جس قوم میں کام کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، صدیوں کے مسلسل انحطاط نے اس [مسلم قوم] کے اخلاق کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ ان میں کیرکٹر کی وہ طاقت بہت ہی کم باقی رہ گئی ہے جس کی مضبوط چٹان پر اٹل فیصلے، مستقل ارادے، ثابت عزائم اور بھروسے کے قابل عہد و میثاق قائم ہوتے ہیں۔ اس میں مدت ہائے دراز سے یہ کمزوری پرورش پارہی ہے کہ ایک چیز کو حق جانیں اور دل سے اسے حق مانیں، مگر اس کے لیے کوئی قربانی گوارا نہ کریں، نہ وقت کی، نہ مال کی، نہ خواہشاتِ نفس کی، نہ اپنے مرغوب افکار و نظریات کی، نہ اپنے جاہلیت کے اذواق اور دل چسپیوں کی اور نہ کسی اورچیز کی۔ انھیں وہ حق پرستی تو بہت اپیل کرتی ہے جس میں حق کو زبان سے حق کہنا اور اس پر لفظی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنا اور اس کے لیے چند نمائشی کام کردینا کافی ہو۔ اور اس کے بعد انھیں اس حق کے خلاف ہرطرح اپنے کاروبار، اپنے ادارے اور اپنی زندگی کے سارے معاملات چلانے کی پوری آزادی حاصل رہے اسی لیے وہ نام نہاد مذہبیت کے ان راستوں کی طرف خوشی خوشی لپک جاتے ہیں جن کی دین داری اور سعی و عمل کا سارا دار و مدار اسلام اور جاہلیت کی مصالحت (compromise) پر ہے۔ لیکن ایسی حق پرستی ان کے لیے ایک ناقابلِ تحمل بار گراں ہے جو کفر واسلام، حق و باطل اور اطاعت و بغاوت کے درمیان دو ٹوک فیصلہ چاہتی ہو اور جس میں ہر اس شخص سے جو حق کو ماننے کا اقرار کرے، پہلا مطالبہ یہ ہو کہ وہ یکسو ہوجائے، اور پھر مزید مطالبہ یہ ہو کہ جس چیزکو اس نے حق مانا ہے اس کے لیے اپنی پوری شخصیت کو تج دے اور عمر بھر کے لیے تج دے ۔ (روداد )
(جماعت اسلامی،حصہ دوم)
مشمولہ: شمارہ اگست 2020