اس سے پہلے مضامین میں تصور ارتقا اور پیچیدگی پر تفصیلی بحث آ چکی ہے۔ کیا تصور ارتقا، جس پر انسانی نظریۂ ارتقا کی بنیاد ہے، موجودہ انسان کے اندر پیچیدگی کی وضاحت کر سکتا ہے؟ جدید ڈاروینیت کے قائلین اس کا جواب ’ہاں‘ میں دیتے ہیں۔ لیکن جینیاتی تحقیقات اور ارتقائی نفسیات اس ’ہاں‘ کو ضرورت سے زیادہ سادہ(oversimplified) دکھاتی ہیں۔
انسان میں مادہ اور روح کی ثنویت کے سلسلے میں جاری فلسفیانہ بحثوں کو جدید ڈاروینیت کے قائلین سرے سے خارج کرتے ہیں۔ وہ اخلاق، معاشرت اور تہذیب کو اضافی فٹنس سے تعبیر کرتے ہیں اور روحانیات اور روحانی تصورات کو بہتر بقا کی اسٹریٹجی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خود مذہب کو وہ اس لیے مانتے ہیں کہ بالعموم مذاہب ابتداءً اجتماعی فٹنس (group fitness) کو بہتر بنانے کے لیے ایجاد کیے گئے ہیں۔ جو بعد میں بین مذاہب گروہوں میں بقا کے خاطر وجہ نزاع بن گئے۔ یعنی مذاہب انسان کو بحیثیت نوع منظم اور منضبط کرتے ہیں۔ اور اس طرح بحیثیت نوع انسانی ارتقائی سفر جاری رہتا ہے۔ ڈاروینیت کے قائلین کے یہاں وحدانیت (monotheism) اور کثرت پرستی (polytheism) اور ان کے ارتقا پر بڑی دل چسپ بحثیں ملتی ہیں۔ بات محض یہیں نہیں رکتی بلکہ یہودیت اور متشدد (ultraright) یہودی رویوں تک پر تحقیقات ملتی ہیں ، بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ بھی موجود ہے۔۱
مختصر یہ کہ جدید ترین ارتقائی تصور انسان کو محض نظم کے فرق کے ساتھ دیکھتا ہے۔ (واضح رہے کہ تصور ارتقا نے بھی ارتقا کیا ہے۔ یعنی ڈارون کے ذریعے دیئے گئے تصور ارتقا میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ حالانکہ جدید ڈاروینیت کے قائلین اسے محض جزئیات (detailing) مانتے ہیں یعنی بنیادی تصور وہی ہے۔ لیکن یہی اک بڑا مسئلہ ہے، یہ محض جزئی یا نظم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بنیادی اور ہیئتی تبدیلیاں تصور ارتقا میں راہ پا چکی ہیں۔ لیکن جیسا کہ اس سے قبل لکھا جا چکا ہے کہ ان تبدیلیوں کو محض جزئی اور نظم کا فرق کہہ دیا جاتا ہے۔ )
لیکن کیا فی الواقع ایسا ہی ہے؟ کیا انسان دوسرے تمام جانداروں سے محض نظم کے فرق کے ساتھ دور ہے؟ کیا موجودہ انسان اپنے ’مورثین اعلی ‘سے محض ۲ فیصد ڈی این اے کے فرق کے ساتھ ’موجودہ انسان ‘ہے؟
کیا انسان کے لطیف ترین جذبات، احساسات اور خیالات محض سالماتی نیٹ ورک کے مرہونِ منت ہیں ؟ ان سوالات کے اثبات و نفی پر مباحث کے انبار موجود ہیں۔ لیکن بہت سے عام قسم کے مشاہدات ’نفی ‘ کی طرف پلڑا جھکا دیتے ہیں۔ مثلاً زبان (language) کو لے لیجیے۔ ڈاروینیت کے قائلین زبان کو محض نظم کا فرق مانتے ہیں۔ یعنی ابتدائی خلیات میں زبان (ابلاغ کا وسیلہ) کیمیائی ہے، درمیانی جانداروں میں غیر کیمیائی اور اعلیٰ جانداروں میں صوتی آوازوں اور اشاروں میں بتدریج ترقی پاتا ہوا انسان میں ایک خاص صورت میں ارتقا پذیر ہوا اور بین انسانی زبانوں کی ابتدا اور عروج اضافی فٹنس کے ماڈل پر ہوا۔
لیکن کیا ایسا ہی ہوا؟ موجودہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ تمام زبانوں کے گرامر (universal grammer) انسانی دماغ میں جبلی طور پر موجود (hardwired) ہیں۔ جسے قواعد کی ساخت (grammatical structure) کا تصور کہا جاتا ہے جو ایک جرمن فلسفی و ماہر لسانیات ہمبولٹ (Humboldt) نے پیش کیا تھا، تاہم اس کی توضیح و تشریح اور اسے ایک نظریے کے طور پر پیش کرنے کا سہرا امریکی ماہر لسانیات نوم چومسکی (Noam Chomsky) کے سر ہے۔۲
جدید تحقیق تو گرامر کے ’جین‘بھی تلاش رہی ہیں ، ۳تا کہ ارتقائی تصور لسانیات کو مضبوط کیا جا سکے۔ لیکن تادم تحریر اس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ بلکہ انسانی زبان کے سلسلے میں تحقیقات کسی دوسری ہی سمت میں اشارہ کر رہی ہیں۔ بعید نہیں کہ ان تحقیقات سے’خلق الانسان علمہ البیان ‘ اور سمع، بصر، فواد کے اسلامی تخلیقی نظریے کی توجیہ و تشریح ہو جائے!
اگرچہ زبان تمام ابتدائی جانداروں سے لے کر حیات کے اعلیٰ ترین مظاہرین میں یکساں ہے، البتہ یہ محض نظم کا فرق نہیں ہے۔ یہ محض جزئیات کا فرق نہیں ہے۔ زبان موجودہ انسان کی سب سے جداگانہ خاصیت ہے۔ یہ محض ابلاغی وسیلہ نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی شے ہے۔ دنیا کے تمام گرامر کا جبلی (hardwired) ہونا کون سی اضافی فٹنس فراہم کرتا ہے؟ جب کہ فطری انتخاب کے تصور کی رو سے مختلف طبعی ماحول میں ابلاغ کے مختلف شبکہ جات وجود میں آ سکتے ہیں۔ پھر گرامر کی جبلیت چہ معنی دارد؟
اسی طرح موجودہ انسان کی تمام تر تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی قدروں کا معاملہ ہے۔ یہ محض نظم اور جزئیات کے تصور سے وضاحت نہیں پا سکتیں۔ ماں کی ممتا کو محض ایک ہارمون (oxytocin) کے کم یا زیادہ رساو سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ باپ کی شفقت کے ہزاروں مظاہر محض اضافی فٹنس کے ماڈل سے نہیں سمجھائے جا سکتے۔ اخلاق کے اجتماعی مظاہر کی توجیہ محض حیاتیاتی ایثار پسندی (biological altruism) سے نہیں کی جا سکتی۔ یہ لایعنی تسہیل (oversimplification) کے زمرے میں آ جائے گا جس سے توجیہ خبط ہوجائے گی۔
خود ڈارون نے ایک ایسی شے کو تسلیم کیا تھا جو اس کے نزدیک خالصتاً انسانی ہے اور وہ ہے شرم یا جھینپ سے چہرے کا تمتما اٹھنا (blush) ۴۔ شرمانا یا جھینپنا ایک عام انسانی رویہ ہے، اور یہ کسی دوسرے جاندار میں نہیں پایا جاتا۔ ڈاروینیت کے قائلین اسے مستثنیات سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض اس کی جزئیات کے منتظر ہیں۔
اس طرح مستقبل کی فکر اور ذخیرہ اندوزی کو بھی محض حیوانی جبلیات نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حالاں کہ اس کی ڈاروینی توجیہات موجود ہیں ، لیکن وہ لایعنی تسہیل ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ انسانی عقل و شعور کے تمام مظاہر کی توجیہ و تشریح کے لیے ارتقائی نفسیات کی ایک پوری سائنس وجود میں آ چکی ہے۔ یہ سماجی حیاتیات (social biology) سے کئی زاویوں سے مختلف ہے۔ لیکن ارتقائی نفسیات میں غیر معمولی چیلنج درپیش ہیں۔
مثلاً ارتقائی نفسیات رحم دلی کی توجیہ تو کسی حد تک کر سکتی ہے لیکن بے رحمی، سفاکی اور درندگی کی توجیہ نہیں کر پاتی۔ بے رحمی، سفاکی اور درندگی کس قسم کا انتخابی فائدہ (selective advantage) دیتی ہے؟ اسی طرح تمام منفی رجحانات ہیں۔ ان منفی رجحانات کی ارتقائی توجیہ کیا ہے۔ مثلاً حسد۔ حسد کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم جس کا تذکرہ ارتقائی نفسیات کے حوالے سے دل چسپ ہوگا، وہ چوہوں سے مشابہ جانور voles [وول یا موشِ چراگاہ] میں جنسی حسد سے متعلق ہے۔ ان جانداروں میں اگر کسی نر وول کا ایک بار کسی مادہ سے جنسی تعلق قائم ہوجائے تو وہ کسی دوسرے نر وول کے ذریعے اس مادہ کی جانب پیش قدمی سے جارح ہوجاتے ہیں۔ تاہم اگر وول میں موجود ویسو پریسن (vasopressin) نامی ہارمون کے سگنل کو ختم کر دیا جائے تو حسد کا یہ جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۵۔ تو کیا انسانی حسد پر ویسو پریسن کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ جواب میں خاموشی ہے، کیوں کہ انسان میں حسد کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جنسی حسد ان میں سے ایک ہے۔ ایک توجیہ انسانی حسد کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے مسابقتی عمل میں تیزی آتی ہے۔ لیکن حاسدوں میں یہ ہر بارعمل کا محرک نہیں بنتا۔ یہ بات انسانی رویوں میں ثابت ہو چکی ہے کہ حسد عام طور پر مثبت عمل کے لیے مہمیز نہیں کرتا، بلکہ منفی رجحانات کے لیے غیر معمولی داعیہ پیدا کرتا ہے۔ تو کیا وول کے جنسی حسد اور انسانی حسد کی متعدد اقسام میں محض نظم کا فرق ہے؟ محض جزئیات کا فرق ہے؟ محض ابلاغی مادے کا فرق ہے؟ جواب ہے نہیں ‘۔ کیا حسد اور دیگر تمام مثبت و منفی داعیات، احساسات اور رجحانات بھی جبلی ہیں اور جینیاتی طور پر داخلِ فطرت ہیں ؟ یا یہ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا کا مظہر ہیں ؟ یا وَهَدَینَاهُ النَّجْدَینِ کا عملی مظہر ہیں۔ یا إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا کی سمت اشارہ کرتےہیں ؟ یا ان میں سے کچھ ارتقائی ہیں کچھ جبلی ہیں اور داخلِ فطرت ہیں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سوچنے اور سمجھنے کے نئے رخ متعین کرتے ہیں۔
اسی طرح تشدد، خودکشی اور قتل و غارت گری کے رجحانات ہیں جن کی تشریح اور توجیہ شمولی فٹنس (inclusive fitness) اور توازن کے ماڈل سے نہیں کی جا سکتی ہے۔ ( شمولی فٹنس کے ماڈل کے ذریعے سماج میں اپنے ہم نوع و غیر ہم نوع جانداروں سے محبت، اخوت، ہم دردی اور مؤدت جیسے جذبات کی ارتقائی توجیہ کی جاتی ہے۔ )
یہ رجحانات ہم نوع جانداروں کی معدومی کا باعث بنتے ہیں ، نوع کے جینی پول (gene pool) کو محدود کرتے ہیں اور یوں نوع کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ تشدد اور غارت گری کے جتنے ماڈل چمپنزیوں اور دیگر جانداروں پر تجربات کی بنیاد پر وضع کیے گئے ہیں (تفصیلات کے لیے دیکھیے ۶)، یا تو وہ بہت ابتدائی نوعیت کے ہیں یا محض نر و مادہ کے ملاپ اور غذا کے diabolic frame میں قید ہیں۔ یہ سمجھنا کہ تشدد اور غارت گری محض ارتقائی نظم کے اعلیٰ قسم کے مقاصد کے پردے میں مستور ہو گئے، ایک مغالطہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ارتقائی نفسیات اور ’موجودہ انسان‘ کے چیلنجوں میں ایک اہم ترین جہت ادراک (cognition) اور شعور (consciousness) کی ہے۔ ادراک و شعور کی بحثوں کے دو رخ اہم ہیں : پہلا فلسفیانہ اور دوسرا نامیاتی (organic)۔ فلسفیانہ رخ میں نفسیات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
کیا انسانی ادراک و شعور ابتدائی ادراک و شعور کی ترقی یافتہ شکل ہے؟ ادراکی سائنس میں ہونے والے حیران کن انکشافات کے باوجود اس سوال کا جواب اب بھی گنجلک ہے۔ حالاں کہ سرسری طور پر عمومی انداز میں ڈارونیی نقطۂ نظر کے قائلین اس بات کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ ادراک کے ابتدائی ماڈل فطری انتخاب کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہیں اور اسی لیے ابتدائی ادراکات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ مثلاً جانوروں میں خطروں کا ادراک، شکاری پرندے اور شکار کے ادراکات، بیکٹیریا میں غذا کی موجودگی کا ادراک وغیرہ۔ لیکن کیا اعلیٰ سطحی ادراکیت (high-level cognitivity) بھی فطری انتخاب کے ذریعے وجود میں آ سکتی ہے؟
ہمارے نزدیک انسانی شعور و ادراک کمیتی اور کیفیتی دونوں اعتبار سے ابتدائی شعور و ادراک سے جدا ہیں۔ اس کا اعتراف اب کیا جانے لگا ہے۔ پچھلی دہائی میں اس طرح کی تحقیقات آنا شروع ہو چکی ہیں۔ مثلاً ٹیٹرسیل (Ian Tattersall) جو خود نظریہ ارتقا کے قائل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ماہرِ رکازی بشریات (paleoanthropologist) ہیں ، اور اس میدان کے چوٹی کے ماہرین میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اس موضوع پر متعدد شہرہ آفاق کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے:
Human beings are distinguished from all other organisms by their symbolic way of processing information about the world. This unique cognitive style is qualitatively different from all the earlier hominid cognitive styles, and is not simply an improved version of them.
انسان دنیا کے بارے میں علامتی انداز میں معلومات کو پراسیس کرنے کے حوالے سے تمام جانداروں میں ممتاز ہے۔ اس کا یہ منفرد ادراکی اسلوب ماقبل کے تمام انسان نما جانداروں کے ادراکی اسالیب سے کیفیت کے اعتبار سے جداگانہ ہے اور بلاشبہ یہ ان جانداروں کے اسالیب کی ترقی یافتہ شکل نہیں ہے۔ (۷)
ایک سنجیدہ، نامور محقق کی یہ واضح رائے شعور و ادراک کی جہت میں ارتقائی تصور پر نہ صرف سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے بلکہ اسے یکسر خارج کرتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹیٹرسیل ارتقا کے مخالف نہیں ہیں ، لیکن شعور و ادراک کے سلسلے میں ان کی رائے اہل علم میں مقبول و معروف ہے۔
اسی طرح ارتقائی نفسیات کی ایک اور عبقری شخصیت جاک پنکسیپ (Jaak Panksepp) نے اپنے شہرہ آفاق مقالے’ارتقائی نفسیات کے سات گناہ ‘میں ارتقائی نفسیات کی سات خامیاں یا گناہ گنوائے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے ان گناہوں کا’کفارہ ‘بھی درج کیا ہے لیکن ان ‘گناہوں ‘ یا خامیوں کا محض تذکرہ چغلی کھاتا ہے کہ ارتقائی نفسیات کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
قارئین کی آسانی کے لیے یہاں پینکسیپ کے بیان کردہ محض تین گناہوں کا عنوان دیا جا رہا ہے۔ ان میں سے بھی صرف تیسرے نکتے پر سرسری وضاحت کی جا رہی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے مقالے کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ۸
ارتقائی نفسیات کی تخلیقی زیادتیاں (the creative excesses of evolutionary psychology)
انسانی دماغ میں لسانی قشر کی شکل پذیری (the plasticity of language cortex in human brain)
نیورو فاؤنڈیشنل مسائل – دماغ/ذہن کا ارتقا (neuro–foundational issues— the evolution of the brain/mind)
اس باب میں انسانی ارتقا کے تناظر میں ہونے والی اہم ترین بحثوں کا خلاصہ ہے۔ انسانی دماغ کے سلسلے میں پچھلے مضمون میں چند بنیادی باتوں کا تذکرہ آچکا ہے۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ دماغ کے طبی ارتقا پر تو واضح مواد موجود ہے، اس پر پورے پورے نظریات موجود ہیں ، تقابلی مطالعات ہیں کہ کس طرح دماغ کے حجم اور داخلی دماغی سلوٹوں کا ارتقا ہوا وغیرہ۔ ان امور کو طبی جہات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ البتہ دماغ کے استعمال، شعور و ادراک، دماغ کی ابلاغی جہت، دماغی خلیات اور ان کا تعامل اور شعور و ادراک کی طبعی توجیہ بالکل نہیں ہو پا رہی ہے۔
مثلاً کیا خیالات محض الیکٹران کا بہاؤ ہیں ؟ کیا ایک بلین نیوران کا مکمل استعمال ہوتا ہے؟ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ انسان اپنے دماغ کا ۱۰ فیصد سے کم حصہ استعمال کرتا ہے، جبکہ ڈالفن مچھلی اپنے دماغ کا ۷۰ فیصد حصہ استعمال کرتی ہے۔ لیکن ڈالفن ستاروں پر کمند ڈالنے کا منصوبہ نہیں بناتی، ایٹم بم نہیں بناتی، جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے امر ہو جانے کی آرزو مند نہیں ، اور نہ ہی یہ مصنوعی قحط پیدا کرنے کے کامیاب تجربے کرتی ہے!
نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب شعور و ادراک اور’حقیقت‘ اور’بصری حقیقت‘ تک کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ مثلاً اب تک یہ مانا جاتا تھا کہ ہم جو بھی دیکھتے ہیں وہ بصری مہیجات (visual stimuli) دماغ کے مخصوص حصوں میں پراسیس ہوتے ہیں اور اس کے بعد ہر قسم کے رد عمل رو نما ہوتے ہیں۔ یعنی نیورانوں کی کیمیائی تبدیلیاں جو مخصوص کیمیائی مادوں کی مرہون منت ہیں —عمل رد عمل، خیالات، احساسات، جذبے، قدریں غرض ہر شے اسی قسم کے سادہ عمل کے ذریعے وجود میں آتی ہیں۔
اگرچہ مشکل ادراکی سوالات (hard problems of consciousness) کا تصور نوے کے دہے سے معروف ہے (نفسیات اور شعور و ادراک کی دنیا میں یہ معروف اصطلاح ہے۔ اس کے مطابق بہت سے ایسے ادراک ہیں جنھیں سائنسی بنیادوں پر آسانی سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے، انھیں آسان سوالات، easy problems، کہا جاتا ہے، جبکہ سائنسی بنیادوں پر جن مسائل کو پرکھنا آسان نہیں انھیں مشکل سوالات، hard problems، کہا جاتا ہے۔ تاہم ڈونالڈ ہوفمین (Donald D Hoffman) نامی ایک غیر معمولی عبقری سائنس دان نے تصور ارتقا اور شعور و ادراک کو یکسر ایک نئی جہت سے روشناس کروایا ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں انھوں نے فطری انتخاب اور تصور ارتقا کی معروف پیچیدگی کے اصول پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ میں ان کی کتاب’حقیقت کے خلاف مقدمہ ‘ (The Case Against Reality) سے ادراکی سائنس کے حلقوں میں کہرام مچ گیا تھا۔ ۹ ان کے ٹیڈ ٹاک اور ویڈیوکے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
مندرجہ ذیل دو سادہ مثالوں کےذریعے وہ ثابت کرتے ہیں کہ جانداروں میں فطری انتخاب کے ذریعے شعور و ادراک کی ابتدائی منزلوں کا طے پانا بھی مشکل ہے۔ اس کے لیے وہ آسٹریلیا میں پائے جانے والے کیڑے بیٹل (beetle) کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ کیڑے چمک دار چکنی جلد والے ہوتے ہیں۔ نر اڑ سکتے ہیں ، جب کہ مادائیں نہیں اڑتیں۔ نر کیڑے ماداوں کو تلاش کرتے ہیں ، ان سے مباشرت کرتے ہیں اور اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کی عنبررنگ بوتل میں بیئر فروخت ہونے لگتی ہے۔ لوگ اس بیئر کا استعمال کرتے ہیں اور کیمپنگ کے دوران یا دیگر ذرائع سے یہ خالی بیئر کی بوتلیں جنگلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ بیئر کی یہ بوتل بالکل مادہ بیٹل کیڑے کی پشت کی طرح نظر آتی ہے۔ چنانچہ نر کیڑے بوتل کو ہی مادہ سمجھ کر مباشرت کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کنفیوژن کا نتیجہ یہ نکلا بیٹل کی آبادی معدومی کی حد تک کم ہوگئی۔ جب آسٹریلیائی حکومت نے اس کے اسباب کا تجزیہ کیا تو اس نے بیئر کی بوتل کا رنگ اور ڈیزائن تبدیل کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کیڑے ابتدائی جانداروں میں سے ہیں ، اس لیے ان میں ادراک و شعور بالکل ابتدائی درجے کا ہوگا۔ لیکن پستانیوں (mammals) میں بےجان پتلوں سے مباشرت کی کوشش کے منظر عام ہیں۔ ہمارے آس پاس دودھ دینے والی بھینسوں کے پاس بھینس کے بچے کی کھال میں بھس بھر کر اسے دودھ دینے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
تو کیا فطری انتخاب ہمیں حقیقت کو ویسا ہی دکھاتا ہے جیسی کہ وہ ہے؟ جواب ہے’نہیں ‘۔ یہاں سے ہوفمین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فطری انتخاب کےذریعے حقیقت کو جس طرح دکھایا جاتا ہے وہی در اصل ہمیں بقا کا فائدہ دیتا ہے، اور وہ اس کی دلیلیں بھی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر فطری انتخاب حقیقت کو ویسا نہیں دکھاتا تو پھر حقیقت کیا ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں حقیقت کی ’حقیقت ‘کیا ہے؟
کیا یہ وہی’غرّہ‘ہے جس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کیا فطری انتخاب کے اصول میں اتنی لچک کی گنجائش ہے کہ وہ اس کے بنیادی کلیے ہی کی نفی کر دے۔ سچ تو یہ ہے کہ تصور ارتقا کے ماہرین ارتقائی فریم سے باہر دیکھنے کے روادار نہیں۔ ورنہ ہوفمین کے ذریعے دیئےگئے نئے زاویے جو شعور و ادراک کی پیچیدگی اور اس کے وجود سے بحث کرتے ہیں ، کم از کم انسانی شعور و ادراک کی اتنی سادہ توجیہ پر مطمئن نہ ہو جاتے۔ کم از کم وہ اس بات کو تسلیم کرسکتے تھے کہ موجودہ انسانی سطح کا شعور و ادراک محض فطری انتخاب کا شاخسانہ نہیں ہے۔ (جاری)
حوالہ جات
- Judaism as a Group Evolutionary Strategy : A Critical Analysis of Kevin MacDonald’s Theory. Cofnas N . Hum Nat. 2018 Jun;29(2):134-156. doi: 10.1007/s12110-018-9310-x.
- https://www.simplypsychology.org/language.html retrieved 2/03/2020
- “The language instinct “by Steven pinker William Morrow and Company Now Harper Collins, USA
- Black J. Darwin in the world of emotions. J R Soc Med. 2002;95(6):311–313. doi:10.1258/jrsm.95.6.311
- The Oxytocin-Vasopressin Pathway in the Context of Love and Fear. Carter CS ; Front Endocrinol (Lausanne). 2017 Dec 22;8:356. doi: 10.3389/fendo.2017.00356. eCollection 2017.
- Evolutionary perspectives on human aggression: introduction to the special issue. Cashdan E, Downes SM. ; Hum Nat. 2012 Mar;23(1):1-4. doi: 10.1007/s12110-012-9133-0.
- Tattersall, Ian. (2010). Human evolution and cognition. Theory in biosciences = Theorie in den Biowissenschaften. 129. 193-201. 10.1007/s12064-010-0093-9.
- http://www.flyfishingdevon.co.uk/salmon/year3/psy364criticisms-evolutionary-psychology/panksepp_seven_sins.pdf
- Hoffman, Donald D. Case Against Reality: How Evolution Hid the Truth from Our Eyes. Penguin Books, 2020.
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020