اسلام میں ظلم وستم بالکل روا نہیں، اسلام میں جان ومال کے تحفظ کی جتنی اہمیت ہے، اس کی مثال کسی اورمذہب میں نہیں۔ اسی لیے اسلام میں کسی کی ناحق جان لینا حرام ہے :
’’کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے ہرگز ناحق قتل مت کرو ‘‘﴿بنی اسرائیل:۳۳﴾
’’انسانی ایک جان کو تلف کرنا پوری انسانیت کے تباہ وبرباد کرنے کے برابر ہے اور ایک جان کی حفاظت پوری انسانیت کی حفاظت کے قائم مقام ہے۔ ‘‘ ﴿المائد:۳۲﴾
قتل کتنا بڑا گناہ ہے اس کااندازہ آپﷺ کے ان ارشادات گرامی سے بھی ہوسکتاہے:
جو قتل بھی ظلماً ہوتا ہے قاتل کے ساتھ ساتھ اس خون ناحق کا گناہ حضرت آدمؑ کے بیٹے کو بھی ہوتاہے جس نے سب سے پہلا قتل کیاتھا۔ ﴿صحیح بخاری: ۳۱۵۷﴾
ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیںگے۔ صحابہ نے تعجب سے سوال کیامقتول کو جہنم میں کیوں ڈالا جائے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا: مقتول بھی قاتل کے قتل کا ارادہ کرتا ہے۔ ﴿صحیح بخاری:۳۱﴾ اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی روک تھام کے لیے قاتل کے لیے قصاص کو ان الفاظ میں واجب قرار دیاہے: اے ایمان والو! تم پر قصاص فرض کیاگیاہے۔ ﴿البقرہ:۱۷۸﴾
علامہ شطاالدمیاطیؒ نے لکھاہے ویؤخرایضاً وجوباً من رأی نحو غریقٍ او اسیرٍ لو انقذہ خرج الوقتکہ اگر کسی غرق ہونے والے یا قیدی کو بچانے کی غرض سے نماز کے قضائ ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں نماز کوقضائ کرنا اور کسی کی جان کی حفاظت واجب ہے اس لیے کہ جان کا کوئی بدل نہیں ہے۔ ﴿فتح المعین مع اعانہ: ۱/۱۹۰﴾ علامہ خطیب شربینیؒ فرماتے ہیں، ومن خاف علی نفسہ موتا او مرضا مخوفا ووجد محرما کمیتۃ ولحم خنزیر وطعام الغیرلزمہ اکلہ کہ جس شخص کو اپنی موت کاخوف ہو یا ایسے مرض کاجس سے جان چلی جانے کا اندیشہ ہو اور وہ مردار یا خنزیر کا گوشت اسی طرح کسی دوسرے کامال پائے تو جان کی حفاظت کے خاطر ان سب چیزوں کاکھانا لازم ہے۔ ﴿مغنی المحتاج: ۶/۲۰۳﴾
مذکورہ سطور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جان چاہے اپنی ہو یا دوسرے کی اس کی حفاظت
بہت زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ جان اللہ کی امانت ہے۔ لیکن موجودہ دور میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ حقیر اور بے وقعت بلکہ حیوانوں اور جانوروں سے بھی زیادہ بے معنی شئے انسانی جان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سکینڈ اور ہر پل میں ایک انسانی جان کا تلف ہونا یا تلف کرنا بالکل عام معمول بن گیا ہے، جس کا ہم ہر روز اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اتنی کثرت سے جانوں کے تلف ہونے کے اسباب میں آپسی دشمنی، ظلم وستم، اسلام دشمنی جیسے اسباب کے ساتھ ایک سبب خودکشی بھی ہے اور اس کا فیصد بھی کچھ کم نہیں۔
خودکشی کے اسباب
خودکشی ﴿اپنے آپ کو ہلاک کرنا﴾کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں، کبھی انسان غربت وافلاس سے تنگ آکر تو کبھی کسی گناہ وجرم کی ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے خودکشی کرلیتا ہے تو کبھی میاں بیوی کی آپسی رنجش اس کا سبب بنتی ہے تو کبھی عشق میں ناکامی کی صورت میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاںخودکشی کرتیہیں۔ انسان حالات ومسائل کے سامنے اتنا مجبور اور بے بس ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی ذات سے ہی نفرت ہونے لگتی ہے۔
خودکشی کا حکم
امام نووی فرماتے ہیں خودکشی کرناحرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ(رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: جو شخص کسی لوہے کی چیز ﴿چاقو چھری﴾ سے اپنے کو قتل کردے تو جہنم میں وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہوگی جس کو وہ اپنے پیٹ میں گھساتا رہے گا، جب تک وہ جہنم میں رہے گا اور جس کسی نے زہر کھاکر یا پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم میں زہر کے گھونٹ پیتا رہے گا۔﴿مسلم:۱۰۹﴾
امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک اور جمہور علماکے نزدیک خودکشی کرنے والے پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ البتہ مسلم شریف کی ایک حدیث ہے جس میں حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺکے پاس ایک خودکشی کرنے والے کی لاش آئی تو آپ ﷺنے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ ﴿مسلم: ۹۷۸﴾ آپ ﷺکا جنازہ نہ پڑھنا خودکشی کے گناہ کی شدت اور سنگینی کے اظہار کے لیے اور اس گناہ سے بچنے کی تنبیہ کے لیے تھا تاکہ دوسرے لوگ اس گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺنے صحابہ کو اس شخص کی نماز جنازہ پڑھنے کاحکم دیا ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے لکھا ہے کہ خودکشی کرنے والے پر نماز جنازہ پڑھنا اور استغفار وایصال ثواب جائز ہے۔ ﴿کتاب الفتاویٰ: ۱۸۳/۳﴾
مشمولہ: شمارہ مئی 2010