قبول اسلام کی ایمان افروز داستان

اہل غزہ کی استقامت دعوتِ دین کی راہ ہم وار کررہی ہے

گذشتہ ماہِ رمضان کی ایک شب عشا کی نماز کے فوراً بعد لوگ تراویح کی نماز شروع ہونے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ دو افراد کھڑے ہوئے اور دومخالف سمتوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان میں سے ایک فلسطینی النسل امریکی شہری ڈاکٹر محمد عودہ تھے۔ان کا رخ محراب کی جانب تھا، جب کہ دوسرا شخص اپنے اس کیمرے کو تیار کرنے کی طرف متوجہ ہوا جسے نماز شروع ہونے سے پہلے ہی اس نے اسٹینڈ پر لگا دیا تھا۔

ڈاکٹر عودہ مائیک تھام کر گویا ہوتے ہیں: “ حالات سخت اور دشوار ہیں۔ ایک طرف اہلِ غزہ کے خلاف قتل و غارت گری جاری ہے، تو دوسری طرف وہاں جو کچھ پیش آرہا ہے اس کے زیر اثر خوش خبریاں بھی آ رہی ہیں۔ یہ ڈینی ہیں جنھوں نے کیمرہ سنبھال رکھا ہےاور ہمارے ساتھ غزہ کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے کے بعد اب اپنے کیمرے کو اس لیے تیار کر رہے ہیں کہ تاکہ اپنی زبان سے کلمہ شہادت کی ادائیگی کے لمحے کو اس میں محفوظ کر لیں۔”

ڈینی ہلکے قدموں سے نمازیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے جو دائیں بائیں آڑے ترچھے ہوکر اسے آگے نکل جانے کے لیے راستہ دے رہے تھے۔ اس کا رخ محراب کی طرف تھا۔ وہ تیس سے پینتس برس کے درمیان کا سفید فام شخص تھا جس کے چہرے پر سنہری موچھیں تھیں۔ بدن کسی حد تک بھرا ہوا، اور سرخ وسفید ررنگ کا کوفیہ اس کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ اس نے مائیک اپنے ہاتھ میں پکڑا اور کلمۂ شہادت زبان سے ادا کر دیا۔

یہ واقعہ ریاست کنساس میں پیش آیا تھا جو کہ وسطی امریکا کہ مغربی حصے میں واقع ہے اور امریکہ کے اصل باشندوں کے درمیان ریاست ’کانزا‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس امریکی ریاست میں کاشت کاروں، یوروپی نسل کے امریکیوں کی اکثریت ہے اور زیادہ تر لوگ مسیحیت سے وابستہ ہیں۔

ڈینی کا قبول اسلام۔ چرچ سے قرآن تک

ڈینی پہلا شخص نہیں ہے جس نے غزہ کے حالات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے اور نہ آخری ہے۔ خیال یہی تھا کہ ڈینی سے پہلی ملاقات مختصر ہوگی۔ کچھ براہ راست سوالات کیے جائیں گے اور ساتھ ساتھ ان کے راست جواب دے دیے جائیں گے۔ اس کے بعد ڈینی کا واقعہ کسی اخباری رپورٹ میں ان دوسرے واقعات کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا جن میں اسلام کو سمجھنے کا بنیادی ذریعہ طوفان اقصیٰ بنا ہوگا۔

ڈینی سے ملاقات نمازِ عصرکے فوری بعد شروع ہوئی۔ جس ملاقات کے متعلق یہ خیال تھا کہ مختصر ترین ہوگی، وہ ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات کے اختتام پر میں نے فیصلہ کیا کہ واقعے کو مکمل شکل میں تحریر کروں گا۔ ملاقات مسجد کے امام صاحب کے کمرے میں ہوئی، جو اسی مسجد سے متصل تھا جس میں ملاقات سے چند روز پہلے ڈینی نے قبول اسلام کا اعلان کیا تھا۔

میں پرجوش انداز میں اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ڈینی نے اپنی گفتگو کا آغازکسی قدر بچنے والے انداز میں اس طرح کیا : “ میں نے بہت پڑھا ہے اور گھنٹوں بات کر سکتا ہوں۔ میں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ آپ مجھ سے متعین سوالات کریں تاکہ مجھے یہاں گھنٹوں بیٹھنا نہ پڑے۔”   میں نے جواب دیا کہ افطار تک کے لیے میں فارغ ہوں۔ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔

ڈینی سفید خدو خال کے ساتھ ان تمام ثقافتی و سماجی خصوصیات کا حامل ہے جو امریکا میں رہنےوالے ایک سفید فام شخص کے اندر پائی جاتی ہیں۔ تیس سے پینتس برس کے درمیان اس کی عمر ہے۔ چہرے اور سر پر اگے ہوئے بالوں کا رنگ بھی سنہری مائل ہی ہے۔بچپن سے ہی امریکا کے دیہی علاقے میں رہتا آیا ہے۔ان سب پر مستزاد یہ ہے کہ ان کا قدیم تعلق انجیلی ( اوینجلی) پروٹسٹنٹ چرچ سے ہے، اور یہ وہی مسیحی گروہ ہے جو حکومت اسرائیل کے قیام کی تائید و حمایت اور مالی امداد میں سب سے زیادہ پیش پیش رہتاہے۔

امریکا میں “ انجیلی”   (Evangelical) سے مراد وہ پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے ہیں جن کے بعض عقائد روایتی پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ امریکا کے اندر پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد کا اندازہ 80 ملین سے زیادہ کا ہے۔

جہاں تک ان کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ عیسائی فرقے اٹھارہوں صدی کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ امریکا بہت سی استعماری کالونیوں کا مجموعہ ہوا کرتا تھا۔ البتہ اوینجلی فرقہ بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے، حتی کہ آج اس کی شہرت اس پہلو سے زیادہ ہے کہ اس فرقے کے ماننے والوں کی بڑی تعداد “ دائیں بازو کے حامی عیسائیوں”   میں شامل ہے اور فکری و سیاسی جھکاؤ اسرائیل اور صہیونی تحریک کی طرف رہتا ہے۔

انجیلی عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اسرائیل ہی وہ سریع الاثر عامل ہے جو دنیا کے خاتمے کے طرف لے جانے والے حادثے، یعنی معرکۂ “ ہرمجدون”   کا سبب بنے گا۔ اس پیشین گوئی کے مطابق قرب قیامت کے وقت دنیا کو نجات دلانے کے لیے مسیح علیہ السلام کا نزول صرف اسی معرکے (معرکۂ ہرمجدون) کے دوران پیش آئے گا، اور یہ معرکہ اس وقت سے پہلے پیش نہیں آئے گا جب تک کہ یہودی فلسطین میں واپس نہ آجائیں اور وہاں ان کی قومی حکومت قائم نہ ہوجائے۔مسجد اقصی اور مسجد گنبد صخرہ کے باقیات پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر اس حادثے کے لیے چنگاری کا کام کرے گی، اس لیے کہ مسجد اقصی اور مسجد گنبد صخرہ کے انہدام اور وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر پر مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

لیکن امریکہ کے سیاسی و سماجی حالات پر انجیلی عیسائیوں کے اثرات کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ ان اثرات کی جھلک پیش کرنے والے عمومی نتائج یہ ہیں کہ آج سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے والے بنیادی دھڑے کی نمائندگی یہی لوگ کرر ہے ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ کے نائب رہ چکنے والے مائک بینس کا تعلق بھی اسی انجیلی فرقے سے ہے، اور اسرائیل کے لیے اپنی مطلق حمایت کے تعلق سے معروف ہے۔ اس کے علاوہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور کا وزیر خارجہ اور سی آئے اے کا سابق سربراہ مائک بومبیو بھی اسی قبیل سے ہے۔

اس کے علاوہ موجودہ نائب صدر اورموجودہ امریکی کانگریس کے صدر مائک جانسن نے گذشتہ اپریل 2024 کو ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ “ اسرائیل ہمارا ناگزیر حلیف ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت (اسرائیل کے لیے 26 ارب ڈالر) کی مالی امداد کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔ اسرائیلی اپنے وجود کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم مومنین (عیسائیوں) کے لیے انجیل میں یہ ہدایت ہے کہ اسرائیل کےساتھ کھڑے ہوں اور ہم بلا شک و شبہ اس ہدایت پر عمل کریں گے اورجب تک ہم ان کے ساتھ رہیں گے وہ کام یاب رہیں گے۔”   اور بھی بہت سے لوگ اسی خیال کے حامل ہیں۔

ڈینی سے ملاقات کی طرف واپس آتے ہیں۔پہلا سوال جو بے اختیار طور پر میں نے اس کے سامنے رکھا، یہ تھا کہ “ آپ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ کیا تھی۔ وہ کون سا واقعہ تھا جس نے آپ کو اس اہم تبدیلی کی طرف متوجہ کیا؟

سوال سن کر ڈینی نے اپنے بیٹھنے کےانداز میں تھوڑی سی تبدیل کی اور کہا: “  دو مناظر نے۔ ایک مسجد ہُدی کا انہدام اور اس کے ملبے کے اوپر نماز پڑھنے کا منظر۔ مجھے یہ منطر بڑا انوکھا سا محسوس ہوا۔ یہ کوئی ایسی منفرد بات نہیں تھی، لیکن یہ تمام لوگ اپنے گھروں اور مسجد کو ڈھا دیے جانے کے بعد اس کے ملبے پر نماز ادا کرنے آئے تھے۔

دوسرا، میں نے ایک فلسطینی کی ویڈیو کلپ دیکھی جس میں وہ خیمے کے اوپر سے گرنے والے پانی سے وضو کرر ہا تھا۔ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر اس میں خیمے کے اوپر سے گرنے والے پانی کو اکٹھا کرتا رہا اور اس طرح اس نے نماز کے لیے وضو مکمل کیا۔

اس منظر نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ اس ویڈیو کو دیکھنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ میری زندگی مصائب و مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ یہ وہ ویڈیو تھی جو میری روز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوئی تھی۔لیکن اس ویڈیو میں جس چیز کامیں نے مشاہدہ کیا اس نے مجھے ایک دردناک حقیقت سے روشناس کر ا دیا تھا، اور ویہ تھا کہ میں جن مصائب و مشکلات سے دوچار ہوں ان کا موازنہ ان مصائب سے نہیں کیا جا سکتا جو اس شخص کے ساتھ پیش ٓا رہے تھے، لیکن اسے جو بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں، ان سب کے باوجود ایسے وقت میں بھی وہ نماز کے لیے فکر مند تھا۔

بات جاری رکھتے ہوئے اس کی آنکھیں آشک آلود ہوگئیں: “  اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی مختلف چیز ہے جس کے بارےمیں مجھے تحقیق کرنی چاہیے۔”

میں نے پو چھا، کیا یہی قبولِ اسلام کی کہانی کا نقطۂ آغاز تھا، یا یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ لیا؟

اس نے جواب دیتے ہوئے کہا : یہ کہانی کا آغاز تو نہیں تھا، لیکن میں نے تبدیلی کی جس راہ کو اختیار کیا تھا اس کا اہم ترین موڑ ضرور تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کہانی کے واقعات کا سلسلہ /7 اکتوبر[2023] سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ان واقعات کے ساتھ میں کئی مراحل سے گزرا۔ آج تمام لوگ قتل عام کو اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہیں۔ اس فون نے کسی کے لیے بھی انکار کا موقع باقی نہیں رکھا ہے، نہ یہ گنجائش چھوڑی ہے کہ کوئی شخص اپنی عقل کو ذرائع ابلاغ یا اپنے آس پاس موجود سماج کا غلام بنا لے۔ بہت بھیانک مناظر ہیں۔ اس تمام عرصے میں اپنے اندر کڑھن اور شدید غصے کے احساس سے دوچار رہا ہوں۔

یکم نومبر کو، یعنی ابھی غزہ کے خلاف جنگ شروع ہوئے ایک ماہ مکمل نہیں ہوا تھا، میں موسیقی کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ گھر سے باہر نکلا تو راستے کے ایک جانب ایک فقیر ملا۔ خلاف معمول میں اسے نظر انداز کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکا۔ میں رکا اور بولا: یہ وحشت ناک سسٹم کب تک چلتا رہے گا۔ یہ نظام ہمیں ایسا بنا رہا کہ ہم اپنے سے مختلف لوگوں کی آزمائشوں اور تکلیفوں کو دیکھنے کے لیے لائق نہ رہیں۔ میں اس پروگرام میں نہیں گیا اور گھر واپس آگیا۔ زندگی جس طرح چل رہی ہے اس طرح اس کا چلنا محال ہے۔ ہمارے لیے ٹھہر کر یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے گرد وپیش میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔

اکتوبر کے اواخر سے ہی ڈینی نے فلسطین کے موضوع پر بہت سی کتابوں کامطالعہ شروع کر دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس قضیے سے واقف ہو جائے جس کے بارے میں اس کا احساس تھا کہ زیادہ تر لوگ اس سے ناواقف ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کے اندر مسئلہ فلسطین سے یہ ناواقفیت مسلسل چلی آ رہی ہے۔ ڈینی کہتا ہے: “ اس موضوع پر پہلی کتاب جس سے میں نے مطالعے کا آغاز کیا وہ ’ایلان پیپے‘ (Ilan Pappe) کی کتاب تھی۔ سال (2023) ختم ہونے تک میں نے اس موضوع پر 60 کتابو ں کا مطالعہ کر لیا تھا۔ حقیقت تک رسائی پانے کے لیے میں نے لکھنے پڑھنے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ میں نے جو کچھ پڑھا وہ چونکا دینے والا تھا۔ جس کذب بیانی کا ہمیں سامنا ہے وہ میرے لیے خوف ناک تھی۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ میری زندگی کے بیشتر زاویوں میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی تھی۔

ڈینی مزید کہتا ہے: 7 نومبر [2023] کو جب کہ میں ریاست کنساس کے ’پلازا ایریا‘ سے گزر رہا تھا، میری بیوی نے مجھے اشارہ کرکے اس جانب متوجہ کیا جہاں فلسطین کے حق میں مظاہرہ ہو رہا تھا۔ میں اس مظاہرے میں شریک تو نہیں ہوا، لیکن میرے ذہن میں ایک بیج پودے کی شکل اختیار کرنے لگا تھا۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد، یعنی 15 نومبر کو میں نے ایک پروگرام میں شرکت کی جسے (Goal Global)نام کی تنظیم نے منظم کیا تھا۔ یہ وہ تنظیم ہے جو مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بیداری لانے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔اس کےبعد میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر مسئلہ فلسطین سے متعلق اپنا ردعمل ظاہر کرنے لگا۔ اس چیز نے مجھے فلسطین کے ساتھ ہم آہنگی کی غرض سے پہلی بار ایک مظاہرے میں شرکت پر آمادہ کیا۔

گول گلوبل کے منتظمین سے تعلقات استوار کرتے وقت ڈینی کی نیت مسئلہ فلسطین سے اپنی ہم آہنگی ظاہر کرنا تھا۔ ڈینی کہتا ہے کہ اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے لیتے میں نے اسلام کے بارے میں سوالات کرنے شروع کیے تو لوگوں نے مجھے ڈاکٹر محمد عودہ کی طرف پلٹا دیا، جن کے ساتھ میں نے کلمۂ شہادت پڑھا تھا۔

“ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ میری زندگی میرے ہی سامنے بکھرتی جا رہی تھی، یا مجھے ایسا ہی نظر آ رہا تھا۔ کام کاج اور بیوی سے میری دل چسپی واپس لوٹ آئی، حالاں کہ میں بہت شراب پینے لگا تھا۔ اور شاید زندگی کے اسی بکھراؤ نے مجھے اس ایمان کو دیکھ لینے پر مجبور کیا جو مصیبت زدہ لوگوں کے اندر نظر آیا تھا۔”

ڈینی اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گویا ہوا: “ میں نے قرآن کو جب ہاتھ میں لیا تو میرے بہت سے امور واضح اور صاف ہو گئے۔ اس کتاب کے الفاظ انتہائی واضح اور راست اثر کرنے والے ہیں۔ اسی طرح قصہ عیسی علیہ السلام سے متعلق جو توضیحات و تفصیلات قرآن کے اندر آئی ہیں وہ میرے لیے حیران کن تھیں، اس لیے کہ ان توضیحات نے دو باتیں سامنے لا دی تھیں: ایک ان قرآنی توضیحات نے عیسی علیہ السلام کی نبوت پر زور دیا ہے اور دوسرے ان کی نبوت اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے متعلق تصورات و خیالات کو درست طریقے سے پیش کیا ہے۔”

ڈینی چند لمحے کے لیے رکا، جیسے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دے رہا ہو، پھر گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے بولا: “ قرآن میں آپ یہ نہیں سیکھتے کہ حقائق و واقعات کو کس طرح نظرانداز کیا جائے، بلکہ وہاں تو آپ کا ایمان ہی حقائق سے دل چسپی اور ان سے تعامل پر ابھارنے والا اصل محرک بن جاتا ہے۔آپ اپنے حق کا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں خواہ قوت و طاقت کا توازن آپ کے حق میں نہ ہو۔

میں نے انجیلی (اوینجیلیکل)چرچ میں یہ سیکھا تھا کہ میرے آس پاس جو بھی حقائق و واقعات ہیں میں انھیں نظر انداز کرتا جاؤ ں اور خود کو صرف ایمان سے وابستہ رکھوں۔”

لیکن اس صورت میں تو آپ معصوموں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے، اپنی ذات میں خود کو مقید کر لیں گے اور اتنا کہنے کو کافی سمجھیں گے کہ” میں حق پر ہوں”  ، خواہ اس کی معمولی سی دلیل بھی آپ کے پاس نہ ہو۔ چرچ میں میں نے یہ سیکھا تھا کہ اگر میرے راست اعمال کا منفی اثر ہو رہا ہے تو میں اسے کوئی اہمیت نہ دوں اورنہ خود کو احساس گناہ کا شکار ہونے دوں۔ میری نظر میں یہ چیز لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرنے کا مثالی نظام سمجھی جاتی ہے۔ڈینی کے چہرے پر جذبات کا عکس نظر آنے لگا تھا، اس نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا: “ ہم کہتے تھے کہ مسیح کو کس نے قتل کیا؟ اور جواب دیا جاتا تھا: یہودیوں نے۔ جب کہ ہم انھی کو خیرِمطلق سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملات انجام دے رہے ہیں، صرف پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لیے۔”

“ قرآن اس کا حکم نہیں دیتا ہے۔”   ڈینی نے کہا: “ بلکہ قرآن تو ایک واضح اخلاقی رہ نمائی رکھتا ہے۔ یہ اخلاقی رہ نمائی یکساں طور پر گروہ و افراد دونوں کے لیے ہے۔ فرد کی حیثیت سے ہم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمے دار ہے۔ “

گفتگو کے آخر میں ڈینی نے قرآن کو ہاتھ میں لیا جسے وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ یہ ایک انگریزی نسخہ تھا جو رنگ برنگے اسٹیکروں سے بھرا ہوا تھا۔ ان اسٹیکروں پر اس نے نوٹس لکھ رکھے تھے جو قرآن کے مطالعے کے دوران اس کے ذہن میں آتے تھے۔

آخر میں اس نے کہا: “ میری بیوی نے اسلام کے بارے میں مطالعہ شروع کر دیا ہے اور امید کرتا ہوں اللہ اسے بھی ہدایت سے نوازے گا۔”

مشمولہ: شمارہ اگست 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223