اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سواد اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے۔ لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر مغرب کا علمی اور فکری داب و تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ اشکال اس وقت تک دور نہیں ہوگا جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اسلام میں ایک نشأۃ ثانیہ (rennaisance) کی ضرورت ہے۔ پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا۔ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کو اب الٹے پاؤں ان منازل کی طرف واپس لے جانا ممکن نہیں ہے جن سے وہ چھ سو برس پہلے گزر چکی ہے۔ علم و عمل کے میدان میں رہ نمائی وہی کرسکتا ہے جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہذا اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہ نما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نظام فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ ایک نئی حکمت طبیعی (natural science) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ ملحدانہ نظریہ کو توڑ کر الہی نظریہ پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔■
(تنقیحات، از مولاناسید ابوالاعلی مودودیؒ)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2020