علم کی دو قسمیں— عصری تفہیم

(3)

ماہرین فن سے علم سیکھنا

مسلمانوں پر یہ بھی فرض کفایہ ہے کہ ہر نفع  بخش علم کو سیکھے، وہ علم چاہے غیر مسلم کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدر کے مشرکین قیدیوں کے علم سے فائدہ اٹھایا اور ان کی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ وہ لوگ مسلم بچوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دیں۔ انصاری صحابی حضرت زید بن ثابت ؓنے ان سے ہی علم حاصل کیا تھا، جو بعد میں کاتب وحی اور حضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں مرتب قرآن بنے۔

امام ترمذیؒ، امام ابن ماجہؒ نے ضعیف سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کی ہے کہ:

’’ الکلمۃ الحکمۃ ضالّۃ المؤمن،أنی وجدہا فہو أحق بھا‘‘(۲۰)

’’ حکمت بھری بات مؤمن کا گمشدہ سرمایا ہے، جہاں اسے یہ ملے، وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘

اگر چہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے لیکن معنی کے لحاظ سے قوی ہے۔حضرت علیؓ نے فرمایا:

’’ العلم ضالّۃ المؤمن، فخذوہ و لو من أید المشرکین۔‘‘(۲۱)

علم مؤمن کا گمشدہ سرمایا ہے،  اسے حاصل کرو، اگر چہ مشرکین کے ہاتھوں ہی کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔‘‘

اس سے مراد مادی علوم ہیں، اسی وجہ سے مسلمانوں نے ہر دور میں دوسری قوموں کے مادی علوم سے فائدہ اٹھایا، چنانچہ انہوں نے یونان، فارس، روم ، ہندوستان اور بطور خاص یونان سے طب،کیمیاء، علم فلک، ریاضی وغیرہ کا علم حاصل کیا۔

جہاں تک دوسری قوموں کے دینی افکار لینے کا سوال ہے، اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔ امام احمد ؒنے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عمر ؓ کو یہودیوں کی دینی کتاب سے کچھ پڑھتے دیکھا، تو اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، کیوں کہ اللہ نے قرآن کے ذریعہ تمام تحریف شدہ کتاب سے مسلمانوں کو بے نیاز کر دیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:

اے ابن عمرؓ! ’’کیا تم حیرت زدہ ہو؟[یعنی اپنے عقیدے میں شک کے شکار ہو، یہاں تک کہ تم اپنی کتاب اور اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کہیں اور سے علم لے رہے ہو۔] اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تمہارے پاس یہ[ اللہ کی کتاب جوگزرے ہوئے انبیاء پر نازل ہوئی] صاف ستھری لے کر آیا ہوں،تم ان سے کچھ مت پوچھو، پس وہ تمہیں صحیح بات بتائیں گے اور تم  اسے جھٹلاؤگے، یا وہ تمہیں غلط بات بتائیں گے اور تم اسے سچ مان لوگے۔اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو وہ میری اتباع کرتے۔‘

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناراضگی کاا ظہار اس لئے کیا تھا کہ یہ معاملہ عقیدہ سے متعلق تھا، اور عقیدہ صر ف اور صرف صادق و مصدوق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لینا تھا، یہ اسلام کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے، لہٰذا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شدت برتی کہ ایسا نہ ہو کہ دین حق ، دین باطل سے خلط ملط ہوجائے۔ اگر صرف معلومات کے لیے دوسرے مذاہب کی دینی کتابیں پڑھی جائیں تو یہ منع نہیں ہے،اس کے ذریعہ سے دعوت اسلام مزید بہتر طریقے سے دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔دوسری قوموں کے دنیاوی علوم سے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ جیسا کہ اوپر آچکا ہے کہ بدر کے مشرک قیدیوں کی مدد سے آپ نے مسلم امت کی جہالت دور کرنے کی کوشش کی۔ اہل فارس کا طریقۂ جنگ اپناتے ہوئے مدینہ کے دفاع کے لئے خندق کھودوائی، اسی وجہ سے اس غزوہ کا نام غزوۂ خندق پڑگیا۔ طائف کے گھیراو کے وقت منجیق کا استعمال کیا، ممبر پر خطبہ دیا،حالانکہ یہ ایک رومی بڑھئی کی صنعت تھی۔‘خلفائے راشدین نے امت کی بھلائی کو دیکھتے ہوئے کچھ ایسے علوم کو رائج کیا جنھیں عرب پہلے نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے سن ہجری،فن تاریخ اور فن دیوان کا ایجاد کیا۔ اسے مؤرخین اولیات عمرؓ میں شمار کرتے ہیں۔

بلکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ فن تدوین رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ایجاد ہوگیا تھا،  وہ حضرات آپؐ کے ذریعہعلم احصاء ؍ اعداد و شمار کے استعمال کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں (۲۳) ، جس کا ذکر پیچھے آچکا ہے۔

لہٰذا وہ تمام علوم جن کی بنیاد پر غیر اسلامی ملک عام طور پر اور مغرب خاص طور پر آج ترقی یافتہ ہے، سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ در حقیقت مغرب کے جدید علوم مسلمانوں کے علوم سے مستعار ہیں، وہ ان میں تہذیب و تدوین کرکے آج چاندتک پہونچ گئے اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ اگر ہم اسے سیکھتے ہیں تو یہ ہمارا کھویا ہواسرمایہ ہے جو ہماری طرف لوٹ کر آجائے گا(ہذہ بضاعتنا ردت الینا)؛ کیوں کہ اسلام میں علم سنورتا ہے بگڑتا نہیں، باقی رہتا ہے مرتا نہیں۔ جس شخص کو یہ علم حاصل ہو وہ وہی کہے جو حضرت سلیمانٌ نے اس وقت کہا تھا جب ایک بڑے جن نے ملکۂ سبا کا تخت پلک جھپکتے ہی ان کے پاس حاضر کردیا تھا۔

{ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِیْ أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفَرُ وَ مَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ۔ } [ النمل:۴۰]

’’ وہ پکار اٹھا ’’ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافرِ نعمت بن جاتاہوں۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے۔‘‘

نوٹ: اس مضمون کے اندر ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، بلکہ بعض افکار ان سے ہی ماخوذ ہیں۔

(۱) الرسول و العلم،مکتبہ وہبہ ، القاہر ہ،مصر،ط۔الثامنۃ،۱۴۲۷ھ؁؍۲۰۰۶؁ء۔، (۲)  العقل  و العلم فی القرآن،،مکتبہ وہبہ ، القاہر ہ ، مصر، ط۔

الأولی ، ۱۴۱۶ہ؁؍۱۹۹۶ء؁۔، (۳) تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ (نحو فقہ میسر معاصر)،مکتبہ وہبہ ، القاہر ہ، مصر،ط ۔ الثانیۃ، ۱۴۲۵ہ؁؍ ۲۰۰۴ء؁۔

 حواشی:

۱۔ الغزالی،حجۃ الاسلام أبو حامد: احیاء علوم الدین،المجلد الأول،کتاب العلم ، الباب الأول:فی فضل العلم و التعلیم و التعلم۔۔۔۔۔ http://www.ghazali.org/ihya/arabic/vol1-bk1.htm

۲۔ تفصیلات کے لئے ڈاکٹر علامہ یوسف قرضاوی کی کتاب ’’ العقل و العلم فی القرآن الکریم‘‘ حوالہ سبق دیکھی جائے۔

۳۔ الحدیث روی عن عدد من الصحابۃ بأسناد ضعیفۃ۔ لکن الحافظ السیوطی صححہ بمجموع طرفہ التی بلغت خمسین طرقا، کما صححہ  المحدث الالبانی فی  تخریج أحادیث ’’ مشکلۃ الفقر و کیف عالجہا الاسلام ‘‘للدکتور الشیخ یوسف عبد اللہ القرضاوی، و ذکر السخاوی أن ابن شاہین رواہ بسند رواتہ ثقات۔ و ہو فی صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ ( ۳۹۱۳)،(۳۹۱۴)۔ بحوالہ  القرضاوی،  یوسف:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔ (نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص  ۱۷۸۔

۴۔ الصحیح للبخاری، کتا ب العلم،باب العلم قبل القول والعمل  العمل،http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=13&CID=6#s20

المستتدرک علی الصحیحین، کتا ب العلم،

http://english.islamweb.net/newlib/display_book.php?idfrom=285&idto=285&bk_no=74&ID=136

۵۔  رواہ الترمذی فی کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،برقم (۲۸۹۸)

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=9&CID=124#s3

ہو جزء من حدیث أبی الدرداء  الذی رواہ أحمد و أصحاب السنن و ابن  حبان ، کما فی صحیح الجامع الصغیر  (۶۲۹۷)  بحوالہ  القرضاوی،یوسف:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔ (نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۱۸۲۔

۶۔  رواہ الترمذی فی کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل طلب العلم برقم (۲۸۵۹) و قال حسن غریب و رواہ بعضہم فلم یرفعہ۔

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=9&CID=124#s3

قال فی فیض القدیر: فیہ خالد بن یزید الؤلؤی قال العقیلی: لا یتاب علی کثیر من حدیثہ، ثم ذکر لہ الخیر۔ و قال الذہبی: واہ مقارب(۶؍۱۲۴) و قال الحافظ فی ’’ التقریب‘‘ صدوق یہم۔ بحوالہ  القرضاوی،  یوسف:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ (نحو فقہ میسر معاصر)۔op.cit. ص ۱۸۲۔

۷۔  القرضاوی، یوسف عبد اللہ:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القروآن و السُّنَّۃ۔op.cit. ص ۱۸۵۔

۸۔ حوالہ سابق،ص۱۸۷-۱۸۸۔                ۹۔حوالہ سابق،ص۱۸۸-۱۸۹۔

۱۰۔حوالہ سابق،ص۱۸۹-۱۹۷۔

۱۱۔ البخاری، محمد بن اسماعیل:  الصحیح، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، رقم الحدیث:۱۰۰، و للفظ لہ،

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=13&CID=6#s2

القشیری، مسلم بن حجاج :الصحیح، کتاب العلم، باب رفع العلم و قبضہ و ظہور الجہل و الفتن فی آخر الزمان، رقم الحدیث ۶۹۷۰ ،

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=1&CID=143#s4

۱۲۔ الغزالی،حجۃ الاسلام أبو حامد: احیاء علوم الدین،المجلد الأول، کتاب العلم ، الباب الثانی:فی فرض العین و فرض الکفایۃ من العلوم۔۔۔۔۔op.cit

۱۳۔ Selling Sickness: How The World’s Biggest Pharmaceutical Companies Are Turning Us All Into Patients,pub.Allen & Unwin  South Asian edition:2008 .

۱۴۔ الصحیح لمسلمم کتاب الفضائل،

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&ID=100211&SearchText=????

%20????%20?????%20??????&SearchType=root&Scope=all&Offset=20&SearchLevel=QBE

رواہ الامام أحمد فی مسند طلحۃ، حدیث رقم ۱۳۹۹، قال الشیخ شاکر: اسنادہ صحیح و قد جاء فی المسند مختصراً برقم ۱۳۹۵، و رواہ مسلم أیضاً برقم ۲۳۶۱،۲۳۶۲،۲۳۶۳۔بحوالہ  القرضاوی، یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔(نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۲۰۲۔

۱۵۔  السنن لأبی داؤد، کتاب العلم

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=4&ID=37847&SearchText=?%20?

???%20??%20???%20????%20???%20?????&SearchType=root&Scope=all&Offset=0&SearchLevel=QBE

رواہ البخاری و  أبو داود، و الترمزی  ۔ انظر۔  جمع الفوائد و أعذب الموارد،ط۔ المدینہ المنورہ، ۱؍۳۱۹۔ بحوالہ القرضاوی،  یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔ (نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۲۰۳۔

۱۶۔ الصحیح للبخاریم کتاب الجھاد و السیر، کتابۃ الامام للناس

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=0&Rec=4823

انظر: جامع الأصول، تحقیق عبد القادر الأرناؤط، ۱؍۱۰۰، بحوالہ القرضاوی، یوسف:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔ (نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۲۰۴۔

۱۷۔  السنن للترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع عن رسول  اللہ

http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=2&ID=41232&SearchText

=????%20?%20????&SearchType=root&Scope=all&Offset=0&SearchLevel=QBE

رواہ الترمذی من حدیث أنس، و قال: غریب أی ضعیف، و أنکرہ یحیی القطان، لکن أخرجہ ابن حبان فی صحیحہ من حدیث عمرو بن أمیۃ الضمری، و اسنادہ –    کما قال الزرکشی: – صحیح-  و رواہ أیضاً ابن خزیمۃ فی صحیحہ بلفظ: ’’ قیدہا و توکل‘‘ و اسنادہ-  کما قال الزین العراقی: –  جید-  انظر فیض القدیر ج ۔۔۔ ص

۷، حدیث ۱۱۹۱۔ بحوالہ القرضاوی،  یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ (نحو فقہ میسر معاصر)۔op.cit. ص ۲۰۶۔

۱۸۔ نقلہ  الامام الشوکانی فی نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار، الجزء التاسع،ابواب الطب، باب اباحۃ التداوی و ترکہ

http://www.al-eman.com/ISLAMLIB/viewchp.asp?BID=253&CID=180#s2

۱۹۔  احمدبن حنبل ، مسند احمد ، حدیث نمبر ۱۱،ط:مؤسسۃ الرسالۃ، مصر، مطبعہ اولی،

۲۰۔  السنن للترمذی، کتاب العلم باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، برقم الحدیث ۹۲۰۳

http://www.al-eman.com/

امام قرضاوی کہتے ہیں الحدیث ضعیف الاسناد، ولکن معناہ صحیح(حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معنی کے لحاظ سے صحیح ہے۔)، القرضاوی،یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ (نحو فقہ میسر معاصر)۔op.cit. ص۲۱۰۔

۲۱۔ جامع بیان العلم، ۱؍۱۲۱،بحوالہ القرضاوی،یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ (نحو فقہ میسر معاصر)۔op.cit. ص ۲۱۰۔

۲۲۔ مسند أحمد، المجلد الثالث  ،تابع مسند جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث۱۴۶۲۳

،http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=3&CID=79#s1

تابع مسند جابر بن عبد اللہ طضی اللہ عنہ، رقم الحدیث، ۱۴۱۰۴،

http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=3&CID=76#s1

رواہ أحمد کما فی ’’ ترتیب المسند‘‘ للشیخ أحمد عبد الرحمٰن البنا-  کتاب العلم رقم ۶۳-  و نقل فی تخریجہ من صاحب  ’’ التنقیح‘‘ أن رجالہ رجال الحسن، و ہو عند أحمد۔ ابن ماجہ عن ابن عباس ، و اسنادہ حسن، و عن ابن حبان عن جابر أیضاً باسناد صحیح۔ و فی الباب عن عبد اللہ بن ثابت الأنصاری عند أحمد و ابن سعد و الحاکم فی ’’ الکنی‘‘ وا لطبرانی فی الکبیر و البیہقی فی شعب الایمان، و عن جابر عند الدارمی۔

الفتح الربانی ۱؍۱۷۵،بحوالہ القرضاوی، یوسف :تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔(نحوفقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۲۱۱۔

۲۳۔ انظر ’’ الترتیب الاداری‘‘ أو نظام الحکومۃ النبویۃ، للکتانی، ۱؍۳۲۷-۳۲۸ ،بحوالہ القرضاوی،  یوسف:تیسیر الفقہ للمسلم المعاصر فی ضوء القرآن و السُّنَّۃ۔ (نحو فقہ میسر معاصر)op.cit. ص ۲۱۱۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223