کورونا وائرس نےیوروپ کے فکری ارتقاء پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے مغرب کی فکری اٹھان کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ہر معاشرے میں قوت کے کئی مراکز ہوتے ہیں مثلاً حاکم، سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا وغیرہ ۔ خدا فراموش تاجر عام طور پر استحصالی ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ اس کی لوٹ کھسوٹ سے بچنے کی خاطر عوام الناس حاکم کی پناہ میں آتے ہیں ۔ بفرضِ محال اگریہ دو طبقات آپس میں سانٹھ گانٹھ کرلیں اور ایک دوسرے کے اشتراک سے عوام کا استحصال کرنے لگیں توتیسرے سے رجوع کیا جاتاہے۔ مذہبی پیشواوں سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آسمانی صحیفوں کی روشنی میں ظلم و جبر کے منہ زور سانڈ کی بھرے بازارمیں نکیل کسیں گے ۔ صنعتی انقلاب کے بعد یوروپ میں پہلے تو حکومت اور سرمایہ داروں نے فرعون اور قارون جیسا اتحاد کیا اور اس کے بعد مذہبی طبقہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیاگویا آذر بھی نمرود کا ہمنوا بن گیا۔اس خطرناک گٹھ جوڑ کے خلاف ہونے والی فطری بغاوت نے سیاسی اور معاشی نظام کے ساتھ مذہب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس استحصال شدہ معاشرے میں ملحد فلسفی اور دانشوروں کی ایک بہت بڑی فوج کیل کانٹوں سے لیس ہوکر نمودار ہوگئی ۔ عدل و انصاف کے ان نام نہاد علمبرداروں نے نہ صرف جاگیردارانہ ملوکیت اور سرمایہ دارانہ معیشت بلکہ مذہبی عقائد(مثلاً خدا، رسول ،وحی اورآخرت) کا بھی انکار کردیا۔ان لوگوں نے جدید انسان کی ایک ایسی تعریف پیش کی کہ جو حسی، تجربی، سائنسی علم کے ذرائع پر یقین رکھتا ہو، اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، مابعد الطبیعیاتی، الہامی یعنی مذہبی ذرائع سے استفادے کو جہل، ظلمت، گمراہی تصور کرتا ہو۔ تجربہ گاہ میں چونکہ آلاتِ سائنس موخرالذکر علم کی تصدیق نہیں کرسکتے لہٰذا انہیں جہالت کے زمرے میں ڈال دیا جائے۔جدید انسان کوعقل کی بنیاد پر خیر و شر کے پیمانےاز خود خلق کرنے کی ترغیب دےکر الہامی، روایتی، دینی علم سے بے نیاز کردیا گیا۔ اس جدیدیت نےزعم خود پسندی میں سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ قرار دے دیا۔
فکری خلفشار کے تباہ کن زمانے میں جمہوریت ، اشتراکیت اور لامذہبیت جیسے جدید نظریات عالم ِ وجود میں آئے۔ ان میں سے اشتراکیت نے سب سے پہلے دم توڑ دیا اوربرائے نام جمہوریت بھی اپنی ساری قباحتوں کے ساتھ انتخابی تماشے تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہندوستان جیسی وسیع جمہوریت میں فسطائیت کے آسیب کا خطرہ بلا واسطہ لامذہبیت کے طلسم کو کھاد پانی دے رہا ہے۔ عوام کے سامنے اگر فسطائیت سے بچنے کی مجبوری نہ ہوتی توکب کا سیکولرزم بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہوچکا ہوتا ۔ ان لوگوں کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنے عروج کی انتہا پر بھی یہ لادینی نظریات انفرادی زندگی کو مذہبی عقائد سے بے نیاز نہیں کرسکے ۔ یہ انسان کی روحانی ضرورت کا واضح اعتراف ہے۔ مشکل کی گھڑی میں بڑے سے بڑا ملحدبارگاہِ خداوندی کی طرف پلٹتانظر آیاہے۔ ملحدانہ بغاوت کے دور میں دانشوروں نے اپنے مخالفین کو دقیانوسی اور رجعت پسند قرار دینے کی خاطر خو د کو روشن خیال اور ترقی پسند جیسے القاب سے نوازا ۔ اس دوران اشتراکیت کے حاملین کو کئی ممالک میں کلی یا جزوی اقتدار بھی مل گیا لیکن وہ انسانی مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گیے ۔اشتراکیوں نےناکامی کے نتائج سے گھبرا کر جبر واستبداد کے آہنی پنجے میں اپنے عوام کو جکڑ لیا اور پروپگنڈے کی مدد سے عوام کو گمراہ کرتے رہے لیکن بات بنی نہیں اور بہت جلد وہ سحر ٹوٹ کر بکھر گیا ۔
سوویت یونین کے اندر جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہاں غیر فطری پابندیوں کے خلاف زبردست بغاوت ہوئی اور سرخ سویرے پر سرمایہ دارانہ مافیا کا اندھیرا چھا گیا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے جدیدیت(Modernism) نے حریت پسندی (Liberalism) کا لبادہ اوڑھ کر اشتراکیت کی جکڑ بندیوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے چند انسانی اقدار کے علاوہ باقی سارےحدود و قیود کا انکار کردیا۔بے راہ روی کی شکار انسانی تہذیب وتمدن کا شتر بے مہار جس راستے پر چل پڑا تھا آگے بڑھتا چلا گیا اورجدیدیت کی لایعنیت اور کھوکھلے پن سے بیزار ہوکر مابعد جدیدیت (Post Modernism) کے دور میں داخل ہوگیا ۔ یہاں پر حقیقی آزادی حاصل کرنے کی سعی میں صدیوں سے رائج انسانی اقدار کے خلاف علی الاعلان علمِ بغاوت بلند کردیا گیا ۔ اخلاق و عادات کی قائم و دائم آفاقی اقدار کو پامال کرنا باعثِ توقیر ٹھہرا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسانی رشتوں کا تقدس ملیامیٹ ہوا۔ جنسی بے راہ روی روزمرہ کی معمولی بات بن گئی اور ہم جنسی تک کو فطرت کا تقاضہ قرار دے دیا گیا۔
آگے بڑھنے سے قبل باطل کےان دو نظریات، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تصادم کا جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا جدیدیت کا دعویٰ تھا کہ انسان اپنا طرز حیات طے کرنے کے لیے کسی سے رجوع کرنےکی محتاج نہیں ہے۔ اس لیے نشاۃ ثانیہ کے بعد کی روشن خیالی نے خودکفالت، خودانحصاری، خودمختاری اور آزادیٔ کامل جیسی خوشنما اصطلاحات سے اپنا بیانیہ مزین ّ کیا ۔ آفاقی عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار، نظام اور اخلاقیات کو وضع کرنے کی طرح ڈالی لیکن اس سعیٔ لاحاصل میں ناکامی کے بعد مابعد جدیدیت (Post Modernism) نظریہ ایجاد کرکے خو اپنے ہی سابقہ فلسفۂ حیات کو مسترد کرکے کوڑے دان کی نذر کردیا گیا ۔
عقلیت کی غلام جدیدیت کا دعویٰ تھا کہ عقل استقرائی اور عقل استخراجی کے ذریعے علم، حقیقت، مابعد الطبیعیاتی سوالات، خیر و شر اور زندگی و موت کے بارے میں سب کچھ معلوم کیا جاسکتا ہےلیکن اس کے برعکس مابعد جدیدیت نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ عقل اپنی تاریخ، تہذیب، ثقافت میں محصور، مقید، مسدود اورمحدود ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت نے مابعد الطبیعیات سوالات سے فرار اختیار کرنے کے لیے انہیں بے کار، لایعنی، مہمل اور لغوقر ار دے دیا ۔ اس طرح نعوذباللہ ’ خدا مر گیا ‘ اور اس کے بعد ’انسان بھی مر گیا ‘ کا دعویٰ کرنے والی جدیدیت نے بھی دم توڑ دیا اور مابعد جدیدیت نے سر ابھارا ۔ مابعد جدیدیت کے حامل مفکرین نے زندگی کے مختلف پہلووں کی الٹی سیدھی توجیہہ تو کردی مگر موت کے سوال نے ان کو خاموش کردیا۔ وہ اس کی خاطر خواہ وضاحت نہیں کرسکے اس لیے خاموشی اختیار کرلی حالانکہ اس عظیم حقیقت سے کسی نظریہ کا منہ چرانا س کا اعترافِ شکست ہے۔
فی زمانہ ھل من مزید کا طالب یہ حیوانِ ناطق مابعد سچائی (Post truth) کی دنیا میں زندگی گزارنے پر مصر ہے۔اس جاہلانہ طرز فکر میں حق و باطل کی تمیز بے معنیٰ ہوچکی ہے۔ یہاں حقیقی سچائی نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ ہر انسان کے لیے وہی حق ہے جس کووہ سچ سمجھتا ہے۔ اس طرح گویا نفس کی بندگی کو ایک علمی جواز عطا ہوگیا ہے اور انسان کواپنی نفسانی خواہشات کا بندہ اور غلام بن کر رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ اس نظریہ حیات کے تحت ایک شخص کے لیے شراب حرام ہےاور دوسرے کے لیے وہ حلال ہے تو ان میں سے کوئی ایک فریق دوسرے کومنع تو دور سمجھا بجھا بھی نہیں سکتا کیونکہ دونوں حق بجانب ہیں ۔ عالمِ انسانیت نے اس سے قبل حق و باطل کے اس طرح خلط ملط ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا تھا ۔
کورونا وائرس کے تناظر میں اس مابعد سچائی کے فلسفے کا جائزہ لیا جائے تو نہایت دلچسپ سوالات جنم لیتے ہیں ۔ اس وائرس کو کچھ لوگ دنیا کی سب سےبڑی تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں بلکہ اس کو قرب قیامت کی دستک تک قرار دے رہے ہیں ۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیں جو مختلف بنیادوں پر اس طرز فکر کی مخالفت کررہے ہیں مثلاً ان میں سے کسی کی دلیل یہ ہے کہ یہ چینی مصنوعات کو بدنام کرکے اپنے سب سے بڑے معاشی حریف کو میدان سے باہر کرنے کی امریکی سازش ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ ویکسین بیچ کر کروڈوں روپئے کمانے کی خاطر کھڑا کیا جانے والا ہوا ہے، اس لیے کہ اس بیماری سے ابھی تک جتنے لوگ مرے ہیں ان سے بھی زیادہ لوگ تو ہرروز انفلوئنزا اور بھکمری وغیرہ کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں وغیرہ ۔ خیر گو ناگوں ا سباب کی بنا پر کورونا وائرس نےدنیا کو دو بڑے طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک اس کے منکرین اوردوسرےاس پر یقین کرنے والے ۔
مابعد سچائی کے مطابق دونوں طبقات حق پر ہیں یعنی ایک کے لیے اس کا انکار حق ہے اور دوسرے کے لیے اقرار سچائی ہے۔ جہاں تک کورونا وائرس کا تعلق ہے و ہ بیچارہ تو شہری ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مانند ان میں تفریق وامتیاز نہیں کرسکتا۔ اس لیےبفرض محال اگر ان دونوں طبقات کا ایک ایک فرد اگر کورونا وئرس کے نرغے میں آ جائےتو کیا ہوگا؟ اس پر ایمان رکھنے والا تو دوڑا دوڑا کسی طبی مرکز میں میں جائے گا۔ تفتیش و تصدیق کے بعد احتیاط و علاج کی خاطر عارضی طور پر سب سے الگ تھلگ ہوجائے گا ،گویا ازخود برضا و رغبت عقوبت خانے (Detention Center) میں بھرتی ہوجائے گا۔ وہاں پر جب تک اس کو بتایا نہیں جاتا کہ وائرس مرچکاہے اور خطرہ ٹل گیا ہے باہر آنے کی جرأت نہیں کرے گا ۔
اس کے برعکس جس نے کفر وانکار کا رویہ اختیار کررکھا ہے وہ کہے گا کہ ’مجھے تنہائی کی زندگی گوارا نہیں ہے،کیونکہ میں کورونا وائرس کو نہیں مانتا اور چونکہ میں بھی حق پر ہوں اس لیے یہ ساری احتیاط اور پابندیاں میری خاطر بے معنی ہیں ۔ میں جہاں چاہوں گا جاوں گا ۔ جیسے چاہوں گا کھانسوں گا اور جب چاہوں گا تھوکوں گا۔اپنے ملنے جلنے والوں سے نہ صرف مصافحہ بلکہ معانقہ بھی کروں گا۔ میری وجہ سے کوئی کورونا وائرس کا شکار ہو نہیں سکتا اس لیے کہ یہ ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور کوئی ایسا سمجھتا ہے تو مجھے اس کی مطلق پرواہ نہیں ہے ،اس لیے کہ جو شئے موجود ہی نہ ہو اس سے کیا ڈرنا؟ میری اپنی دانست میں چونکہ میں حق پر ہوں اس لیے کوئی مجھے وعظ و نصیحت نہ کرے۔ کوئی مجھ پر اپنی مرضی یا اپنا سچ نہ تھوپے۔ اب سوال یہ ہے کہ مابعد سچائی کے علمبردار اپنے اس مومن بندے کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ اس کو اپنے احباب و اقارب میں کورونا پھیلانے کی کھلی چھوٹ دیں گے یا پابندِ سلاسل کر یں گے؟ نیز یہ پابندی ان کے اپنے عقیدے و نظریہ کے مطابق ہوگی یا خلاف ہوگی؟
خلاصۂ کلام کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجرد عقلیت پسندی سے شروع ہوکر مابعد سچائی تک کے فکری سفر کی ابتدا تو مذہب کےانکار سے ہوئی، لیکن انتہا عقل سے بغاوت پر ہوئی کیونکہ دو سوسال قبل مذہب کو مسترد کرنے کے حق میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ اب ہم سچ، حقیقت، معنی، قدر، عدل، علم اور حسن کو وحی کی بنیاد سے ہٹاکر انسانی عقل پرتعمیرکریں گے۔ ان بیچاروں کو یہ خوش فہمی تھی کہ الہامی عقائد (جنہیں وہ مفروضہ قرار دے کر رد کررہے تھے)کے بجائے حقائق پر مبنی فلسفۂ حیات کو دنیا کے سارے انسان قبول کرلیں گے اور مذہبی تفریق کا خاتمہ ہوجائے گا۔ معاشرے کے اندر پنپنے والے بغض و عناد اور نفرت و عدم رواداری کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جبکہ مغرب کاکیتھولک چرچ اپنے ہم مذہب پروٹسٹنٹ طبقہ کے خون کا پیاسا تھا ، ملحدین کا یہ خوشنما دعویٰ امید کی کرن ثابت ہوا ۔ لوگوں نے سوچا اس طرح ہم مذہب اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے سے نجات حاصل کرلیں گے۔ اسی لیے یوروپ کے عوام و خواص میں اسے غیر معمولی پذیرائی ملی اور وہ تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ۔
کتابوں سے نکل کر یہ نظریا ت عمل کی دنیا میں یکے بعد دیگرے ناکامیوں سے ہمکنار ہوتے چلے گئے۔ یوروپ کو دو قیامت خیز عظیم جنگوں کی تباہی سے بچانے میں یہ ناکام رہے۔ انھوں نے آزادی کے بجائے مشرقی یوروپ اور چین کی عظیم آبادی کو شدید ترین جبرو استبداد کا شکار کردیا۔ اخلاقی انحطاط و پستی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ معاشی استحصال نے دنیا بھر کے بیشتر وسائل کو چند افراد کی تجوری میں بند کرکے عالم انسانیت کی کثیر آبادی کو نانِ جوئیں کا محتاج بنا دیا، لیکن ان حقائق سے عبرت پکڑنے کے بجائے مغربی دانشور اپنی ناکامیوں کی پردہ داری کے لیے نت نئی توجیہات میں لگے رہے۔ ملحدین کو ان موشگافیوں کے بجائے سرکشی سے تائب ہو کر وحی کی طرف رجوع کرنا چاہیےتھا،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ انسانی خدائی کے بت کو توڑ کررب کائنات کے حضور جبینِ نیاز خم کرنے کے بجائے کمال ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغرب کے دانشوروں نےاپنے تنزلی ارتقاکی انتہا پر یہ احمقانہ اعلان کردیا کہ سچ،حقیقت،معنی،قدر،عدل،علم اورحسن نامی کوئی شےہوتی ہی نہیں،یہ سب اضافی وبےمعنی تصورات ہیں۔ اس عظیم ترین غیر عقلی دعویٰ کو پیش کرنے کا شرف ان عقلیت پسندوں کے حصے میں آیاجنھوں نے عقل کی بنیاد پر ان اقدار کی تعمیر کا عزم کرکے اپنا رختِ سفر باندھا تھا۔
عصرِ حاضر کے معاشی نظام کی بابت یہ خوش فہمی پائی جاتی تھی کہ یہ بے مثال ہے اور اس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ یہودیوں نے سود کی مضبوط بنیادوں پر ایک نہایت ہی توانا اقتصادی نظام وضع کیا ہے اور اس کے ذریعہ ساری دنیا کو اپنے پنجے میں پوری طرح جکڑ لیا ہے۔ امریکہ سمیت کسی ملک کی ہمت نہیں ہے کہ اس کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے ۔ ہر کس و ناکس کواس کے آگے سجدہ ریز ہونےکے لیے مجبور کردیا گیا ہے۔ کورونا وائرس جیسے نظر نہ آنے والے جرثومے نے عالمی معیشت کے تاروپود تاش کے پتوں کی مانند بکھیر دیئے ۔ ساری دنیا کے حصص بازار کو دیکھتے دیکھتے ایسے ڈھیر کیا کہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ہر روزشیئر بازار کے سرمایہ کار ہزاروں کروڑ سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور سارے یہودی ماہرین معاشیات اس ریت کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں لیکن ان کی ایک نہیں چلتی ۔ عالمی معیشت کے تارِ عنکبوت کو ایک معمولی سے وائرس نےتہس نہس کردیا اور اس کے آگے ہرکوئی بے یارو مددگار ہوگیا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اس کلمۂ خبیثہ کی جڑ کتنی سطحی ہے۔ ایک ہوا کے جھونکے نے بظاہر لہلہاتے شجر ِ سایہ دار کو یکلخت سوکھا اور کھوکھلا کردیا اور دولت و حشمت کی بنیاد پر خدائی کا دعویٰ کرنے والے اوندھے منہ ڈھیر ہو گئے۔
انکارِ خدا کے بعد مغربی مفکرین نے بڑی چالاکی سے معبود کو قوم سے اور عبادت کو قوم پرستی سے بدل دیا تھا۔ اس خطرناک نظریہ کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرکےاپنی برتری ثابت کرنے کے لیے غیروں کی سرکوبی شروع کردی گئی ۔ اس فتنے نے عالمِ انسانیت کودو عظیم جنگوں میں جھونک دیا ۔ ان میں لقمۂ اجل بننے والوں کی تعداد انسانی تاریخ میں برپا ہونے والی ساری جنگوں سے زیادہ ہے، لیکن خدا کے انکار پر اصرار نے مغرب کو قوم پرستی سے چمٹے رہنے پر مجبورکر رکھا ہے۔ اس فاسد نظریہ کا سہارا لے کر عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے جمہوری حکمراں بھی اپنے ہی عوام پر مظالم توڑتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی باہر والا احتجاج بلکہ توجہ دہانی بھی کرے تو اس کو اندرونی معاملہ قرار دے کر الٹا اعتراض کیا جاتا ہے ۔
ظالم حکمرانوں کے جبر و استبداد کی بے شمار مثالیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ مثلاً فلسطین کے غزہ میں رہنے والے مسافروں پر آئے دن پابندی لگا دی جاتی ہے۔ وہاں پر ہوائی اڈہ یا بندرگاہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کشمیریوں کو گزشتہ سات ماہ سے مقید یعنی لاک ڈاون کی حالت میں رکھا گیاہے۔ شامی باشندوں کو ان کے اعزہ و اقرباء سے ملنے کا موقع نہیں ملتا نیز ایغور کے مسلمان خوف کے ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیئے گئے۔ قوم پرستی کے سبب غیروں کے علاوہ مسلم دنیا بھی اس کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتی اور ان کے رنج و الم کا احساس نہیں کرتی ۔ اس طرح گویا ہر حکمراں اپنی سرحدکے اندر بلا شرکت غیرے عوام کے ربِ اعلیٰ ہونے کا دعویدار ہے ۔ جمہوری نظام میں وہ اپنی انتخابی کامیابی کو دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کورونا وائرس نےساری دنیا کے لوگوں کا ضمیر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ انہیں احساس دلا رہا ہے کہ دیکھو سفرغزہ میں پر پابندی سے کیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں؟کشمیر میں گھروں کے اندر بندرہنا کس قدر دشوار گزار ہوتا ہے؟شام کے لوگوں کو اپنوں سے دوری کتنا ستاتی ہے؟ اور ایغور مسلمان چین کے اندرخوف کے عالم میں کیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ؟ عارضی طور پر سہی بے کس عوام پر جارحانہ پابندیاں لگانے والے ظالموں اور جابروں کو کورونا وائرس نے فی الحال بے بس کردیا ہے ۔
یہ عالمی وباء ان حکمرانوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے تاکہ اپنا رویہ درست کریں ۔قرآن مجید میں ایسے لوگوں کے لیے کیا عمدہ مثال دی گئی ہے۔ سورۂ نحل کی آیت ۱۱۲ اور ۱۱۳ میں ارشادِ ربانی ہے:’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کوکشادگی کے ساتھ رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی، تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔ کورونا کے ذریعہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال لوگوں کا خوفزدہ ہونا سب کے سامنے ہے ۔ اس کےبعد فرمایا: ’’ اُن کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا مگر اُنہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر کار عذاب نے اُن کو آ لیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے‘‘ ۔ مسندِ اقتدار پر فائز یہ لوگ آخرت کو فراموش کرچکے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا :’’جب کہ ہرجان دار اپنے ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا‘‘(سورہ نحل ۱۱۱)۔ مغرب زدہ دانشوروں اور ظالم و جابر حکمرانوں کے راستے کا سب سے بڑا روڑہ ان کی آخرت فراموشی ہے۔ اس غفلت کو دور کرناامت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2020