نماز کی روح

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِی (سورۃطٰہٰ: ۱۴)

‘‘اورمیری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔’’

یادِ الٰہی نمازکی اصل روح ہے

ہر چیز کی اپنی ایک روح ہوتی ہے جس سے وہ زندہ اورتابندہ رہتی ہے۔ جس سے اس کی روشنی بکھرتی اور پھیلتی ہے۔جس سے اس کی برکتیں عام ہوتی ہیں۔نماز کی بھی اپنی ایک روح ہے اور وہ ہے اللہ کی یاد۔اللہ کی یاد ہی نماز کا اصل جوہر ہے۔ پوری نماز اللہ کی یاد ہے۔نماز قائم کرنے کااسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ دل اللہ کی یاد سے لبریز ہوجائے۔نمازذکرِ کثیر  ہے۔ کوئی عبادت ایسی نہیں ہے جس میں نماز جیساذکر  ہو۔نمازکوقرآن میںذکراللہ سےتعبیرکیاگیاہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یٰـٓاَیهَا الَّذِینَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِی لِلصَّلوٰةِ مِنْ یوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَ ذَرُوا الْبَیعَ  (سورۃالجمعۃ: ۹)

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔

نماز کا مقصد واضح کرتے ہوئےفرمایا:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِی (سورۃطٰہٰ: ۱۴)

اورمیری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

آیت کا مطلب اتنا واضح ہے کہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نماز کا سب سے عظیم فلسفہ اور اس کا اصل مقصدیادِ الٰہی  ہے۔ اسی  یادِ الٰہی  کے لیے نماز قائم کی جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہےکہ ہم اپنی نماز کو خدا کی یاد  والی نمازبنائیں اوراس کو یادِ الٰہی  سے آباد کریں۔

اس آیت کی تفسیر میں ابن عربی لکھتے ہیں:

أی: لاَتَذْکر فِیہا غَیرِی،فَإنَّہ قَالَ: فَاعْبُدْنِی،أی لِی تَذَلَّلْ،وَأقِم ِالصَّلاَۃَ لِمُجَرَّدِ ذِکْرِی،تَحرَّمْ عَنِ الدُّنیا، وَأخْلِصْ لِلأُخْریٰ،وَاعْمُرْ لِسَانَکَ وَقَلْبَکَ بِذِکْرِالْمَوْلیٰ۔

نماز میں میرے سوا کسی کو نہ یاد کر،کیوں کہ اس نے فرمایا ہے: تو میری ہی عبادت کر،یعنی میرے سامنے عاجزی سے جھک جااور نماز صرف میری یاد کے لیے قائم کر،دنیا سے دامن جھاڑ لے اور آخرت کے لیے مخلص ہوجا اور اپنی زبان اور دل کو ذکرِ مولیٰ سے آباد کر۔

(أحکام القرآن،ج۳ص: ۲۵۶)

محمد راتب نابلسی فرماتے ہیں:

نماز میں سب سے بڑی چیز اللہ کی یاد ہے۔لہٰذا نماز کا مقصد یہ ہے کہ تو اللہ کویاد کرے،بل کہ حقیقت یہ ہے کہ نمازذکر  ہے۔ بے شک جب تم نمازپڑھتے ہو تو اللہ کو یاد کرتے ہو۔ (تفسیر النابلسی،ج۷ص: ۶۲)

ابو الحسن واحدی نے اس آیت کی تفسیر میں حسن بصریؒ کی طرف منسوب یہ قول لکھا ہے(البتہ دیگر مفسرین نے ان کی جانب اسےمنسوب نہیں کیا ہے) :

أَقِم ِ الصَّلَاۃَ لِأنْ تَذْکُرَنِی،لِأنَّ الصَّلاۃَ لَا تَکُونُ إلَّا بِذِکْرِ اللہِ

نماز قائم کر تاکہ تو مجھے یاد کر، کیوں کہ اللہ کی یاد کے بغیر نماز نہیں۔

مجاہد فرماتے ہیں: إذَا صَلّٰی عَبْدٌ ذَکَرَ رَبَّہُ

جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب کو یاد کرتا ہے۔

ابن قتیبہ نےاسی کو ترجیح دی ہے۔چناں چہ فرماتے ہیں:

لِتَذْکُرَنِی فِیہا

تاکہ اس میں تومجھے یاد کرے۔  (التفسیر البسیط للواحدی،ج۱۴ص: ۳۴۱)

علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

لِتَذْکُرَنِی فَإِنَّ ذِکْرِی أَنْ أُعْبَدَ وَیصَلّٰی لِی

تاکہ مجھے یاد کر،کیوں کہ میری یاد یہی ہے کہ میری عبادت کی جائے اور میرے لیے نماز پڑھی جائے۔ (الکشاف،ج۳ص: ۹۲۱)

نمازیادِ الٰہی کی سب سےبہترین شکل ہے

یادِ خداکی سب سےجامع،سب سےبہترین،مکمل ترین، نہایت دل پذیراورمؤثر ترین شکل اگرکوئی ہوسکتی ہےتووہ نماز ہے،کیوں کہ نمازمیں ہمارا پورا وجوداللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف ہوجاتاہے۔ اپنےپورے وجودکےساتھ ہم اپنےپروردگارکویاد کرتےبلکہ اِس یاد کی عملی تصویربن جاتےہیں۔نمازمیں ہم ایک طرف زبان سےاللہ کا ذِکر کرتےہیں۔جس میں تسبیح، تقدیس، ثنا، تکبیر،قرأت،حمد، توبہ، اِستغفار، دُعا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔  دوسری طرف دل سے اللہ کا ذکر کرتےہیں۔ جس میں اخلاص واثر،خشوع وخضوع، خوف وخشیت،اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت وکبریائی بیان کرنا اور اس کی قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے۔

پھرایک قدم اورآگےبڑھ کرجسم کےمختلف اَعضا سے اللہ کا ذکر کرتےہیں۔جیسے قیام وقعوداوررکوع وسجودکرنا، آنکھ کا خوفِ خدا  میں ر ونا، کان کا اللہ رب العالمین کا نام سننا اس میں پایاجاتاہے۔

خرم مرادؒ لکھتےہیں:

نمازکےاندراصل بات یہ ہےکہ ہماراذہن،دل اوردماغ سب اللہ کی یادمیں مصروف ہوجاتےہیں۔پھرزبان جواللہ تعالیٰ نےدی ہےوہ بھی اسی کی بندگی،شکراورمحبت کابرابراظہارکرتی رہتی ہے،اللہ کی تسبیح کرتی ہےاوراس کی بڑائی بیان کرتی رہتی ہے۔پھرہمارےجسم کی ساری ادائیں بندگی اورغلامی کی ہوتی ہیں۔ہم غلاموں کی طرح ہاتھ باندھ کرکھڑےہوتےہیں۔اس کےبعدیہ محسوس کرتےہیں بندگی کاحق ابھی ادانہیں ہواتواس کےسامنے جھک جاتے ہیں۔پھرمحسوس ہوتاہےکہ اب بھی جواس کی بندگی ہے،اس کےلحاظ سےہماری پستی مکمل نہیں ہوئی،تواپنےسراورپیشانی کواس کےآگےمٹی پرٹیک دیتےہیں۔جسم کی یہ ساری ادائیں بندگی اورغلامی کوظاہرکرتی ہیں۔

(سعادت کی زندگی،ص: ۵۸۔۵۹)

نمازپڑھیں تو اللہ کی یادمیں ڈوب جائیں

نمازاللہ کی یادکےلیےہےاوراللہ کی یادکم نہ ہو،زیادہ سےزیادہ ہو۔اس لیےکہ اللہ کی یادجتنی کم ہوگی،اتنی ہی نمازکی کیفیت  اوراس کااثر  بھی کم ہوگا۔لہٰذاآپ جب نماز پڑھیں تو اللہ کی یادمیں ڈوب جائیں،خاص طور پر سجدے میں ،کیوں کہ سجدے میں اللہ سے قربت بڑھ کر اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔اس لیے اس وقت یادِ الٰہی  کی کیفیت دوبالا ہوجائے۔فرمایا:

وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (سورہ العلق: ۱۹)

اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔

آپ اپنی نمازوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی بزرگی،اللہ کی بڑائی،اللہ کی پاکی،اللہ کی شان وشوکت،اللہ کی عظیم الشان بادشاہت،اللہ کی بے پناہ قدرت، اللہ کی نرالی حکمت،اللہ کی بے شمار نعمتوں کو دل سے یاد کیجیے۔

یادرکھیں!جو نماز اللہ کی یاد سے خالی ہو وہ نمازبےروح ہے۔بےنوراوربےسرورہے۔بےنفع اوربےاثر ہے۔بےنتیجہ اوربےبرکت ہے۔

اس لیےیہ فکراورکوشش ہوکہ ہماری نمازروح والی  ہوبےروح نہ ہو۔بااثرہوبےاثرنہ ہو۔بابرکت ہوبےبرکت نہ ہو۔پُرنورہوبےنورنہ ہو۔

اس سلسلے میں خرم مرادؒ کی دل نواز گفتگو سنیے۔ فرماتے ہیں کہ:

نمازکےاندراللہ کی یاد کاہونا،اس سےبات چیت کرنااوریہ سمجھ کرکرناکہ ہم کیابات چیت کررہےہیں،یہ نمازکی کیفیت اوراس کےاثرکےلیے،نمازکےاندرقوت اورطاقت پیداکرنےکےلیےاورنمازسےوہ سب کچھ حاصل کرنےکےلیےجس کوبخشنےکےلیےاللہ تعالیٰ نےنمازکوہمارےاوپرفرض کیاہے،ضروری ہے۔ (سعادت کی زندگی،ص: ۵۹)

نماز میں اللہ کی یاد کو کیسے بڑھائیں؟

اللہ کی یادکوبڑھانےکےلیے چندباتوں کاخاص اہتمام کریں۔

۱۔سمجھ  کر نماز اداکریں

نماز سمجھ کر پڑھیں،کیوں کہ نماز میں باربارمختلف اندازسےاللہ تعالیٰ کاذکرہوتاہے۔اس کےبہترین ناموں اورصفتوں کابیان ہوتاہے۔اللہ کے ناموں اور اس کی صفتوں میں غور و فکرکےذریعے آپ  اللہ کی  یادکو خوب بڑھاسکتےہیں۔

۲۔ دل ودماغ حاضررکھیں

ذکرصرف زبان کاذکرنہیں ہےبلکہ دل کابھی ذکرہے۔اس لیےشروع سےآخرتک نمازمیں دل کوحاضررکھیں۔اگردل اللہ کی یادسےاِدھراُدھربہک رہاہوتواس کاعلاج کریں۔

۳۔اطمینان وسکون کی کیفیت پیدا کریں

جلدی جلدی نمازپڑھنےسےاللہ کی یادمیں کبھی اضافہ نہیں ہوسکتا۔اس لیےخوب اطمینان کےساتھ نمازپڑھیں،کیوں کہ جلدی جلدی نمازپڑھنےسےآپ کی نمازضائع ہوسکتی ہے۔

۴۔سجدے کو طویل کریں اور کثرت سے دعا مانگیں

سجدےکی حالت میں بندہ اللہ سےبہت قریب ہوتاہے۔فرمایاگیا:

وَٱسْجُدْ وَٱقْتَرِبْ (سورۃ العلق: ۱۹)

اوررب کوسجدہ کراوررب سےقریب سےقریب ترہوجا۔

اس لیےسجدےکوخوب طویل کریں۔دیرتک سجدےمیں پڑےرہیں۔آپ سجدہ جتناطویل کریں گےاللہ کواتناہی یادکریں گےاور اللہ کوجتنایادکریں گےاتناہی اللہ سےقریب ہوں گے۔آپ سجدےمیں اللہ کی قدرت،اس کی عظمت،اس کی حکمت،اس کی رحمت،اس کی محبت کوخوب خوب یادکریں۔

سجدےمیں کثرت سےدعاکریں۔

دعاکےلیےدل کےپورےدروازےکھول دیں۔

دل سےپوری عاجزی کےساتھ دعا کریں۔

دعاکےمختلف اندازاپنائیں۔

کبھی گناہوں کویادکرکےروئیں،گڑگڑائیں اورمغفرت طلب کریں۔

کبھی خوش ہوہوکرجنت کی دعامانگیں۔

کبھی ڈرڈرکرجہنم سےپناہ مانگیں۔

کبھی حکمت وبصیرت کی دعامانگیں۔

کبھی صالح اولاد کی دعامانگیں۔

کبھی صحت وعافیت کی دعامانگیں۔

کبھی رزق میں کشادگی کی دعامانگیں۔

کبھی دین کی راہ پر جمنے کی دعاکریں۔

کبھی آزمائشوں پرصبرکی دعاکریں۔

کبھی حق کےاظہارکی دعاکریں۔

کبھی خدمتِ دین کےجذبےکی دعاکریں۔

معلوم ہوکہ ایک غلام اپنے آقاکےسامنےعاجزی کےساتھ کچھ نہیں بہت کچھ  طلب کررہاہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أقْرَبُ مَا یكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاء َ(مسلم، حدیث نمبر: ۱۰۸۳)

بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا تم (سجدے میں) خوب دعا کیا کرو۔

نفل نماز وں میں اس کا خوب موقع رہتا ہے۔اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

۵۔خود احتسابی کے سوالات کریں

یادِالٰہی کی کیفیت کوبڑھانےکےلیےاپنا احتساب وجائزہ لیں۔خودسےپوچھیں کہ کیا

میں نمازاطمینان سےاداکرتاہوں یاجلدی جلدی ؟

نمازمیں میرادل حاضررہتاہےیادنیاکی سیرکرتاہے؟

خداسےباتیں کرتاہوں یاخودسے؟

نمازکی دعائیں سمجھتاہوں یانہیں؟

آیتوں کےمعانی پرغورکرتاہوں یانہیں؟

میں کتنےسال سےبغیرسمجھےنمازپڑھ رہاہوں؟

اگران چندباتوں کااہتمام کرلیں توان شاءاللہ آپ اللہ کی یادمیں ڈوب جائیں گے اوراس کاخوب خوب لطف اٹھائیں گے۔

یادِ الٰہی سےبھرپور نمازکےزندگی پراثرات

ہماری نماز میں ذکرِالٰہی کی کیفیت  جتنی زیادہ ہوگی زندگی پر اس کے اثرات بھی اتنے ہی زیادہ پڑیں گے۔

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری نماز ہمیں گناہ سے نہیں روکتی۔ حالاں کہ قرآن پاک کی سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ(سورۃالعنکبوت: ۴۵)

اور نماز قائم کرو،بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے۔

یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم نے گناہوں کی تین نمایاں اقسام بیان کی ہیں:

فحاشی،عریانی اور جنسی بے راہ روی پر مبنی گناہ۔

حق تلفی کی نوعیت کے وہ گناہ جنھیں سب انسان برا سمجھتے ہیں۔

خدا کی سر کشی اور بغاوت کی نوعیت کے گناہ۔

ایک شخص انھی تین طرح سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔نماز ان تمام اقسام کے گناہوں سے انسان کو بچاتی ہے۔ تاہم سورہ عنکبوت کی آیت میں صرف فحش اور منکر یعنی پہلی اور دوسری قسم کے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نماز پڑھنے والاشخص جیسے ہی نماز میں رب کے حضور سر جھکاتا ہے وہ تیسری قسم کے گناہ یعنی رب سے سرکشی اور بغاوت سے دور ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے جرائم کواس آیت میں بیان نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے بعد پہلی اور دوسری قسم کے گناہ رہ جاتے ہیں۔چناں چہ اس آیت میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ نماز ان دونوں اقسام کے گناہوں یعنی فحش اور منکر سے روکتی ہے۔

اب رہی یہ بات کہ ہماری نماز ہمیں ان دونوں اقسام کے گناہوں سےنہیں روک پاتی تو اس کے لیے پوری آیت کو پڑھنے (اور سمجھنے) کی ضرورت ہے۔ اس آیت کا ابتدائی حصہ تو ہم نے اوپر نقل کردیا ہےباقی حصہ اس طرح ہےجو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر توجہ کی جاتی ہے۔ حالاں کہ یہیں وہ بات بیان ہوئی ہےجو اہم ہے۔ فرمایا:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ أَكْبَرُ وَاللّٰهُ یعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (سورۃالعنکبوت: ۴۵)

اور نماز قائم کرو،بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہےاور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

یہ ہے وہ پوری بات جو اللہ تعالیٰ نے کہی ہے۔

مطلب اس بات کا یہ ہے کہ نماز اصل میں اللہ کی یاد کا نام ہے۔

یہ انسانوں میں رہتے ہوئے خدا میں جینے کا نام ہے۔

یہ غیب میں رہتے ہوئےخدا کی عظمت کو تسلیم کرلینے کا نام ہے۔

یہ خدا کی پکڑ میں آنے سے پہلے خود کو رب کے حوالے کردینے کا نام ہے۔

اللہ تعالیٰ کی یاد  کی یہ کیفیت، یہ احساس بہت بڑی چیز ہے۔ اتنی بڑی کہ انسان ہر لمحہ خود کو رب کینگرانی  میں پاتا ہے اور پھر اس کا کوئی قدم خدا کی نافرمانی میں نہیں اٹھ سکتا۔

اس کا نفس تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی لگام اپنے اندر سے اٹھنے والےحیوانی جذبوں کے حوالے کردے،مگر خدا کی یاد  اسے آتی ہے اور اس کے نفس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیتی ہے۔

اس کے جبلی تقاضے سر اٹھاتے ہیں اور اس کے جذبات کو بے قابو اور قلب ونظر کو بے ایمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا کی یہی یاد آتی ہے اور ہر بہکی نظر اور امڈتے جذبے کو حدود آشنا بنادیتی ہے۔

اس کے مفادات اسے حلال وحرام سے بے نیاز ہونے کی تلقین کرتے ہیں

اس کی خواہشات اسے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری سے روکتی ہیں

اس کے تعصبات اسے حق کی پیروی سے باز رکھنا چاہتے ہیں

بیوی بچوں کی محبت اسے حدود پامال کرنے پر اکساتی ہے

دنیا کی محبت اسے عارضی فائدوں کے پیچھے بھگاتی ہے

مال ومقام کی محبت اسے ظلم وعصیان پر آمادہ کرتی ہے

مگر۔۔۔ہر ہر موقع پر یہ زندہ نماز  یہ خدا کی یاد والی نماز ایک چٹان  بن کر اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اور اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر اگر وہ جذبات سے مغلوب اور حالات سے مجبور ہوبھی جائے تو کبھی اس کا معاملہ ایک سرکش انسان کا نہیں بنتابلکہ اگلی نماز میں اسے احساس ہوجاتا ہے کہ خدا حی و قیوم ہے اور اس پر نگران ہے۔ چناں چہ وہ رب کی طرف پلٹتا اور توبہ کرتا ہے۔

اس طرح نماز زندگی کے ہر موڑ پر انسان کو گناہوں سے دور رکھتی ہے۔ کیوں کہ نماز جب ٹھیک طرح پڑھی جاتی ہے تو انسان کو ہمیشہ خدا یاد  رہتا ہے اور یاد آجاتا ہے۔ یہی وہ یاد ہے جو انسان کو گناہ سے بچاتی ہےنہ کہ بے روح قیام وقعود۔

(ابو یحییٰ، بس یہی دل: ۱۲۸۔ ۱۲۹کچھ تصرف کےساتھ)

مولاناامین احسن اصلاحیؒ فرماتےہیں:

گناہ اور معصیت کی رغبت، غفلت اور خدا فروشی کے سبب سے ہوتی ہے۔اگر یادِ الٰہی  موجود ہو اور اس اہتمام کے ساتھ کہ شب وروز کے تمام اوقات اس سے گھِرے ہوئے ہوں تو دل پر غفلت ونسیان کا میل کہاں سے آئے گا؟ آئے گا تو ذکرِ الٰہی  کی یہ نہرِ جاری جس کو نماز کہتے ہیں اس کو باقی کب رہنے دے گی؟ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نماز کی اصل حقیقت اللہ کی یاد کو ہر وقت تازہ رکھنا ہے۔ مومن کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی یاد  سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔  جیسا کہ فرمایا ہے:

الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللّٰهَ قِیامًا وَّقُعُودًا وَّعَلیٰ جُنُوبِهِمْ ( سورۃآل عمران: ۱۹۱)

جو کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا:

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیرًا وَّسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِیلًا (سورۃالاحزاب: ۴۱۔ ۴۲)

اے ایمان والو! تم اللہ کو خوب خوب یاد کرو اور اس کی تسبیح کرو صبح وشام۔

پس مومن صرف مسجد ہی میں نماز میں نہیں ہوتا ہے، بلکہ ہر آن اور ہر مکان میں وہ نماز میں ہوتا ہے، کیوں کہ نماز کی اصل روح، یعنی ذکرِ الٰہی  ہر لمحہ اس کے سینہ میں جلوہ گر رہتی ہے۔ وہ مسجد سے علیٰحدہ ہوتا ہے، لیکن خدا کی یاد  سے کبھی علیٰحدہ نہیں ہوتا، اور مسجد سے بھی جب علیحدہ ہوتا ہے تو یہ علیٰحدگی اس کے لیے کچھ راحت ولذت کی چیز نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کا دل مسجد ہی میں رہتا ہے۔

یہ ذکر دل سے غفلت ونسیان کے میل کو دھوتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اس کی پابندی سے قلب میں ایک نور وبرہان پیدا ہوجاتا ہے،جو زندگی کی ہر منزل میں بندہ کی نگرانی کرتا ہے۔ہوائے نفس کی ظلمتیں جب نشانِ راہ گُم کردیتی ہیں یہ چمک کر راہ دکھا دیتا ہے۔ شہوات نے جہاں ٹھوکر کھلائی یہ نمودار ہوکر گرتےگرتے سنبھال لیتا ہے۔

( حقیقت نماز: ۱۶۔۱۷ ۔ ۱۸)

خداکی یاد کےحوالےسےنمازکی دوحقیقتوں کاادراک بےحد ضروری ہے۔

ہم نماز میں بار بار اللہ اکبر کہتے ہیں۔یعنی اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ دو لفظوں سے بنا ہوا یہ کلمہ بڑا معنی خیز ہے،جوایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

ابو یحییٰ لکھتے ہیں:

خدا کی یاد کے حوالے سے نماز میں دو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں:

اول خدا کی بڑائی، دوسرے خدا کی پاکی کا بیان۔

اللہ اکبر اور سبحان اللہ،نماز میں سب سے زیادہ دہرائے جانے والے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دو ایسی بنیادی حقیقتوں کا بیان ہے۔ جن کا صحیح ادراک انسانی نفسیات اور نتیجتاً اس کے عمل کو یکسر بدل دیتا ہے۔

پہلے اللہ اکبر کو لیجیے۔ یہ کلمہ انسان کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ اس کا رب ایک بڑی ہستی ہے۔اس سے بڑی ہستی ہے۔ سب سے بڑی ہستی ہے۔ انسان جو فطری طور پر کسی بڑے کی پکڑ سے ڈرتا ہے، جب خدا کا یہ تعارف بار بار حاصل کرتا ہےتو پہلے دوران نماز، ذہن کی دنیا میں، وہ خدا کے سامنے چھوٹا ہوجاتا ہےاور پھر نماز سے باہرعمل کی دنیا میں بھی اس کے سامنے سر جھکائے رکھتا ہے۔جب کوئی ایسا لمحہ اس کے سامنے آتا ہےجس میں وہ طاقت ور ہوتا ہے کہ ظلم کرے، آزاد ہوتا ہے کہ نافرمانی کرے،بااختیار ہوتا ہے کہ کسی کا حق مارے تو وہینماز والا بڑا خدا  اسے یاد آجاتا ہے۔ پھر وہ طاقت ور،آزاد اور بااختیار انسان چھوٹا ہوجاتا ہے۔وہ جان لیتا ہے کہ وہ اس بڑے خدا سےبچ کر کہیں نہیں  جاسکتا۔پھر مجمع تو در کنار، تنہائی میں بھی گناہ نہیں ہوتا۔ ظاہر میں تو کجا، باطن کی گہرائیوں میں بھی معصیت کا گزر نہیں ہوتا۔وہ خدا کے حقوق پامال کرتا ہے نہ بندوں کے۔وہ دین کی حدیں توڑتا ہے نہ فطرت کی۔نماز کے ہر رکن کے ساتھ اللہ اکبر کی یاد دہانی  انسان کو پابند کردیتی ہےکہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی بڑائی کو مانے اور اس کے تقاضے کو پورا کرے۔

تکبیر کے ساتھ نماز کی دوسری یاد دہانی تسبیح سے ہے۔ تسبیح کیا ہے؟ اس بات کا اعتراف ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ ہر کمی، ہر غلطی سے پاک ہے۔ ہر تشبیہ،ہر تمثیل سے منزہ ہے۔وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی اعلیٰ اور عظیم ہستی کو ہونا چاہیے۔ انسان نماز کا آغاز اس حقیقت کے اقرار سے کرتا ہے۔رکوع میں اس بات کو مان کر جھک جاتا ہے اور سجدے میں اس حقیقت کے اعتراف میں اپنا ماتھا زمین پر رکھ دیتا ہے۔

خدا کے سبحان ہونے کو جاننا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس حقیقت کو جانے بغیرایک طرف انسان خدا سے وہ سب منسوب کرتا ہے جو اسے شرک والحاد تک پہنچادیتاہے، تو دوسری طرف بندے اور رب کے درمیان جو اعتماد ومحبت کا تعلق ہونا چاہیے اور جو درحقیقت روح کی غذا ہے ، وہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔

یہ تسبیح کا عمل ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نہ بے بس ہے نہ بے حس،نہ وہ رعایا سے بے پروا بادشاہ ہے، نہ ثبوت وگواہی کے لیے محتاجِ قانون، وہ تو پاک ہے، عظیم ہے،اعلیٰ ہے۔۔۔ اس دن کا منتظر جو بہت جلد آنے والا ہے۔ جس دن ہر سرکش اور ظالم کا ٹھکانا جہنم اور ہر نیکو کار کا مقام جنت کی ابدی نعمتیں ہوں گی۔ چناں چہ تسبیح انسان کو شرک،الحاد، مایوسی اور بے عملی سے بچاتی اور مشکل ترین حالات میں بھی اس کو خدا کے آگے جھکائے رکھتی ہے۔

اس طرح نماز کے یہ داخلی پہلو یعنی تکبیر وتسبیح،متقی، باعمل،حوصلہ مند اور صاحبِ ایمان انسان کو جنم دیتے ہیں۔ وہ انسان جن کی آج کے دور میں سب سے زیادہ کمی ہے۔  (بس یہی دل: ۲۳۵۔ ۲۳۶)

خرم مرادؒ فرماتے ہیں:

انسان کاوجود،اس کادل،اس کی شخصیت،اس کی زندگی اورموت اللہ کی یادسےوابستہ ہے۔نمازاللہ کی یادکوزندگی میں جاری وساری کرتی ہے۔اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سےآدمی غفلت سےدوررہتاہے،چوکنّااورہوشیاررہتاہے،کہیں غلطی کرتاہےتوتوبہ کرتاہے،اس کےدل کےاندراللہ کی یادسےہی زندگی پیداہوتی ہے۔ (سعادت کی زندگی ص: ۵۹)

یادِ الٰہی کی شان

یادِ الٰہی کی شان یہ ہے کہ وہ انسان کو ہمیشہ اپنے رب سے جوڑتی اور اس سے قریب رکھتی ہے۔ یاد الٰہی  نہ ہو تو انسان راہِ خدا سے بھٹک جائے۔یادِ الٰہی  نہ ہوتو زندگی کا توازن بگڑ جائے۔اسی سے تو زندگی کی بہار ہے۔اللہ کو یاد رکھنے والا کبھی بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار نہیں ہوتا۔اس کی زندگی کیف وسرور اوراطمینان وسکون کے سایے میں گزرتی ہے۔فرمایا:

اَلَّذِینَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَیٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَیٕنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد: ۲۸)

(اللہ اسے اپنی راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے) یعنی جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں، سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔

ہر مسلمان کو اس کا ادراک ہونا چاہیےکہ خدا کی یاد  کتنی بڑی چیز ہے۔ اگر وہ اس حقیقت سے نا آشنا ہے تو وہ کبھی بھی

خدا کی یاد  سے غافل ہوسکتا ہے۔پھر خدا کی یاد نہیں دنیا،مال ومتاع،دولت وتجارت اور کھیل کود اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوجائے گی۔فرمایا:

وَلَذِكْرُ اللّٰہِ أَكْبَرُ (سورۃ العنکبوت: ۴۵)

اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔

اللہ کی یاد مطلقاً بہت بڑی چیز ہے۔یہ ہر جذبے اور ہر خواہش سے بڑی چیز ہے۔یہ ہر عبادت اور ہر نیاز مندی سے بڑی چیز ہے۔   (تفسیر فی ظلال القرآن،ج۱۱ص: ۶۲)

یاد الٰہی کتنی بڑی چیز ہے اس کا صحیح اندازہ وہی لگاسکتا ہے جس کے شب وروز یادِخدا  میں بسر ہوتے ہیں۔

محمد راتب نابلسی نے اس آیت کی شان دار تفسیر کی ہے۔فرماتے ہیں:

اللہ کا ذکر کس سے بڑا ہے؟اور ذکر ہےکیا ؟کیا اس سے مراد اللہ کا بندے کو یا بندے کا اپنے رب کو یاد کرناہے؟اور کیا بندے کا اپنے رب کو نماز میں یا اس کے باہر یاد کرناہے؟

ذکر،ذکریٰ اور تذکُّر سب کی اصل ایک ہی ہے۔کسی چیز کویاد کرنے کا مطلب ہے کہ تم اسے بار بار دہراؤ،اس کا اعادہ کرو اور اسے ہر وقت یاد رکھو۔بے شک اگر تم اللہ کو یاد کروگے تودراصل اپنی فطرت (عبادت) کا ثبوت فراہم کروگے۔

اگر تم خدا کو یاد  کروگے تو اس سے مطمئن ہوجاؤ گے۔اگر تم اسے یاد کروگے تو اس کی قربت کی سعادت تمھیں نصیب ہوگی۔اگر تم خدا کو یاد  کروگےتو تمھارا خوف،تمھاری بے چینی،تمھارا غم،تمھارا نقصان،تمھارا انتشار،تمھارابکھراؤ، تمھاری تنگی، تمھاراوحشت اور فقر وفاقہ کا احساس سب کافور ہوجائے گا۔

ذکر کی دوقسمیں ہیں لسانی ذکر اور قلبی ذکر  اورممکن ہے کہ یہاں ذکر قلبی ذکر کےمعنی میں آیا ہو اور وہی مراد ہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیرًا وَّسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَّأَصِیلًا (سورۃالاحزاب: ۴۱۔ ۴۲)

اے ایمان والو! تم اللہ کو خوب خوب یاد کرو اور اس کی تسبیح کرو صبح وشام۔

اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس قول (وَلَذِكْرُ اللّٰہِ أَكْبَرُ)پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔

اور ذکر کے متعلق اللہ کے رسول کیا فرماتے ہیں؟بخاری میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

مَثَلُ الَّذِی یذْكُرُ رَبَّهُ وَ الَّذِی لَا یذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَی وَالْمَیتِ (بخاری)

اللہ کو یاد کرنے والا زندہ اور اللہ کو نہ یاد کرنےوالا مردہ ہے۔

صحیح مسلم میں آپ ﷺ کے خصائل وعادات کے بارے آتا ہے کہ آپ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

كَانَ النَّبِی–صلی الله علیه وسلم–یذْكُرُ اللهَ عَلٰی كُلِّ أَحْیانِهِ

نبی ﷺ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے تھے۔

خوشی میں، مصیبت میں،تنگ دستی میں، خوش حالی میں،صحت میں، بیماری میں،رات ہو،دن ہو،سفر ہو، حضر ہو،تنگی ہو، آرام ہو،دنیا آئے یا جائے ہر حال میں آپ ﷺ اللہ کو یاد رکھتے تھے۔

تمھارا کیا حال ہے آیا تم خدا کو زبانی یاد کرتے ہو یا دل سے؟اگر زبانی یاد کرتے ہو اور دل یاد سے خالی ہے تو یہ ظاہری ذکر  کافی نہیں،اس ذکر میں دل کی نمائندگی  ضروری ہےا گر چہ دل کی کنجی زبان ہے۔

(وَلَذِكْرُ اللّٰہِ أَكْبَرُ) کا پہلا معنیٰ یہ کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکنے کےساتھ ساتھ انسان کو بلندی عطاکرے اور اسے اللہ تک پہنچادے۔

دوسرا معنی یہ کہ نماز میں ذکرُ اللہ  سب سے بڑی چیز ہے۔فرمایا: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِی (سورۃطٰہٰ: ۱۴)اورمیری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ لہٰذا نماز کا مقصد یہ ہے کہ تو اللہ کو یاد کرے۔

جب تم نماز ادا کرتے ہو تو دراصل اپنے رب کو یاد کرتے ہو اور جوکوئی نماز بھول جائے تو حقیقت میں اس کا تعلق اپنے رب سے کم زور ہے۔فرمایا:

فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (سورۃ الماعون: ۴۔۵)

تو ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔

اورجو اول وقت میں نماز کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے کام کاج اسے نماز سے غافل نہیں کرتے تو وہ اللہ کو یاد کرنےوالا  کہلاتا ہے۔بخاری ومسلم ہیں ہے۔عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: أی العَمَلِ أحَبُّ إلَی اللّٰہِ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلٰی وَقْتِهَا

کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔

لہٰذاجب تم کسی چیز کا ارادہ کرویا کسی کام کو انجام دینا چاہویا کوئی خط لکھنا چاہو یا کوئی میٹنگ کرنا چاہویا کوئی احتسابی نشست منعقد کرنا چاہو تو نہ بھولو کہ اللہ کا ذکر ان ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔اب اگر تم کسی کام میں مصروف اور منہمک ہوجاتے ہو اور نماز کو بھول جاتے ہو تو سمجھ جاؤ کہ اللہ کا ذکر  تمھارے نزدیک بڑی چیز نہیں ہے۔

تیسرا معنی یہ کہ اللہ کا بندوں کو یاد کرنا بندوں کا اللہ کو یاد کرنے سے بڑھ کر ہے۔فرمایا:

فَاذْكُرُوْنِیۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِی وَ لَا تَكْفُرُوْنِ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۲)

تو تم مجھے یاد کرو،میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔

تم اسے یا دکرتے ہوتو وہ بھی تمھیں یاد کرتا ہے۔تم اپنے کام کو چھوڑ کر،اپنی دکان کو بند کرکے مسجد کا رخ کرتے ہو اور وضوکرکے نماز پڑھتے ہوتو جب اللہ تمھیں یاد کرتا ہے تواس کا یاد کرنا تمھارے اسے یاد کرنے سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔تم اس کے محتاج ہو۔اس لیے اس پر احسان جتانے سے بچو،کیوں کہ اللہ کا تمھیں یاد کرنا تمھارے ہر عمل سے بہت بڑا ہے۔یقینًا جب تم اسے یاد کرتے ہوتو اس کی عبادت کرتے ہو،لیکن جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے تو تمھیں مالا مال کردیتا ہے۔تم پر رحم کرتا ہے۔ جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے تو تمھیں قریب کرلیتا ہے۔تمھیں سعادت مند بنادیتا ہے۔ جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے تو جب تم اسے یاد کرتے ہو تو وہ تمھاری حفاظت کرتاہے۔تمھیں سکون عطا کرتا ہے۔ جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے تو تمھیں حکمت سے نوازتا ہے۔تمھارے دل میں سکینت ڈال دیتا ہے۔ جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے توتمھیں توفیق بخشتا ہے۔تمھارے کاموں کو آسان بنادیتا ہے۔ جب وہ تمھیں یاد کرتا ہے توتمھیں بارعب بنادیاہے۔تمھارے ذریعے خیر کا چشمہ رواں کردیتا ہے۔ (تفسیر النابلسی،ج۷ص: ۶۰ تا ۶۲)

یادِالٰہی کی روح

اب یادِ الٰہی  کی حقیقت اور اس کی روح  کو سمجھ لیں تاکہ زندگی کا کوئی لمحہ اللہ کی نافرمانی میں نہ گزرے۔یاد الٰہی کی روح یہ ہے کہ ہر آن  دل میں اللہ کی یاد تازہ رہے۔ آدمی کہیں بھی ہو اورکسی بھی حال میں ہو مگراللہ سے غافل نہ ہو۔

سید قطب شہیدؒ لکھتے ہیں:

اللہ کے نام کا ذکر کرنے کا مطلب صرف زبان سے باری تعالیٰ کا نام دہرانا نہیں ہے جیسا کہ سَو یا ہزار دانوں والی تسبیح پر گنتی کی جاتی ہے۔بل کہ اس سے مراد ہے زبان سے اللہ کا نام لینے کے ساتھ ساتھ ہرآن دل  میں اس کی یاد تازہ رکھنا۔

تفسیر فی ظلال القرآن،ج۱۷ص: ۲۰)

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ذکرالٰہی کی حقیقت کےبارےمیں لکھتےہیں:

ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان پر اللہ اللہ جاری ہو، بلکہ اصل ذکرِ الٰہی  یہ ہے کہ دنیا کے جھگڑوں اور بکھیڑوں میں پھنس کر بھی تمھیں ہر وقت خدا یاد  رہے۔ جو چیزیں خدا سے غافل کرنے والی ہیں ان میں مشغول ہو اور پھر خدا سے غافل نہ ہو۔ دنیا کی زندگی میں جہاں خدائی قانون کو توڑنے کے بے شمار مواقع، بڑے بڑے فائدوں کے لالچ اور نقصان کا خوف لیے ہوئے آتے ہیں وہاں خدا کو یاد  کرو اور اس کے قانون کی پیروی  پر قائم رہو۔ یہ ہے اصلی یادِ خدا  اس کا نام ہے ذکرِ الٰہی  اسی ذکر کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے کہ:

فَإِذَا قُضِیتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیراً لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃالجمعہ: ۱۰)

یعنی جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ، خدا کے فضل، یعنی رزقِ حلال کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرو اور خدا کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔

( خطبات: ۱۲۳)

ڈاکٹرحمیداللہؒ لکھتےہیں:

دن میں پانچ نمازوں کامطلب یہ نہیں ہے۲۴ گھنٹوں کےدوران تقریباً۲۴ منٹ بارگاہِ خداوندی میں یااللہ تعالیٰ کی یاد میں کم سےکم درجےکےفرض کی صورت میں گزارےجائیں بل کہ دراصل ایک صاحبِ ایمان کےلیےضروری ہےکہ وہ ہرلمحہ  چاہےخوشی میں ہویاغم والم کی کیفیت میں،کام میں مصروف ہویابسترمیں آرام کررہاہویاکسی بھی شعبےمیں مصروف ہواللہ تعالیٰ کویاد کرے۔ (ڈاکٹرحمیداللہ،پیرس،داعیٔ اسلام،مترجم،ص: ۹۴)

استادمحترم مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی لکھتے ہیں:

ذکر ِالٰہی کی روح یہ ہے کہ آپ کسی حال میں  بھی ہوں، اللہ کو یاد رکھیے۔ کوئی بھی کام کررہے ہوں، اس کی باز پرس سے غافل مت ہویئے۔ آپ کی زبان، اور آپ کے ہاتھ پیر، کاروبارِ دنیا میں مصروف ہوں۔ مگر آپ کے دل میں یادِ الٰہی  کے چراغ روشن ہوں۔ ذکرِ الٰہی کی یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، تو ہر کام اللہ کی عبادت بن جاتا ہے۔ ہر نماز اللہ سے ملاقات بن جاتی ہے۔اور پھر اقامتِ دین  کاکام توقع سے زیادہ تیزی اور برق رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔

یہ ہےیادِ الٰہی کی روح اوریہ ہےیادِ الٰہی کی حقیقت۔اس روح اورحقیقت کوخوب اچھی طرح سمجھنابےحدضروری ہے۔

یادِالٰہی کاچراغ ہردم روشن رکھیں

اللہ کی یاد وقتی نہیںہمہ وقتی عمل  ہے۔اللہ کی یادسےہی دل کی،ایمان کی، قول وعمل کی،سب کی زندگی وابستہ ہے۔یہ ایساچراغ ہےکہ اگراس کی لَوذرامدّھم پڑجائے تودل مردہ ہوجائے،زندگی بگڑجائے اور انسان خدا سےدور ہوجائے۔اس لیےجہاں نماز کے اندر اللہ کو یاد کرنا  ہے وہیں نماز کے باہر بھی اللہ کو یاد رکھنا  ہے۔ اللہ کی یادوالایہ عمل زندگی کےہرہرموڑپرجاری وساری رہناچاہیے۔خوشی کی حالت میں ہوں یاغم کی حالت میں،بھوکےپیاسے ہوں یاشکم سیر،اندھیرےمیں ہوں یااجالےمیں،دکان میں ہوں یامکان میں،بازارمیں ہوں یاکوڑکچہری میں،خلوت میں ہوں یاجلوت میں، اکیلےہوں یامجمع میں، جہاں بھی ہوں،جس حال میں بھی ہوں اللہ کی یادسےہم غافل نہ ہوں۔یادِ الٰہی سےہمارادل کبھی خالی نہ ہوبل کہ ہروقت یادِ الٰہی کاچراغ  ہمارےدل میں روشن رہے۔اس کی لَوکبھی مدَّھم نہ پڑے۔فرمایا:

یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰہَ ذِكْرًا كَثِیرًا (سورۃ الأحزاب: ۴۱)

اے ایمان والو! اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو۔

یادِ الٰہی کی شمع روشن رکھنے والوں کی تصویر

یادِ الٰہی ہی کی خاطر اقامتِ نماز کا حکم دیا گیاہے تاکہ انسان اپنے رب کوہر پل یاد رکھےاسے بھولے نہیں۔اللہ کے مخلص بندوں کا یہ شیوہ ہے کہ ان کے دل ودماغ پر یادِ الٰہی ہمیشہ چھائی رہتی ہے۔اس کے لیے وہ اپنی توانائیاں نچوڑ دیتے اور اپنے ذہن کو اس کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

وہ کیسے اللہ والے تھے جو ہمیشہ یادِ خدا  کی شمع جلائے رکھتے تھے۔وہ کسی بھی حال میں خدا کی یاد  سے غافل نہیں ہوتے۔ وہ کھیتی بھی کرتے، تجارت بھی کرتے، محنت مزدوری بھی کرتے، مگر ان میں سے کوئی بھی چیز ان کو خدا کی یاد  سے غافل نہیں کرتی تھی۔قرآن نے ان کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

رِجَالٌۙ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلوٰةِ وَ اِیتَآءِ الزَّكوٰةِ یخَافُوْنَ یوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ (سورۃ النور: ۳۷)

وہ مرد جن کو تجارت اور خریدوفروخت اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں اُلَٹ جائیں گے۔

صحیح بخاری میں حضرت قتادہؓ سےمروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ (صحابہؓ) خرید وفروخت اور تجارت کرتے تھے، لیکن جب خدا کا کوئی معاملہ پیش آتا تھا، تو یہ شغل وعمل ان کو یادِ الٰہی  سے غافل نہیں کرتا تھا، بل کہ وہ اس کو پوری طرح ادا کرتےتھے۔

(صحیح بخاری، کتاب البیوع)

وہ کیسےخدا کے نام لیوا تھے جن کے اندراٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے،لیٹتے ہر حال میں خدا کی یاد کے لیے بے قراری رہتی تھی۔قرآن ان کی اس کیفیت کاذکراس طرح کرتا ہے:

الَّذِینَ  یذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یتَفَكَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ  فَقِنَا  عَذَابَ  النَّارِ (سورۃ آل عمران: ۱۹۱)

جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بے کار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

 

مشمولہ: شمارہ فروری 2024

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau