خیالات بھی کس حد تک پراگندہ ہوچکے ہیں۔ ہندوستان میں امت مسلمہ کے لئے سوال یہ نہیں ہے کہ ملک کا سیاسی مستقبل فسطائی (بھاجپا) ہونا چاہئے یا نیم فسطائی (کانگریس)؟ ملت اسلامی ہند کے سامنے سوال یہ ہے (اور اگر نہیں ہے تو ہمیں رکھنا ہوگا) کہ ہمارے ملک کا مستقبل اسلام کیسے ہو؟
اس اہم سوال پر ہندوستانی مسلمانوں میں بلا لحاظ مسلک و جماعت اگر بحث کا آغاز ہوجائے تو یہی آدھی کامیابی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ٹکراؤ کے بغیر ہر گروہ، جماعت اور فرد کو ہندوستان میں اسلام کی اقامت کی حکمت عملی وضع کرنے اور میدان عمل میں اسے آزمانے اور اس آزمائش کے نتیجے میں اس حکمت عملی میں رد و بدل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ یوں ہندوستان میں اقامت دین کے مختلف ماڈلس اگر مختلف سطحوں پر روبہ عمل لائے جائیں اور پھر زندہ قوموں کی طرح وقفے وقفے سے ’اپنے عمل کا حساب‘ کیا جاتا رہے تو اس میدان میں معنی خیز پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ فی الحال ہندوستان میں اقامت دین کے سب سے اہم محاذ دعوت کے تعلق سے کچھ گزارشات پیش کرنا مقصود ہے:
۱) قرآن کے مطابق انبیاء جب جب اپنی قوم میں بھیجے گئے ہیں تو انہوں نے’اے میری قوم‘ کی صدا لگائی ہے۔ انبیاء کو قرآن نے اپنی قوم کی نسبت سے ’اُن کے بھائی‘سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن بات ہندوستان کی کریں تو یہاں کے مسلمانوں کی حیثیت ایک الگ قوم کی سی ہوگئی ہے جس کے مسائل اور ایشوز یہاں کی قوم کے مسائل اور ایشوز سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ ایسے میں داعی و مدعو کے درمیان ایک ایسا خلا ہے جسے بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہی پر کرتی ہیں۔ اس خلا کو پر کئے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کی ’ ناصح امین‘ والی داعیانہ حیثیت کبھی سامنے نہیں آسکتی۔ اس خلا کو عوامی سطح پر خیرسگالی کے ساتھ کیسے پر کرنا ہے یہ تحریک اسلامی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
۲) ہندوستان ہر معنوں میں ایک تکثیری ملک ہے۔ صرف زبان اور زبان سے جڑی نفسیات کو لیا جائے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خطبۂ مدراس کی پرزور پکار کے باوجود اردو کے فکری و حرکی لٹریچر کی مقامی زبانوں میں منتقلی کی رفتار اور معیار دونوں ویسے نہیں جیسے ہونے چاہیے تھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ عمومی یا دعوتی نوعیت کے لٹریچر کا ترجمہ ہوا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فکری لٹریچر کا ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسے متعدد افراد فکری انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں جنہیں اپنے سماج میں بحیثیت داعی کام کرنا ہے ۔ دوسری چیز یہ ہے کہ لٹریچر کی تیاری تو صرف دعوت دین کا ایک کام ہے۔ اس کام کی اہمیت کے اعتراف کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی ایک معتدبہ آبادی ناخواندہ ہے، جو پڑھ لکھ سکتے ہیں ان میں بھی کتنے ہوں گے جو سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں یا کرسکیں گے؟ لہذا ایسے افراد کی تیاری جو ’لسان قوم‘ (قوم کی زبان) میں لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائیں ہماری ایک اہم ذمہ داری ہے۔
۳) ہمارے یہاں دعوت کے نام پر مقامی زبانوں میں کچھ اخبارات و رسائل اور انگلی پر گنے جانے لائق دعوہ ایکسپرٹس ہیں۔ یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ نہیں بلکہ وہیل کے منہ میں جرثومہ کی مانند ہے۔ ضرورت دعوت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ فیلڈ ایکسپرٹس (داعی) تیار کرنے کی ہے۔ کوشش ہونی چاہئے کہ صرف تحریک کے نہیں بلکہ ملت کے نوجوانوں کو معمولی تربیت کے عمل سے گزار کر دوردراز مقامات پر دعوتی کام کے لئے بھیج دیا جائے۔ ان رضاکاروں کو اپنی دعوت کا کس قسم کا جواب فیڈ بیک مل رہا ہے یا انہیں کس قسم کی مادی یا فکری مدد کی ضرورت ہے اس کا ایک مرکزی نظام centralised mechanism تیار کیا جائے۔
۴) ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعبۂ دعوت کے وقت اور وسائل کا ایک بڑا حصہ نومسلموں خصوصاً نو مسلم خواتین کے مسائل کو حل کرنے میں صرف ہوجاتا ہے۔ کوشش ہونی چاہئے کہ مسائل کے حل اور نومسلموں کی تربیت کے لئے علاحدہ انتظام کیا جائے، شعبۂ دعوت کی تمام تر توجہ اسلام کی دعوت نئے لوگوں تک پہنچانے پر ہو۔
۵) تحریک میں افراد کی تربیت کی کمی کے باعث کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دعوت کو ایک الگ شعبہ جاتی کام سمجھا جاتا ہے اور جو جامع فہم ہونا چاہئے وہ مفقود نظرآتا ہے۔ اس طرح ہماری مختلف سرگرمیوں کا ربط دعوت سے نہیں قائم ہوتا۔ ہمارے دھرنوں، ریلیوں ، احتجاجات، خدمت خلق کی مساعی، سیاست اور رابطہ عامہ پبلک ریلیشن کے کاموں کا دعوتی پہلو کیا ہے، ہے بھی یا نہیں، یہ ہم پر واضح نہیں رہتا۔۔۔ چنانچہ ان کاموں کے دعوتی نتائج بھی نہیں نکلتے۔ موسیؑ جب فرعون سے بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کامطالبہ کرتے ہیں، ہودؑجب اپنی قوم کی فضول تعمیرات اور ظلم و زیادتی پر نکیر کرتے ہیں، صالحؑ جب اپنی قوم ثمود کی بد مستی، عیش و عشرت اور ان کے پہاڑ کھود کھود کر فخریہ عمارتیں بنانے پر ٹوکتے ہیں، لوطؑ جب اپنی قوم کی بے حیائی کے خلاف محاذ کھولتے ہیں ، شعیبؑ جب اپنی قوم کی معاشی بدعنوانیوں خصوصاً کم تولنے پر گرفت کرتے ہیں تو ان سارے ایشوز اور مسائل کا تعلّق توحید، رسالت اور آخرت سے قائم کرتے ہیں۔ ایشوز (سوالات) جس طرح ہم اٹھاتے ہیں اس میں اس انبیائی بصیرت کا فقدان نظر آتا ہے۔
۶) دعوت کے میدان میں ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے جتنے اور جس قسم کے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں ان کے درمیان ایک رابطہ کی ضرورت ہے۔ دعوت کا کام چاہے صوفیانہ طرز پر ہو، مناظرانہ انداز میں یا مشنری طرز پر ۔۔۔ ہر ماڈل سے کئی مثبت باتیں سیکھی جاسکتی ہیں اور سیکھی جانی چاہئیں۔ ایک ہی منزل کے مختلف راہیوں کے درمیان رشتہ باہمی تعاون، خیر سگالی اور خیر خواہانہ مسابقت کا ہونا چاہئے نہ کہ عدم تعاون، رسہ کشی اور طعن و تشنیع و تنقیص کا۔
۷) سب سے اہم اور مرکزی نکتہ وہ ہے جس سے ہم نے اس تحریر کی ابتدا کی ہے۔ جان چیپ مین جیسے لوگ سیب کی پیداوار کے فروغ کو اپنا نصب العین بناتے ہیں اور اس راہ میں ایسی ایسی قربانیاں دیتے ہیں جو ہمیں شرمسار کردینے کے لئے کافی ہیں۔ اس سے ہمارے لئے جو چبھتے ہوئے سوالات کھڑے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
٭ تحریک کے ابتدائی دور میں تو ہمارے ارکان لٹریچر کا جھولا لٹکائے کبھی سائیکل پر اور اکثر پیدل نکل کھڑے ہوتے تھے۔ کسی کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، کسی کو شہادت حق اور اقامت دین کا مطلب سمجھارہے ہیں، کہیں جاہلی رسومات کے خلاف برسر پیکار ہیں تو کہیں جاہلی افکار کے۔۔۔ دعوت کے میدان میں یہ یکسوئی اور قربانی اب تحریک کی نئی نسل میں نظر نہیں آتی۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، جنگل جنگل گھوم کر جان چیپ مین فراخی کے ساتھ سیب کے بیج بوتا تھا، ہم دعوت کے بیج کیوں نہیں بوتے؟
٭ ہر جگہ بیج بونے کے علاوہ جان چیپ مین کی یہ کوشش بھی ہوتی تھی کہ وہ کچھ مثالی خطوں کو خصوصی طور پر ہدف ٹارگٹ بنائے۔ مگر نشانہ متعین کرکے دعوت کا کام کرنے کا زمانہ بھی شاید ہمارے لئے لد گیا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی الا ماشاء اللہ کوئی ایسا نکلے جو ذہین اور باصلاحیت افراد کو جان بوجھ کر مخاطب بناتاہو کہ یہ اسلام میں(یا تحریک میں) آجائے اور اس کی صلاحیتوں سے اسلامی انقلاب کا کارواں کچھ اور آگے بڑھ جائے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ آپؐ نے حضرت عمرؓ یا ابوجہل کے لئے دعا مانگی تھی۔ اور جانتے بھی ہیں کہ جب رسول ؐ نے دعا مانگی تھی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ان دو شخصیات تک دعوت پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوگی لیکن ہم میں ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے جو مخالفین اسلام کی ہدایت کی دعا مانگتے ہوں۔ کیا ہندوستان کے مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد یا ادارہ نہیں جو ہندوستان میں جاہلیت کے سرخیلوں تک چن چن کر دین کی دعوت لے کر پہنچے؟
٭ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اردو تحریک کی فکری زبان تو ہوسکتی ہے دعوتی زبان نہیں۔ ہندوستان میں صوفیوں کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ انہوں نے مقامی زبان میں اور مقام پر رہ کردین کا کام کیا تھا۔ آج اسی حکمت عملی کو بڑے پیمانے پر اپنانے کی ضرورت ہے۔ جان چیپ مین نے بہت سے جنگلی قبائل سے دوستانہ تعلقات استوار کئے، سیکڑوں قبائلیوں سے ذاتی سطح پر دوستی کی اور ان کی کئی زبانوں کو سیکھا۔ کیا ہم ہندوستان کے دیہی علاقوں میں یاجھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے قبائلیوں میں جاکر، ان کے درمیان بس کر، ان سے دوستی کر کے، ان کے مسائل حل کرکے، ان کی زبانیں سیکھ کر انہیں اسلام کی دعوت نہیں دے سکتے؟
٭ کیا ہمیں اپنے مقصد سے اتنا بھی عشق نہیں جتنا جان چیپ مین کو سیب سے تھا؟
یہ آخری سوال اگر ہمارے جسم اور روح پر رعشہ طاری نہیں کرتا اور ہمیں اپنے مقصد کے لئے اپنی پوری زندگی۔۔۔ جی ہاں پوری زندگی۔۔۔ تج دینے کے لئے آمادہ نہیں کرپاتا تو شاید ہمیں ہندوستان میں دین کی اقامت کے خواب سے دستبردار ہوجانا چاہئے۔
انقلاب کے راستے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اسلامی انقلاب کی اس کے لئے زندگیاں قربان کی جائیں۔ محض وقت کے بچے کھچے حصے میں، ہفتے کے ایک دن، فرصت کے اوقات میں ، سیر و تفریح کے طور دین کا کام کرنے سے اسلامی انقلاب نہیں آسکتا۔ ایک نئے علاقے میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کے جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کرنا؛ دعوت دین کے بیج بونا؛ اپنے اخلاق، کردار، عبادات، معاشرتی زندگی، اور خدمت خلق سے اس بیج کو غذا پہنچانا؛ آزمائشوں کا سامنا کرکے اپنے پسینے اور خون سے اس پودے کی آبیاری کرنا۔۔۔ یہ وہ کام ہے جو منصوبہ بند طریقے سے انجام دینا ہے۔ اس کے بغیر اسلام کی اقامت کے پھل بھلا ہم کیسے کھا سکتے ہیں؟ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا منصوبہ اور اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ایسے کچھ لوگ نکل سکتے ہیں جو ایسے چنے ہوئے علاقوں میں بود و باش اختیار کریں اور اپنی پوری زندگی وہیں کھپا دیں؟ اسی طرح اگر ہم ایک اسکول، ایک کالج، ایک اسپتال، ایک تحقیقاتی ادارہ، ایک دعوہ ریسرچ سینٹر ۔۔۔ اعلیٰ معیار پر قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس میں سے ہر ادارہ زندگی چاہتا ہے۔ زندگی قربان کردینا ان معنوں میں کہ جان دے دی جائے بہت مشہور و معروف ہے، لیکن اقامت دین کےلیے اُن مردانِ کار کی بھی ضرورت ہے جو جیتے جی اپنی زندگی اس راہ میں کھپادینے کے لئے تیار ہوں۔ سرمائے کا اندازہ ہم وسائل، متفقین، کارکنان، اور ارکان کی تعداد وغیرہ سے لگاتے ہیں لیکن کیا ہمیں اندازہ ہے کہ تحریک کے پاس کتنی زندگیوں کا سرمایہ ہے؟ کیونکہ صرف اسی سرمائے سے انقلاب لایاجاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014