سوالات
میں نے کوئی چیز اس سے زیادہ پریشان کردینے والی نہیں پڑھی تھی، جتنی کہ یہ دس آیتیں ہیں (سورہ بقرہ کی آیات 30 تا 39)۔ میں ان کے بارے میں خود کو سوچنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ شب و روز میں جب بھی مجھے تنہائی نصیب ہوتی، میرا ذہن انھی آیات کی طرف چلا جاتا، خواہ ٹیلی وژن دیکھ رہا ہوں، بستر میں لیٹا ہوں یا کچھ اور کر رہا ہوں۔ میں اپنے ذہن میں ان کا تجزیہ کرتا، کسی معمے کی طرح ان کے اجزا کو ملانے کی کوشش کرتا۔ بقیہ قرآن پڑھتے ہوئے یہ آیات میری کسوٹی بن گئیں۔ جب بھی کوئی ایسی آیت میرے سامنے آتی جو مقصدِ حیات کے سوال پر روشنی ڈالتی تو میں اس حکایت میں بیان کردہ تصورات سے موازنہ کرتا۔مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگا کہ میں بعض سوالات کی الجھن سلجھانے میں کام یاب ہورہا ہوں جو اس کہانی نے میرے سامنے رکھی ہیں، لیکن پھر بھی میں پوری پہیلی سلجھانے میں ناکام رہا، جس سے زمین پر انسانی وجود کی قابل فہم وضاحت ہوسکے۔
میں بڑی بے چینی اور اضطراب سے اپنی تحقیق آگے بڑھا رہا تھا، لیکن اس کے لیے بڑے صبر و ضبط کی ضرورت تھی۔ قرآن نہ صرف مقصدِ حیات کا ذکر کرتا ہے، اگرچہ یہ جو بھی کہتا ہے، وہ تمام باتیں بھی کہیں نہ کہیں مقصد حیات ہی سے متعلق ہوتی ہے۔ یہ بیانیے، قصے، تنبیہ اور خوش خبریاں دیتا ہے۔ اس میں جنت، جہنم اور روزِ حشر کے ڈرامائی مناظر ہیں۔ یہ فرمان جاری کرتا ہے، اپنے منکرین کو دلائل دیتا ہے اور اپنے الوہی کلام ہونے کے شواہد پیش کرتا ہے۔ یہ منطقی، جذباتی اور روحانی اپیلیں کرتا ہے۔ یہ اپنی علامتیت کے استعمال اور انسانی عقل کی اہمیت اور محدودیت کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ انسانی ادراک سے پرے غیرمرئی حقائق کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اس میں خدا کی صفات اور ہمارے اس کے ساتھ تعلق کا بیان ہے۔ پورے صحیفے میں، قرآن کسی ایک موضوع پر بہت زیادہ دیر نہیں رکتا بلکہ یہ ہمارے سامنے طاقت ور تصویروں اور پیغامات کی جھلکیاں پیش کرتا ہے، اور ہماری توجہ حقیقت کے ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف مبذول کراتا چلا جاتا ہے۔
اس سے قبل کہ میں فرشتوں والے سوال کے جواب کی اپنی جستجو پر واپس آؤں، میرا خیال ہے کہ یہاں ان بعض سوالات پر غور کرنا بہتر ہوگا جو قرآن سے میری پہلی ملاقات کے بارے میں مجھ سے پوچھے گئے ہیں۔
سوال (ایک امریکی مسلم ہائی اسکول کے طالب علم کی جانب سے):
مجھے قرآن کی چند باتوں پر اشکال ہے۔ ان میں سے بعض سائنس اور تاریخ سے متصادم ہیں۔ ان کی وجہ سے میرے اندر شکوک کے سائے سر ابھار رہے ہیں۔ میرے والدین نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک شیخ صاحب سے مل لوں جو ان کے نزدیک میرے شکوک کا علاج کرسکتے تھے۔ لیکن ان سے مل کر بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ شیخ موصوف نے میرے سوالوں سے زچ ہوکر کہا کہ ایسے خیالات کا دل میں لانا کفر ہے اور مجھے ان کو اپنے ذہن سے جھٹکنا ہوگا۔ لیکن میں ان سے چھٹکارا پانے کی جتنی بھی کوشش کرتا ہوں وہ اتنا ہی مجھ سے چمٹ جاتے ہیں۔ میں ان کے بارے میں سوچنے سے خود کو نہیں روک پاتا۔ کیا آپ کو بھی مطالعہ قرآن کے دوران میں ایسا کوئی مسئلہ پیش آیا تھا؟ اگر ہاں، تو آپ نے اس پر کس طرح قابو پایا؟
میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ قرآن کی پہلی قرأت کے دوران میں مجھے اس کے بیانیوں کی تاریخیت سے زیادہ دل چسپی نہیں تھی کیوں کہ میری تمام تر توجہ اس بات پر تھی کہ یہ مقصد حیات کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن کی حکایات پر میری اپروچ—-اور اصل میں پورے قرآن کے بارے میں میری اپروچ—-سورہ بقرہ کی آیات 30 تا 39 نے طے کردی تھی۔ میرے پس منظر اور نقطہ نظر سے، یہ بات واضح تھی کہ قرآن انسانیت کی سب سے دل چسپ اور خیال انگیز حکایت بیان کر رہا ہے، ہومو سیپی اینس کی اصل کے بارے میں قاری کے تجسس کی تسکین کے لیے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مغالطے کی تصحیح کے لیے۔ دنیا کے پہلے جوڑے کی اس حکایت کے مضمرات ہی نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی۔ میں نے پایا کہ اس انکشاف کے پیچھے مقصد حیات کا انتہائی منطقی وژن مضمر ہے اور اس کتاب کا ہر لفظ اسی کے گرد گردش کر رہا ہے۔ چناں چہ جب میں نے اسے پڑھا تو میری توجہ کا مرکز وہی بیانیے رہے جو وجود انسانی کی حقیقت کے بارے میں پتہ دیتے تھے۔ ان کی تاریخی واقعیت کا مسئلہ میرے نزدیک اہم نہیں تھا۔
اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اس پہلو پر توجہ کی۔ ایک طرف میں نے پایا کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قرآن میں مذکور حکایات ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی حقیقی تفصیلات پیش کرتی ہیں۔ دوسری جانب میں نے پایا کہ قرآن کے متعدد مفسرین کے نزدیک بعض حکایات تمثیلی ہیں، ہر چند کہ انھوں نے مخصوص تفصیلات سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اگرچہ میں آخر الذکر نقطہ نظر سے زیادہ قریب ہوں، تاہم پھر بھی مجھے لگا کہ میں قرآن کے بیانیوں کا احتیاط سے مطالعہ کروں اور حتی الامکان ان میں سے تاریخ میں بیان کردہ حقائق سے موازنہ کرسکوں۔[1]
جیسا کہ میں نے عرض کیا، قرآن نہ تو تاریخ ہے اور نہ سوانح۔ البتہ پورے قرآن میں بعض شخصیات کا تذکرہ ہے جو ساتویں صدی عیسوی کے عربوں میں معروف تھیں، ان میں متعدد وہ شخصیات بھی شامل ہیں جن کا ذکر انجیل میں آیا ہے۔[2]تاہم اس میں کسی قسم کی زمانی ترتیب کم و بیش موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی تاریخی حوالے پیش کرتا ہے، ان وجوہ سے یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ ان تذکروں کو بیرونی ماخذ کے بغیر تاریخ سے مربوط کیا جاسکے۔ قرآن میں مذکور بیشتر شخصیات کے واقعات پورے متن کو محیط ہیں، جن میں زمانی ترتیب موجود نہیں۔ یہ حکایات کسی تاریخی سیاق و سباق کے بغیر بیان کی گئی ہیں اور عموماً ایک بات کرتے کرتے یک لخت دوسری حکایت شروع ہوجاتی ہے جس سے قاری جاری حکایت یا تذکرے سے دوسرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ مثلاً ’’اور خدا نے فرشتوں سے کہا‘‘، یا ’’اور جب تمھارے رب نے ابراہیم کی آزمائش کی‘‘، یا ’’اور جب عمران کی بیوی نے کہا‘‘۔ جہاں زمانی تفصیل سے یہ گریز ان بیانیوں کی لازمان (timeless) اپیل میں اضافے کا باعث ہے وہیں قاری کو اس کے اہم کرداروں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے کوئی تاریخی نقد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی بڑی مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب قرآن متعدد مقامات پر اپنی علامتیت کے استعمال پر زور دیتا ہے، لیکن کسی ایسے پختہ یا محکم وسیلے کی نشان دہی نہیں کرتا جس سے معلوم ہوسکے کہ کون سے آیات تمثیلی ہیں اور کون سی نہیں۔ البتہ یہ تصدیق کرتا ہے کہ دونوں قسم کی آیات حق کا انکشاف کرتی ہیں۔[3]اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ بعض بیانیے تمثیلی ہیں، اور ان میں کی لفظیات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔ قصہ آدم سے یہ دو آیتیں دیکھیں:
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاْری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا (الاعراف: 11)
اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا “کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” انھوں نے کہا “ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں” یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ “ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔ (الاعراف: 172)
اول الذکر آیت کے پہلے دو ٹکڑوں میں بات ‘تم’(عربی میں جمع) سے، تیسرے جزو عبارت میں آدم علیہ السلام کی طرف مڑجاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدم کے حوالے سے خطاب بنی نوع آدم سے کیا جارہا ہے۔ یقیناً یہ لفظ موجود نہیں ہے ورنہ پہلی دو آیتوں سے ہم نتیجہ اخذ کرتے کہ ہمیں تخلیق کیا گیا، ہمیں شکل دی گئی، پھر پہلے انسان کو سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا گیا۔ سورہ اعراف کی آیت 172 کے معنی ظاہر ہیں، اس کی لفظی وضاحت کرنا مشکل ہے۔
سورہ کہف میں ذوالقرنین کا قصہ اس تمثیلی بیانیے کی ایک اور مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
حتیٰ کہ جب وہ غروب آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اُسے ایک قوم ملی ہم نے کہا “اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے” (کہف: 86)
دور قدیم ہی سے اس آیت نے بہت سے مفسرین کو الجھن میں ڈالے رکھا جنھوں نے تاریخ کی کتابیں کسی ایسے عظیم فاتح نبی کی نظیر لانے میں کھنگال ڈالیں جو کسی ایسی سرزمین پر پہنچے تھے جہاں سے سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ بہت سے مفسرین نے سکندر اعظم کو ذو القرنین قرار دیا ہے، جو مشتبہ بات ہے کیوں کہ سکندر کے بارے میں معروف ہے کہ وہ خدا ناآشنا بادشاہ تھا۔ مزید برآں اس کے بارے میں یہ بات کہ وہ ایسی دلدلی جگہ پہنچا جہاں سورج غروب ہوتا تھا اور جہاں کے عوام سے اس کی ملاقات ہوئی، اس آیت کے علامتی کردار کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔
میرے مطالعہ قرآن نے مجھے کم و بیش وہیں پر رکھا جہاں سے میں نے اسے شروع کیا تھا۔ میں وثوق سے نہیں کہ سکتا کہ کون سے تذکرے تاریخی حیثیت کے حامل ہیں اور کون سے علامتی۔ البتہ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ ان اہم اخلاقی و روحانی کش مکش والی حکایتوں کے بارے میں میرا جو وجدان آغاز میں تھا، وہی غالباً درست ہے، یعنی ان کا بنیادی مقصد تاریخ پڑھانا نہیں بلکہ بنیادی حقائق پیش کرنا ہے۔ قرآن اس بات کو سورہ کہف میں واضح کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ قاری حکایات کی جزئیات کے حوالے سے بے کار کی بحثوں میں نہ پڑے۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتا تھا یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو۔ (کہف: 22)
پھر جملہ معترضہ (کہف:23-24) کے بعد قرآن اس قسم کی قیاس آرائیوں پر نکتہ چینی کا اختتام یہ کہتے ہوئے کرتا ہے:
اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا! زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبرگیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (کہف:25-26)
نکتہ یہ ہے کہ ان معاملات کی جزئیات میں پڑنا ان کے مقصد اور اسلوب کے مغائر ہے۔
یہ حقیقت کہ ان حکایات کو پیش کرنا اتنا غیر تاریخی (overtly ahistorical) ہے کہ قرآن ان کی تاریخیت کے بارے میں قصداً ابہام برتتا ہے، یہ ایسی حکایات کی تاریخی حیثیت متعین کرنے کے فطری انسانی رجحان کے خلاف ہے۔ بعض مستشرقین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کا غیرتاریخی اسلوبِ بیان اس شفوی ثقافت کا آئینہ دار ہے جس کے سامنے اسے پیش کیا گیا، اور ایسے سیاق میں زمانی تفصیلات سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ لیکن بائبل اور حدیث، جو ایک ہی قسم کے حالات و ظروف سے برآمد ہوئے، دونوں اس نقطہ نظر کی تردید کرتے ہیں۔ میرے نزدیک قرآن کا اسلوب اس کی عبقریت اور پُرکاری کا ایک اور اعجاز ہے کیوں کہ یہ حکایات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ نہ تو اس کے ابتدائی قارئین کی ذہنی ساخت سے صرفِ نظر کیا جائے جن کے نزدیک تاریخ، داستان گوئی، شاعری وغیرہ کے درمیان کوئی تفریق نہیں تھی اور نہ بعد کے لوگوں اور تشکیکی ادوار کو نظر انداز کیا جائے جہاں ان میدانوں میں تمیز کی جاتی ہے۔
سوال (ایک امریکی مسلم کالج کے طالب علم لڑکے کی جانب سے)
میں نے سنا ہے کہ آپ قرآن پڑھنے کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آیا آپ قرآن میں موجود نشانیوں کی وجہ سے ایمان لائے؟ ماہر ریاضیات ہونے کی حیثیت سے کیا آپ نے قرآن میں ریاضیاتی معجزے پائے جن کی وجہ سے آپ مشرف بہ اسلام ہوئے؟
جیسا کہ میں نے پچھلے سوال کے جواب میں بتایا ہے، مجھے پہلی قرأت میں قرآن میں ان بیانات کی تلاش نہیں تھی جو جدید علوم اور سائنس سے موافقت یا عدم موافقت رکھتے ہیں۔ اس وقت میں مسلمان نہیں تھا، حتی کہ وجود باری پر بھی یقین نہیں رکھتا تھا، اور مجھے قرآن سے اس کے قدیم الاصل ہونے کے باعث یہ توقع تھی بھی نہیں کہ یہ آج کے جدید سائنسی علوم سے موافقت رکھتا ہو۔ اس کے بجائے میرا فوکس اس بات پر تھا کہ قرآن زمین پر انسانی وجود کو کیا معنی پہناتا ہے۔ اس جستجو میں مجھ پر قرآن سے ایسی چیزیں منکشف ہوئیں جنھوں نے میرے الحاد کو چیلنج کردیا اور یہی بات آخرکار میرے ایمان لانے پر منتج ہوئی۔ بایں ہمہ قرآن کی اس بات نے مجھے ضرور متاثر کیا کہ وہ فطرت کے عجائب پر تدبر کرنے پر زور دیتا ہے، جنھیں وہ ’’نشانیوں‘‘ سے تعبیر کرتا ہے،، مثلاً وہ آیات جن کا حوالے میں نے اوپر دیا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ آسمان و زمین ابتدا میں باہم ملے ہوئے تھے، زندہ اشیا پانی سے وجود پذیر ہوئیں، سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں، یا جن آیات میں ابتدائی انسانی ترقی کا ذکر آیا ہے۔ ان بیانات میں اگرچہ میرے لیے کوئی خاص بات نہیں تھی کیوں کہ بسا اوقات ان کی عبارت میرے فہم کے لیے قدرے گنجلک تھی، یا ان میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے کافی وضاحت نہیں پائی جاتی تھی کہ وہ جدید دریافتوں اور انکشافات کی توثیق کرتی ہوں، پھر بھی مجھے وہ دل چسپ لگیں۔ قرآن میں بعض بیانات ضرور ایسے ہیں جن سے جدید سائنس دانوں کو اتفاق نہ ہو (مثلاً یہ کہ آدم علیہ السلام نوع انسانی کے جد امجد ہیں، یا یہ کہ نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس کی عمر پائی)، تاہم مجھے یہ بیانیوں میں نظر آئے، فطری نشانیوں میں نہیں۔ قرآنی حکایات میں میرے ان مشاہدات اور اس کے تمثیلی اسلوب کی بنا پر مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان بیانات کی تفہیم تاریخ کی حیثیت سے نہیں کی جانی چاہیے۔
پہلی قرأت میں مجھ پر ریاضیاتی نوعیت کا کوئی اعجاز منکشف نہیں ہوا۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں اس عبقریت کا قائل ہوچکا تھا جو قرآن پیش کر رہا تھا۔ اس کی حیرت انگیز درستی، کم سے کم الفاظ میں بڑی بات کہ دینے کی صلاحیت اور زبردست منطق، اس کی بے نظیر حکمت جو نہایت نفیس پیرایہ بیان میں مضمر ہے، اس علم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کسی بھی انسان کی زندگی کے تجربات پر مبنی نہیں ہوسکتا۔بغیر پڑھے لکھے اور عالم و فاضل شخص کو ایک ہی عبارت کے ذریعے متاثر کردینے والی اس کی صلاحیت کے سوتے انسانی نفسیات کے عمیق ترین فہم ہی سے پھوٹ سکتے ہیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ یہ مجھ پر مسلسل علوم کے طبق روشن کر رہا ہے، مجھے فکر کے اعلی تر سلسلوں میں لے جا رہا ہے جن کا تعلق زندگی سے ہے، انسانیت سے ہے، عقل سے ہے، روحانیت سے ہے، ہر چند کہ میں نے ابھی تک اس کے مرکزی خیال یعنی وجود باری کا اعتراف بھی نہیں کیا تھا۔
جب میں نے 1982 میں اسلام قبول کیا اس وقت امریکی مسلم برادری میں قرآن کی نشانیوں کا خوب چرچا تھا۔ دعوتِ اسلامی کی مساعی کے لیے قرآن کی سائنس سے موافقت کے موضوع پر بہت سی کتابیں گردش میں تھیں۔ سائنس کے ذریعے صحیفے کی ربانی اصل ثابت کرنے کے اس جوش نے کم و بیش ہر نئے سائنسی نظریے کو قرآن سے ہم آہنگ کرنے کی روش کو ہوا دی۔ ان میں سے بعض مطالعات تو اتنے بعید از فہم ہیں کہ انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔ یہ بات افسوس ناک ہے کیوں کہ اس لٹریچر کی وجہ سے قرآن پر بعض انتہائی اہم تحقیقات ماند پڑ گئیں۔ موریس بکائیے (Maurice Bucaille) کی کتاب ‘دی بائبل، دی قرآن اینڈ سائنس’ اب بھی قرآن مجید کی نشانیوں کے موضوع پر انگریزی زبان میں بے نظیر علمی کارنامہ ہے۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ قائل کن نشانی کوئی ایک مخصوص نشانی نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ دور حاضر کی سائنس نے جن باتوں کو وثوق سے ثابت کردیا ہے ان میں سے کسی ایک بھی بات کو قرآن سے متصادم و متناقض ثابت نہیں کیا جاسکتا، اس حقیقت کے باوجود کہ پیغمبر اسلام ﷺکے زمانے سے اور ان کے بعد بھی کئی صدیوں تک مظاہرِ فطرت اور نظامِ فطرت کے حوالے سے بہت سی غلط باتیں اور اعتقادات چلے آتے رہے ہیں۔ گو کہ میں نے پہلی قرأت میں قرآن کی نشانیوں پر تدبر نہیں کیا تھا، تاہم میں نے ان پر بعد کی قرأتوں میں خاصی توجہ صرف کی، اور یہ میرے قبول اسلام کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی ایک اور وجہ بن گئیں۔
[1] خود قرآن نے ان حکايات کو’’قصص‘‘ يا ’’نبأ‘‘ کہا ہے، جو انھيں تاريخ کہنے سے مختلف ہے۔ اگرچہ آيت 3:62 ميں قرآن عيسي عليہ السلام کے قصے کو سچي کہاني کہتا ہے، اور ايک خاص تذکرے کو ’’حقيقت‘‘ جان کر پڑھنے کي ہدايت کرتا ہے، جو اس کي تاريخيت پر دال ہے۔
[2] قرآن فرض کرتا ہے کہ اس کے ابتدائي قاري انجيل کي شخصيات سے کسي حد تک متعارف ہيں۔ محسوس ہوتا ہے کہ يہوديوں اور عيسائيوں کے ساتھ زمانہ جاہليت کے عربوں کے ثقافتي تعامل نے ايک دوسرے کي شفوي روايات کو بعض تبديليوں کے ساتھ اختيار کرليا تھا۔
[3] آئندہ قسط ميں اس پر بحث آئے گي۔
مشمولہ: شمارہ جون 2021