امانت داری ان چند اہم اقدار، اوصاف اور تعلیمات میں سے ہے جن پر قرآن وسنت نے بہت شدت سے بار بار اورمختلف پہلووں سے اور متعدد اسلوبوں میں زور دیا ہے اور جس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے بہت گہرا ہے چاہے وہ سماجی تعلقات اور معاملات ہوں یا سیاسی اور معاشی مسائل ہوں۔ انگریزی میں عموما اس کا ترجمہ ٹرسٹ سے کیا جاتا ہے اور جدید سماجی وسیاسی علوم میں سماجی ہم آہنگی، سیاسی استحکام اور پرامن سماج کے لیے اس کو ایک لازمی شرط اور ضروری بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جان لوک کے مطابق جو جدید فلسفے اور علم سیاسیات کا ایک بڑا نام ہے ٹرسٹ ہی کامیاب سیاست اور پرامن معاشرے کی سب سے اہم بنیاد ہے [1] ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو مغربی اور جدید دنیا کے اکثر سیاسی اور سماجی نظریات امانت داری ہی کے تصور پر قائم نظر آتے ہیں۔ البتہ امانت داری کے اسلامی اور جدید سماجی تصور میں بنیادی فلسفے اور محرک کا بڑا بنیادی فرق ہے اور جس کے اثرات عملی طور پر امانت داری کو برتنے میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اور اس کی واضح علامت یہ ہے کہ جدید دنیا میں تمام تر فوکس اور زور امانت پر ہونے کے باوجود موجودہ سیاسی اور سماجی ماہرین کا متفقہ تجزیہ ہے کہ جدید اور مغربی دنیا میں امانت داری کی صفت تیزی سے روبہ تنزل ہے [2]۔ دوسری طرف مسلم دنیا میں امانت داری سے متعلق غیر معمولی قرآنی تعلیمات اور سنت کی تشریحات ہونے کے باوجود سماجی اور سیاسی سطح پر اس کو منظم طریقے سے ادارہ جاتی شکل میں روبہ عمل لانے کی طرف کوئی بڑی نظریاتی یا عملی کوششیں نہیں ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امانت کا تصور اپنے اندر اوصاف کا پورا مجموعہ سموئے ہوئے ہوتا ہے جو زندگی کے سارے معاملات کومحیط ہوتا ہے۔ ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں امانت سے متعلق آیات پر اس پہلو سے بہت اچھی گفتگو کی ہے جو امانت کے ہمہ جہت استعمالات اور ہمہ گیر پہلووں کو سمجھنے کے لیے بہت مفید ہوگی۔ امانت جہاں ایک طرف انفرادی معاملات میں ایک دوسرے کی دی گئی امانت کو پورا کرنے کا نام ہے وہیں حکومت چلانے اور انتظامیہ سے متعلق افراد میں بھی امانت کا ہونا اہم شرط ہے۔ تجارت میں بھی امانت بنیادی شرط ہے اور ساتھ ہی سماج میں رہنے کے لیے سماج کے طے شدہ اصولوں کے مطابق چلنا بھی امانت کا لازمی تقاضا ہے۔ کسی بھی ادارے اور جماعت کی کامیابی کی ضمانت بھی اسی میں ہے کہ لوگ کس قدر امانت دار ہیں۔ انتظام چاہے ملکی سطح کا ہو یا کسی ادارے اور تنظیم کا ہو اس کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ان کے درمیان تعلق امانت اور بھروسے کی بنیاد پر قائم ہو۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی طرف کچھ تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
امانت کی تعریف
امانت دراصل عربی کا لفظ ہے جس کی اصل ا، م، ن ہے اور اس کے معنی میں اہل لغت کے مطابق امن وامان، حفاظت، بھروسا اور ایمانداری جیسے مفہوم شامل ہیں۔ اس میں دل کے اطمینان اور اندیشوں سے آزادی کا معنی بھی شامل ہے۔ اس میں ایک اہم معنی طاقت اور قوت کا بھی شامل ہے جو دراصل کسی شخص کو امانت سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس لفظ کے اندر تین اہم معنوں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے: واجبات کی ادائیگی، ذمہ درایوں کو بحسن وخوبی پورا کرنا اور اندیشوں کا خاتمہ کرنا۔ ان تمام تعریفات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امانت ایک طرف ان تمام دینی، عائلی، سماجی، معاشی اور سیاسی ذمہ داریوں اور واجبات کا نام ہے جس کا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ اس کو پورا کریں اور ساتھ ہی امانت ایمانداری اور کی اس صفت کا نام ہے جس کے واسطے کوئی ذمہ داریوں کو سونپے جانے کا مستحق ٹھہرے۔
امانت اور قرآن مجید
قرآن مجید میں امانت کا ذکر کثرت سے ہوا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کا خلاصہ کہے جانے اور کلیدی لفظ بننے کا مستحق لفظ یعنی ایمان بھی اپنی اصل کے لحاظ سے امانت کا شریک ہے یعنی دونوں کی اصل ا، م، ن ہیں۔ اور جس کا معنی خدا پر ایمان اور بھروسا رکھنے کے ہیں۔ امانت کا مختلف صیغوں کے ساتھ براہ راست ذکر قرآن مجید نے ۲۳ مرتبہ کیا ہے۔ چند آیتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں
۱۔ وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْیؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْیتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن یكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ ۔
(اوراگر تم سفر پر ہواور (دستاویز) لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یاقبضہ رکھ کر (قرض لے لو) اوراگر کوئی کسی کوامین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔ اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہ گار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔ البقرة: ۲۸۳)
۲۔ إِنَّ اللَّـهَ یأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَینَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا یعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا ۔
(خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔ النساء: ۵۸)
۳۔ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔
(اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔ الأنفال: ۲۷)
۴۔ وَالَّذِینَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ۔
(اور جو اپنی امانتوں اور عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں۔ مؤمنون: ۸)
لفظ امین جس کے معنی امانت کی صفت سے آراستہ اور امانت کا پیکر ہے چودہ بار قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ متعدد مرتبہ نبیوں کی بنیادی صفات کے طور سے، ایک مرتبہ حکومت چلانے اور ملک کا مالی انتظام دیکھنے کے لیے بنیادی صفت کے طور سے، اسی طرح کسی بھی بزنس یا معاملہ کرنے کے لیےسامنےوالے کے اندر امانت کی صفت کا ہونالازمی ہونے کے حوالے سے، یا کسی کو کسی کام سونپنے یا کسی سے کوئی اہم کام لینے کے لیےبھی امانت کی صفت کا ہوناضروری ہونے کے حوالے سے وغیرہ۔ یہ لفظ ایک مرتبہ جگہ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے جس میں یہ معنی پیش نظر ہے کہ کوئی جگہ کس قدر پرامن اور پر سکون ہو سکتی ہے اگر وہاں امانت کی صفت عام ہو جائےالبتہ قرآن مجید میں یہ مکہ کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دو اور لفظ ہیں جن کے معنی بھی تقریبا وہی ہیں جو امانت کے ہیں اور ان پر بھی قرآن میں پوری تاکید کی گئی ہے۔ ایک عقود اور ایک عہد۔
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ (اے ایمان والوں! اپنےاقراروں کو پورا کرو) اسی طرح وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرورپرسش ہوگی) ۔
ان تمام آیات پر غور کرنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن مجیددوسطحوں پر امانت کا ذکر کرتا ہے۔ پہلا امانت کا تعلق انسانوں اور ان کے خالق کے بیچ میں۔ چنانچہ یہ پوری کائنات ایک امانت ہے اور اس امانت کو پورا پورا ادا کرنے کی ذمہ داری ہی وہ خلافت ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ انسانوں کے لیےضروری ہے کہ وہ اپنے خالق کے ساتھ امانت کو پوراپورا ادا کریں اور کسی بھی طرح کی خیانت سے پوری طرح ہوشیار رہیں اور اجتناب کریں۔ دوسرا امانت کا تعلق انسانوں کے بیچ ہونےوالے معاملات میں ہے اور سچ یہ ہے کہ انسانوں کے بیچ میں ہونےوالے تمام معاملات اسی صورت میں قابل اطمینان اور خوبصورت ہوسکتے ہیں جب دونوں جانب سے امانت کی بنیاد پر اور امانت داری کے ساتھ پورےمعاملے کو انجام دیاجائے۔
ابن عاشور امانت کی آیات پر گفتگو کرتے ہوئے امانت کے مفہوم کو اس کے وسیع مفہوم میں پیش کرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ بنیادی طور پر امانت دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک تو امانت داری کے وصف کے معنی میں جس سے آراستہ ہو کر کوئی امانت دار کہلانے کا مستحق بنے، دوسرا اس قیمتی چیز کو بھی امانت کہتے ہیں جو کسی کے پاس امانت کے طور رکھی جائے۔ امانت کے دوسرے معنی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب امانت کسی چیز کے لیے استعمال ہے تو اس میں دونوں کی چیزیں مراد ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی مادی چیز کسی کو امانت کے طور پر دی جائے اور ساتھ ہی غیر مادی چیزیں بھی امانت کے مفہوم میں شامل ہیں۔ جیسے کوئی کسی کو اپنا کوئی راز بتائے تو یہ بھی امانت ہے۔ اور اسی ضمن میں علم وحکمت کی باتوں کو بھی سمجھناچاہیے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالی نے کسی کو علم وحکمت سے نوازا تو اس پر امانت کے طور سے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو دوسروں تک پہنچائے اور ایسا نہ کرنے میں وہ خیانت کا ارتکاب کرے گا۔ ابن عاشور مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ امانت کسی بھی سماج کے کامیاب اور پرسکون ہونے کے لیےلازمی شرط ہے۔ امانت داری کا ایک اہم باب حکم رانوں میں امانت کا ہونا ہے۔ چنانچہ اسلامی نقطہ نظر میں کسی بھی سماجی اور سیاسی لیڈر کے لیے سب سے اہم اور بنیادی صفت امانت داری کا ہونا ہے۔
امانت اور سنت رسول
سنت نبوی میں امانت کے اوپر بار بار تاکید کی گئی ہے اور امانت میں خیانت سے بہت سختی سے روکاگیا ہے۔ اور قرآن مجید کی طرح سنت نبوی میں بھی اسے بہت وسیع مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے اور اسےایک کامیاب فرد کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب معاشرے کی اہم بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خود رسول اللہﷺ اپنی بعثت سے پہلے امین یعنی امانت کے پیکر ہی کے طور پر اپنی پہچان رکھتے تھے۔ من جملہ دوسرےپہلو ؤںکے جو امانت کے تعلق سے قرآن کے حوالے سے ذکر ہوئےایک اہم پہلو جس پر نبی کریمﷺ نے بہت شدید تاکید کی ہے وہ یہ ہے کہ امانت کی صفت ہی دراصل وہ کسوٹی ہے جو مومن اور غیر مومن یا حقیقی مسلمان اور برائے نام مسلمان اور منافق مسلمان میں فرق کرتی ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب وہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے اور وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں امانت میں خیانت کے حوالے سے بہت ہی سخت تنبیہ وارد ہوئی۔ فرمایاگیا امانت میں خیانت اللہ کے یہاں کسی بھی حال میں معاف نہیں کی جائےگی یہاں تک کہ شہادت بھی اس کی تلافی نہیں کر سکے گی۔ ایک دوسری حدیث میں تو یہ بھی کہاگیا کہ اس شخص کا ایمان قابل قبول ہی نہیں ہوگا جس کے اندر امانت کی صفت نہ ہو۔ امام مالک نے حکیم لقمان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس چیز نے اس قدر بلندی پر پہنچا دیا؟ لقمان نے جواب دیا: سچ بولنا، امانت کو پوری طرح سے ادا کرنا اور فضول باتوں سے پرہیز کرنا۔ حضرت علؓی سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص تم پر حکومت کرنے میں اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرے اور امانت کا پورا پاس ولحاظ رکھے تو لوگوں پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ اگر کوئی حاکم امانت کی صفت سے آراستہ نہ ہو تو اس کو حکومت کرنے کا بالکل اختیا رنہیں ہے۔ ان تمام احادیث وآثار پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امانت نہ صرف یہ کہ کسی فرد کے مسلمان ہونے اور کامیاب ہونے کے لیے شرط لازم ہے بلکہ ساتھ ہی کسی حکومت کے کامیاب ہونے اور کسی سماج کے مستحکم ہونے اور کسی معاشرے کے خوبصورت ہونے کے لیے بھی تمام لوگوں پر امانت کی ادائیگی ضروری ہے۔
امانت اور سماجی استحکام:کسی بھی سماج اور معاشرے کی خوشحالی، سکون اور امن کے لیے لوگوں کے درمیان امانت کے تعلق کا استوار ہونا بے حد ضروری ہے۔ جدید علم سماجیات میں اسے سوشل ٹرسٹ کہتے ہیں۔ سماجیات کے مشہور عالم جارج زمل کے مطابق کسی بھی معاشرے کو جوڑنے والے اہم ترین عوامل میں ایک ٹرسٹ ہے [3] ۔ ایک دوسرے ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ سماجی اثاثے کا اہم ترین عنصر ٹرسٹ ہے اور کسی بھی معاشرے کی سماجی بہبود اور معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے سماجی اثاثے کا ہونا شرط اول ہے [4] ۔ قرآن مجید نے امانت کا یہ پہلو بہت واضح طور سے پیش کیا تھا جس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عاشور اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: امانت (ٹرسٹ) کا غیر معمولی کردار ہے مسلم سماج کے تمام معاملات طے کرنے میں۔ سماج اپنے تمام معاملات اور کارروائیوں میں اسی امانت پر تکیہ کرتے ہیں۔ امانت کا وجود ہی کسی سماج کے ترقی یافتہ ہونے، ان کی فطرت کے بلند ہونے اور ان کے کاموں میں اعتدال ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہم کو پوری طرح خبردار کر دیا ہے کہ امانت کا فقدان ہمارے پورے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ عین یہی بات بیسویں صدی کا ایک مشہور ماہر سماجیات سیسی لا بوک ان لفظوں میں کہتا ہے: ٹرسٹ ایک سماجی دولت ہے اور اگر یہ ختم ہوجائے تو سماج تباہ ہوجاتے ہیں اور ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے [5]۔
امانت اور سیاسی نظم ونسق: سیاسی قائدین اور حکومتی اہلکاروں میں امانت کی صفت کا ناگزیر ہونا اسلامی تعلیمات میں بھی واضح ہے اور جدید سیاسی علوم کے ماہرین کے یہاں بھی۔ علم سماجیات میں امانت کے اس پہلو کو پولیٹیکل ٹرسٹ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پیچھے بھی ذکر ہوا کہ جان لوک کے مطابق کہیں کی حکومت اور وہاں کے شہریوں کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو امانت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ پتنام ایک مشہور ماہر سیاسیات ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے امانت کا پایا جانا ناگزیر ہے [6] ۔ جدید سماجی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ جو حکومت عوام میں اپنی امانت کی صفت سے متعلق جتنا زیادہ اطمینان پیدا کرتی ہے اسی قدر وہ حکومت اگلی میقات کے لیے بھی اپنا راستہ ہم وار کر لیتی ہے اور ساتھ ہی حکومت کے بندوبست میں عوام کا پورا تعاون اس کو حاصل رہتا ہے۔ ابن عاشور سورہ نساء کی درج بالا آیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہاں امانت کا حکم ان لوگوں کے سیاق میں آیا ہے جن کے اوپر حکومت چلانے کی ذمہ داری دی گئی ہو اور ان کا کام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا، اور مناسب نظم ونسق کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں امانت داری دکھائیں، سچائی کا اعتراف کریں اور اپنی کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیں۔
سیاست میں امانت کی اہمیت کے تعلق سے وہ حدیث بھی اہم ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے کہا: اے ابوذر! تم کم زور ہو اور یہ ذمہ داری ایک امانت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حکومت کے سب اہم شعبے یعنی مالیات کی ذمہ داری سونپنے کا بندو بست کیا گیا تو اس سیاق میں قرآن مجید نے ان کی دو خصوصیات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک امانت کا پیکر ہونا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کے مطابق کسی بھی حاکم کے لیے سب سے ضروری دو شرائط امانت اور عدل کی صفات ہیں۔ ایک روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عمر کو کسی مناسبت کے لیے امیر کے طور پرمنتخب کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: اگر تم عمر کو اپنا امیر بناو تو تم دیکھوگے کہ وہ بہت طاقتور اور امانت دار ہے۔ یہاں یہ بات ذکر کرنی ضروری ہے کہ سیاسی ٹرسٹ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک سماجی ٹرسٹ پروان نہ چڑھ گیا ہو اور وہ اس لیے کہ لوگوں کو جب تک آپس میں ساتھ رہنے والوں پہ ٹرسٹ پیدا نہ ہو حکومت پر ٹرسٹ پیدا ہوجانا ممکن نہیں ہے۔
امانت اور معاشی ترقی
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں جہاں سیاست میں امانت کی اہمیت کا سبق ابھر کر سامنے آتا ہے وہیں معاشی ترقی کے حوالے سے بھی امانت کی اہمیت پوری طرح اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت ۷۶ میں مالی معاملات میں امانت کا پورا لحاظ رکھنے اور عہد کو پورا کرنے کو تقوی سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ انسانوں کی سب سے اعلی صفات میں سے ایک ہے۔ گویا مالی معاملات میں امانت کے رویے سے روگردانی کرنا تقوی کے منافی قرار پائے گا۔ ساتھ ہی مالی معاملات میں امانت کا فقدان پورے سماج کے لیے تباہی اور فساد کا سبب بن جاتا ہے۔ جدید علم سماجیات کا ماننا ہے کہ امانت کا معاشی پہلو جسے وہ اکونومک ٹرسٹ کا نام دیتے ہیں دراصل سیاسی ٹرسٹ اور سماجی ٹرسٹ کے باہم جمع ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو واضح کرنے کے لیے ایک اچھی مثال اسکولز نے انکم ٹیکس کی دی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ٹیکس کے قوانین لوگوں کے اعتماد کو حاصل کرکے بنائے گئے ہوں اور حکومت کی کارگردگی پر ٹیکس دینے والوں کو پورا اطمینان ہو اور ان دونوں میں سیاسی اور سماجی دونوں سطح پر ٹرسٹ ضروری ہے تو اس کے نتیجے میں اکونومک ٹرسٹ پیدا ہوجائے گااور ٹیکس کی ادائیگی بہت آسانی سے اور بڑی مقدار میں ہو جائے گی۔ اور یہ میدانی تحقیقات میں ثابت شدہ صورت حال ہے [7]۔
امانت کے محرکات
مغربی سماج کا امانت یا ٹرسٹ کے حوالے سے جائزہ لینے والے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امانت یا ٹرسٹ کا گراف بہت تیزی سے روبہ زوال ہے۔ پتنام مثال کے طور پر صاف صاف اس شکوی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں ٹرسٹ کا لیول مستقل کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے ماہر سماجیات کہتے ہیں کہ امانت کا تعلق امانت داری کی صفت سے ہے اور یہ چیز بالکل غیر یقینی ہے [8] ۔ چنانچہ کسی کے لیے بھی کسی دوسرے پر بھروسا کرنا اور اس کے ساتھ امانت کا تعلق قائم کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی سماج میں امانت کا لحاظ رکھوانے کے لیے کوئی بہت مضبوط محرک اور وجہ موجود نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اس کو غیریقینی (uncertain) اور نازک (vulnerable) تعلق کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلامی تعلیمات میں امانت کے پیچھے بڑا دینی اور اخلاقی محرک موجود ہے جس کی بنا پر کوئی اپنے آپ کو باشعور مسلمان سمجھنے کے باوجود امانت کے ساتھ کوئی خیانت کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ چنانچہ حدیث رسول میں صاف طور سے کہہ دیا گیا کہ جس نے امانت کا پاس نہیں رکھا اس کا ایمان قبول نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو امانت میں خیانت کرے اس کو منافق کہا گیا۔ قرآن مجید میں بھی کامیابی کی بنیادی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنے عہد وپیمان کی پابندی کریں۔
خلاصہ:امانت قرآن وسنت کا ایک بہت ہی اہم اور جامع تصور ہے۔ اس کے اثرات اس قدر وسیع اور ہمہ جہت ہیں کہ اس کے بغیر ایک کامیاب فرد کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک خوشحال معاشرے کا۔ انسانوں کے بیچ کا سب سے مضبوط، سب سے معتبر اور سب سے پائدار کوئی رشتہ اگر ہوسکتا ہے تو وہ امانت ہی کا رشتہ ہے۔ مگر یہ رشتہ اسی وقت صحیح معنوں میں ثمرآور اور کامیاب ہوسکتا ہے جب پہلے یہ رشتہ خالق کائنات کے ساتھ استوار ہو جائے۔ امانت کی اس ہمہ گیریت کا مسلم سماج میں فقدان ہے اور مسلم سماج کے بہت سے مسائل اسی فقدان کا نتیجہ ہیں۔ ایک کامیاب خاندان ہو، یا ایک ادارہ اور تنظیم ہو یا پھر ایک حکومت ہو ان سب کی کامیابی اس پر منحصر ہے کہ ان کے درمیان مختلف سطحوں پر کس قدر امانت کی صفت موجود ہے۔
حوالے:
- John Lock, Second Treatise of Government
- Robert Putnam, Bowling Alone
- George Simmel, The Sociology of George Simmel
- Kenneth Newton, Trust, Social Capital, Civil Society and Democracy
- Sissela Bok, Lying: Moral Choice in Public and Private Life
- Robert Putnam, Turningin, Turning out: The Strange Disappearance of Social Capital in America
- John Scholz, Trust, Taxes and Compliance in Trust and Government
- Michael Bacharach and Diego Gambetta, Trust in Signs
مشمولہ: شمارہ جولائی 2020