عہد اموی کا ملکی نظام

خلافت راشدہ کے بعد زمام خلافت بنی امیہ کے ہاتھ میں آگئی ان کا غلبہ جزیرہ عرب  پر قائم ہوگیا۔  امیر معاویہؓ(مدت حکومت ۴۰ھ تا ۶۰ھ) نے ابتدائی سیاسی نظام کاخاکہ بنایا اس میں بنیادی چیز یہ تھی کہ خلیفہ مستقل شخصیت رکھتا ہے گزشتہ روایات کاوہ حد سے زیادہ پابند نہیں ہوسکتا، مصلحت وقت کے ساتھ حکومتی پالیسی بدلتی رہنی چاہیے اسےسابقہ روایات کو اسی حد تک اختیار کرنا چاہیے جس حد تک وقت کی مصلحتیں اجازت دیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ امیر معاویہؓ کی حکمرانی نے خلافت راشدہ کےسیاسی نظام کی جگہ لے لی جس کی بنیاد شوریٰ کےاصول پر قائم تھی۔  ۱؎

حفاظتی نظم

حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں خلیفہ کی حفاظت کے لیے پولیس کانظم تھا، اس سے پہلے خلفاء کی حفاظت کاکوئی خاص بندوبست نہیں ہوتا تھاحضرت علی کے الم انگیز حادثہ شہادت سے متاثر ہوکر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے حضرت معاویہ ؓ نے مخصوص حجرہ تعمیر کرایا تھا اور وہاں نماز پڑھتے تھے جب مسجد میںجاتے تو محافظ تلواریں لیے کھڑے رہتے۔ امیر معاویہؓ کی یہ سیاسی پالیسی ان کی غیر معمولی سیاست دانی کانتیجہ تھی، وہ شامیوں کی ذہنیت اور ان کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ شامی روم وفارس جیسی متمدن حکومتوں کے محکوم رہ چکے ہیں۔ یہاں حضرت عمرؓ وابوبکرؓ کی سادہ اور درویشانہ سیاست سود مند ثابت نہ ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں خلافت موروثی ہوگئی تھی آپ کی نظر میں مسلمانوں کی پراگندگی کی  بڑی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ اپنے جانشین کافیصلہ اپنی زندگی میں نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد باہم تنازعہ بڑھ جاتا تھا اورمسلمانوں کی وحدت پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتی تھی۔ اس خیال سے آپ نے اس کا فیصلہ اپنی زندگی ہی میں کردیا اور اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کردیا تھا۔ ۲؎  بنی امیہ کی حکومت جب موروثی شکل میں قائم ہوگئی تو انہیں اپنی سیا سی پالیسیاں برو ئے کار لانے کے لیے مشیروں کی ضرورت پڑی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے چند ارباب فہم ودانش کا تقرر عمل میں آیا۔ اعزاز اور قوت میں ان کی حیثیت وزیروں سے کم نہ تھی۔ اگرچہ اس لقب سے انھیں خطا ب نہیںکیا جاتا تھا۔ زیاد بن امیہ اس عہد میں امیر معاویہؓ کے وزیر کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ ۳؎

جب خلافت بنی امیہ کا قیام عمل میں آیا تو حکومت کے صیغوں کے لیے پانچ کاتب مقرر ہوئے اور رسل ورسائل ، خراج کے امور فوجی معاملات پولیس کے لیے ہدایات اورقاضی کے لیے ایک ایک مستقل کاتب کا تقرر کیا گیا۔ مرتبہ کے لحاظ سے رسل ورسائل کے کاتب کی حیثیت سب سے بلند تھی خلفاء اس عہدہ پر اپنے کسی قریبی عزیز یا کسی معتمد خاص کو مامور کرتے تھے۔ ۴؎

حاجب کا تقرر

حضرت امیر معاویہؓ نے سب سے پہلے دروازہ پر حاجب مقرر کیے یہ خارجیوں کی ان شرارتوں کے بعد کیاتھا جو ان شریروں نے حضرت علیؓ ، امیر معاویہؓ، عمرو بن عاصؓ کے ساتھ کی تھیں، حاجب رکھنے کا اہم مقصد دشمنوں کے شر سے بچنا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ دروازوں پر بھیڑ نہ ہونے پائے جس کی بناء پر امور حکومت انجام دینے میں خلل پیدا ہو۔ حاجب ملاقات کے خواہش مندوں کو دھکا نہیں دیتاتھا، یہ شریعت کے خلاف سمجھاجاتا تھا ۔خلفاء کو خوارج وغیرہ کی طرف سے ہر لمحہ اندیشہ رہتا تھا جب سے حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ، امیر معاویہؓ ، عمرو بن عاصؓ وغیرہ کے ساتھ حادثات پیش آئے تھے اس وقت سے یہ اندیشہ مزید بڑھ گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ خلیفہ کے پاس ایک مجمع سالگ جاتا تھا اور امور خلافت کی انجام دہی میں خلل واقع ہوتاتھا اس لیے عہد اموی کے زمانہ سے باب خلافت پر حاجب کاتقرر کیاجانے لگا۔ ۵؎

حاجب کی حیثیت اعلیٰ عہدہ دار کی ہوتی تھی۔ اس کا منصبی فرض یہ تھا کہ وہ خلیفہ کے پاس حاضر ہوکر ملاقات کرنے والے کانام  بتائے، اس کے مرتبہ پورے حالات اور ضرورت سے خلیفہ کو مطلع کرے، پھر اجازت ملنے پر خلیفہ کی خدمت میں حاضر کردے ۔اگر ملاقات کرنے والے زیادہ ہوتے تو ضرورتو ں کی اہمیت کالحاظ کرکے انھیں خلیفہ کی خدمت میں باریابی کاموقع دیتاتھا۔

عبدالملک بن مروان (مدت حکومت ۶۵ھ تا ۸۶ھ) نے جب حاجب مقرر کیاتھا تو اسے ہدایت کردی تھی، کہ ’’موذن‘‘ ڈاکیہ اورکھانے کے لیے بلانے والے کو کبھی میرے پاس آنے سے نہ روکنا وہ ہر وقت بلاتکلف داخل ہوسکتے ہیں۔ ۶؎ عبدالملک بن مروان نے اپنے بھائی عبدالعزیز بن مروان گورنر مصر کو نصیحت کی تھی دیکھو حاجب کے فرائض اپنے اہل ترین آدمی کے سپرد کرنا وہ تمہاری زبان اور دل ودماغ ہے اسے ہدایت کرنا وہ ملاقات کے خواہش مند کے مرتبہ، پورے حالات اور ضروریات کی اہمیت سے پہلے آگاہ کرے اس کے بعد اگر تم ضرورت سمجھو تو بلالو ورنہ واپس کرو۔۷؎

یہ تھا حاجب کانظام جو اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے متعین کیاگیا تھا۔

صوبے

عہد بنی امیہ میں اسلامی سلطنت کادائرہ عمل بہت وسیع ہوگیا۔ انتظامی سہولت کی وجہ سے اس وقت سلطنت کو پانچ  صوبوں میں تقسیم کردیا گیا تھا ۔

۱۔   حجاز یمن اور عرب وسطیٰ

۲۔  مصر، مصر کا مرتفع حصہ، مصر کانشیبی علاقہ

۳۔                     عراق، عرب (بلاد بابل اور آشورقدیم)، عراق عجم (بلاد فارس) عمان، بحرین، کرمان وسجستان کابل وخراسان ،بلاد ماوراء النہر اور سندھ،پنجاب کے بعض علاقے ملا کر ان کا ایک بڑا صوبہ بنادیا گیا تھا یہ گورنر عراق کے ماتحت تھا۔ جس کاصدر مقام کوفہ تھا۔ انتظامی آسانیوں کی غرض سے گورنر عراق کی طرف سے خراسان اور بلاد ماوراء النہر کاایک حاکم مقرر ہوتا تھا جو اکثر وہیں رہتا تھا۔ بلادبحرین اور عمان حاکم بصرہ کے تحت ہوتے تھے، جسے گورنر عراق مقرر کرتاتھا۔ سندھ کے شہروں کاایک الگ حاکم ہوتا تھا اس کا تقرر بھی گورنر عراق کرتاتھا۔

۴۔ بلاد الجزیرہ، ارمینیہ، آذربائیجان، اور ایشیائے کوچک کے چند علاقے۔

۵۔                     شمالی افریقہ، اسی کے حدود میں مغربی مصر، بلاد اندلس ، جزائر سسلی، سردانیہ اور بلیارداخل تھے۔ صدر مقام قیروان تھا،گورنر افریقہ بحر روم کے جزائر اور بلاد اندلس پر ایک حاکم مقرر کرتاتھا جس کا دارالحکومت قرطبہ تھا۔ ۸؎

گورنر

خلافت راشدہ کی طرح بنی امیہ کے دور میں بھی عرب گورنر مقرر کیے جاتے تھے یہ ان کی سیاسی پالیسی تھی بنی امیہ نے اتنا اور اضافہ کیاکہ اس منصب پر خاندان خلافت سے کسی کو مامور کرتے تھے، بنی امیہ کے آخر عہد میں خصوصاً یزید بن عبدالملک (مدت حکومت ۱۰۱ھ تا ۱۰۵ھ) کے زمانہ میں گورنروں کو اپنے اپنے دارالحکومت میں قیام کرنا لازمی قراردیاگیا۔ اس سے قبل کوئی گورنر دمشق میں مقیم تھا ، کوئی کسی دوسری جگہ میں قیام رکھتاتھا، یہ گورنر اپنے نائب مقرر کردیاکرتے تھے۔گورنر ملکی نظم ونسق میں عہدہ داروں  سے امداد لیا کرتا تھا، ان میں افسر مالی، قاضی، اور پولیس کے افسر ممتاز عہدیدار ہوتے تھے۔ ۹؎

یہ لائق ذکر ہے کہ بنی امیہ کاملکی نظام امیر معاویہ کا مرہون منت نہ تھا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا موجدوموسس عبدالملک بن مروان تھا جس نے شہری نظام عربوں کے نقطہ نظر اور ان کی خاص ذہنیت کالحاظ کرکے مرتب کیا تھا، عہد اموی میں گورنر کی حکومت مطلق تھی ۔اسے جان ومال پر اختیار حاصل تھا حجاج بن یوسف کی گورنری اس پر کافی روشنی ڈالتی ہے ۔حجاج کے قبضہ میں مالیات کاپورا نظام تھا۔ وہ پورا خراج وصول کرتا تھا اور خلیفہ کے پاس اسے روانہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا تھا۔ حجاج کے بعد بہت سے گورنروں نے یہی کیا۔ اموی گورنروں کی مدت بھی کافی طویل ہونے لگی تھی مثلاً مشرق میں حجاج بن یوسف اور مغرب میں عبدالعزیز بن مروان کی گورنری کو بیس برس گزر گئے تھے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز (مدت حکومت ۹۹ھ تا ۱۰۱) خلیفہ ہوئے تو آپ نے پچھلے گورنروں کو برطرف کردیا اور نومنتخب گورنروں کو ہدایت کردی کہ بغیر میری اجازت کے کسی شخص کو قتل نہ کیا جائے۔ ۱۰؎

عہد اموی کےشہری نظام کی حالت یزید بن ولید کے زمانہ میں  ابتر ہوگئی ۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے پیش رو خلفاء کے طریقہ کار کو ترک کردیا تھا۔  بنی امیہ کی حکومت عربوں کی حکومت تھی۔ گورنر اور حاکم خاندان خلافت سے مقرر کیے جاتے تھے یا وہ عربوں کے سربرآوردہ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بنی امیہ کے زوال کا بڑا سبب یہ تھا کہ خلفاء ملکی حالات سے بے بہرہ رہنے لگے ۔ ان حالات میں فوجوں کی تنخواہ ملنے میں تاخیر ہوئی توفوجوں نے ان کے حریف عباسیوں کی پشت پناہی کی۔ انجام یہ ہوا کہ امویوں کی حکومت کا آفتاب دمشق میں غروب ہوگیا۔ ۱۱؎

محکمے

عہد بنی امیہ میں حکومت کا نظم ونسق چار محکموں میں تقسیم تھا۔

۱۔  دیوانی خراج

۲۔ دیوانی رسل ورسائل (اس کا افسر صوبوں کے انتظام کی نگرانی کرتا تھا)

۳۔ غلہ اور دوسری پیداوار کے انتظامات کامحکمہ

۴۔ دیوان خاتم

اس کاقیام امیر معاویہ کے زمانہ میں عمل میں آیا تھا نیز حکومت کایہ سب سے بڑا دفتر تھا۔ اس میں بہت سے ذمہ دار اشخاص کام کرتے تھے۔ یہ لوگ خلیفہ کے احکام کی نقلیں لیتے اورتاگے سے نتھی کرنے کے بعد مہر لگاتے اور پھر یہ احکامات اس محکمہ کے افسر کی مہر ثبت کرنے کے بعد دفتر میں محفوظ کرلیتے تھے۔ دیوان کی حیثیت اس زمانہ میں رکارڈ آفس کی تھی۔

دیوان خاتم کاقیام حضرت امیر معاویہؓ کے عہد حکمرانی میں ہواتھا ۔ اس کے قیام کی وجہ یہ ہوئی کہ امیر معاویہؓ نے اپنے گورنر عراق زیاد بن ربیعہ کے پاس ایک شخص کوبھیجا۔ اسے  ایک لاکھ درہم دینے کے لیے خط دیاتھا، اس خط پر مہر نہ تھی اس شخص نے اسے پڑھا اور ایک لاکھ کی جگہ دولاکھ بنائے۔ اور یہ رقم حاصل کرلی۔ زیاد نے جب اس کا حساب امیر معاویہؓ کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے ایک لاکھ کے لیے لکھا تھا اس واقعہ کے بعد دیوان خاتم قائم کردیا گیا اور اس کے بعد مہر شدہ خطوط جانے لگے ۔ ۱۲؎ یہ دفتر حضرت امیر معاویہ ؓکے زمانہ سے لے کر عہد عباسیہ تک بہت اہم خیال کیاجاتا تھا اس کے بعد جب نظم ونسق وزراء کے ہاتھ میں چلاگیا تو یہ محکمہ ختم کردیا گیا۔ عباسیہ کے دور عروج میں مہر خلافت کاحد درجہ احترام کیا جاتا تھا ۔  ۱۳؎

دیوان طراز

عہد اموی میں ایک اور دفتر بڑی اہمیت کاحامل تھا جسے دیوان طراز کے نام سے یاد کیاجاتا تھا۔ یہ دفتر شاہی پارچہ بانی اور ان کے اسماء والقاب کو خوشنما بنانے کے لیے کارخانوں کاانتظام کرتا تھا، جب مسلمانوں نے روم وفارس کاتختہ الٹ دیا اور ان کاجاہ و جلال دنیا پر محیط ہوگیا اس وقت مسلمانوں نے کسریٰ وقیصر کی تقلید کی اور شاہی لباس روم سے بن کر آنے لگا۔ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں یہ لباس مصر سے آنے لگاتھا۔ وہاں کے لباس میں اب ابن روح، نقش ونگار کی شکل میں بنا ہوتا تھا۔ عبدالملک جب اس کے معنی سے واقف ہوا تو اسے گراں گزرا اور اس نے اپنے بھائی عبدالعزیز بن مروان گورنر مصر کو لکھا کہ اب ابن روح القدس کی جگہ لاالہ الا اللہ نقش ونگار کی شکل میں بنا  یاجائے اور اپنے حدود خلافت میں مصری پارچے بننے اور خریدنے کی ممانعت کردی جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں سزائیں دی جائیں۔ ۱۴؎  عبدالملک بن مروان (مدت حکومت ۶۵ھ ۔ ۸۶ھ) نے ا پنی سیاسی پالیسی کے ماتحت دفتری زبان یونانی اور فارسی قرار دی تھی۔ عبدالملک نے دوسرا کام یہ کیا تھا کہ رومی سکہ کو اپنے دائرہ حکومت میں بند کردیا تھا، چنانچہ عبدالملک کے گورنروں نے بھی عبدالملک کی سیاسی پالیسی پر عمل کیا اور حجاج بن یوسف نے بلاد عراق کی دفتری زبان فارسی کی جگہ عربی قرا ر دی۔ ۱۵ ؎ عبدالملک بن مروان نے ایک اور کام انجام دیا کہ غیر ملکی سکہ کی جگہ اپنا سکہ رائج کردیا۔ اور اس مقصد کے لیے دمشق میں دارالضرب یا ٹکسال قائم کیا ۔یہ سکے سونے اور چاندی کے ہوتے تھے ان میں آیات قرآنی نقش ہوتی تھیں۔ عبدالملک نے اپنے سکہ کے علاوہ تمام دوسرے سکے اسلامی قلم رو میں ممنوع قرار دئیے۔ ۱۶؎

صیغہ فوج:

عہد اموی میں فوجی نظام کو کمال کی حدتک پہنچادیا گیا جس کی بنیاد حضرت عمرؓ نے رکھی تھی۔ جب بنی امیہ کی حالت ابتر ہوگئی اور باہمی اختلاف نے ان کی اجتماعی قوت گھٹادی اس وقت مسلمان جنگ سے جی چرانے لگے۔ اور دوسرے کاموں میں لگ گئے یہ صورت حال دیکھ کر عہد اموی میں زبردستی فوج میں لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کیا گیا ۔ عبدالملک بن مروان نے جبری فوجی بھرتی کاقانون بھی مرتب کردیا تھا۔ امیر معاویہؓ کے زمانہ میں کل فوج کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی اس میں رضاکار فوج بھی شامل تھی جو حکومت سے تنخواہ نہیں لیتی تھی۔ ابتدائے اسلام سے مسلمانوں اور بیزنطینیوں میں جو جنگ چھڑی تھی وہ بنی امیہ کے عہد میں بھی جاری تھی۔ مسلمانوں نے دو دفعہ قسطنطنیہ پر حملہ کیا، ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں دوسری مرتبہ سلیمان بن عبدالملک (مدت حکومت ۹۶ھ تا ۹۹ھ)کے عہد حکومت میں۔ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں صرف عربی لوگ ہی فوج میں شامل تھے۔ یہ حالت اس وقت تک قائم رہی جب تک امویوں کی فتوحات کادائرہ وسیع نہ ہوگیا۔ شمالی افریقہ اور بلاد اندلس کی تسخیر کے بعد بربرقوم سے بھی فوجی خدمات لی گئیں ۔ عرب کا یہ معمول تھا کہ وہ جنگوں میں عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے چنانچہ سلیمان بن عبدالملک نے جب عمدربہ (اشیائے کوچک میں توتیہ کے شما ل میں حملہ کیا تھا تو اس وقت عورتیں بھی شامل جنگ تھیں۔ ۱۷؎

جب عہد اموی اور عہد عباسی میں عربوں کااختلاط ایرانیوں سے بڑھ گیا تو عربوں نے ایرانیوں سے فوجی تنظیم سیکھی اور ایرانیوں کی طرح فو ج کو ہراول یا مقدمۃ الجیش ، قلب، میمنہ اور سافلہ میں تقسیم کیا اور صف بندی کے قدیم طریقہ کو چھوڑ دیا۔ نیز اس زمانہ میں عورتوں کو اپنے ساتھ جنگوں میں لے جانا چھوڑ دیا اور جنگ پر جاتے وقت مستحکم اور محفوظ شہروں میں عورتوں کے قیام کا انتظام کردیا جاتا تھا۔ ۱۸؎  اس طرح جنرل فوج کے ساتھ نہایت رواداری اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ البتہ کوئی فوجی مفتوحہ ممالک کے کسی شہری سے بدسلوکی سے پیش آتا تواسے سخت سزا دی جاتی۔ ۱۹؎

جنگی جہاز

حضرت امیر معاویہ ؓنے اپنی خلافت کے زمانہ میں جنگی جہاز بنائے یہ وہ وقت تھا جب بینزنطینی فوجیوں کی غارت گری بلاد اسلامیہ پر جاری تھی۔ آپ نے ہر محاذ پر ان کا دندان شکن جواب دینے کی ٹھان لی اور ایک فوج کو گرمیوں میں حملہ کرنے کے لیے بحری راستہ سے اور دوسری فوج کو خشکی کے راستہ سے یورش کرنے کے لیے تیار کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گرمی اور سردی دونوں موسموں میں جنگ جاری رکھنے کا لائحہ عمل تیار کیا۔ عہد اموی کے اول خلیفہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دو رحکمرانی میں شام کے بحری بیڑے میں ۱۷۰۰ جہاز تھے۔ آپ کے عہد میں عقبہ بن عامر نے جزیرۃروس پر حملہ کیا اور ۵۳ھ میں پرس میں رومیوں سے جنگ ہوئی جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمانو ں کا سپہ سالار دروان بھی شہید ہوا جو حضرت عمرو بن عاص کا آزاد کردہ غلام تھا۔ یہ مسلمہ بن مخلد(مدت حکومت ۴۴ھ ۔ ۶۲ھ) گورنر مصر کے زمانہ کا واقعہ ہے۔ اس دردناک واقعہ کے بعد مصر کے حاکموں نے جہاز سازی کی صنعت پرپوری توجہ دی اور پہلی مرتبہ امیر معاویہؓ کے دور حکمرانی میں ۵۲ھ میں جہاز سازی کا کارخانہ قائم کیاگیا۔ ۲۰؎ اس طرح اسلامی بحری بیڑے کو نہایت مضبوط ومستحکم بنایا گیا۔ یہ بیڑا پوری شان وشوکت کے ساتھ عباسیوں کے ابتدائی عہد تک باقی رہا ۔جب مشرق ومغرب میں اسلامی حکومت کاانحطاط وزوال شروع ہوا اس وقت بحری قوت میں بھی انحطاط ہوگیا۔ابتدائے اسلام میں ڈاک پہنچانے کے لیے تیز رفتار گھوڑے تیار رہتے تھے۔ جو چندمیل کے فاصلے پر متعین ہوتے تھے ایک گھوڑے کاسوار منزل پر پہنچ کر ڈاک کا تھیلا دوسرے کو دے دیتا تھا اور دوسرا سوار بھی اس طرح کرتا تھا ۔  ۲۱؎

محکمہ ڈاک

حضرت امیر معاویہؓگورنر شام تھے تو انھیں رومیوں کی تہذیب وتمدن کودیکھنے کا موقع ملا تھا لہٰذا انھوں نے باقاعدہ محکمہ ڈاک قائم کیاتھا۔ عبدالملک بن مروان (مدت حکومت ۶۵ھ  تا ۸۶ھ) نے ا س محکمہ میں کافی اصلاحات کیں اور اسے نہایت مضبوط ومستحکم بنادیا تھا۔ عبدالملک بن مروان نے حاجب کو ہدایت کردی تھی کہ شبانہ روز میں کسی وقت بھی ڈاکیہ کو میرے پاس آنے سے روکا نہ جائے۔ ۲۲؎

پولیس کا محکمہ عہد فاروقی میں وجود میں آچکا تھا۔ البتہ عہد اموی میں اس میں اصلاحات ہوئیں، چنانچہ ہشام بن عبدالملک (مدت حکومت ۱۰۵ھ تا ۱۲۵ھ) نے نظام احداث کو محکمہ عدالت سے وابستہ کردیا تھا اس کے افسر کے فرائض پولیس افسر اور سپہ سالار کے فرائض کے مابین ہوتے تھے۔ ۲۳؎  اندلس کے اموی خلفاء کے عہد میں پولیس کے نظام نے ترقی کی اندلس میں پولیس کے محکمہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ، بڑا محکمہ اور چھوٹا محکمہ بڑے محکمہ کے افسر شاہی ملازمین اور خاندان شاہی  کے لوگ ہوتے تھے اور چھوٹے محکمہ کی ذمہ دار عام رعایا ہوا کرتی تھی ۔  ۲۴؎

صیغہ مالیات

بیت المال کے اہم ذرائع آمدنی ، خراج، جزیہ زکوٰۃ فی مال غنیمت اور عشر تھے مگر عہد اموی میں ان کے علاوہ اور نئے ٹیکس بھی لگادئیے گئے ۔ امیر معاویہؓ نے اپنے گورنر مصر وردان کولکھا تھا ، ہر قبطی مرد پر ایک قیراط بڑھادو ۔حجاج بن یوسف کے بھائی نے یمن ۲۵؎ کی  زمینوں پر عشر کے علاوہ ایک اور ٹیکس لگادیا تھا، عبدالملک بن مروان نے تمام خراسان کی مردم شماری کرائی تھی اور ہر فرد پر ایک جدید ٹیکس لگادیا تھا اور اسی پر اکتفا نہ کیا تھا بلکہ مقررہ جزیہ کی مقدار میں تین دینار کااضافہ کردیا تھا۔ ۲۶؎ اسی طرح عراق کے باشندوں پر نئے ٹیکس عائد کردئیے گئے تھے، یہ وہ وقت تھا جب انھیں پچھلے ٹیکس ادا کرنے بھی مشکل تھے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خراج کے افسروں کے نام حکم جاری کیا کہ خرا ج کے درہموں کی مالیت ۱۴ قیراط سے زیادہ نہ ہو ۔اس دور میں مختلف مالیت کے درہم رائج تھے، اس لیے افسروں کو اس کا موقع ملتا تھا کہ زیادہ مالیت کے درہم شہریوں سے وصول کریں اور انھیں بدل کر کم مالیت کے درہم بیت المال میں داخل کردیں۔ ۲۷؎ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے عدل ومساوات کا پیغام دیا اور بتایا کہ رعایا کے ساتھ عدل پروری ہونی چاہیے کسی طرح کا ظلم وجور نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے عمال کے اندر امانت ودیانت کابھی احساس تازہ رہتا تھا ۔

عبید اللہ بن زیاد گورنر عراق نے خراج کے عرب افسروں کی جگہ ایرانی افسر مقرر کردئیے تھے ۔یہ بڑے زمین دار تھے۔ تجربہ نے بتایا تھا کہ وہ زیادہ ایماندار اور صاحب بصیرت ہوتے تھے۔ ۲۸؎  عہد اموی کے فرمانروا عبدالملک بن مروان نے نظام مالیات کو  بلند معیار تک پہنچا یااور ٹیکس کے افسرا ن کو ایک پائی بھی غبن کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ وہ سختی سے ان کامحاسبہ کرتا تھا۔ رشوت خور اور بددیانت افسروں کو معزول کرکے انھیں سزائیں دیتا تھا اور ان سے ایک ایک حبہ اگلوالیتا تھا۔ ۲۹؎ البتّہ بنی امیہ کے زوال کے ساتھ ان کا نظام مالیات بھی ابتر ہوگیا۔ جب اموی خلفاء عباسیوں کے ساتھ کشمکش میں مبتلا تھے اس وقت فوج کی تنخواہیں ادا کرنے میں تساہل برتا گیا۔نتیجتاً ان کی فوج عباسیوںکے ساتھ مل گئی اور دمشق کے قلعوں پر بنی امیہ کی جگہ عباسیوں کا پرچم لہرانے لگا۔ ۳۰؎

بیت المال کے مصارف:

عہد اموی میں خلفاء امیہ نے علویوںکے وظائف بند کردئیے تھے اور ریاست کی آمدنی سے اپنے خاندان کے گراں قدر وظائف مقرر کردئیے تھے۔ اس رویہ میں  حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اصلاحات کیں۔ عجم وعرب کے مسلمانوں کے حقوق مساوی قرار دئیے عربوں کی طرح عجمی مسلمانوں کے وطائف بھی مقرر کیے۔ اس جزیہ کو معاف کردیا جو بنی امیہ کے فرمان روانو مسلم عجمیوں سے( مسلمان ہوجانے کے باوجود )وصول کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ان اصلاحات کا آمدنی پر  اثر پڑا۔ اور عراق کا بیت المال متاثر ہوا ۔ ان کی وفات کے بعد ہشام بن عبدالملک (مدت حکومت ۱۰۰ھ تا ۱۲۵ھ)نے مالیات کے شعبہ کی آمدنی کوبڑھانے کی پالیسی اپنائی۔ اس کی وجہ سے شورشیں اٹھیں اور ان ہنگاموں نے بنی امیہ کے مستقبل پر  برااثر ڈالا۔

بنی امیہ کے زوال کا سبب یہ تھا کہ عرب اور غیر عرب عناصر میں تفریق کی گئی ، عجمی مسلمانوں کو حقوق میں عرب عنصر کا ہم پلہ نہیں قرار دیا گیا  ۔یہ اسلامی آئین مساوات کے خلاف تھا، عہد اموی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سب سے پہلے داخلی اصلاحات کی طرف عملی قدم اٹھایا، آپ نے عرب وعجم کے مسلمانوں کے تمام حقوق مساوی قرار دئیے، عربوں کی طرح عجمیوں کے وظائف مقرر کیے، عجمی مسلمانوں پرعائد جزیہ معاف کردیا۔ ۳۱؎

صیغہ عدالت

عدالت کا نظام عہد رسالت مآب میں وجود میں آچکا تھا۔ اس کے بعد خلفاء راشدین کے زمانہ میں اس میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔ عہد اموی میںاس شعبہ کی دو امتیازی خصوصیات تھیں۔

۱۔ قضاۃ اپنے فیصلے اپنے اجتہاد اور عقل ودرایت کی روشنی میں کرتے تھے۔ اس اجتہاد کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت  مذاہب اربعہ کا(جن کی پابندی بعد کے قضاۃ نے کی)وجود نہ تھا اس لیے قاضی مقدمات کے فیصلے کے وقت صرف کتاب وسنت پر بھروسہ کرتاتھا۔

۲۔  عدالت کا محکمہ اپنے اختیارات وفرائض میں اموی فرماں رواؤں کے اثر واقتدار سے بالکل آزاد تھا، اور ان کے ذاتی رجحانات کااس پر کوئی اثر نہ تھا اس زمانہ میں عدالت کے فیصلے خراج کے افسروں تک پر بلارعایت نافذ کیے جاتے تھے۔ ۳۲؎

یہ کہا جاسکتا ہے کہ عہد اموی کا سیاسی نظام مستحکم تھا اور ضرورت کے لحاظ سے جدید شعبوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ان تمام کاوشوں کے باوجود عہد اموی کا نظام داخلی شورشوں سے پاک نہ تھا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اموی دور میں خلیفہ کے تقرر کا طرز یقینا ًخلافت راشدہ  کے طرز سے ہٹا ہوا تھا۔

مراجع ومصادر:

۱؎ Arnold, Prof. Sir Thomes: The Caleghat. P. 24=25, Oxford, 1924

۲؎ حسن ابراہیم حسن وعلی ابراہیم حصن مصری، النظم الاسلامیہ کا اردو ترجمہ مترجم محمدعلیم اللہ صدیقی،ص:۵۵، ندوۃ المصنفین

۳؎ ایضاً، ص:

۴؎ جیشیاری، ابوعبداللہ محمد بن عبدوس، کتاب الوزارۃ ، والکتاب ص:۱۲۔۱۷، مطبع قاہرہ، سن اشاعت ۱۹۳۸ء،۱۳۶۶ھ

۵؎ ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمہ ابن خلدون، ص ۲۰۶، مطبع بیروت، ۱۹۹۰ء

۶؎ ایضاً، ص:۲۰۷

۷؎ ابن طباطبا، محمد بن علی المعروف بابن الطفطفی، الفخری فی الادب السلطانیہ والدول الاسلامیۃ ،ص:۱۱۵، مطبع قاہرہ، سن اشاعت ۱۳۱۹ھ

۸؎ Ameer Ali, Syed. Ashort History of the sracens p. 187-188, London, 1921

۹؎ النظم الاسلامیہ کااردو ترجمہ، ص:۲۰۰

۱۰؎ ایضاً، ص۱ـ۲۰

۱۱؎ کرد علی، پروفیسر، الاسلامیہ فی عز العرب ، ص: ۱۱۹، مطبع قاہرہ، ۱۹۳۴ء

۱۲؎ الفخری، ص: ۱۰۲

۱۳؎ النظم الاسلامیہ کا اردوترجمہ، ص:۲۱۵

۱۴؎ النظم الاسلامیہ کااردو ترجمہ، ص:۲۱۶

۱۵؎ کتاب الوزراء والکتاب، ص:۳۸

۱۶؎ النظم الاسلامیہ کا اردو ترجمہ، ص:۲۱۷

۱۷؎ ایضاً،ص:۲۳۷

۱۸؎ ایضاً،ص:۲۳۸

۱۹؎ ایضاً

۲۰۔                         مقریزی، تقی احمد بن علی، المواعظہ والاعتباد فی ذکر الخطط والآثار ، ج:۲،ص، ۱۹۰ء۔۱۹۱، مطبع بولاق ، ۱۲۷۰ھ

۲۱؎ الفخری فی الاداب السلطانیۃ، ص: ۱۰۱۔۱۰۲

۲۲؎ قلقشندی، ابوالعاس احمد، صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء، ج:۱۴، ص:۳۶۷، ۳۶۸، مطبع قاہرہ، ۸۱۲ھ ۱۴۱۸ء

۲۳؎ النظم الاسلامیہ کااردو ترجمہ، ص:۲۶۳

۲۴؎ ایضا،ص:۲۶۴

۲۵؎ ابویوسف یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج، ص۲۳، مطبع بولاق، ۱۳۰۲ھ

۲۶؎ تفصیل کے لیے دیکھیے: یعقوبی، ۲۸۲ھ ۸۹۵ء

۲۷؎ محمد بن یعقوب بن جعفر بن وہب بن واضح، تاریخ یعقوبی ج:۲،ص: ۲۵۸، مطبع لیدن ۱۸۸۳ء

۲۹؎ النظم الاسلامیہ کا اردو ترجمہ ص: ۲۷۶

۲۹؎ طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الرسول، والملوک، ج، ۴۵۸

۳۰؎ النظم الاسلامیہ، ص:۲۶۷

۳۱؎ ایضاً،ص:۲۸۶

۳۲؎ ایضاً،ص: ۳۱۴

مشمولہ: شمارہ مارچ 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223