بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ ایمانداری اور محنت سے کام کروگے تو کام یابی ملے گی۔ لیکن بچہ بڑا ہوکر جب یہ دیکھتا ہے کہ شرافت اور ایمانداری دھیرے دھیرے کھسک رہی ہیں، اس کے برعکس انسان جب بے ایمانی اور مکاری کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہے تو زندگی سرپٹ دوڑنے لگتی ہے، تو وہ مدتوں یہ نہیں سمجھ پاتا کہ سچ وہ تھا جو اس کے والدین نے اسے سکھایا تھا اور دین کی کتابوں میں اس نے پڑھا تھا یا پھر سچ یہ ہے جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے ۔وہ بچے جنھیں نیکی اور بھلائی کے مقابلے میں ، موقع سے فائدہ اٹھانا سکھایا جاتا ہے ،ترقی کرتے ہیں اور کامیاب کہلاتے ہیں۔ جو بچے زندگی کے اس اہم نکتے کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں وہ عام انسانوں کی بھیڑ میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس بات کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ بدکردار لوگ ترقی کر رہے ہیں اور معاشرہ بھی انھیں عزت دے رہا ہے تو کچھ لوگ نیکی اور بھلائی کی طرف سے مایوس ہونے لگتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ہماری سوچ میں ہی کہیں خرابی ہے۔ دنیا میں جینا ہے تو تھوڑی بہت دنیاداری بھی کرنی چاہیے اور آگے چل کر یہ تھوڑی بہت دنیاداری انسان کو اس مقام پر لے جاکرچھوڑتی ہے،جہاں انسان حرام و حلال سے کافی حد تک بے نیاز ہوچکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کون سا ہے؟ شرافت کا وہ طریقہ جو بگاڑ کے خلاف مزاحمت کرنا سکھاتا ہے یا پھر وہ طریقہ جو زمانے کے ساتھ چلنے کی بات کرتا ہے۔
کام یابی کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے،جس کے مختلف جواب ہوسکتے ہیں۔ ایک شخص دو وقت کی روٹی اور اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے پریشان ہے۔ اس کی یہ ضرورت پوری ہوجائے اس کی یہی کامیابی ہے۔ ایک شخص وہ ہے جس کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں وہ معاشرے میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ منتری اورمکھیہ منتری بن جاتے ہیں تو وہ وقت کا فرعون بننے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کرنل ناصر، انور سادات اور حسنی مبارک جیسے لوگ اسی ذہن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن اسلام زندگی کا مقصد اور زندگی گزارنے کا ایک الگ ہی طریقہ بتاتا ہے اور اسی کے مطابق کامیابی کا مفہوم متعین کرتا ہے۔
خدا نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے۔ یہ پوری کائنات اس کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ کائنات کی جن بلندیوں تک انسان پہنچنا چاہتا ہے، اس کی صرف اجازت ہی نہیں دی گئی ہے، بل کہ اس مقصد کے حصول کے لیے جن وسائل و ذرائع کی ضرورت تھی وہ بھی اسے فراہم کیے گئے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اور اس کی وہ عقل جس کے ذریعے وہ اس کائنات پر فتح حاصل کرتے چلے جارہے ہیں، یہ سب خدا تعالیٰ کے دیے ہوئے انعامات ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کے دیے ہوئے ان انعامات کی قدر کرے اور قدر کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی ہر قوت کو اسی کے حکم کے مطابق استعمال کیا جائے۔ کسی بھی انسان کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا میں صرف وہی ایک انسان نہیں ہے، بل کہ خدا تعالیٰ کے دوسرے بندے اور اس کی دوسری مخلوقات بھی اسی دنیا میں رہتی ہیں، ان کی بھی کچھ ضروریات اور ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ اس طرح کامیابی کا ایک الگ ہی مفہوم ہوتا ہے۔ اب کامیابی یہ نہیں ہے کہ انسان نے کتنی دولت کمائی ہے اور کتنی ترقی کی ہے بل کہ کامیاب وہ لوگ کہلائیں گے جو خدا کی دی ہوئی قوت اور اس کے انعامات کی قدر کرتے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت اور قوت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی اس خواہش کو قابو میں رکھتے ہیں اور کچھ لوگوں کی خواہشوں کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی۔ یہ لوگ کسی بھی طریقے سے دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دولت کمانا ہی اگرہماری زندگی کا مقصد بن جائے تو تمام تر کامیابیوں کے باوجود، کیا ایسے کسی شخص کو کامیاب انسان کہاجائے گا۔ دولت ہم کس لیے حاصل کرناچاہتے ہیں؟اسی لئے ناکہ عزت و سکون کی زندگی گزار سکیں۔ دولت کی فراوانی ہے لیکن نہ سکون ہے اور نہ عزت تو اسے کامیابی کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ سامنے کی بات ہے جو شخص حرام کی دولت کماتا ہے سب سے پہلے اپنے انھی گھر والوں کی نظروں سے اس کا احترام ختم ہوجاتا ہے، جن کے لیے اس نے وہ دولت کمائی تھی۔ دولت بھی عزت و سکون اسی وقت دیتی ہے جب وہ جائز طریقے پر حاصل کی جائے اور جائز طریقے پر خرچ کی جائے۔ ورنہ حرام کی دولت جیسے جیسے بڑھتی ہے اسی اعتبار سے عزت وسکون بھی غائب ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی کا مشاہدہ ہے۔ ہمارے آس پاس بہت لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگیاںاس کا کھلا ثبوت ہوتی ہیں۔ صرف دیکھنے، پرکھنے اور محسوس کرنے والا قلب ہونا چاہیے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ دوسروں کی دولت تو اسے نظر آتی ہے لیکن اس کی پریشانیوں کو وہ محسوس نہیں کرپاتا۔ اسی طرح خود اس کے پاس خدا کی دی ہوئی جو نعمتیں ہوتی ہیں ان کی وہ قدر نہیں کرپاتا۔ خدا نے آپ کو جو کچھ دیا ہے، اس کی قدر کرنا اگر آپ نہیں جانتے تو دنیا کی کوئی دولت اور قوت آپ کو سکون نہیں دے سکتی اور سب کچھ ہونے کے باوجود، آپ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس آپ خدا تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرناجانتے ہیں تو تھوڑے میں بھی عزت وسکون کی ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔
جہاں تک مسلمان قوم کی کامیابی کا تعلق ہے ، اس کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ دین ہو یا دنیا، کسی بھی اعتبار سے اس کے یہاں یکسوئی نہیں پا ئی جاتی۔ قوم ہو یا فرد، کامیابی کا امکان اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کام کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ کوشش ہے لیکن مقصد واضح نہیں ہے، مقصد کا شعور ہے لیکن یکسوئی نہیں ہے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی دوسری قوم کو کسی میدان میں کامیاب دیکھتے ہیں تو اسی طرف چلنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کامیابی کا یہی بہترین طریقہ ہے، لیکن اپنے عقائد و نظریات سے بھی پوری طرح آزاد نہیں ہوپاتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ جب ہمارا مقابلہ ہوتا ہے تو اس مقابلے میں ہم پچھڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے لیتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر قوم کی ترقی اور زوال میں اس کے اپنے عقائد و نظریات کا بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ مسلمان اور دوسری قوموں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ موجودہ زندگی ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے، لیکن ہمارے لیے، دنیا کی یہ موجودہ زندگی منزل کی راہ میں پڑنے والا صرف ایک پڑائو ہے۔ زندگی سے متعلق اس بنیادی فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ دوسروں کے نقش قدم پر چل کر ہم کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں؟ دوسرے ہر وہ کام کریں گے ، اپنی کامیابی کے لیے جن کی انہیں ضرورت ہوگی۔ بے شک کامیابی ہمیں بھی بہت عزیز ہے۔ لیکن اس کامیابی کے حصول کا ہمارا طریقہ دوسروں سے مختلف ہوگا۔ ہمارے لیے کچھ حدود اور پابندیاں ہوتی ہیں، جن سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے۔ یہودی قوم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ معاشی اعتبار سے دنیا کی مالدار ترین قوم مانی جاتی ہے۔ آپ اسے ایک ذہین قوم کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس کی دولت اور ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ ایک زر پرست قوم ہے۔ اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اسی کام میں صرف کرتی ہے۔ مقصد کا صحیح شعور، اس کے لیے جدوجہداور یکسوئی، تینوں شرائط پوری کرتی ہے اس لیے وہ کامیاب ہے۔
اس دنیا کے تعلق سے خدا کا بنایا ہوا قانون یہی ہے کہ دنیا کا نظام اگر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا جو خود جھوٹے، مکار، خود غرض اور بدکردار ہوں تو اسی طرح کے بدکردار لوگوں کی کامیابی کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ نیک اور بھلے لوگوں کے لیے طرح طرح کی مشکلات اور مکار لوگوں کے لیے آسانیاں ہوں گی۔ یہودی قوم کے مزاج و کردار کے اعتبار سے حالات اس کے لیے پوری طرح سازگار ہیں۔ آپ بھی اگر صرف یہی چاہتے ہیں تو حالات کا فائدہ اٹھائیے، آپ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے اسلام کی تمام پابندیوں سے پوری طرح آزاد ہونا ہو گا۔ لیکن آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو بحیثیت مسلمان، پہلے یہ طے کیجیے کہ آپ کی منزل کونسی ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ کونسا ہے؟ ہماری بنیادی پریشانی یہی ہے کہ ہم ایک تصویر بناتے ہیں، اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس درمیان ہمیں لگتا ہے کہ دوسروں کی تصویر ہم سے زیادہ خوبصورت ہے تو ہم بھی اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔ بناتے رہیے تصویروں پر تصویریں، آپ کی تصویر کبھی مکمل نہیں ہوگی۔آپ کی زندگی کی تصویر اگر وہی ہے جوقرآن حکیم نے بنائی ہے تو اسے غور سے دیکھیے، سمجھنے کی کوشش کیجیے اور پھر پورے اعتماد و یقین کے ساتھ اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کیجیے۔ ان شائ اللہ دنیا بھی ملے گی اور آخرت بھی۔
موت کے لیے ’’انتقال ہونا‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں یعنی انسان کی روح جسم سے الگ ہوکر، جب عالم برزخ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے تو اسے موت یا پھر انتقال ہونا کہاجاتا ہے۔ مرنے کے بعد انسانی جسم مٹی میں مل کر گل سڑ جاتا ہے اور اس کے اجزائ منتشر ہوکر مٹی میں مل جاتے ہیں اور ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس دنیا سے انسان کا وجود ختم ہوجاتا ہے ۔ اس لیے موت کے لیے ’’فنا ہوجانا‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ صرف اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ سواے خدا کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ ورنہ موت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست ونابود ہوجاتا ہے۔ روح اگر عالم برزخ میں موجود ہوتی ہے تو جسم کے اجزائ بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں۔ آخرت میں خدا تعالیٰ صرف اتنا کرے گا کہ انسانی جسم کے تمام اجزائ جہاں اور جس شکل میں بھی موجود ہوں گے انھیں اکٹھا کیا جائے گا اور دوبارہ جسم کی شکل دے کر اس کی روح اس میں داخل کردی جائے گی۔ اس طرح انسانی زندگی کا ایک نیا آغاز ہوگا، جہاں اسے اپنی دنیا کی زندگی کا حساب کتاب دینا ہوگا اور اسی کے اعتبار سے سزا اور جزائ دی جائے گی۔
غور کیجیے، موت جسے عموماً انسان کا خاتمہ سمجھ لیاجاتا ہے وہ صرف موجودہ زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے۔فنا بمعنی عدم یا نیست ونابود ہوجانا اس معنی میں انسان کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ آخرت کے حساب کتاب کے بعد اسے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی عطا کردی جائے گی۔ جب معلوم ہوچکاکہ صرف موجودہ زندگی کانام ہی زندگی نہیں ہے، بل کہ یہ ہماری زندگی کا صرف ایک مرحلہ ہے۔ موجودہ زندگی ، عالم برزخ اور اس کے بعد آخرت، یہ سب ایک ہی زندگی کے مختلف مراحل ہیں تو کامیابی کا صحیح مفہوم بھی یہی ہوگا کہ جو شخص بحیثیت مجموعی ، اپنی زندگی میں کامیاب رہتا ہے وہی کامیاب کہلائے گا۔ ہماری زندگی کا سب سے اہم اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا مرحلہ آخرت کا مرحلہ ہوگا۔ اس لیے حقیقی معنی میں کامیاب وہی شخص کہلائے گا جو آخرت کی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ تمام افراد جو آخرت میں ناکام رہتے ہیں، اس دنیا کی زندگی میں انھوں نے خواہ کتنا ہی عروج حاصل کیا ہو، ناکام ہی کہلائیں گے۔ اسی بات کو قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:
’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹپ ٹاپ ہے اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشتکار خوش ہوگئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے ۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔ ﴿سورۂ الحدید: ۲۰-۲۱﴾‘‘
مشمولہ: شمارہ مئی 2011