یہ منظر دیکھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کواپنے بچپن کا خواب یاد آگیا ۔ اوربے ساختہ اُنہوںنے فرمایا ’’ ابا جان یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جس میں گیارہ ستارے اورسورج اور چاند میرے آگے جھکے ہوئے دکھے تھے ۔ میرے رب نے اس کو سچ کر دکھایا ۔
پس خدا کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچ کر دکھایا اور جومیں نے سوتے سوتے دیکھا تھا الحمد اللہ مجھے اس نے جاگتے میں بھی دکھادیا ۔ اوراحسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے قید خانے سے نجات دی اورتم سب کوصحراء سے یہاں لا کر مجھ سے ملادیا ۔
خواب اوراس کی تعبیر کے درمیان کے مدت
خوابوں کی تعبیر کے واقع ہونے میں کبھی کبھی کافی مدت گزر جاتی ہے ۔ یہاں بھی حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب بچپن میں بارہ سال کی عمر میں دیکھاتھا اور اس کی تعبیر میں ایک مدت گزرگئی ۔ کہا جاتاہے کہ یہ مدت چالیس سال تھی۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر اس وقت (130) سال تھی اور مصر میں سترہ (17) سال زندہ رہے ( ابن کثیر )
شکرانے کے چند الفاظ
حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر شکرانے کے طورپر جوباتیں فرمائی ہیں وہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ دنیا کے بادشاہ عزت، وقار، قوّت واقتدار پاکر غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتے ہیںمگر حضرت یوسف علیہ السلام نےجس عاجزی اورانکساری سے اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دیا اور عرض کیا کہ اے میرے رب یہ حکومت، یہ بادشاہت ، یہ قوت واقتدار، یہ سب تیرا ہی دیا ہوا ہے ۔ یعنی بالفاظ دیگر وہ یہ فرمارہے ہیں کہ اس میں میرا کچھ نہیں، سب تیرا ہے اور ساتھ ہی اس کا بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ خوابوں کی تعبیر اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا علم بھی تونے ہی دیا ۔ اے آسمان وزمین کے بنانے والے مجھے دنیاوآخرت میں تیری سرپرستی چاہئے اورمیرا خاتمہ تو اسلام پر کرنا اس حال میں کہ میں تیرا فرماں بردار غلام بنا رہا ہوں اورمجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دینا ۔
ناپائیدار دنیا سے رخصت
حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ایک سو دس (110) سال تھی ۔ بقول اہل سیر ’’ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک نہایت پرفضا جگہ ہے (عالم قدس ) وہاں چند کرسیاں رکھی ہیں۔ ایک پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ایک پر حضرت اسحاق علیہ السلام اورایک پر حضرت یعقوب علیہ السلام اور ایک پر حضرت راحیل حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں اورایک کرسی خالی ہے گویا سب حضرت یوسف علیہ السلام کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ اورحضرت یعقوب اورحضرت راحیل رو کر حضرت یوسف علیہ السلام سے لپٹ گئے اوریہ کہہ رہے ہیں کہ اے فرزند ! رب کب تک اپنی راہ دکھائے گا ، آجا، ہم تیرے مشتاق بیٹھے ہیں‘‘۔
بیدار ہوتے ہی حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے اس کے احسانات کا ذکر کرکے مناجات شروع کی کہ اے رب تونے مجھے حکومت دی اورتونے مجھے خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔
فاطر السمٰوٰت والارض فرما کراس کی عظمت، قدرت اور اقتدار کا اعتراف کیا اوردرخواست کی کہ تو ہی دنیا وآخرت میں میرا کارساز و سرپرست ہے ۔ یہ سب اقرار کرنے کے بعد فرمایا کہ میرا خاتمہ اسلام پر کر اورنیکوں سے ملادے ۔ چنانچہ ان کی دُعا قبول ہوئی اور ان کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھی وصیت کے مطابق اپنے بزرگوں کے پہلو میں فلسطین کے مقام فابُلس میں دفن کیے گئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زنداں کے دوساتھیوں کا خواب
سورۂ یوسف میں ہے :۔
وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ۰ۭ قَالَ اَحَدُہُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا۰ۚ وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْہُ۰ۭ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِہٖ۰ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۳۶
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّہٗ خَمْرًا۰ۚ وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ۰ۭ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْہِ تَسْتَفْتِيٰنِ۴۱ۭ
ترجمہ۔ ’’ قید خانہ میں دو غلام اوربھی ان کے ساتھ داخل ہوئے ۔ ایک روز ان میں سے ایک نے اُس سے کہا ’’ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشیدکررہا ہوں ‘‘ دُوسرے نے کہا ’’ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر رو ٹیاں رکھی ہیں اورپرندے ان کوکھارہےہیں ‘‘ دونوں نے کہا ’’ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں‘‘۔
’’اے زنداں کے ساتھیو،تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہِ مصر) کوشراب پلائے گا ، رہا دوسرا تو اُسے سولی پر چڑھایا جائے گا اورپرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔ فیصلہ ہوگیا اُس بات کا جوتم پوچھ رہے تھے۔
د و قید یوں کا خواب
سچے خواب کا دیکھنا صرف ایمان والے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ غیر مومنوں اور غیر مسلموں کوبھی سچے خواب دکھاتا ہے اورجس کی تعبیر سہی نکلتی ہے ۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام جب قید خانہ میں ڈالے گئے توان کے ساتھ ہی دربار مصر کے دو غلام بھی قید کی سزا بھگتنے کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے ۔ یہ دونوں غلام شاہِ مصر کے خاص خدمت گاروں میں تھے۔ ایک شاہِ مصر کوشراب پلاتا تھا اوردوسرا شاہی مطبخ کا انچار ج تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ شراب پلانے والے غلام پر الزام تھا کہ اس نے شراب میں زہر ملایا تھا تاکہ بادشاہ کوجان سے مار ڈالے اوردوسرے کا جرم یہ تھا کہ روٹیوںمیں کرکراہٹ پائی گئی تھی ۔ اس لیے حکم صادر کیا گیا کہ دونوں کو قید میںڈال دیا جائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اخلاق فاضلہ اورنیک سیرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی مشہور ہوگئے تھے۔ قیدی آپ کے تقویٰ ، آپ کی عبادت اور آپ کی بیماروں کی عیادت اور خدمت سے بہت متاثر تھے اورآپ کونیک اورصالح انسان سمجھتے تھے۔
جب ان دونوں قیدیوں نے خواب دیکھا تو خواب کی تعبیر جاننے کے لیے ان کی نگاہ حضرت یوسف علیہ السلام پرپڑی کہ یہی نیک انسان ان کے خواب کی صحیح تعبیر بتلا سکتا ہے ۔ چنانچہ دونوں آپ کے پاس آئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ شراب کشید رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پرروٹیاں رکھی ہیں ا ور پرندے ان کو کھا رہے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے ان دونوں کے خواب کوسن کرفرمایا ، میں تمہارے خوابوںکی تعبیر تمہیں روزانہ جوکھانا دیا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی بتادوںگا ۔ موقع کی مناسبت سے حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بیان کرنے سے قبل ایک ضروری بات ان سے یہ کہی کہ دیکھو، بہت سے خدا بہتر ہیں یا ایک اللہ جوسب پر غالب ہے ۔ تم لوگ ایک خدا کو چھوڑ کر جن خداؤں کی پوجا کرتے ہو، و ہ محض چند نام ہیں جوتم نے ا ورتمہارے آباء واجداد نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری۔غرضیکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے سامنے دعوتِ توحید پیش کردی اورشرک کے نقصانات سے آگاہ کردیا ۔ پھر خواب کی تعبیر بھی بتلاد ی یہ کہتے ہوئے کہ یہ علم بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے۔
خواب کی تعبیر
حضرت یوسف علیہ السلام اپنی تبلیغ ودعوت کے بعد ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا کہ تم ’’ میںسے ایک قید سے رہائی پائےگا اور اپنی ملازمت پر بحال کردیا جائے گا اوردوسرے کوپھانسی دی جائے گی اور پرندے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ تعبیر صحیح ثابت ہوئی ، ان میں سے ایک کو رہائی ملی اوروہ شاہِ مصر کا ساقی بنا اوردوسرے کوسولی پر لٹکا یا گیا ۔ پرندوں نے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا ۔
شاہِ مصر کا خواب
حضرت یوسف علیہ السلام جس وقت مصر میں لائے گئے اورزندگی کےکئی مرحلوں اور آزمائشوں سے گزرتے ہوئے قید خانہ میں ڈالے گئے، اس وقت مصر کے تحت پر اپوفیس (APOPHIS) متمکن تھا۔
’’ موجودہ زمانے کے محققین جنہوںنے بائبل اورمصری تاریخ کا تقابل کیا ہے ، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چروا ہے بادشاہوں میں سے جس فرماں روا کا نام مصری تاریخ میں ’’ اپوفیس (APOPHIS) ملتا ہے وہی حضرت یوسف علیہ السلام کا ہم عصر تھا ‘‘۔ (تفہیم القرآن ج ۲ ص ۳۸۲)
اس وقت مصری حکمراں کا لقب ’’ عزیز ‘‘ تھا ۔ اِسی لیے قرآن مجید میں بھی اُسے ’عزیز‘ کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ یہ لوگ مصر کے اصل باشندےنہیں تھے بلکہ یہ عربی النسل تھے اورفلسطین اورشام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً دو ہزار سال پہلے مصر آکر سلطنت پر قابض ہوگئے تھے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں اِسی خاندان کی پندرہویں نسل مصر پر حکمراں تھی اور ’’ اپوفیس‘‘ عزیز مصر تھا ۔ اِسی بادشاہ نے خواب دیکھا۔
قرآن مجید میں سورۂ یوسف کی مندرجہ ذیل آیات میں اس کا ذکر ہے :۔
وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۰ۭ يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ۴۳ قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ۰ۚ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ۴۴
ترجمہ:’’ بادشاہ نے کہا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں ، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیںاور دوسری سات سوکھی ہیں۔’’ اے اہل دربار! مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگرتم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو ‘‘ لوگوں نے کہا ’’ یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے اسباب مُھیا فرماتا ہے ۔ اب وقت آگیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی جیل سے رہائی ہو اور انہیں مصر کا اقتدار تفویض کیا جائے۔ چنانچہ شاہِ مصر کو اس دوران ایک خواب دکھایا گیا جس کی تعبیر بتانے میں تمام درباری، دانش ور ، مذہبی پیشوا اورجادو گر ناکام ہوگئے اور سب نے یک زبان ہوکر یہی کہا کہ یہ تو خوابِ پریشاں ہیںاور خوابِ پریشاں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی ہے۔
شاہِ مصر کی پریشانی
بادشاہ اس خواب سے بہت پریشان ہوا۔ خواب بھی عجیب وغریب تھا۔ اس نے کمزور کوطاقت و ر پرغالب آتے ہوئے دیکھاتھا ۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ طاقت ور کمزور پرغالب آتا ہے ۔ اس کو قابو میں کرتا ہے مگر یہاں اس کے برعکس تھا ۔ اس نے خیال کیا کہ کوئی بڑی مصیبت مملکت پر آنے والی ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کے دل میں اس خواب کی تعبیر جاننے کا شو ق پیدا فرمادیا اور دوسری طرف تمام ان لوگوں کو جوخواب کی تعبیر بتاسکتے تھے ، ان کی نگاہوں سے اس حقیقت کو روپوش کردیا اوروہ خواب کی تعبیر بتانے سے عاجز رہ گئے۔ یہ سب حضرت یوسف علیہ السلام کوقید خانہ کی آزمائش سے نجات دلانے کی ایک تدبیر تھی۔
شاہِ مصر کے ساقی کی پیش کش
وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ۴۵ يُوْسُفُ اَيُّہَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۰ۙ لَّعَلِّيْٓ اَرْجِـــعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَعْلَمُوْنَ۴۶
ترجمہ ’’ اوران دونوں میں سے جو چھوٹ گیا تھا اور ایک مدت کے بعد اِسے یاد پڑا وہ بولا کہ میں آپ لوگوں کواس کی تعبیر بتاؤں گا پس مجھے جانے دیجئے‘‘۔
یوسف! اے راست باز! ہمیں سات فربہ گایوں کے بارے میں جنہیں سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اورسات سبز بالیوں اور دوسری سات خشک بالیوں کے بارے میں تعبیر بتاتاکہ میں لوگوں کے پاس جاؤں تاکہ وہ بھی جانیں‘‘۔
شاہی ساقی کی جیل خانہ میں آمد
جیل خانہ میں قیدی سے ملنے کی جوکارروائیاں ہوتی ہیں وہ سب پوری ہوئی ہوں گی۔ اورپھر ساقی کو حضرت یوسف علیہ السلام سے ملنے دیا گیا ہوگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے ساقی ملا اور اس نے انہیں ’ اَیُّہَا الصِّدِّیْق ‘ اے راست باز، اے پیکر صداقت، اے صدقِ مجسم کہہ کر مخاطب کیا ۔
’’ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجد د اپنی خواب کی تعبیر کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام کا معتقد نہیں ہوگیا تھا بلکہ ایک مدت تک جیل میں ان کی زندگی کی پاک بازی اورصداقت کا اس کو جوتجربہ ہوا تھا اس نے ان کا گرویدہ بنادیا تھا ۔ چنانچہ اس نےان کو ’ اے خوابوں کی تعبیر بتانے والا ‘ سے خطاب کرنے کے بجائے ’ اے مدد راست باز سے خطاب کیا جوتمام اوصاف حسنہ سے متصف ہونے کی ایک جامع اور کامل تعبیر ہے ۔‘‘ (تدبر قرآن ج ۴)
خواب کا بیان
خواب بیان کرنے سے پہلے اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ضرور معذرت کی ہوگی کہ ان سےاپنی رہائی کےوقت جووعدہ کیا تھا ،و ہ پورا نہ کرسکا اوربھول گیا ۔ آج جب دربار میں خواب کی تعبیر پر مباحثہ ہورہا تھا تو آپ کی یاد آگئی ۔ اس کی اس بھول سے حضرت یوسف علیہ السلام تقریباً ’’ نوسال جیل میں رہے ۔ اب نو سال بعدشاہی ساقی کی ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی ۔ تو اس نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سے ان کا ذکر اس نے کردیاہے اورآپ کے بارے میں سب کچھ اس کوبتادیا ہے کہ آپ کی شخصیت کیسی ہے ۔ آپ کو خوابوں کی تعبیر کا علم ہے ۔ آپ راست باز انسان ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
اس تمہید کے بعد اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بادشاہ کا خواب بیان کیا کہ اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات فربہ گائیں ہیں اورسات دُبلی گائیں ہیں اور دُبلی گائیں، فربہ گایوں کو نگل رہی ہیں اور اس طرح سات سر سبز بالیاں ہیں جودوسری سات خشک بالیوں کوکھا رہی ہیں ۔ خواب بیان کرنے کے بعد فوراً ہی اس نے یہ بھی عرض کیا کہ خواب کی تعبیر جلد ہی بتادیجئے ، اُسے خیال ہوگا کہ ایسا نہ ہوکہ اس نے جوخواب دیکھا تھا اس کی تعبیر بتانے کے لیے انہوں نے ایک وقت مقرر کیاتھا کہ کھانا آنےسے پہلے بتادوںگا۔ابھی کی صورتِ حال یہ تھی کہ جیل کے باہر اور دربار کے اند ر لوگ اس کے واپس آنے اور خواب کی تعبیر جاننے کے لیے بے تاب تھے تاکہ میں لوگوں کے پاس آپ کی تعبیر لے کرجاؤں کہ وہ مطمئن بھی ہوں اورانہیں یہ بھی معلوم ہوکہ کیسے علم وفضل والے انسان کو انہوںنے بے قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال رکھا ہے۔
خواب کی تعبیر
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا۰ۚ فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِيْ سُنْۢبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ۴۷ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ۴۸ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْہِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيْہِ يَعْصِرُوْنَ۴۹
ترجمہ: یوسف نے کہا ’’ سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہوگے اس دوران جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ جوتمہاری خوراک کے کام آئے، نکالواورباقی کواس کی بالوں ہی میں رہنے دو (47) پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانہ میںوہ سب غلّہ کھالیا جائے گا جوتم اس وقت کے لیے جمع کرو گے ۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جوتم نے محفوظ کر رکھا ہو (48) پھر اس کے بعد ایک سا ل ایسا آئے گا جس میںبارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اوروہ رس نچوڑیں گے‘‘۔(49)
شاہی ساقی کی ساری باتیں سن کر حضرت یوسف علیہ السلام نے اس سے فرمایا ۔ اس خواب کے دو حصے ہیں۔ سات موٹی گایوں کوسات دبلی گائیں نگل رہی ہیں۔اس کی تعبیر یہ ہےکہ پہلے، سات سالوںتک ضرورت کے مطابق بارش ہوتی رہے گی تو مسلسل کاشت کرتے رہو۔ پیداوارخوب ہوگی۔ ساتھ ہی اس پیدوار کو محفوظ رکھنے کی تدبیر بھی بتادی اوریہ بھی اِشارۃً بتادیا کہ سب پیداوار کھا پی کر ختم مت کردینا بلکہ اسٹور وں اورگوداموں میں جمع کرکے رکھنا اور غلّہ کومحفوظ رکھنے کی تدبیر یہ بتائی کہ دانوںکوان کی بالیوں میں ہی چھوڑدینا ۔ دانے جب تک بھُس او ر بالیوں کے اندر رہتے ہیں کیڑوں مکوڑوں کی آفت سے بچے رہتے ہیں۔
اس کے بعد خواب کے دوسرے حصہ کی تعبیر بتائی کہ ان خوش گوار سات سالوں کے بعد ، سات سالوں تک ملک میں سخت قحط پڑے گا ۔ نہ بارش ہوگی نہ پیداوار ہوگی۔ یہی ذخیرہ کیا ہوا غلّہ کام آئے گا ۔ یہاں تک تو بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتائی اوراس کے بعد ایک ایسی بات بتائی جس کا ذکر خواب میں نہیں ہے تاکہ بادشاہ ، عوام اور تمام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس جوعلم ہے اس کا سر چشمہ خدا کی ذات ہے اسی کی تعلیم سے وہ یہ سب کچھ بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے خواب کی تعبیر کے بعد یہ فرمایا کہ قحط کے سات سالوں کے بعد اچھے دن آئیں گے۔ ایک ایسا سال آئے گا جس میں خوب بارش ہوگی ۔ خوب پیداوار ہوگی۔ کھیتیاں لہلہائیںگی ۔ تنگی دور ہوگی اورلوگ حسبِ عادت زیتون کا تیل نکالیں گے ۔ انگور کا رس نچوڑیں گے ۔ جانوروں کے تھن دودھ سے لبریز ہوجائیں گے۔
یُغاث ُ الناس کا مفہوم
’’ یُغاث ‘‘ کا مطلب بعض لوگوں نے بارش بھی لیا ہے لیکن میرے نزدیک بارش اس کا لغوی مفہوم نہیں ہے البتہ اس کے لازم معنیٰ کی حیثیت سے اس کو اس کے مفہوم میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ لفظ کو اس کے لغوی مفہوم میں لینے کا ایک کھلا ہوا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ہمہ گیر اثر کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے کہ سارے ہی لوگ اس کے اثر سے چیخ اُٹھیں گے اورہر شخص اپنے رب کے آگے روئے ا ور گڑ گڑائے گا ۔ یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ جب حقیقی معنوں میں کوئی سخت وقت آپڑتا تو جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے کہ کٹّر سے کٹّر کافر ومشرک بھی اکیلے خدا ہی کوپکارتے ہیں اپنے دوسرے فرضی دیو یوں اوردیوتاؤں کوبھول جاتے ہیں ۔ پھر یہ زمانۂ قحط تو پورا اہل مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی رہنمائی میں گزرا ہے جس میں بادشاہ سے لے کر عوام تک سب ان کے گرویدہ ، تابع فرمان اورمعتقد رہےہیں ۔ (تدبر قرآن ج ۲)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017