سفر ہجرت

آزمائش، صبر،انعام

یوں تورسول اللہؐ کی پوری زندگی آزمائش،صبر اور انعام سے عبارت ہے، مگر آپؐ کے سفر ہجرت میں یہ تینوں چیزیں بہت نمایاں اور روشن انداز میں سامنے آتی ہیں۔ جس رات سردارانِ مکہ نے آپؐ پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا تھا آپؐ اسی رات اپنے گھر سے روانہ ہوئے، اور اس وقت آپؐ گھر سے نکلے جبکہ مکہ کے ہر خاندان کا ایک نوجوان ہاتھ میں ننگی تلوار لیے ہوئے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جب محمدؐ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو ان پر یکبار گی تلواروں کا وار کر دیں، تا کہ آپؐ کے قتل کا الزام کسی ایک خاندان پر نہ آئے بلکہ تمام خاندانوں پر آئے اور خاندان بنی ہاشم کے لوگ آپؐکے قتل کا انتقام نہ لے سکیں اور دیت پر آمادہ ہو جائیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سرداران مکہ نے کھلے عام آپؐ کے قتل کا فیصلہ کیا،اور قتل کی پوری تیاری کے ساتھ انھوں نے آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر لیا، ادھر رسول اللہؐ کو بھی مشرکین مکہ کے اس فیصلہ اور اقدام کی خبر ہوگئی۔ آپؐ پر اللہ کے دین کی خاطر آنے والی آزمائش بڑی تھی تو آپ ؐ نے اتنا ہی بڑا صبر کیا،اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اتنا ہی بڑا انعام بھی دیا وہ یہ کہ آپؐ نے مکہ والوں کی امانتیں واپس کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلا دیا اور رات کی تاریکی میں قرآن کی سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے مکان کا محاصرہ کرنے والے افراد کے سامنے سے گزر گئے، مگر وہ آپؐ کو دیکھ نہ سکے، در اصل یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی جو اللہ نے بطور انعام آپؐ کوعطا کی۔طئے شدہ منصوبہ کے مطابق رسول اللہؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ مکہ سے نکلنے کے بعد رات کے اندھیرے ہی میں غار ثور میں جا کر چھپ گئے، اور کامل تین دن اور تین راتیں اسی غار میں چھپے رہے۔ غار ثور میں تین دن تین راتیں چھپ کر رہنا ایک بڑی آزمائش پر صبر کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ اور حضرت ابو بکرؓ کو اس کا انعام یہ دیا کہ مکہ کے سراغ رساں آپؐ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے، لیکن وہ آپؐ کو دیکھ نہیں سکے، یہاں تک کہ ان کی باتوں کی آواز آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ کو سنائی دے رہی تھی تو اس موقع پر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے تشویش کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا، لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّہَ مَعَنَا۔غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔آپؐ نے یہ بھی فرمایا، وَمَا ظَنُّکَ بِاِثنَینِ اللَّہُ ثَالِثُھُمَا۔اے ابو بکر تیرا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے،جن کا تیسرا اللہ ہے؟غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ اور حضرت ابو بکر کی جو خصوصی مدد کی اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا تذکرہ سورہ توبہ میں بھی جنگ تبوک کے موقع پر کیا جبکہ منافقین جنگ میں شرکت سے منہ موڑ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا۔ اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللَّہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَذِّینَ کَفَرُوْا ثَا نِیَ اثْنَینِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبہِ لاَ تَحْزَنِ اِنَّ اللَّہَ مَعَنَا فاَنْزِلَ اللّہُ سَکِینَتہُ عَلَیہ وَ اَیَّدَہُ، بِحُنُوْدِ لَّمْ تَرَ وْھَا وَجَعَلَ کَلِمَہَ الَّذِینَ کِفُروا التُسفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللَّہِ ھِیَ الْعُلْیٰا وَاللَّہُ عَزیزُ حَکیَمْ (سورہ توبہ آیت نمبر۴۰) ترجمہ: اگر تم نے رسولؐ کی مدد نہیں کی تو تحقیق کہ اللہ ان کی مدد کر چکا ہے جبکہ کافروں نے انھیں نکال دیا تھا، جبکہ وہ دومیں کا دوسرا تھا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جبکہ اس کا ساتھی کہہ رہا تھا غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس اللہ نے اس پر سکینت نازل فرمائی اور اس کی ایسے لشکروں سے تائید کی جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور اس نے بنادیا کافروں کے کلمہ کو نچلا اور اللہ کا کلمہ ہی بلند ہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکیم ہے۔

غار ثور میں اللہ کی مدد و نصرت کے متعلق روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ غار کے سوراخ پر اللہ کے حکم سے مکڑی نے جالا بن دیا تھا اور ایک کبوتر نے گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے بھی دیدیئے تھے، اس طرح آپؐ کو تلاش کرنے والے کافروں نے اسی مکڑی کے جالے اور کبوتر کے انڈوں کو دیکھنے کی بنا پر غار میں نہیں جھانکنے کا فیصلہ کیا،یہ نصیحت و عبرت کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کٹھن موقعوں پر بھی کتنی حقیر اور کم زور چیز وںسے اہل حق کی مدد کرتا ہے، اور باطل پرستوں کو معمولی اور حقیر چیزوں سے کیسے شکست دیتا ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے سامنے کسی کی تدبیر کامیاب نہیں ہوتی۔ ادھر سرداران مکہ نے پورے مکہ میں اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میںدیئے جائیں گے، چنانچہ اس انعام کی لالچ میں بہت سے لوگ مکہ کے چاروں طرف دور دور تک نکل پڑے، رسول اللہؐ کو پہلے ہی اس بات کا یقین تھا کہ تین دن تک مکہ والے دیوانہ وار آپ کو تلاش کریںگے، اور اس کے بعد ذرا مایوس ہو جائیں گے، اس لیے آپؐ نے پہلے ہی سے تین دن تک غار ثور میں رو پوش رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اور تین دن کے بعد مدینہ کی طرف گمنام راستہ سے سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اور اس کے لیے آپؐ نے پہلے ہی سے مکہ کے ایک شخص عبد اللہ بن اریقط سے اُجرت پر راستہ دکھانے کا معاملہ طے کر لیا تھا۔ تین دن گزرنے کے بعد آپؐ ایک اونٹنی پر سوار ہوئے جس کا نام قصوٰی تھا، دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکرصدیقؓ اور آپ کے خادم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے، اور عبد اللہ بن اریقط جو دلیل راہ تھا اپنے اونٹ پر سوار ہوا، یہ چار آدمیوں کا مختصر سا قافلہ مدینہ کی طرف عام راستہ سے بچتا ہوا روانہ ہوا۔ سفر ہجرت کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سفر آپؐ کے لیے کتنی کٹھن آزمائشوں سے بھرا ہوا تھا، لیکن آپ یہ آزمائشیں اللہ کے لیے برداشت کر رہے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس سفر میں بہت سے انعامات سے نوازا۔ یہاں تمام انعامات کا تذکرہ ممکن نہیں ہے،البتہ خاص دو انعامات کا تذکرہ کیا جاتاہے، مکہ والوں کے تعاقب سے بچنے کی جتنی تدبیریں آپؐ کر سکتے تھے وہ آپؐ نے کیں، لیکن اس کے باوجود مکہ کے ایک بہادر اور جنگ جو شخص سراقہ بن مالک کو کسی ذریعہ سے آپؐ کے قافلہ اور راستہ کی اطلاع ہو گئی تو اس نے فوراً اپنا گھوڑا اور ہتھیار تیار کیے اور لوگوں کی نگاہ سےبچ کر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ وہ آپؐ کے تعاقب میں نکل پڑا، تھوڑی دور اس کا گھوڑا دوڑا تھا کہ اچانک گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور سراقہ زمین پر گرپڑا، اٹھ کر پھر وہ گھوڑے پر سوار ہوا یہاں تک کہ اسے آپؐ اورآپؐ کے ساتھی نظر آنے لگے، اس کے بعد گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس کے اگلے پائوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ پھر زمین پر گر پڑا مگر انعام کی لالچ میں پھر گھوڑے پر سوار ہوا، اور اس مرتبہ اس کا گھوڑا نبی کریمؐ کی سواری کے قریب پہنچ گیا، مگر اب کی بار اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا اور سراقہ پھر زمین پرگر پڑا لیکن اس مرتبہ وہ خوف زدہ ہو گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں محمدﷺ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، چنانچہ اس نے آپؐ کو آواز دی اور ذرا ٹھہرنے اور بات سننے کی درخواست کی، آپؐ نے سواری کو روک دیا، سراقہ نے کہا کہ میں آپؐ کو گرفتار کرنے آیا تھا لیکن میں اب واپس جاتا ہوں اور آپؐ سے معافی مانگتا ہوں مجھ کوامان دیجئے میں اب جاکر دوسرے لوگوں کو بھی واپس کردوں گا، جو آپؐ کے تعاقب میں آرہے ہوں گے۔ چنانچہ آپؐ نے اسے امان دے دی، وہ مکہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں اس کو اور بھی لوگ نبی کریمؐ کے تعاقب میں ملے، لیکن اس نے یہ کہہ کر سب کو واپس کر دیا کہ میں بہت دور تک آپؐ کو دیکھ آیا ہوں، آپ ؐ کا کہیں سراغ نہیںچلا، فتح مکہ کے موقع پر سراقہ نے امان نامہ آپ کے سامنے پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سراقہ بن مالک بہت ذہین اور دور اندیش تھا اور اس نے اپنی ذہانت اور دور اندیشی سے اندازہ لگا لیا تھاکہ محمدؐ کو ضرور ایک دن مکہ کا اقتدار ملے گا اور اس دن اسی کو جان کی امان ہوگی جسے محمدؐ امان دیں گے۔ روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ رسول اللہؐ نے اس موقع پر سراقہ بن مالک کو ایک خوش خبری دی تھی وہ یہ کہ آپؐ نے فرمایا تھا سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جبکہ کسرٰی کے کنگن تیرے ہاتھوں میں ہوں گے، اور یہ خوشخبری آپؐ نے بالکل مناسب حال دی تھی، تاکہ سراقہ بن مالک کو مزید اطمینان حاصل ہو جائے، گویا کہ آپؐ نے سراقہ بن مالک کو کہا کہ اے سراقہ تو نے اپنی ذہانت اور دو ر اندیشی سے صرف فتح مکہ کامنظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے، جبکہ اس دین کے نتیجہ میں ایران بھی فتح ہوگا اور ایران کے بادشاہ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں ہوں گے، چنانچہ رسول اللہؐ کی یہ پیشین گوئی حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب ایران فتح ہوا اور پھر کسریٰ کے کنگن حضرت سراقہ بن مالک کو پہنائے گئے اس کے بعد حضرت سراقہ کا انتقال ہو گیا۔

رسول اللہؐ کے سفر ہجرت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جب مکہ کے بہت سے لوگ آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہے تھے تو ان ہی دنوں اور تاریخوں میں مدینہ کے بہت سے لوگ آپؐ کے استقبال کے لیے بے چین تھے، ایک طرف بہت سی آنکھیں آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہی تھیں تودوسری طرف بہت سی آنکھیں آپؐ کے دیدار کے لیے ترس رہی تھیں، اور یہ بھی قدرت کا عجیب معاملہ ہے کہ مکہ والوں کی جو آنکھیں آپؐ کو قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہی تھیں ان آنکھوں نے نبوت سے پہلے بھی چالیس سال تک اور نبوت کے بعد بھی تیرہ سال تک آپؐ کی صداقت و امانت کا مشاہدہ کیا تھا، اور اہل مدینہ کی جو بہت سی آنکھیں آپؐ کے دیدار کے لیے ترس رہی تھی اور تڑپ رہی تھیں ان میں سے اکثر نے براہ راست آپؐ کے اخلاق و کردار کا مشاہدہ نہیں کیا تھا، مگر اس میں تعجب کی اس لیے کوئی بات نہیں ہے کہ دین کے لیے جس قسم کی آزمائش آتی ہے صبر کے نتیجہ میں اسی قسم کا انعام بھی ملتا ہے، رسول اللہؐ نے اللہ کی رضا کی خاطر اہل مکہ کی دشمنی اور مخالفت مول لی تھی، تو اللہ نے آپؐ کو اہل مدینہ کی محبت ووفاداری اور جانثاری و حمایت کی صورت میں انعام دیا،اور اللہ کی یہی سنت اہل حق کے ساتھ آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی مگر افسوس ہے کہ آج کے دور کے اہل ایمان کی اکثریت اللہ کی اس سنت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے، اگر آج بھی اہل ایمان دین کے لیے ہر دشمنی، ہر خطرہ اور ہر آزمائش برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، تو اللہ تعالیٰ پھراہل ایمان کو ہجرتِ مدینہ جیسے مناظر دکھا سکتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223