پچھلے مضمون میں الحاد اور نظریہ ارتقا کے متعلق تفصیلات آچکیں۔ اس بات پر تقریباً تمام محققین متفق ہیں کہ ہر چند کہ نظریہ ارتقا انواع کے وقوع پذیر ہونے کی بڑی حد تک تشفی بخش توجیہ کرتا ہے، نیز انواع کے تدریجاً وجود میں آنے کے خاطر خواہ شواہد بھی فراہم کرتا ہے، تاہم ایک خاص سطح تک آکر توجیہات میں واضح خلا دکھائی دینے لگتا ہے، مفروضاتی شواہد کا تناسب بڑھنے لگا ہے، اور نئی تحقیقات نئے بیانیے کی متقاضی نظر آتی ہیں۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈارون کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک ہمیشہ ایک سائنسی اقلیت ایسی موجود رہی ہے جو نظریہ ارتقا کی جانب داری اور الحاد کے ساتھ اس کی نامسعود نسبت (unholy marriage) کی مخالف رہی ہے۔ اور یہ سائنسی اقلیت محض بائبل کے نظریہ تخلیق کے ماننے والے سائنس دانوں ہی پر مشتمل نہیں، بلکہ ان میں ارتقائی سائنس کے بھی بعض بڑے نام شامل ہیں (جن کا تذکرہ پچھلے مضامین میں آ چکا ہے۔)
دوسری طرف سائنسی محققین کی اکثریت نظریہ ارتقا پر کامل ایمان رکھتی ہے، یعنی وہ نظریہ ارتقا میں پائے جانے والے خلا کو ٹکنالوجی اور فہم (comprehension) کا نقص مانتی ہے، اسے نظریہ ارتقا کی خامی نہیں سمجھتی۔
مذکورہ بالا اقلیت اور اکثریت کے درمیان ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو بدء الحیات اور ارتقاے حیات کے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی کو ضروری نہیں جانتا اور نہ ہی انسان کی رہ نمائی کے لیے کسی وحی یا نبی یا پیغمبر کے وجود پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقا کو بہت سارے نظریات کی طرح انواع، بشمول انسان کے، وجود میں آنے کی مناسب توجیہ جانتا ہے۔ اس طبقے سے جڑے تمام افراد متبادلات کے لیے ذہن کھلا رکھتے ہیں۔
یہ طبقہ عرفِ عام میں deistic کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک قلیل تعداد ان محققین کی بھی ہے جو theistic ہیں۔ یعنی انسانی تخلیق کو ایک ماوراے کائنات ہستی کے ذریعے انجام دیا گیا عظیم الشان کارنامہ مانتے ہیں۔ پیغمبر، وحی اور انسانی رہ نمائی کے لیے خدا یا الٰہ کو ضروری جانتے اور مانتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ نظریہ ارتقا چونکہ مغرب میں ایک خاص پس منظر میں پروان چڑھا اور وہ پس منظر اسلامی دنیا کے پس منظر سے بالکل جدا ہے، اس لیے ارتقا کی بحثوں میں ابراہیمی مذہب یعنی یہودیت اور عیسائیت ہی زیرِ بحث آئے۔ اور یہ بالکل طبعی بات تھی۔ مسلم دنیا میں یہ علمی کام جمود کا شکار تھا۔ چنانچہ عرب، ترکی، مشرقی یوروپ اور بر صغیر ہند و پاک میں اسلام اور نظریہ ارتقا یعنی اسلامی تصور خدا اور نظریہ ارتقا پر لٹریچر مفقود نظر آتا ہے۔ اسلامی دنیا میں نظریہ ارتقا کو عیسائی نظر ہی سے دیکھا گیا ہے۔ تخلیق کا عیسائی بیانیہ چونکہ روز اوّل ہی سے نظریہ ارتقا کے مدِ مقابل آ چکا تھا یا لایا جا چکا تھا۔ اسی لیے مسلم دنیا میں بھی اس کی مخالفت بالکل اسی طرز پر کی گئی جس طرح عیسائی دنیا میں۔ یہ ایک بڑی عجیب و غریب صورتِ حال تھی اور آج بھی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مثلاً:
۱۔ اسلامی دنیا میں علمی کاموں کے لیے درکار ندرت و تخلیقیت کی کمی۔ ۲۔ تہذیبی زوال کا لازمی اثر تحقیق و تدوین کے کاموں پر ہونا۔ ۳۔ دینی و دنیاوی علوم کی تقسیم، فلسفہ اور مذہب کا جدا ہونا۔ ۴۔ عیسائیت کی طرز پر سائنس کو مذہب مخالف سمجھنے کا رجحان۔ ۵۔ سائنس کو الحاد کی سیڑھی سمجھنا۔ ۶۔ تحقیقاتی، تجزیاتی اور تنقیدی اداروں کا رو بہ زوال ہونا۔
ہمارے نزدیک مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر اسلامی نظریہ تخلیق یا تخلیق کا قرآنی نقطہ نظر جیسے بیانیے نظریہ ارتقا اور عیسائیت و یہودیت کے مثلث میں جگہ ہی نہیں بنا سکے۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت کے قائلین اور معتقدین کی تمام تر تحقیقات، نظریہ ارتقا کو رد و قبول کی دوئی (binary) ہی میں دیکھنے لگیں۔ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ مشرق اور مشرق بعید بشمول چین میں نظریہ ارتقا کے لیے کوئی خاص علمی ہلچل پائی ہی نہیں گئی۔ اس کی وجہ ماہرین یہ مانتے ہیں کہ نظریہ ارتقا جوہری اعتبار سے ساختی مذاہب میں موجود ساختی تصور تخلیق پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ رہے فلسفے، جو اپنی اساس کے اعتبار سے ساختی نہیں ہیں اور تخلیقِ کائنات اور تخلیق انسان کا کوئی خاص ورلڈ ویو نہیں رکھتے وہ نظریہ ارتقا سے بہت کم متاثر ہو پائے۔ جیسے بدھ مت، یا شنتاؤازم یا کنفیوشنزم یا ہندو مت اور اس سے جڑے بہت سارے ویدک، آرین اور سناتن فلسفہ ہاے حیات اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔
ادھر گذشتہ چند دہائیوں سے عیسائی دنیا کے بعض اہم محققین نے نظریہ ارتقا اور بائبل کے تخلیقی بیانیے میں تطبیق کی کوشش کی ہے۔ یہ تمام محققین بائبل کے تخلیقی بیانیے پر مکمل اعتقاد رکھتے ہیں اور نظریہ ارتقا کو بھی جزوی طور پر یا بعض صورتوں میں مکمل طور پر صحیح مانتے ہیں۔
ایسے محققین خدا آشنا ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔ اور وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ڈارون سے قبل عیسائی دنیا میں ارتقا پر خاطر خواہ لٹریچر موجود ہے۔ اس لیے ڈارون کی تھیوری سے عیسائی نظریہ تخلیق پر کوئی ضرب نہیں پڑتی بلکہ ارتقا خدا کی صناعی کا مظہر ہے۔ مثلاً جان رے کی مشہور کتاب، جو 1692ء میں لکھی گئی، The Wisdom of God Manifested in the Work of Creation [۱]۔ ا سی طرح نباتاتی درجہ بندی کے لیے مشہور محقق کارل لیبنز نے 1735ء میں Systema Naturae لکھی، جس میں انھوں نے لکھا کہ اجناس (genera) ایک ساتھ بیک وقت خدا نے تخلیق کیں اور ان مختصر اجناس کے اختلاط سے پودوں کی نئی انواع کی تخلیق ہوئی۔ [۲]
مندرجہ بالا دو مثالوں سے خدا آشنا ارتقا کے عیسائی قائلین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ماضی کے جید محققین ایک باعمل عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نظریہ ارتقا پر بھی یقین رکھتے تھے، بلکہ انھوں نے ڈارون سے تقریباً سو ڈیڑھ سو سال قبل ہی نظریہ ارتقا پر لکھنا اور بولنا شروع کر دیا تھا۔ یعنی ڈارون کا نظریہ ارتقا یونانی تہذیب سے ہو کر عیسائی دنیا سے گزرتا ہوا اپنی موجود شکل میں ڈارون کے دور تک پہنچا۔ اور یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن عیسائی دنیا میں خدا آشنا ارتقا پر زبردست تنقید ہوئی اور خدا آشنا ارتقا کے حاملین و معتقدین پر کفر و تکفیر کے فتوے جاری ہوئے! اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ در اصل بائبل کا تخلیقی بیانیہ اس کی اصل وجہ بنا۔ بائبل کے مطابق زمین صرف چند ہزار سال پرانی ہے۔ درج ذیل جدول اولڈ ارتھ کری ایشنسٹ اور ینگ ارتھ کری ایشنسٹ کا فرق دکھاتا ہے۔ واضح ہو کہ موجودہ عیسائی دنیا میں الگ الگ فرقوں کے باوجود سائنسی ورلڈ ویو رکھنے والے تمام عیسائیوں کو ان دو خانوں میں رکھا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا جدول کو موجودہ دور میں عیسائیت اور نظریہ ارتقا میں ہونے والے علمی معرکے کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ اولڈ ارتھ کری ایشنسٹ کے اپنے اپنے بیانیے ہیں، ان کے اپنے مقالات ہیں، ویب سائٹ ہیں، جرنلس ہیں۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے [۳]۔ لیکن اس جدول سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل کے تمام الفاظ کو لفظی (literal) معنی میں لینے والے ینگ ارتھ عیسائی بین واضح اور پایہ ثبوت کو پہنچ چکے سائنسی حقائق کی بھی تاویل کرتے ہیں کیونکہ بائبل کی لفظی تفسیر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ واضح ہو کہ مسلمانوں میں بھی علما کا ایک طبقہ زمین کو اب بھی ساکن مانتا ہے، اور مسلمانوں میں بھی اس پر مناظرے منعقد ہوئے ہیں کہ آیا زمین گول ہے یا چپٹی، ساکن ہے یا گردش کر رہی ہے، وغیرہ۔ یہ جدول خدا آشنا ارتقا اور خصوصی تخلیق کے مابین رشتے کو بھی واضح کرتا ہے۔ خدا آشنا ارتقا کے قائلین یہ مانتے ہیں کہ بائبل میں ’’یوم‘‘لفظ کا مفہوم کئی طریقوں سے نکالا جا سکتا ہے، اور یہ بات درست ہے کہ زبان کے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں، البتہ ینگ ارتھ کری ایشنسٹ ان کی اس بات کو نہیں مانتے۔
خدا آشنا ارتقا کے سب سے اہم ناموں میں سے ایک نام فرانسس کولنز کا ہے۔ کولنزماہر جینیات (geneticist) ہیں۔ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب The Language of God: A Scientist Presents Evidence of Belief نے لاکھوں عیسائی متشککین کو دوبارہ عیسائیت کے آغوش میں پناہ لینے کی جرأت نصیب کی۔ گبرسن نامی محقق کے ساتھ لکھی گئی ان کی کتاب کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’اگر ارتقا کو صحیح طریقہ سے سمجھا جاسکے تو یہ خدا کی تخلیق کی بہترین تشریح ہے۔ ‘‘ [۴]
خدا آشنا ارتقائی محققین کے جوہری نکات تین ہیں۔ جو تخلیق اور ارتقا کے بیانیے سے متصل و ملحق ہیں۔ ان کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتا ہے۔
۱۔ زمین کی عمر کئی بلین سال ہے اور اس کی تخلیق بگ بینگ کے ذریعے ہوئی ہے۔ بائبل کے تخلیقی بیانیے کو نئی نظر اور زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
۲۔ زمین میں موجود تمام مخلوقات بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ تدریجاً وجود میں آئی ہیں۔ نظریہ ارتقا ان کے وجود میں آنے کی بڑی حد تک درست توجیہ ہے۔
۳۔ انسان، بشمول اس کے تمام خصائص کے، خدا کے حکم کے ذریعے بتدریج انسان نما جانداروں سے وجود میں آیا۔
خدا آشنا ارتقائی محققین ینگ ارتھ کری ایشنسٹ حضرات کو یہ دلیل دیتے ہیں کہ بائبل کے بہت سے بیانیے سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دوبارہ استنباط و استخراج کے متقاضی ہیں۔ تاہم کیتھولک عیسائی یا ینگ ارتھ کری ایشنسٹ ان کے خدا آشنا ارتقا کو بائبل کے مخالف بتاتے ہیں۔
مثلاً کیلی جوبرٹ نے خدا آشنا ارتقا کے دلائل کی رد میں ایک طویل مقالہ تحریر کیا۔ [۵] اس کے بعض دل چسپ پہلو ہیں جو ینگ ارتھ کری ایشنسٹ کے ذہنی مشاکلہ کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ کیلی جوبرٹ ینگ ارتھ کری ایشنسٹ کی ایک موقر آواز مانی جاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
’’اگر خدا آشنا ارتقا وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ اس وقت خدا کیا کر رہا تھا! اور وہ (خدا آشنا ارتقا) ’’برائی‘‘ (evil) کیسے پیدا کر سکتا ہے، جب کہ وہ ارتقا کی رہ نمائی کر رہا تھا! [۶]
اوپر کا اقتباس اس غیر معمولی تصوراتی خلا اور غیر منطقی تصور خدا کا شاہ کار ثبوت ہے، جس سے پوری کیتھولک عیسائی دنیا عقیدہ کی سطح پر دانش ور حضرات کے نزدیک مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ کیسا خدا ہے! جو بیک وقت دو کام انجام نہیں دے سکتا۔ یا جسے اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے مستقل نگرانی کی بھی ضرورت پڑتی ہو۔
مقالہ کے آخر میں رقم طراز ہیں۔ (ترجمہ)
’’ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خدا آشنا ارتقائی ورلڈ ویو موجود مخلوق اور entities کوئی مربوط تشریح نہیں کر پاتا۔ نہ ہی برائی کے وجود میں آنے کی اور نہ ہی اشیا کی فطرت کی۔ خدا آشنا ارتقائی تصور ’’کتاب‘‘ کے ساتھ تطبیق نہیں کر پاتا۔ اس لیے اس کے جاننے والوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس تصور کو ترک کریں اور کتاب پیدائش : 1-3 (Genesis)کے تاریخی اور گرامیٹیکل تصور کو اپنائیں۔ ‘‘ [۷]
مندرجہ بالا اقتباس ینگ ارتھ کری ایشنسٹ کے غیر معمولی عناد کو ظاہر کرتا ہے۔ ہر اس عیسائی کے لیے جوسائنس اور بائبل یا نظریہ ارتقا اور بائبل کے غیر معقول اور جذباتی تخلیقی بیانیےکی چوکھٹ سے باہر کوئی نیا نظریہ اپنانا چاہتا ہو، خدا آشنا ارتقا کے رد میں قابل لحاظ لٹریچر موجود ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں۔ [۸]
ہمارے نزدیک عیسائی خدا آشنا ارتقا کم از کم بائبل کے عجیب و غریب تخلیقی بیانیے کو قابل قبول بنانے کی ایک کوشش ہے۔ بجائے اس کے کہ عیسائی دنیا اسے ہاتھوں ہاتھ لیتی اس بیانیے کو غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ (لیکن حال میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے) ۔ تاہم اس بیانیہ کا فریق مخالف اس سلسلے میں اب بھی اپنی پرانی رائے ہی پر اڑا ہوا ہے۔ قاری کی دل چسپی کے لیے درج ذیل نکات دیے جاتے ہیں جو اس فریق کے دلائل کے سلسلے میں ایک غیر عیسائی نقطہ نظر پیش کر تے ہیں.
۱۔ بائبل کو کیسے پڑھا جائے! یعنی بائبل کو پڑھنے کے ضوابط (parameters) کیا ہوں گے، ’’بائبل خدا کے الفاظ ہیں؟ ‘‘ خدا کے الفاظ انسانوں نے لکھے ہیں؟ اور اس طرح کے تمام ضوابط کے ساتھ بائبل کو کیسے پڑھا جائے۔
۲۔ بائبل کو سمجھنے کے لیے اس کے قواعدی (grammatical) اور نسبی (genealogical) پہلوؤں کو جوں کا توں کیوں مانا جائے! اگرچہ اس کے بہت سارے معنی و مطلب بعض لوگ نکال سکتے ہیں۔ یا نکال رہے ہیں۔
۳۔ تشریح و تعبیر کے ممکنہ حدود کیا ہیں؟
۴۔ بائبل میں موجود تخلیق کے ادوار اور تخلیق کے باب میں موجود واضح اور بالکل منطقی تضادات کی تشریح و توجیہ کیسے کی جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ خدا آشنا ارتقا مجرد نظریہ ارتقا کا ایک مناسب متبادل ہو سکتا ہے لیکن عیسائی خدا آشنا ارتقا کئی وجوہ سے تناقض کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً درج ذیل نکات بطور دلیل ملاحظہ ہوں:
۱۔ بائبل کا تصور خدا جس میں تخلیق کے بعد آرام کا تصور ہے۔ [۹]
۲۔ بائبل کے علم الانساب (genealogy) کی نئی تعبیر (reinterpretation) کرنا عیسائی دنیا میں مبغوضی کا باعث ہے، یعنی اس کے لفظی معنی پر غیر ضروری زور۔ اس سے ہٹ کر معنی اخذ کرنا، انحراف اور کتاب میں رد و بدل کے مترادف مانا جاتا ہے۔
۳۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ انسان بھی بتدریج ارتقا پا کر وجود میں آیا ہے تو یہ تمام سائنسی خلا، سائنسی مفروضات اور نظریہ ارتقا کی تمام خامیاں مان لینے کے مترادف ہوگا۔ جب کہ تا حال انسان کی بہت ساری صفات کے ظہور کی توجیہ اور پیچیدگی بذریعہ طبعی انتخاب کے ثبوت اب بھی آنا باقی ہیں، اور یہ بیانیہ ابھی حتمی مراحل میں داخل بھی نہیں ہوا ہے۔
۴۔ بائبل میں موجود بہت سارے تناقضات (contradictions) جو محض کتاب کی باز خواندگی (re-reading) کے ذریعے دور نہیں کیے جا سکتے۔
۵۔ بائبل کے تصور تخلیق میں دورانیہ اور علاماتی تخلیقی مظاہر سے آگے بڑھ کر ایسی جزئیاتی تفصیل کا ہونا جس کے بعد تخلیق کے میکانکی (mechanistic) پہلو سے دیگر کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے کا راستہ ہی مسدود ہو جاتا ہے۔
۶۔ بائبل میں تثلیث (Trinity) اور اس سے جڑے تخلیقی بیانیے کا ابہام۔
الغرض خدا آشنا ارتقا کا تصور دوہری مار کا شکار ہو کر رہ گیا۔ ایک طرف سخت رجحان رکھنے والے کیتھولک محققین ہیں اور دوسری طرف مذہب اور سائنس کی جوہری دوری اور دو مختلف مکاتب فکر ہونے کے قائل ماہرین و سائنس داں ہیں۔
تاہم خدا آشنا ارتقا کا تصور اپنے اندر غیر معمولی اپیل رکھتا ہے۔ وہ اس لیے بھی کہ سائنسی تحقیقات کی صحت پر جتنا اطمینان بڑھتا جائے گا اتنا ہی نظریہ ارتقا کے رد و قبول کی دوئی کے درمیان کے راستے کی تلاش شدت اختیار کرتی جائے گی۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نظریہ ارتقا کے ذریعے غیر حل شدہ سوالات کے جوابات اب دو ہی طریقے پر دیے جا سکتے ہیں۔
۱۔ ٹکنالوجی اور تفہیم کے بالکل نئے معیارات کا قیام کر کے۔ تا کہ وہ اوصاف یا واقعات، یا شواہد، یا خاصے جن کی تشریح نظریہ ارتقا کے ذریعے ممکن نہیں، ان کے لیے جدید ٹکنالوجی اور بیانیے تشکیل دیے جائیں۔
۲۔ اول الذکرکی غیر موجود میں ان اوصاف، واقعات، شواہد یا خاصّوں کے لیے مداخلت (intervention) کو مان لیا جائے۔ (خدا آشنا ارتقا!)
۳۔ نظریہ ارتقا کی تمام تر خامیوں کو عقیدہ کی جگہ دے دی جائے (جو کہ غیر معقول سائنسی رویہ کہلائے گا۔)
مندرجہ بالا تین نکات کے تناظر میں اپنے تمام تر ابتدائی ایام طفولت کے باوجود خدا آشنا ارتقا نظریہ ارتقا کے ایک مضبوط متبادل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
حرف آخر: عیسائی خدا آشنا تصور ارتقا کے علی الرغم اسلامی خدا آشنا ارتقا کے حدود اربعہ کیا ہوں گے، کیا یہ اول الذکر کی نقالی ہوگی؟ اسلامی تصور خالق اور عیسائی تصور خدا و خالق میں کون سے جوہری فرق ہیں؟ عیسائی اور یہودی تخلیقی روایات سے پاک اسلامی نظریہ تخلیق کی کیا بنیادیں ہیں؟ قرآن کا تخلیقی بیانیہ بائبل کے تخلیقی بیانیے سے کتنا الگ ہے؟ یہ اور اس قبیل کے بہت سے سوالات مسلم محققین کے لیے ایک بڑا علمی چیلنج ہیں، جن کے جواب پر اسلامی تخلیقی نقطہ نظر پر جدید ذہن کا شرح صدر منحصر ہوگا۔(جاری)■
حوالے
- https://www.asa3.org/ASA/PSCF/1960/JASA6-60Marsh.html
- Compare: Garner, Paul A. (2009-01-16) .”1: Evolving Christian Views of Species”. In Wood, Todd Charles; Garner, Paul A. (eds.) . Genesis Kinds: Creationism and the Origin of Species. Issues in creation. Center for Origins Research Issues in Creation: 5. Eugene, Oregon: Wipf and Stock. p. 16. ISBN 9781606084908.
- https://biologos.org/articles/series/science-and-the-bible/theistic-evolution-history-and-beliefs
- Giberson, K.W. and F. Collins. 2011. The language of science and faith: Straight answers to genuine questions. P.251 Downers Grove, Illinois: IVP Books
- Theistic Evolution: An Incoherent and Inconsistent Worldview?:(2012) , Kallie Joubart ; Answers Research Journal 5 (2012):99–114
- Ibid
- Ibid
- A. Theistic evolution: a sinful compromise. By Jhon M Otis (2013) .Triumphant Publications Ministries , United States of America.
B. The Deception of Theistic Evolution. By . Mark Allfree Matthew Davies .BIBLE STUDY PUBLICATIONS “Woodlyn”, The Park, Mansfield, Nottinghamshire NG18 2AT, UK - https://biblehub.com/genesis/2-2.htm
مشمولہ: شمارہ جولائی 2020