حالیہ پارلیمانی انتخابات ۲۰۱۴ء کے نتائج کے اعلان کے بعد لگتاہے کہ ہمارا ملک عزیز ایک نئی کروٹ لے رہاہے۔ برسراقتدار پارٹی نئے عزم وحوصلہ کے ساتھ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کا ایک طبقہ خوشیوں کے شادیانے بجارہاہے تودوسری طرف عوام کا ایک بڑا حصہ ’’صبر اور بصر‘‘ Wait and Watch کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ آخری نبی کے مشن کی نمائندہ امت میں سراسیمگی و تشویش کے ساتھ ایک احساس شکت محسوس ہوتا ہے۔
صورت واقعہ یہ ہے کہ اس حالیہ انتخابات میں امت محض تماشہ بین رہی اور خوش گمانیوں کی ریت میں سر چھپاکر آنے والی ’’لہر‘‘ کو دیکھنے سے انکار کرتی رہی ’’نہ ہمارے کان زمین سے لگے رہے‘‘نہ ’’نوشتہِ دیوار‘‘ ہم پڑھ سکے۔ انتخابات کے نتائج ہماری منشا کے خلاف ظاہرہوئے۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم لیے ہوئے حالات کا جائزہ لیں اورلائحہ عمل بنائیں۔
امت کاایک طبقہ حالات سے لاتعلق رہنے کے شیوے کو دینداری کا تقاضہ سمجھتا ہے۔ جبکہ قرآن ماضی کی تاریخ سے استنباط کرتاہے اورفی زمانہ ہونے والے سیاسی واقعات کو صحیح زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کی تربیت بھی کرتا ہے۔ انقلاب حال پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے کہ لوگ سوچیں کہ آباد وخوش حال بستیاں کیوں اجڑجاتی ہیں؟ کیوںحق پرست آزمائش کی بھٹی سے گزرتے ہیں؟ اور کب جھوٹ، فریب اور مکرکاجادو چل جاتا ہے؟
ماضی سے استنباط کی مثالیں
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۶۠ۙ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۷۠ۙ الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُہَا فِي الْبِلَادِ۸۠ۙ وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۹۠ۙ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ۱۰۠ۙ الَّذِيْنَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ۱۱۠ۙ فَاَكْثَرُوْا فِيْہَا الْفَسَادَ۱۲۠ۙ فَصَبَّ عَلَيْہِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ۱۳ۙۚ اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ۱۴ۭ (الفجر:۶ تا ۱۴)
’’تم نے دیکھا نہیں تمہارے رب نے کیا برتائو کیا اونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میںپیدا نہیں کی گئی تھی؟ اور ثمود کے ساتھ جنھوںنے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوںنے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں بہت فساد پھیلایاتھا۔ آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔‘‘
حال میں ہونے والے سیاسی حالات پر نگاہ رکھنے اور صحیح نقطہ نظر دریافت کرنے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو:
الۗمّۗ۱ۚ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۲ۙ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۳ۙ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۰ۥۭ لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۰ۭ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۴ۙ بِنَصْرِ اللہِ۰ۭ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۵ۙ وَعْدَ اللہِ۰ۭ لَا يُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۶ يَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚۖ وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ۷ (الروم:۱ تا ۷)
’’ا-ل-م- رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں۔ اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتاہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیاہے۔ اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں۔‘‘
تصویر کا ایک رُخ
سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد امت آزمائش کے دور سے گزررہی ہے۔ عالمی سطح پر امت کی زبوں حالی کی تصویر برما سے تیونس تک دیکھی جاسکتی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے محروم اجزائِ امت مسلم اقلیتوں کے لیے نمونہ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ پڑوسی ملک میں انارکی کا راج ہے جس میں کسی کی جان، عزت اور مال محفوظ نہیں۔ عراق اپنی تاریخ کو دہرارہا ہے جس کا تجزیہ ابوالکلام آزادؒ نے اپنی تفسیر میں یوں کیاہے:
’’البتہ تذکیر و عبرت کے لیے ایک تاریخی حقیقت یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام کا مورخ کبھی اس واقعہ کے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکتاکہ تاتاریوں کی ابتدائی شناخت اور آخری شناخت دونوں کا باعث خود مسلمان کی فرقہ بندی اور اس کی جاہلی عصبیت ہوئی۔ یعنی بربادی کا پہلا دروازہ حنفیوں اور شافعیوں کے باہمی جدال سے کھلا اور بربادی کی آخری تکمیل یعنی بغداد کا قتل عام سنیوں اور شیعوں کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔‘‘
(صفحہ ۷۵۵، ترجمان القرآن جلد چہارم)
شام، مصر اور الجزائر ظالم و جابر حکمرانوں کی قہر سامانی کی داستانیں ہیں۔ جمہوریت کا ڈرامہ رچا جاتا اور ڈکٹیٹرز ۹۵ فیصد ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ اس پر UNOاور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش نظرآتی ہیں۔
تصویر کا دوسرا رخ
تصویر کا دوسرا رخ تشویش ناک ہے جو پارٹی ملک میں برسراقتدار آئی، اس کا اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں منفی نقطہ نظر معلوم و مشہور ہے اور واضح ونمایاں ہے۔ اس ملک کی اکثریت کا تصورِ ہند(آئیڈیا آف انڈیا) ان کے تصورات سے مختلف ہے۔ لسانی، مذہبی اور تہذیبی تنوّع اس ملک کو رنگ برنگ پھولوں کا گلستان بناتا ہے۔ جب کہ حکمراں طبقہ ’’ایک جاتی، ایک سنسکرتی اور ایک دھرتی‘‘ پر یقین رکھتا ہے۔لسانی، مذہبی اور تہذیبی شناخت کو ہندی کے لزوم اور سرکاری دعوتوں میں سبزی خوری کی تلقین سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ مذہب پر عمل کی آزادی پر یکساں سول کوڈ کی تلوار لٹکادی گئی ہے۔ آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹنے کے لیے سوشیل میڈیا پر پہرے بٹھادیے گئے ہیں۔ رحم، محبت ، اخوت اور سچ کے مقابلے ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کو اپنا یا جائے تو اس مٹی کا نمک کیسے اپنی نمکینی فراموش کرکے مٹی سے مٹی ہوجائے؟ جمہوریت میں جائزہ اور احتساب کے ادارے بھی حکومت کے سُر میں بین بجانے کے عادی ہوجائیں توجمہوریت کی نگہبان آنکھیں سوجانے کا اندیشہ ہے۔
حزب اختلاف کی قوت کا ختم ہوجانا، این جی اوز کا تعاقب، میڈیا کی جانب داری، تعلیم کا بھگوا کرن اور آزادیِ اظہار رائے پر قدغن لگنا ، صورتحال کے تشویش ناک پہلو ہیں۔
راہیں نکالنے کی جانب
۱- حضرت یوسف ؑ کا اسوہ بتاتاہے کہ ملک پر بُرا وقت آیا تو خشک سالی کے مسئلے سے نبردآزما ہونے کے لیے آپؑ نے پیش کش کی۔
قال اجعلنی علی خزائن الارض…
’’یوسف نے کہا ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے میں حفاظت کرنیوالا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘
۲- اِصلاح حال کا ایک اسلوب یہ بھی ہےکہ لوگ اپنے مذہب اور الہامی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ اس طرزکا فائدہ یہ ہوگاکہ لوگ اخلاق و کردار اور معروفات کی طرف لوٹیں گے۔ اِس کا امکان ہے کہ توحید کی حقیقت اور آخری زمانے میں ایک نجات دہندہ اور رحمت للعالمین کے آنے کی پیشین گوئی اُن کی توجہ مبذول کرائے گی۔سماج سے بُرائیوں کے خاتمے کے لیے مذاہب کے پیروایک پلیٹ فارم پر نظرآئیں گے۔ اس سے اسلام پر گفتگوکی راہ بھی کھلے گی۔
۳- بنیادی اخلاقیات ، احترام آدمیت اور فیملی اقدار کے موضوعات پر لکھنے، بولنے کی فضا عام کی جائے۔ اسلام جن اخلاقی اقدار کا علمبردار ہے جیسے سچ، رحم، حق گوئی، انسانی ہمدردی، امانت و دیانت، خدا خوفی، ایثارِ قربانی وغیرہ عموماً اقوام عالم کے درمیان قدر مشترک ہیں۔
۴- مسجدوںسے عام ہندوستانی ناواقف ہے۔ اُسے کبھی اندر آنا اور ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز‘‘ کا منظر دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ کم از کم افطار میں شرکت کے ذریعے انہیں بلایا جائے اور خدائے ذوالجلال کے حضور میں عبادت کی اعلیٰ ترین قسم کا مشاہدہ کرایاجائے۔
۵- شادی بیاہ، میت و تدفین، مسجدو قبرستان، عیدین و جمعہ کے مناظر،کھانے کے آداب، لباس کے حدود اور آدابِ مجلس وغیرہ کے ضمن میں بھی اسلامی طرززندگی کا مظاہرہ کرنے کے زبردست مواقع موجود ہیں۔ ان مواقع پر شمولیت غلط فہمیوں کے ازالے اور اسلام کی صاف اور ستھری تصویر کی ترسیل کا سبب بن سکتی ہے۔
۶- اپنے بارے میں احساس برتری اور مخاطب کو کم تر سمجھنے یا طنزیہ القاب سے نوازنے کے بجائے تکریمِ انسانیت کاسبق بچوں کو دیاجائے۔
۷- مسلمانوں کا مقامِ انسانوں کی رہنمائی کاہے۔ علم کی سطح پر اپنے ہم عصروں پر فوقیت کا درجہ حاصل کئے بغیر یہ مقام نہیں ملتا۔ ملک کی پالیسی سازی، انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں رہنمائی کرنے کے لئے جو علمی لیاقت درکار ہے اُس کی فراہمی کے بغیر ملک کی تعمیر میں کوئی نتیجہ خیز رول ادا کرنا محال ہے۔ صحابہ کرام کا حال تو یہ تھا کہ:
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا
تعمیر ملّت
ملت کے تحفظ و بقا کی بنیاد اعتصام باللہ اور دین پر جمنے میں ہے۔ ایسے ہی سنگین حالات اور خوف کے ماحول میں حضرت موسیٰ کی نصیحت ہے کہ :
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِہِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْا۰ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ (الاعراف:۱۲۸)
’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد مانگو اورصبر کرو، زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں جسے چاہتاہے اس کا وارث بنادیتا ہے اور آخری کامیابی اس کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔‘‘
(الف) اس بنیادپر ملت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے فروغ ،بے روزگاری کے خاتمے اور صحت و صفائی کے اہتمام کے لیے رسول اللہ کے مدینے کے عملی اقدامات سے روشنی حاصل کی جائے۔ غربت، جہالت اور بے روزگاری کے ازالے کے لیے مقامی سطح پر علما و دانشوروں کی مدد سے ادارہ جاتی انداز میں موثر اقدامات ملت کی تقویت کا باعث ہوںگے۔
(ب) ایک طرف ملت شادی بیاہ، جلسے جلوس، تعمیرات و زیورات میں دولت پانی کی طرح بہاتی ہے تو دوسری طرف کم سن بچے اور کم عمر نوجوان چھوٹے چھوٹے کام پر لگ کر ماں باپ کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معصوم بچپن اور تخلیقی صلاحیت غربت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ملّت میں شعور کی بیداری اس حد تک ہو کہ ملت کی ترجیحات اور فرد کی ترجیحات ہم آہنگ ہوجائیں۔
(ج) ملت کی سول سوسائٹی کو زبوں حالی سے نکال کر اسے پھر سے زندہ اور قوی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مسجدیں، مسجدنبویؐ کی مثل بنیں جہاں بی بی عائشہ ’’استطوانہ عائشہ‘‘ کے نیچے درس دیا کرتی تھیں۔ غیرمسلمین ’’استطوانۃ الوفود‘‘ کے نیچے بیٹھ کر سیاسی امور پر نبیؐ سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ مسجد کے صحن میں بچے کشتی لڑتے، دوڑ لگاتے ، صحابہ گھوڑسواری اور تیراندازی کی مشق کرتے۔ آج مسجد کے اُس کردار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ صفہ پہلی اقامتی درس گاہ مسجد کے اندر ہی تھی جو آج صرف ناظرہ سکھانے کی حد تک محدود ہے۔
(د) خطبہ جمعہ ایک انمول موقع ہے جو عموماً قصّہ گوئی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے میں صرف ہوجاتاہے، اسے امت میں بلند حوصلہ پیدا کرنے، حالات کے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے اور امت کی ذہنی وعملی استعداد بڑھانے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
(ہ) زکوٰۃ کا اجتماعی نظام معطل پڑا ہے۔ ضرورت مند، دولت مندوں کے گھر گدائی کرتے ہیں۔ بیت المال میں زکوٰۃ کی ایک مقررہ رقم جمع ہو اور ملت کے نادار و ضرورت مندوں کی خدمت عزتِ نفس کے تحفظ کے ساتھ ہوتو آج خوش حالی ہمارا مقدر ہوسکتی ہے۔ خواتین، نوجوان اور بچے ٹی وی، نیٹ اور کمپیوٹر گیمز میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی قوتیں، فنکاری، زبان دانی، صلاحیتوں کی پروان چڑھانے میں لگائیں تو یاس و قنوطیت ہمارے ہاں ڈیرے نہ ڈالے۔ ملت کی سول سوسائٹی ملت کے احیاء کے لیے کلیدی رول ادا کرسکتی ہے۔
اتحاد ملت
جن اقوام کے پاس اپنی قوم کو جوڑے رکھنے کے لیے کوئی ایک نقطہ اتفاق بھی نہیں پایا جاتا وہ آج ایک ’’بڑے کاز‘‘ (مقصد)کے لیے متحد ہورہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ جڑنے کے نہیں بلکہ کٹنے کے نکات تلاش کرتے ہیں۔ جوگروہ صلاحیت سے معمور اور انتظامی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں مشیت کی جانب سے انسانی سماج کی باگ ڈور تھمادی جاتی ہے۔ تفرقہ بازی نہ صرف لعنت ہے بلکہ ایک پہلو سے عذاب الٰہی بھی ہے:
قُلْ ہُوَالْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ۰ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّہُمْ يَفْقَہُوْنَ (الانعام:۶۵)
’’کہہ دو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے یا تمھارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے یا تمھیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو دوسرے گروہ کی طاقت کامزہ چکھوادے۔ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کررہے ہیں ، شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔‘‘
اس ضمن میں اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ جو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒاور امام ابن تیمیہؒ کا موقف رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے اعلامیہ میں بھی اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ علمی اختلافی مسائل عوام کے درمیان بحث میں لانے سے گریز کیاجائے۔ مسلک اور جماعتوںکا فرق ایک امر واقعہ ہے جس کو تسلیم کرتے ہوئے بعض متفقہ امور میں ’’قابل عمل اتحاد‘‘ پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ اہل بصیرت کی آنکھیں کھولنے کے لیے پڑوسی ممالک کے حالات کافی ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014