خدا سے محبت کس لیے؟
قرآن نے متعدد جگہ خدا کی اپنے بندوں سے محبت کا ذکر کیا ہے۔ خدا نیکی کرنے والوں (۲: ۱۹۵؛ ۳: ۱۳۴؛ ۳: ۱۴۸؛ ۵: ۱۳؛ ۵: ۱۹۳)، توبہ کرنے والوں (۲: ۲۲۲)، پاکیزگی اختیار کرنے والوں (۲: ۲۲۲؛ ۹: ۱۰۸)، خدا سے ڈرنے والوں (۳: ۷۶، ۹: ۴، ۹: ۷)، صبر کرنے والوں (۳: ۱۴۶)، خدا پر توکل کرنے والوں (۳: ۱۵۹)، انصاف کرنے والوں (۵: ۴۲؛ ۴۹: ۹؛ ۶۰: ۸) اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں (۶۱: ۴) سے محبت رکھتا ہے۔ اور جولوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی اسے محبوب رکھتے ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدِّ مقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے۔ حالاں کہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔(سورۃ البقرہ: ۱۶۵)
اے نبی ﷺ ! لوگوں سے کہہ دو کہ ‘‘ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ’’ (سورۃ آل عمران: ۳۱)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہو ں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔(سورۃ المائدۃ: ۵۴)
واضح رہے کہ جب بھی قرآن نے ایک محبت کرنے والے خدا کا ذکر کیا ہے، وہ قریب قریب ہمیشہ اس کے مخلص بندوں کے ساتھ تعلق کے سیاق میں کیا ہے، ایسے بندے جو خود کو خدا کی محبت میں وقف کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ کیے گئے عہد کو نبھاتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو برائی کے حوالے کر دیا—یعنی ظالم، جابر، بدعنوان، مجرم، خدا کے منکر، بدکردار، متکبر، فاسق، فضول خرچ، خائن، اور ناانصافی کرنے والے—تو انھوں نے خود کو اس محبت کے رشتے سے محروم کر دیا۔ اگرچہ جن چیزوں کو ہم عام طور پر محبت کے ساتھ منسوب کرتے ہیں جیسے رحم، شفقت، احسان، تحفظ، پرورش، مہربانی، صداقت، نرمی، وغیرہ، تو خدا ہر ایک کو ان سے نوازتا ہے، لیکن حقیقی معنوں میں خدا کی محبت کا ادراک صرف انھی لوگوں کو ہوتا ہے جو شعوری طور پر اس سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، جب قرآن خدا کی محبت کی بات کرتا ہے، تو یہ ایک باہمی تعلق ہوتا ہے، جو شعوری طور پر خدا اور اس کے بندوں کے بیچ ہوتا ہے۔ ایک ایسا تعلق جسے بہت سے کم نصیب ٹھکرا دیتے ہیں۔
جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا، قرآن کہتا ہے کہ ہمارے اعمال و افعال سے خدا کو کسی طرح کا کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا، بلکہ فرد ہی اپنے کیے کا فائدہ یا نقصان اٹھاتا ہے۔ تاہم قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خدا اس زمینی تجربے کے ذریعے ایسے افراد کو تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھتے ہوں۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اس تعلق کی آبیاری کی کوشش کرے یا نہ کرے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو اس تعلق کو پروان چڑھائیں گے اور یہی بظاہر زمین پر انسانی زندگی کا مقصد ہے۔
اس سے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ پرہیزگاری کی زندگی خدا کے ساتھ ہمارے تعلق کو کس طرح مستحکم کرتی ہے؟ یہ بات تو سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس سے ہمارے اندر بھلائی کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ ہمیں سکون اور طہارتِ نفس بہم پہنچاتی ہے، لیکن اس سے ہمیں تعلق باللہ کو استوار کرنے میں کس طرح مدد ملتی ہے؟ پھر اگر یہی تعلق مقصد حیات ہے تو کیا اسے زمین پر جہدِ پیہم اور تکلیفیں سہے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کیا ہمیں خدا سے محبت کرنے کے لیے پروگرام نہیں کیا جاسکتا تھا؟ میرا ذہن بار بار انھی سوالات کی طرف آتا رہا۔
تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟
قرآن سے یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے کہ خدا سچے ایمان والوں سے کیا توقع رکھتا ہے۔ یہ اشارات ایسی متعدد آیات میں پائے جاتے ہیں جن میں ارشاد ہوتا ہے ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے ہیں۔‘‘ چوں کہ، جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا، ہمارے وجود کا بنیادی مقصد خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت پانا ہے، ظاہر ہے اس کے لیے ایمان ناگزیر ہے، کیوں کہ ہم کسی کا قرب اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ ہم اس کے وجود و صفات کا اقرار نہ کرلیں۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ پرہیزگاری کی زندگی خدا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو کس طرح استوار کرتی ہے۔ ایک عامیانہ جواب یہ ہے کہ خدا خود خیر ہے اور خیر کے کاموں سے خوش ہوتا ہے اور شر کے کام اس کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن پھر اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا تو ہمیں معصوم عن الخطأ پیدا کرسکتا تھا، اس زمینی مرحلے سے بائی پاس کرتے ہوئے ہمیں یوں ہی جنت میں ڈال دیتا، اور ابتدا ہی سے ہم سے راضی رہتا۔ اگر خدا پر ایمان اور زمین پر پرہیزگارانہ زندگی ہمیں اس کے قریب لاتے ہیں، تو اس کی ضرور کوئی اہم وجہ ہوگی کیوں کہ خدا کوئی کام بھی عبث نہیں کرتا۔
قرآن میں جو نیک اعمال بیان کیے گئے ہیں ان کا لب لباب یہ زریں اصول ہے: ‘‘دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا اپنے ساتھ کیے جانے کی توقع رکھتے ہو۔’’ قرآن میں نیک اعمال کی بہتیری مثالیں موجود ہیں، جن میں کوئی عمل ایسا نہیں جس پر حیرت کی جائے، چناں چہ ان سے بھی نیک اعمال اور قرب الہی کے مابین کسی تعلق پر فوری طور پر روشنی نہیں پڑتی۔ مجھے قرآن کی سماجی سرگرمی ‘‘خدا کی راہ میں جدوجہد’’ اور ‘‘امر بالمعروف اور نہی عن المنکر’’ کے اصرار پر کچھ تعجب ہوا۔ اگرچہ مجھے قیام عدل کی کوششوں سے کوئی اخلاقی اعتراض نہیں، تاہم مجھے ان سماجی و سیاسی سرگرمیوں پر اتنا زور دیے جانے کی توقع نہیں تھی، کیوں کہ میں مذہب کو ذاتی اور نجی معاملہ سمجھنے کا عادی تھا۔ مذہب میں سماجی اصلاح کے لیے بھرپور کوشش کے اس تصور نے پرہیزگاری اور قرب الہی کے باہمی تعلق کے بارے میں میرے سوال کو مزید مہمیز کردیا۔
اس راز سے پردہ اٹھانے کی امید میں، میں نے ان نیک اعمال کی ایک اجمالی فہرست بنائی جن کی قرآن حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اس فہرست میں ایسے اعمال شامل ہیں جنھیں آفاقی طور پر نیکی کے کاموں طور کے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، حسن سلوک (۲: ۸۳؛ ۲: ۲۱۵؛ ۶۹: ۳۴)، رحم دلی (۹۰: ۱۷)، دوسروں کو معاف کرنا (۴۲: ۳۷؛ ۴۵: ۱۴؛ ۶۴: ۱۴)، انصاف پسند ہونا (۴: ۵۸؛ ۶: ۱۵۲؛ ۱۶: ۹۰)، کم زوروں کی حفاظت کرنا (۴: ۱۲۷؛ ۶: ۱۵۲)، مظلوموں کا ساتھ دینا (۴: ۷۵)، علم و حکمت کی جستجو کرنا (۲۰: ۱۱۴؛ ۲۲: ۵۴)، سخاوت (۲: ۱۷۷؛ ۲۳: ۶۰؛ ۳۰: ۳۹)، صداقت (۳: ۱۷؛ ۳۳: ۲۴؛ ۳۳: ۳۵؛ ۴۹: ۱۵)، نیک برتاؤ (۴: ۳۶)، نرمی اختیار کرنا (۸: ۶۱؛ ۲۵: ۶۳؛ ۴۷: ۳۵)، اور دوسروں سے محبت کرنا (۱۹: ۸۶)۔
یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ پس اے نبی ﷺ، اس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمھاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوش خبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ (سورۃ مریم: ۹۷-۹۶ )
ہمیں دوسروں کو ان خوبیوں پر عمل کرنے کی ترغیب دینی چاہیے (۹۰: ۱۷؛ ۱۰۳: ۳) اور خود بھی ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ انبیا علیہم السلام کے قصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم اور اپنے اہل خانہ کو انھی خوبیوں کو اختیار کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے، لیکن ان کی قوم کے بیشتر افراد کا رویہ ان کے ساتھ توہین آمیز رہتا۔
میری فہرست میں ایسا کچھ نہیں جو امتیازی ہو، جن سے یہ اشارہ مل سکے کہ انسانی مصائب ناگزیر ہیں۔ یہ گرہ نہیں کھل سکی کہ ہمیں خدا سے محبت کرنے کے لیے پروگرام کیوں نہ کردیا گیا۔ میری فہرست کا خلاصہ یہ تھا:
‘‘ہمیں انصاف پسند، سچا، رحم دل، ہم درد، فیاض، [دوسروں کی] حفاظت کرنے والا، معاف کرنے والا، پرامن، تدبر کرنے والا، علم والا، محبت کرنے والا، وغیرہ بننا چاہیے۔’’
میرے خیالات اب بھی دائروں کے مسافر ہیں۔ میں یہ تو سمجھ سکتا ہوں ان خوبیوں کو اختیار کرکے ہماری زندگی کس طرح پرسکون ہوسکتی ہے، لیکن یہ قرب الہی کا باعث کیوں کر ہیں؟
اگر خُدا ہم میں سے ایک ہوتا
اگر خُدا ہم میں سے ایک ہوتا، تو شاید کام بہت آسان ہوجاتا، کیوں کہ تب میں اسے سمجھنے کے قابل ہوتا۔ کم از کم نیک اعمال اور قرب الہی کے بیچ تعلق کو سمجھ لیتا۔ دوسرے لوگوں کو میں اس لیے سمجھ سکتا ہوں کیوں کہ ہم ایک جیسے خوف، امیدوں، خواب، خواہشات، مشکلات اور خوشیوں کے تجربات سے گزرتے ہیں۔ میں ان کے احساسات کا ادراک کرسکتا ہوں کیوں کہ ہم ایک ہی بنیادی وجود ہیں، محض معمولی تغیرات کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن خدا ہم میں سے ایک نہیں ہے۔ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ ہم خدا کا ادراک نہیں کر سکتے، کہ خدا ‘‘اس چیز سے پاک اور بالاتر ہے کہ لوگ اس کی کوئی تعریف متعین کرلیں۔’’ (۶: ۱۰۰)، ‘‘ کائنات کی کوئی چیز اُس کے مشابہ نہیں’’(۴۲: ۱۱) اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے’’(۱۱۲: ۴)۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا کہ انسان جو فانی، محدود، مادی جسم رکھنے والا، دوسروں پر منحصر، کم زور، ضرر پذیر، تخلیق کردہ اور زمان و مکان کا پابند ہے ایک لازوال، لامحدود، غیر مادی، مطلق مختار، ناقابل تسخیر، زبردست، ہر شے کا علم رکھنے والے، ہر شے کے خالق، ہر شے سے ماورا خدا کو کس طرح ادراک میں لا سکتا ہے؟
کاش قرآن نے خدا کے بارے میں وضاحت کی ہوتی، ہمیں اس کی کافی تفصیل فراہم کی ہوتی تاکہ ہم اپنے ذہن کی تسکین کرسکتے۔ میں یہاں تک یہ جاننے کے لیے تو نہیں آیا تھا کہ خدا ادراک سے ماورا—ایک ناقابلِ فہم راز—ہے اور میرے لیے اسے جاننے کی کوئی امید باقی نہیں۔
کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم انسان خود کو خدا بنالینےاور خدا کو انسانی قالب میں ڈھالنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیز میرے لیے اور زیادہ عقلی الجھن پیدا کرنے کا باعث ہے، تاہم اس سے خدا کچھ تو قابل ادراک بنتا ہے۔ میں ایسا خدا چاہتا ہوں جو مخلوق سے ماورا ہو، انسانیت کی طرح نہیں جس کا میں ایک حصہ ہوں، لیکن ساتھ ہی وہ قابل رسائی بھی ہو۔
ایک ذہنی کش مکش
میں کتنا سادہ لوح تھا جو سمجھ رہا تھا کہ قرآن کسی طرح خدا اور انسانیت کے بیچ کی لامحدود خلیج کو پاٹ سکتا ہے، یہ انسانی مصائب کو قرب الہی سے جوڑنے کی منطقی توجیہ کرسکتا ہے۔ ہم انسانی نفسیات ہی کو مشکل سے سمجھتے ہیں تو یہ خدا اور انسان کے درمیان کے تعلق کو کیسے سمجھا سکتا ہے؟ پورا قرآن پڑھ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ میرا موقف شروع سے درست تھا، یعنی انسانی وجود کے لیے کوئی مذہبی توجیہ ممکن نہیں ہے۔
ایک بار پھر مجھے واضح نظر آنے لگا۔ میرا یہ کہنا غلط تھا کہ ہم اپنے ساتھی انسان کو سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی انسانیت کو نہیں سمجھتے۔ ہم اسے صرف تجربے سے جانتے ہیں۔ میں خود کو پوری طرح نہیں سمجھتا ہوں۔ میں کون ہوں، میرے محرکات، میری پریشانیاں، میرے خواب، میرے جذبات، میرا ضمیر اور نفسیات کیا ہیں۔ میں علمی طور پر انسانیت کو نہیں جانتا بلکہ میں اسے اپنے انسان ہونے سے جانتا ہوں۔ عملی طور پر انسانیت کے بارے میں میرا تمام علم موضوعی ہے۔ تاہم اس سے ایک بظاہر ناگزیر نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر ہم الوہیت کا تجربہ کرنے کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے، جو کہ قرآن کا موقف معلوم ہوتا ہے، تو ہم خدا کو حقیقی، بامعنی انداز میں نہیں جان سکتے۔ اس بات پر اصرار کرکے کہ خدا تخلیق سے یکسر مختلف ہے، اس کا کسی بھی شے سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جسے ہم جانتے ہیں—قرآن نے خدا کے ساتھ رشتے کو عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔ اگرچہ مصنف نے شان دار کوشش کی، ایک ادبی اور عقلی شاہ کار پیش کیا، لیکن ‘ہم یہاں کیوں ہیں’ اس سوال کی مکمل اور مربوط وضاحت پیش کرنے سے قاصر رہا۔ بہرکیف اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ وہاں ناکام ہوا ہے جہاں دوسرے بھی لامحالہ ناکام ہوجاتے—خدا اور انسان کے بیچ کی لامتناہی خلیج میں پھنس جانا۔
یہ میرے لیے ایک کھوکھلا احساس تھا، اور مجھے فتح کا کوئی احساس نہیں تھا۔ کیوں کہ میرے قرآن کے پڑھنے کے دوران ایسے موقعے بھی آئے جب میں ہتھیار ڈالنے کے بہت قریب تھا، جب مصنف کے الفاظ—اس کی آواز— نے مجھ پر قابو پا لیا تھا، جس کی وجہ سے میں نے محسوس کیا تھا کہ اس کتاب کے ذریعے صرف خدا ہی مجھ سے مخاطب ہوسکتا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ کئی مواقع پر میں نے آنسو بھی بہائے، بعض اوقات میں نے محسوس کیا کہ میں ایک زبردست، طاقت ور اور مہربان ہستی کے حضور پیش ہوں۔ ہربار ان روحانی لمحات نے مجھے حیرت میں ڈالا۔ میں اس کیفیت کو جھٹکنے کی کوشش بھی کرتا، لیکن اکثر اس کا غلبہ اتنا شدید ہوتا کہ مزاحمت ممکن نہ ہوتی، اور جب میں متن میں آگے بڑھتا جاتا تو میری مزاحمت مزید کم زور ہوتی چلی جاتی۔ ایسے بھی لمحات آئے جب مجھے تقریباً یقین ہوگیا کہ خدا ہے، اور میں اس کی موجودگی کو محسوس کرسکتا ہوں، ایسا خدا جسے میں ہمیشہ سے جانتا تھا لیکن اسے بھولنے کے لیے خود سے جنگ کر رہا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ قرآن پڑھنے کی وجہ سے میں نے بہتر محسوس کیا یا نہیں، لیکن اتنا ضرور تھا کہ میں اتنا بدل چکا تھا کہ میں مزید اپنے الحاد پر قائم نہیں رہ سکتا تھا۔
اب میرے زندگی کے ساتھ چلنے کا وقت تھا، خدا کے وجود پر خود گھلائے رکھنے کا نہیں جو میری خوشیوں کے درمیان حائل تھا۔ میرے سان فرانسسکو کی طرف راغب ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ زندگی کا پورا لطف اٹھاتے ہیں۔ اکیس سال تحصیلِ علم کے بعد، اب میں اپنی محنت کی فصل کاٹنے کے لیے تیار تھا۔ یہی وقت تھا کہ میں بھی زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ میرے پاس حوصلہ، مواقع اور وسائل موجود تھے۔ میں جوان تھا، تنہا تھا، خوبرو تھا، اور میرا کیریئر بھی ٹھیک تھا۔
میرا نام پکارو
اور پھر قرآن ختم کرنے میں کچھ ہی دن گزرے تھے، شاید چند ہفتے، کہ مجھے پھر اس کی یاد آئی۔ یہ خیال آہستگی سے، غیر متوقع طور پر مجھے آیا- شاید اس وقت جب میں ٹیلی ویژن پر فٹ بال کا کھیل دیکھ رہا تھا- ایک ایس سوچ کی طرح جو میرے شعور میں سماگئی ہو۔
یہ بات درست نہیں کہ قرآن خدا کے بارے میں بہت کم بتاتا ہے؛ یہ ہمیں اس کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے، لیکن کسی وجہ سے میری اس طرف توجہ نہیں گئی۔ اگر میں کسی بھی سورت کے آغاز پر یا کم و بیش کسی بھی صفحے کو پلٹ کر دیکھتا تو مجھے وہ مل جاتا جس کی مجھَ تلاش تھی۔ کاش میں غور سے پڑھتا، کیوں کہ قرآن میں خدا کی ایسی ہزاروں وضاحتیں موجود ہیں جو نیک اعمال کا رشتہ اس کے قرب سے جوڑتی ہیں۔ اگرچہ میں نے قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھ ڈالا تھا، تقریباً ہر آیت پر رک کر غور و فکر اور تجزیہ کیا تھا، لیکن مجھ سے صحیفے میں خدا کی صفات کے وافر حوالوں سے صرف نظر ہوگیا تھا۔ بیانات جیسے ‘‘خدا بخشنے والا، رحیم ہے۔’’ (۴: ۱۲۹)، ‘‘تیرا رب زبردست بھی ہے، رحیم بھی۔’’ ’’ (26: 68)خدا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔’’ (17: 1)۔ مجموعی طور پر قرآن ان القابات کو اسمائے حسنیٰ، خدا کے ‘‘سب سے خوب صورت نام’’ (7: 180؛ 17: 110؛ 20: 8؛ 59: 24) کہتا ہے۔
اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 110)
وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ (سورۃ طہ: 8)
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس سراسر سلامتی امن دینے والا نگہبان سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا۔پاک ہے اللہ اُس شِرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے۔ اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ (سورۃ الحشر: 23-24)
میرا خیال تھا کہ قرآن نے بنیادی طور پر موضوعات کو الگ کرنے کے لیے ایک ادبی ترکیب (literary device) کے طور پر اسمائے الہیہ کا استعمال کیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے میں ان پر زیادہ غور کیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ اب مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں نے ان کی اہمیت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ میں نے ان صفات الہیہ کو لکھنا شروع کر دیا جو مجھے یاد تھیں۔
’’رحم کرنے والا، کرم فرمانے والا، بخشنے والا، شفقت کرنے والا، سلامتی والا، محبت کرنے والا، عدل کرنے والا، رحمٰن، خالق، زبردست (عزیز)، محافظ، سچا، جاننے والا، حکمت والا، زندہ و جاوید وغیرہ۔‘‘
میرے سامنے وہ فہرست بھی تھی جو اس سے قبل میں نے ان خوبیوں کے ذیل میں مرتب کی تھی جنھیں قرآن مردوں اور عورتوں کو اختیار کرنے پر ابھارتا ہے۔ ان میں سے بیشتر خوبیاں وہی ہیں جو نئی فہرست میں صفات الہیہ کے ذیل میں شامل ہیں۔ اشارہ واضح ہے۔ چوں کہ خدا ان خوبیوں سے بہ کمال و تمام متصف ہے جنھیں ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے، اس لیے ان کے حصول میں ہم جتنا آگے بڑھتے جائیں گے اتنا ہی ہم اس کے قرب کو محسوس کریں گے۔ ہم جتنے رحم دل بنیں گے، اتنا ہی ہم خدا کی بے کراں رحمت کا تجربہ کرسکیں گے۔ ہم جتنا معاف کرنا سیکھیں گے، اتنی ہی زیادہ خدا کی بے کنارہ بخشش کا تجربہ کرنے کی ہماری قابلیت بڑھ جائے گی۔ محبت، حق، انصاف، مہربانی وغیرہ کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے ہم ان میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں، خدا کی صفات کمال کو حاصل کرنے اور ان کا تجربہ کرنے کی ہماری صلاحیت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔
یہاں ایک تمثیل مفید ہوگی۔ میرے پاس کبھی ایک گولڈفش اور ایک شان دار جرمن شیپرڈ کتا ہوا کرتے تھے، اور اب میری تین پیاری پیاری بیٹیاں ہیں۔ میری گولڈ فش، بہت محدود عقل و جسامت کی وجہ سے، میری محبت اور شفقت کو نسبتاً کم سطح پر ہی جان سکتی اور اس کا تجربہ کر سکتی ہے، خواہ میں اس سے کتنی ہی شفقت کیوں نہ کروں۔ دوسری طرف، میرا کتا، جو میری مچھلی سے زیادہ پیچیدہ اور ذہین جانور تھا، وہ میری گرم جوشی اور محبت کو مچھلی کے مقابلے کہیں بہتر سطح سے محسوس کرسکتا تھا۔ تاہم میری بیٹیاں—اس سے بھی بڑھ کر — جیسے جیسے وہ بالغ ہو رہی ہیں — میری محبت کی شدت کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ایسی سطح سے اس کا تجربہ کرسکتی ہیں کہ میرا کتا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں میرے کتے سے زیادہ گہرے احساسات و جذبات اور رشتوں کو جاننے کی صلاحیت موجودہے۔ اسی طرح ہماری نیکی کی سطح جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنا ہی اس لامحدود خیر کا تجربہ کرنے کی ہماری صلاحیت بڑھ جاتی ہے جسے خدا کہتے ہیں۔
دوسروں کا قرب پانے کے لیے ہم ان کے پاس اس چیز کے ساتھ جاتے ہیں جو ہمارے درمیان مشترک ہو۔ جب ہم کسی کے ساتھ جسمانی طور پر قریب ہونا چاہتے ہیں تو اپنا جسم ان کے قریب کرلیتے ہیں۔ کسی کے ساتھ علمی و عقلی طور پر قریب ہونے کے لیے ہم عقل و استدلال اور باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے ان سے ذہنی طور پر ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جذباتی طور پر دوسروں کے قریب ہونے کے لیے ہم احساسات کے ذریعے ان سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ جذباتی ہم آہنگی پیدا کرسکیں۔ چوں کہ خُدا تمام تر خیر کا سرچشمہ ہے، تو ہم اُس خیر کے ذریعے اُس سے رجوع کرتے ہیں جو وہ ہم میں ڈالتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا ہر انسانی روح میں اپنی روح پھونکتا ہے (32: 9)۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر الہی صفات کے تخم کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ تاہم اس بات کا انحصار ہم پر ہے، یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے کہ ہم خدا کے لامحدود خیر کو حاصل کرنے اور اس کا تجربہ کرنے کے لیے اس تخم کی پرورش کے لیے خود کو کھولیں۔
اس معمے کے اجزا یکجا ہونے لگے۔ جہاں یہ بات درست ہے کہ ہم خدا کا ادراک نہیں کرسکتے، وہیں ہم اس کی صفات کا، اس کی ہستی کا، دوسروں سے کسب خیر کرکے اور اس سے بھی آگے براہ راست خیر کے کاموں میں حصہ لے کر بسیار تجربہ کر سکتے ہیں۔ جب بھی ہم دوسروں کے ساتھ حقیقی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمیں اس بے نہایت شان رحیمی کا تجربہ ہوتا ہے جس کا منبع رحمان کی ذات ہے۔ جب بھی ہم کسی کی خطا سے درگزر کرتے ہیں، تو اس بے پایاں صفت غفاری کا تجربہ کرتے ہیں جس کے چشمے رب غفور کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔ جب بھی ہم مظلوموں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ہمیں اس لامحدود محافظت میں سے کچھ حصہ حاصل ہوتا ہے جو کائنات کے نگران کی صفت ہے۔ جب بھی ہم حق و صداقت پر عمل پیرا ہوتے ہیں، تو اس بے کراں صداقت سے حصہ پاتے ہیں جو مصدر حق کی شان ہے۔ یہ اعمال ہمیں خدا کے وجود کا تجربہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ اس کی رحمت، شان کریمی، مہربانی، غفاری وغیرہ ہمارے ذریعے سے ہمارے اردگرد کے لوگوں تک پہنچتی ہیں اور ہم اس الہی انتظام میں حصہ پاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے اندر خدا کو اعلیٰ سطح سے جاننے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے وجود کا فیض ہمارے وجود کے ذریعے دوسروں تک پہنچتا ہے، اور ہم اس لامحدود خیر کا ذاتی تجربہ کرتے ہیں۔ یہی چیز ہمیں خدا کی ایسی قربت سے آشنا کرتی ہے جس کا موازنہ کسی بھی انسانی رشتے سے نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں تک کہ اگر ہم اس تجربے سے واقف نہ بھی ہوں—یہاں تک کہ اگر ہم خدا کے وجود کے منکر بھی ہوں—تب بھی ہم اسمائے حسنیٰ کا تجربہ کرسکتے ہیں، لیکن اس صورت میں ہم بہرے، گونگے، اور اندھے رہتے ہیں۔ قرآن کی رو سے یہ سب سے بڑا المیہ ہے—سراسر خسارہ—کیوں کہ ہم اس طرح خود کو خدا کے قرب سے محروم کرلیتے ہیں۔ ہم خیر کے کام کے بارے میں جانتے تو ہیں لیکن خود کو اس لامحدود رحمت سے دور کرلیتے ہیں جو اس خیرا کا مبدا ہے۔ یہاں ہمیں نیک اعمال کے ساتھ ایمان کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
ایمان مسلسل پروان چڑھتا رہتا ہے، نہ صرف دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور اعمال صالحہ کے ذریعے بلکہ روحانی تربیت کے ذریعے بھی، جس میں شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ذکر اور تلاوت شامل ہیں۔ ہمیں اپنی روحانیت کی نشوونما کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں خُدا کی ہرجا موجودگی کے بارے میں باخبر رہیں۔ ہمیں اپنا، فطرت کا اور سب سے اہم بات اپنے اور دوسروں کے اندر خدا کی بے شمار نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے حساس ہونا چاہیے۔ ہر نیک عمل، نیکی کا ہر مخلصانہ مظاہرہ صفاتِ خداوندی کا اظہار ہے۔ بھلے ہی ہم اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم اسے اپنے دلوں سے محسوس کر سکتے ہیں، جو خیر اور روحانیت کے جاگزیں ہونے کا مقام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روزمرہ کے دینی وظائف انسانی ارتقا کے لیے قرآن کے پروگرام کا ایک اہم جز ہیں۔ میں نے یہاں worshipکے بجائے ‘‘وظائف’’ (rites) کا لفظ استعمال کیا ہے کیوں کہ قرآن میں مؤخر الذکر ایک جامع تصور ہے جو مذہبی رسومات سے وسیع تر مفہوم کا حامل ہے۔ عربی لفظ ‘عبادۃ’ جس کا عام طور پر ترجمہ worship کیا جاتا ہے، اس کا مفہوم ہے ‘‘خدمت کرنا’’ یا ‘‘خود کو وقف کردینا۔’’ اس میں ہر وہ اچھا کام شامل ہے جو خدا پر یقین کے ساتھ کیا جائے۔ اگرچہ یہ وظائف و مشاغل مذہب کے نسبتاً کم حصے پر مشتمل ہیں، تاہم وہ بعض اہم انسانی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ ہماری روحانیت کے ارتقا کے ساتھ ساتھ وہ خدا سے محبت کے اظہار کا براہ راست ذریعہ بھی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ انسانیت کے لیے خدا کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم کبھی ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ اس اعتبار سے ہم خدا کے ساتھ اپنے تعلق کے دوسرے سرے پر ہیں، جہاں ہم وصول تو کرتے ہیں، لیکن کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، جب کہ ایک صحت مند رشتے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ ساجھا کریں۔ جب ہم کسی انسان کی مدد کرتے ہیں، تو اس کے ذریعے ہم خُدا سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس میں براہِ راست فوری رابطے اور قربت کا فقدان ہوتا ہے۔ دینی وظائف خدا سے براہ راست رجوع ہونے اور اسے لوٹانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بھی اسی کی عطا ہے کہ اس نے ہمیں لوٹانے کا ایک وسیلہ فراہم کیا ہے جب کہ درحقیقت جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ ویسا ہی ہے جیسے میرے بچے مجھے تحفہ دینے کے لیے مجھی سے پیسے لیں۔ اگرچہ مجھے تحفے کی ضروت نہیں اور وہ مجھے وہی دیتے ہیں جو پہلے سے میرا ہے، لیکن میں اس کے پس پردہ جذبے کی قدر کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب لائے گا۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ خدا کو مخلوق سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ ہمارے دینی وظائف کی انجام دہی کے پیچھے ہماری نیتوں کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس سے ہمیں اس کا قرب حاصل ہوگا۔
خیر میں آگے بڑھ جانے سے ایمان والوں کے اندر الوہی صفات کے تجربے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی بہ نسبت اس کے قرب کا زیادہ کثرت سے تجربہ کرتے ہیں۔ البتہ اس زندگی میں قرب الہی کا تجربہ آخرت کی زندگی میں ہونے والے اس تجربے کا بہت معمولی نمونہ ہے جب خدا اور بندے کے بیچ وقتی حجابات اور رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔
بہت سی مذہبی روایات میں عقیدے اور اعمال کی فوقیت پر خاصی بحث رہی ہے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے یہ صریحاً غلط سوال ہے، کیوں کہ یہ سوال ایسے انتخاب پر اصرار کرتا ہے جو ہے ہی نہیں—کیوں کہ دونوں ضروری ہیں اور ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ ایمان اعمال صالحہ کی ترغیب دیتا ہے، جو خدا کے سب سے خوب صورت ناموں کی خوبیاں جذب کرنے اور ان کا تجربہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں مزید نیکی کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب ہم ان صفات میں ترقی کرتے ہیں جن کا بے کراں منبع و مصدر خدا کی ذات ہے، تو ہم اسے جاننے اور محبت کے ذریعے اس سے تعلق قائم کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
قرآن میں قصہ آدم اس اعلان کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ خدا زمین پر اپنا ایک نائب (خلیفہ) بنانے والا ہے، جو اس کی نمائندگی کرے گا اور اس کی طرف سے کام کرے گا (2: 30)۔ فرشتوں کے لیے یہ ایک اہم اعلان تھا۔ یہ ایک باوقار منصب ہے جس کے لیے ہم سب کو تخلیق کیا گیا ہے۔ جب میں نے پہلی بار اس آیت کو پڑھا تو میں بھی فرشتوں کی طرح حیران رہ گیا، کیوں کہ انسان جو سب سے سرکش اور غارت گر مخلوق ہے، زمین پر خدا کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے؟ فرشتوں کی طرح میں نے انسانیت کا صرف ایک ہی رخ دیکھا تھا، یعنی برائی کی طرف اس کا میلان، ‘‘فساد پھیلانا اور خون خرابہ کرنا’’۔ یقیناً بہت سے مرد اور عورتیں خدا کے اچھے نمائندے نہیں ہیں۔ لیکن انسان میں برائی کرنے اور اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ نیکی کرنے اور اس میں بڑھنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں برائی سے زیادہ اچھائی غالب ہے ورنہ نسل انسانی کب کی تباہ ہو چکی ہوتی۔ دنیا میں ایسے لوگ ہمیشہ رہے ہیں جو خیر و فلاح کے عظیم نمونے ہیں، جنھوں نے عاجزی سے خدا کی محبت میں خود کو دوسروں کی مدد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ یہی وہ نیابت ہے جس کا ذکر قرآن کرتا ہے۔ پیغام کی ترسیل یا کسی حکم کے نفاذ سے آگے بڑھ کر، اس کا مفہوم زمین پر خدا کا ایسا نمائندہ بننا ہے جس کے ذریعے دیگر مخلوق خدا کی صفات سے مستفید ہوتی ہیں۔ ایسے افراد اجالے کی وہ چھلنی بن جاتے ہیں جن سے خدا کی طرف سے بھلائی چھن کر دوسروں تک پہنچتی ہے۔ وہ جتنا زیادہ نیکی میں بڑھتے جاتے ہیں، اپنی لگن، ایثار اور ریاضت سے، اتنا ہی ان میں خدا کے خوب صورت ناموں کو جذب کرنے، ان کا تجربہ کرنے اور ان کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت بڑھتی جاتی ہے۔ اور اس زندگی میں خدا کے وجود کا ان کا تجربہ محض ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، اصل ثمرہ تو اگلی زندگی میں ان کا منتظر ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021