شائستہ رفعت
عورت کا گھراور خاندن سے متعلق ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ معاشی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرنا اسلام کی نظر میں نامطلوب اور غیر مستحسن نہیں رہا ہے۔ اسلام نے عورت پر خاندان کے حوالے سے جو اہم اور نازک ذمے داریاں ڈالی ہیں، ان کی یکسوئی اور احسن طریقے سے ادائیگی کو آسان بنانے کے لیے خود عورت کی کفالت کے لیے مرد کو ذمہ دا ر بنایا ہے۔ لیکن اگرعورت خاندان کے حوالے سے اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ معاشی سرگرمیاں انجام دینا چاہے تو اسلامی نظام حیات کےنقشے میں اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ مسلم خاتون اپنی ترجیحات اسلام کی روشنی میں خود طے کرے۔ گھر اور خاندان اس کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں میں توازن رکھے اور عدل وحکمت کا طریقہ اپنائے تو نظم معاشرت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگابلکہ ایک خوش حال اورباوقار اسلامی معاشرے کے قیام کے راستے ہم وار ہوں گے۔
دور جدید میں جو معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں ان میں عورت کی سماجی زندگی میں فعال کردارادا کرنے اور ان کی معاشی جدوجہد کے حوالے سے لوگوں میں کچھ تحفظات ہیں۔ خود عورت پر بھی گھر اور معاش کا دہرا بوجھ ہے۔ یہ صورت حال صحیح تجزیے کی متقاضی ہے۔ اسلام نے اپنے اصولوں کے مطابق صحیح خدوخال پراسلامی معاشرے کی تشکیل کرکے دنیا کے سامنے بہترین عملی نمونہ پیش کیاہے۔ یہ نمونہ مکمل اور حسین وخوب صورت ہے۔ دنیا کا بہترین اور لاثانی انسانی سرمایہ اسی مثالی گھر اور معاشرے میں پروان چڑھاہے۔ اس معاشرے میں عورت ہر محاذ پر یہاں تک کہ ناگہانی حالات میں بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اس کی شخصیت کے ارتقااور نشوونما کے سارے سامان اس معاشرے نے اس کو فراہم کیے۔ اس معاشرے میں عورت کسی بوجھ تلے دبی ہوئی بھی نہ تھی۔ دراصل موجودہ حالات میں عورت کاصرف معاش میں حصہ لینا یا سماجی سرگرمیوں میں اس کی عملی کردار اصل مسئلہ نہیں ہےبلکہ عورت کی فعالیت کےپس پشت دور جدید میں آنے والی تبدیلیاں،افکار ونظریات،مغربی تہذیب کے زیر اثر پیدا ہونے والے رجحانات اصل مسئلہ ہیں۔ ان رجحانات نے مسلم معاشرے کے بوسیدہ،مضمحل اور روایتی ڈھانچے پرجو طویل دور زوال کے نتیجے میں اپنی آب وتاب کھو چکا تھا،کاری ضرب لگائی۔ اس ٹکراؤ نے تہذیبی اور معاشرتی مسائل پیدا کردیے ہیں۔
عہد حاضر تیز رفتار تبدیلیوں کا عہد مانا جاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کی پشت پر ایک جانب افکار و نظریات رہے ہیں تودوسری جانب سائنس وٹکنالوجی کےمیدان میں ہونے والی ترقی نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ فکری ونظریاتی تبدیلیوں نے انسان کوعلم و تحقیق پر آمادہ کیا۔ آزادی مساوات،جمہوریت اورانسانی حقوق کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی نے دنیا کے فاصلےسمیٹ دیے۔ فکری ونظریاتی رجحانات کی ترویج و اشاعت کے لیے ٹکنالوجی نےتیز رفتار ذرائع فراہم کردیے۔ اکیسویں صدی کےآتے آتےٹیلی کمیونکیشن کےمیدان میں ہونے والی ایجادات نےانسانوں کو انٹرنیٹ کی شکل میں سہل اور سستا رابطہ فراہم کردیا۔ اس رابطہ نے تعلیم،کاروبار،صحت،رہن سہن غرض زندگی کے ہر شعبہ پر اس نے اثرات مرتب کیے۔
ان تیز رفتار تبدیلیوں کےاثرات انسانوں پر دو طرح سے مرتب ہوئے۔ فکری ونظریاتی رجحانات جیسے آزادی، مساوات، جمہوریت، انسانی حقوق کے لیے بلند ہونے والی آوازوں نے لوگوں کےسوچنے اور سمجھنے کےانداز کو متاثر کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ رجحانات مغرب میں پروان چڑھےاور مغربی استعمار کی سیاسی بالادستی ان نظریات کی اشاعت کا ذریعہ بنی۔ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ سیاسی طورپر بالادست طاقتوں کے اثرات،افکار ونظریات محکوم ومرعوب قومیں قبول کرلیتی ہیں۔ مسلمان جب تک سیاسی طور پرغالب رہے تب تک دنیا نے ان کے اثرات قبول کیےاور جب طاقت کا توازن مسلم دنیا سےمغرب کی طرف منتقل ہوا تو ہوا کا رخ بدل گیا۔ اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ مغرب سے اٹھنے والے افکارونظریات کی بنیادالحادوبےدینی پر تھی جومذہب کے نام پرہونے والےجبر واکراہ کےخلاف ردعمل کی تحریک کے بطن سےپیدا ہوئے۔ مذہب کے خلاف ردعمل کایہ رجحان اس قدربڑھاکہ توحید، رسالت،وحی و آخرت کو سرے سے رد کرتے ہوئےڈارون نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ سے گرادیا۔ فرائڈ نےانسان کو خواہشات کاغلام قراردینے اورمارکس نےمعاشی جانورکے درجہ تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ان افکار ورجحانات کا ٹکراؤ جب مسلم معاشرہ سے ہواتو رد عمل کی مختلف سطحیں نمودار ہوئیں۔ اور نیے چیلنج ابھر کر سامنے آئے۔ مسلم معاشرہ روایات اور سماجی طور طریقوں میں جکڑاہوا تھا، اسلامی اقدار کی جگہ معاشرتی روایات نےلے لی تھیں، معاملات زندگی کےبارے میں شریعت کی حکمتیں بالائے طاق رکھ کرشدت پسندی کا رخ اختیار کرلیا گیاتھا۔ ان سب عناصر نے مل کر مسلم معاشرے کوایک ایسے رنگ وآہنگ میں ڈھال دیاجس سے نہ اسلام کی صحیح نمائندگی ہورہی تھی اور نہ ہی وہ علم وفن کے میدان میں قابل ذکر کارکردگی کا اہل رہا تھا۔ ہمیں اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مغرب سے آنے والے ان رجحانات کا مقابلہ اسلام سے نہیں بلکہ ایسے معاشرہ سے ہورہاتھا جو اپنا اصل اسلامی رنگ کھوچکا تھا۔ اس صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئےمولانامودودی لکھتے ہیں:
’’یقیناً مغربی تہذیب کسی حیثیت سے بھی اسلام سے مقابلہ کی تہذیب نہیں ہے۔ اگر تصادم اسلام سے ہوتو دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتی۔۔۔ دراصل مقابلہ اسلام اور مغربی تہذیب سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی افسردہ،جامد اور پس ماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہے جس میں زندگی ہے،حرکت ہے،روشنی ہے،گرمی عمل ہے۔ ایسے نا مساوی مقابلہ کا جو نتیجہ ہو سکتا ہے وہی ظاہر ہو رہا ہے۔‘‘
( تنقیحات صفحہ 29)
اس مسلم معاشرہ میں مسلمان عورت کی حالت بہت قابل رحم تھی۔ اسلام کے دیے ہوئے حقوق اسے حاصل نہ تھے۔ فتنہ کا اندیشہ اورحالات کی دہائی دے کراسلام کے دیے ہوئےحقوق سے اس کو محروم کردیا گیا تھا۔ زندگی کاوہ نقشہ جو اسلام نے ترتیب دیا تھااور جس میں عورت کامتحرک کردار تھا اس کردار سے عورت کو معزول کرکے گھر کی چاردیواری میں مقید کردیاگیا۔ بے وقعتی اور بے بسی کی جس زندگی سے اسلام نے اس کوآزاد کروایا تھا اور اس کی شخصیت کی نشوونما کے مواقع بہم پہنچا کراس میں اتنی علمی وفکری بلندی پیدا کردی تھی کہ خلیفہ وقت اس کےدینی سمجھ کے معترف تھےاب وہ عورت روایتی مسلم سماج میں عضو معطل بن کر رہ گئی تھی۔ سماجی زندگی میں اس کا رول نامطلوب قرار دے دیا گیا تھا۔
ان حالات میں عورتوں کےحقوق،آزادی اور مساوات کے نعروں سےلوگوں کے کان آشنا ہوئے تو کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے۔ ایک ردعمل ان لوگوں کا تھا جومغرب کے افکار سے مرعوب ومتاثر تھے ان کے خیال میں عورت کی پس ماندگی اور پچھڑے پن کا ذمہ دار اسلام تھا۔ ان کی ہر بات کی تان اسلام پر ہی ٹوٹتی۔ عورت کے ہر درد کا مداواان کو اسلام سے بغاوت میں ہی نظر آتا۔ اس طبقہ نے اسلام کےعائلی امور،اسلام کے خاندانی نظام،اسلامی شریعت پردہ،تعدد ازواج،مرد کی قوامیت پر بڑھ چڑھ کر حملے کیے۔
دوسرا رد عمل جامد اور روایت پرست مسلم سماج کا تھا۔ وہ دین کے نام پر سماجی روایات میں عورت کومحدود اور مقید رکھنے پر مصر تھا۔ اس طبقہ نے سماج میں ہونے والی اتھل پتھل پر توجہ دیے بغیر،ان افکار ونظریات کا صحیح تجزیہ کیے بغیران کے خلافِ اسلام ہونےکااعلان کردیا۔ اس رد عمل کے پس پشت اول الذکر گروہ کا اسلام کے خلاف معاندانہ ماحول کھڑا کرنے کا رویہ بھی کارفرما رہا ہے۔
تیسرا ردعمل روایت پسند سماج کی بندشوں میں جکڑی ہوئی ان عورتوں کا تھا جنھیں آزادی کی یہ نعمت غیرمترقبہ محسوس ہوئی۔ انھیں مساوات اورخواتین کے حقوق کے نعرے معقول لگےاورانھوں نے اس کےحصول کی جدوجہد شروع کی۔ اب عورتیں نہ صرف تعلیم حاصل کرنے لگیں بلکہ معاشی جدوجہد میں حصہ لینے لگیں۔ مغربی افکار و نظریات پر معقولیت پسند افرادنے مثبت ردعمل ظاہر کیااور دین کے نام پرمسلم معاشرہ میں جوغیر اسلامی طور طریقے در آئےتھےان سے اسلام کو مبرا قرار دیا۔ عورتوں کو اسلام کے عطا کیے حقوق کی بحالی کے لیےآوازیں اٹھنے لگیں۔ عورت کےسماجی کردار کو تسلیم کیا جانے لگا۔ گو کہ اس کی رفتار بہت سست رہی اور ابھی سب کچھ درست ہونے میں کافی کچھ ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر واضح ہوچکا ہےکہ افکار ونظریات کے تلاطم میں مفید ومثبت پہلو مسلم معاشرہ میں خواتین کے تئیں بیداری کا باعث بنے۔ اس میں عورتوں کی تعلیم اورمعاشی اور سماجی حقوق کی بحالی محسوس کی گئی۔ عورتیں تعلیم حاصل کرنے لگیں اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔ لیکن یہ مواقع ان کوآسانی سے ہاتھ نہیں لگے تھے۔ محرومی کی ایک طویل داستان ان کے سامنے تھی۔ اس لیے منفی رجحانات کے پنپنے کے امکانات بھی پورے پورے موجود تھے۔ اسلام سےان کی واقفیت بھی برائے نام تھی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طبقہ مغربی تہذیب کواپنا محسن اور خیرخواہ سمجھنےلگا۔ ان کی نظر میں خواتین کی صورت حال میں جو تبدیلی آرہی ہےاس کا کریڈٹ وہ اسلام کو نہیں بلکہ مغربی تہذیب کودیتی ہیں۔ یہ طبقہ مستقل عورت کو یہ باور کروانے میں لگا ہوا ہے کہ ان کی پس ماندگی اورحقوق سےمحرومی کا ذمہ دار اسلام ہے۔ چوں کہ مغرب کےحامیوں کی عورت کے حقوق کے لیے کی جانے والی کوششیں عملًا اس میں اثر دار رہیں، ا س وجہ سےاسلامی شعور سے بے بہرہ خواتین مغربی تہذیب کے علم برداروں کو اپنا بہی خواہ اور محسن سمجھنے لگیں۔ یہ رجحان اسلامی معاشرہ کےقیام کے راستہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کی بروقت اصلاح ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک نازک ذمہ داری ہےجواسلام کے ماننے والوں پر عاید ہوتی ہے۔ خواتین کے حقوق جو اسلام نے انھیں عطا کیے ہیں ان کی بحالی کے لیےمحراب ومنبرسےبڑے پیمانے پر ملت کو بیدار کرنے کی کوششیں ہونی چاہئیں۔ ورنہ مغربی تہذیب کے بارے میں ان کا تصوربرقرار رہے گا۔ اتنا ہی نہیں اس تہذیب کے تئیں ان کی وابستگی اور زیادہ بڑھے گی۔ اس تہذیب کےجو منفی مظاہر ہیں، وہ انھیں اختیارکرتی چلی جائیں گی۔ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیےجدوجہد کرتے ہوئے ہمیں اس اہم نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
اس تلخ حقیقت کوہم نظرانداز نہیں کرسکتے کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کی قابل لحاظ تعداد آج بھی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کی اجازت روایت پرست مسلم معاشرہ آج بھی نہیں دیتا۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والی برسر روزگار خواتین میں سب اتنی خوش قسمت نہیں ہیں کہ تعلیم سے روزگار تک کے سفر میں انھیں گھراور خاندان سے خوش دلی کے ساتھ تعاون ملا ہو۔ کئی خواتین اس معاشرے میں ہمیں مل جائیں گی جن پر اعلی تعلیم کے حصول کی پاداش میں گھر کے دروازے بند کیے گئے۔ ان لڑکیوں نے این جی اوز کے تعاون سے تعلیم حاصل کی۔ ایسی خواتین مغربی تہذیب اور اس کی بخشی ہوئی آزادی کی وکالت کرتی ملیں گی۔
دوسرا رجحان عورت کی معاشی جدوجہد کے بارے میں ہے۔ اسلام نے عورت کو کچھ حکمتوں کے پیش نظر معاشی جدوجہد سے بری الذمہ رکھا۔ تاہم معاشی جدوجہد کو اس کے لیےممنوع قرار نہیں دیا۔ مسلم معاشرے نے اس جوہری فرق کو نظر انداز کردیا۔ عورت کی معاشی سرگرمیوں کو مستحسن نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو گھر کی چار دیواری میں جو کچھ نصیب ہوجائے اس پر قانع رہنے کو اس کی شرافت کا معیار ٹھہرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں عورت پوری طرح معاشی سرگرمیوں سے کٹ کر رہ گئی اور اگر کبھی خاندان کے ناگہانی حالات کا شکار ہونے کی صورت میں عورت نے معاشی ذمہ داریاں ادا کیں، تب بھی اس کو ناموافق حالات کاسامنا کرنا پڑا۔ آج بھی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی خواتین کے سلسلے میں دین دار طبقہ ایک طرح کے تحفظات کا شکار ہے۔ اس کی وجہ سےعورت ایک طرح کی گومگو میں مبتلاہے۔ جن منصبی ذمہ داریوں کی وجہ سے اسلام نے معاشی سرگرمیوں سے رخصت دی ہےان کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اگر وہ معاشی جدوجہد میں اپنا رول ادا کرنا چاہتی ہیں توبا عزت طریقے سے انھیں اس کا موقع ملنا چاہیے۔ مدنی معاشرے کا وہ ماڈل جو رسولﷺ کی رہ نمائی میں تشکیل پایا تھا اس کی بازیافت ہونی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی معاشیات کے معروف مفکر نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں:
’’ایک عورت کو عورت کی حیثیت سےتمام ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ سماج کے پیداواری عمل میں حصہ لینے کاموقع مل سکتا ہےاور سماج کے سیاسی امور میں دل چسپی لینے کا موقع بھی مل سکتا ہے اور جنھیں اس کا شعورتھا انھوں نے یہ کر دکھایا۔ ایک بڑاسبب یہ ہوگیا کہ جب دنیا مسابقت کی دنیا قرار پائی، خاص طورپرترقی پذیرممالک میں، تو یہ بات ممکن نہیں رہ گئی کہ آپ آدھی آبادی کوپیداواردولت کے عمل سے مستقل طور پر دور رکھ کرکوئی مسابقت کرسکیں۔ چناں چہ یہ ضروری ہوا کہ وہ عورتیں جو پیداوار دولت میں حصہ لے سکتی ہیں انھیں اس کا موقع دیا جائے۔‘‘ (اکیسویں صدی میں اسلام،مسلمان اور تحریک اسلامی صفحہ 1)
ان حالات میں ایک اور رجحان خواتین میں ابھرنے لگا۔ یہ رجحان عورت کی خود مختاری کا رجحان ہے۔ اسلام نے عورت کی خود مختاری کاتحفظ کیا ہے۔ اپنے حقوق کے استعمال میں اس کو آزادی دی ہے۔ اپنے معاملات میں فیصلہ کرنے کا اس کا حق محفوظ رکھا ہے۔ لیکن دور جدید اور خصوصًا آ زادی نسواں کی تحریکات کے زیراثر عورت کے امپاورمنٹ کا جو رجحان پیدا ہوا ہےوہ غیر متوازن ہے۔ معاشرتی زندگی میں اس کے یہاں مرد کی قوامیت کو چیلنج کرنے کا رجحان ہے۔ معاشی طور پر خود کفیل خواتین کا ایک طبقہ مرد کی قوامیت پر معترض ہے۔ شریعت کے مزاج سے ناواقفیت اور سطحی علم کی بنا پر قرآن کی آیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ قوامیت مال کے خرچ سے مشروط ہے۔ اس طرح کے غیر صحتمندانہ امپاورمنٹ کاتصور خاندانی نظام اور اسلامی معاشرت کے لیےنیک شگون نہیں ہے۔
بڑھتا ہوا مادہ پرستانہ رجحان دور جدید کی ایک اور سوغات ہے۔ عورت کی معاشی سرگرمیوں میں شراکت کےمواقع فراہم کرنےکا محرک بننے والے جدید تہذیبی ماحول کے منفی اثرات ہمہ گیر سطح پرمرتب ہوئے۔ اس مادہ پرست تہذیب نے اخلاقی، ومعاشرتی اقدار پرکاری ضرب لگائی۔ حیا،عفت اور عصمت کا تصورمجروح ہوگیا۔ اس کے برے اثرات آج جنسی آوارگی، خاندان، دین ومذہب سے بغاوت، سماجی اقدار سے لا تعلقی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
دور جدید کاایک ابھرتا ہوا رجحان صارفیت یا کنزیومرزم ہے۔ بازار کی طاقتوں نے تشہیری ذرائع اختیار کرکے لوگوں میں اپنی قوت خرید سے زیادہ خریداری کی اشتہا پیداکردی ہے۔ سرمایہ داروں نے عورت سے متعلق اشیا کی پیداوار پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ عورت کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کےنتیجہ میں معاشی استحکام آ نے کے بجائےاس کی محنت کی کمائی سرمایہ دارانہ نؓظام کی عیاری سے تخلیق کردہ لا محدود خواہشات کی تکمیل میں صرف ہونے لگی۔ اشتہارات کے ذریعے میک اپ کلچر کو فروغ دیاگیا۔ آرائشی اشیا کے مارکیٹ کے لیےعورت کے بننے سنورنے کی آتش شوق کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے خوب بھڑکایا گیا۔
لبرل ازم یا روشن خیالی کے نام پر معاشی طور پر مستحکم خواتین کی سوچ بدلی ہے۔ یہ صرف لباس،رہن سہن،انداز و اطوار پر ہی اثرانداز نہیں ہوئی بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر معاشرتی اقدار،شادی،خاندان اور امومت جیسے انسانی سماج کے بنیادی ادارے اس کی زد میں آرہے ہیں۔ اس رجحا ن کے ابھرنے کے پس پشت کئی طرح کے عوامل ہیں۔ نوجوان لڑکیاں جنھوں نےاپنے خاندان میں اپنے قریبی رشتے داروں میں مظلوم خواتین، گھریلو تشدد کے مناظر، ازدواجی رشتوں میں تلخی اور جہیز کے نام پر ہراسانی اورعورت کے نام پرایک مظلوم ہستی اور اس پر پورے خاندان کی خدمت کا بوجھ دیکھا ہے، ان اداروں کے سلسلے میں ان کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ان لڑکیوں میں شادی ا ور خاندانی زندگی کے بارے میں منفی خیالات وجذبات پیدا ہورہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہم معاشی طور پر خود کفیل ہیں۔ ہمیں شادی کرکے اس روایتی معاشرہ کے ظلم و ستم کا حصہ نہیں بننا ہے۔
لبرل ازم کا حامی ایک اور طبقہ خواتین جو اپنی روشن خیالی میں اورآگے نظر آتا ہے،وہ بے لگام آزادی کا حا می ہے۔ خاندانی زندگی اور شادی کو وہ مرد کی غلامی سے تعبیرکرتا ہے۔ یہ طبقہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ لیو ان ریلیشن شپ اور اس طرح کے بے ہودہ رجحانات میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتا ہے۔
اسلام اور اسلامی نظام حیات کے صحیح تصور سے محروم معاشرے میں عورت کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع میسر آئے تو مرد وعورت میں غیر صحت مند مسابقت کا جذبہ پیدا ہوا۔ مرد وعورت رفیق سے فریق بن گئے۔ مساوات مرد وزن کے نظریے نےعورت کو مرد کے بالمقابل کھڑے ہونے اور اس سے محاذ آرائی کرنے کا جذبہ پیدا کردیا۔ اس رجحان نے خاندانی عدم استحکام کو جنم دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں ہوابلکہ مرد کی برابری کے جذبے نے نسوانیت کے جوہر کو داؤ پر لگادیا۔ یہ خسارہ صرف عورت کا نہیں بلکہ معاشرتی اقدار کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رجحانات پیدا ہونے کے پس پشت صرف عورت کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے۔ یقینًا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس کے پس پشت جو اسباب ہیں وہ مسلم معاشرے کے ایک طویل عرصہ کے جموداوراسلام کی حیات بخش اقدار سے محرومی میں مضمر ہیں۔ ا سلام نے خواتین کے حقوق کا جو تصور دیا ہےوہ عدل اور توازن پر مبنی ہے۔ روایت پرست مسلم معاشرے کی تنگ نظری نے عورت کو جدیدتہذیب کی کھائی میں ڈھکیل دیا ہے۔ قدیم اور جدید معاشروں کے درمیان عورت افراط وتفریط کا شکار ہے۔
سید قطب لکھتے ہیں:
’’یہ بات یقینی ہے کہ آج معاشرہ جن مسائل سے دوچارہے وہ اسلام کے پیدا کردہ نہیں ہیں،بلکہ معاشرے میں نافذ ان نظاموں ہی کی بدولت ہے اورجو اسلام کے کارگاہ حیات سے دور ہونے کے سبب پیدا ہوئے۔‘‘(اسلام اور مغرب کی کشمکش صفحہ93)
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ محمد غزالی لکھتے ہیں:
’’پچھلے ادوار میں مسلم عورت اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ چناں چہ جب مغربی تہذیب فاتحانہ داخل ہوئی تو عورت کی ساری فکر یہ رہی کہ باریک کپڑوں اورخوش نما منظر اختیار کرنے میں مغرب کی تقلید کرے۔ فضا کے اکتشاف۔ ایٹم کے انکشاف،نفوس وآفاق کے مطالعہ کی کوئی پروا نہیں رہی،کیوں کہ اس سے اسے کوئی سروکار ہی نہ تھا۔ ‘‘( مسلم عورت قدیم وجدید کے تناظر میں صفحہ99)
ایک ایسا معاشرہ جو عورت کےمقام اس کے دائرہ کار،مرتبےاور میدان عمل اور اس کی سرگرمیوں کے تعلق سے واضح اور روشن شاہراہ رکھتا ہے، لیکن ان نقوش پر چلتا نہیں ہے، جہاں عورت کے حقوق کی ایک لمبی فہرست موجود ہے، لیکن ان میں سے کچھ ہی حقوق اور وہ بھی حریف تہذیب کے دعوے داروں کی چیخ پکار کی وجہ سے بادل نخواستہ دینے پر آمادہ ہوتا ہے، اس معاشرے میں عورت اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے تو اس پر دہرابوجھ آپڑے گا۔ یہی عمومی صورت حال ہے۔ معاشرہ قدیم ہو یا جدیدہر ایک میں عورت دہرے بوجھ تلے دبی ہے۔ معاشی جدوجہداختیار کرکے اگر وہ روایتی معاشرے کی بندشوں سے آزاد ہونا چاہتی ہےتو اسے معاشرے سے بغاوت کرنی پڑتی ہے۔ غرض معاشرے کو صحیح اسلامی بنیادوں پر قائم کیے بغیر عورت کو مکمل حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس کے حصے بخرے کرکے، کچھ پر عمل پیرا ہونے اور کچھ کو نظر انداز کرنے کے نتائج سے قرآن مجید نے متنبہ کیا ہے۔ اسی طرح عورت کے حقوق کی ایک پوری خدائی دستاویزموجود ہے،ایسے میں جزوی حقوق کی بحالی مضحکہ خیز نتائج سامنے لائے گی۔ اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے معاشرے کو ہمہ جہت اصلاح کی ضرورت ہے۔ جدید رجحانات سے متاثر خواتین کے خلاف محاذآرائی یا خواتین پر بے جا بندشیں نہ کل اس کا صحیح علاج تھا اور نہ آج ہے۔ عورت کے مکمل حقوق کی بحالی کی ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو مسلم معاشرے کی طرف سے برپا ہو۔ مسلم معاشرہ عورت کے حقوق کی بحالی کی ضمانت دے۔ خواتین دوست ماحول ہو۔ عورت کو اس کے نسائی کردار کی بدولت معاشرے میں عزت ووقارمل سکے۔ یہ خاصا محنت طلب اور جگر سوزی کا کام ہے۔ ائمہ مساجد،علما اور اسلامی تحریکات کو اپنی ترجیحات میں اس کام کو شامل کرنا ہوگا۔
’اسلامی تمدن کا آئینی بحران‘ کے مصنف نے قدیم وجدید کی کشمکش کا بڑا تلخ تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جديد استعمار نے مسلم انسان کو اس کي لمبي نيند سے بيدار کرديا،اس نے اس کے وہ وسائل بھي چھين ليے جن کے بوتے پر وہ اطمينان سے جھوٹا ہيرو بنا ہوا تھا اورخاموشي، سوچ اور خوابوں کي اس چھاؤني کو بھي تباہ کرکے رکھ ديا جس ميں وہ جي رہا تھا۔‘‘
ان نظریات ورجحانات کے اثرات سے مسلم معاشرے کو بچانے اور اسلامی افکار ونظریات کو بڑے پیمانےپرعوامی مباحث میں لانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی جدید رجحانات کے منفی اثرات پر بھی محکم دلائل کے ساتھ تنقید ہونی چاہیے۔ مسلم معاشرے نے اسلام کے بجائےرائج تصورات کا سکہ جاری کرکےاپنے لیے کافی مسائل پیدا کرلیے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عملی میدان میں مسلمان خود رجحانات کی تشکیل کرنے والے( trend setter) بنیں۔ اچھی مثالوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ عمومی منظر نامے کا حصہ بنائیں۔ اس حوالے سے مسلم خواتین اچھا اور موثر ذریعہ بن سکتی ہیں۔ وہ اس معاشرہ میں رجحان ساز (trendsetter) بن سکتی ہیں۔ سماجی اورمعاشی سرگرمیوں میں کردار ادا کرنے والی خواتین اسلامی ہدایات پر عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا کے سامنےاسلام کی مبنی بر عدل تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرسکتی ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2024