اسلام نے علم کی غیر معمولی فضیلت بیان کی ہے اور تحصیلِ علم پر بہت زور دیا ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے اس کی تاکید کی ہے۔اس کی اس ترغیب و تشویق کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کی قوم، جس کی شانِ امتیاز ’ امّیت‘ تھی،جو علم و ثقافت سے کوسوں دور تھی اور جس میں پڑھنالکھنا جاننے والے افراد انگلیوں پر گنے جاتے تھے،اس میں علم کا زبردست چرچا ہونے لگا،مختلف علوم و فنون کی سرپرستی کی گئی اور بہت سے نئے علوم و فنون وجود میں آئے۔تعلیم کا زبردست فروغ ہوا، یہاں تک کہ غلام اور باندیاں بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونے لگے۔
اسلام پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس نے عورتوں کو میدانِ علم سے دور رکھا ہے۔ وہ انھیں گھر کی چار دیواری میں محبوس رکھتا اور سماج میں سرگرم کردار ادا کرنے سے روکتا ہے۔وہ مردوں اور عورتوں کو اختلاط سے سختی سے منع کرتا ہے، جس کی بنا پرعورتیں علمی میدان میں مردوں سے استفادہ کرنے سے محروم اور انھیں علمی فیض پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں۔مسلمانوں کے دور ِ زوال میں عورتوں کی حالتِ زار خواہ اس اعتراض کو حق بہ جانب قرار دیتی ہو، لیکن قرونِ اولیٰ میں مسلم سماج میں عورتوں کوجو مقام و مرتبہ حاصل تھا اس سے اس اعتراض کی کلّی تردید ہوتی ہے۔ عہدِ نبوی میں مرد اور عورت دونوں تحصیلِ علم اور استفادہ و افادہ کے میدان میںسر گرم نظر آتے ہیں۔ اس معاملے میں خاص طور سے امہات المومنین کا اہم کردار تھا۔
اس مقالے میں دکھایا گیا ہے کہ علم حاصل کرنے، پھر اسے دوسروں تک پہنچانے میںامہات المومنین نے کیا کوششیں کیں اور کیا کردار انجام دیا۔
تحصیل علم کا شوق
صحابۂ کرام کی طرح صحابیات بھی تحصیلِ علم کا بہت شوق رکھتی تھیں۔اس معاملے میں خاص طور پر ازواج مطہرات پیش پیش تھیں۔ اس کا اندازہ حضرت عائشہؓ کے اس بیان سے بہ خوبی ہوتا ہے:
کانت تنزل علینا الآیہ فی عھد رسول اللہ ﷺ فنحفظ حلالھا و حرامھا و آمرھا و زاجرھا ولا نحفظھا(العقد الفرید، ابن عبد ربہ،طبع قاہرہ، ۱۹۶۸ء :۲؍ ۲۳۹)
’’رسول اللہ ﷺ کے عہد میں کوئی آیت نازل ہوتی تو ہم اس میں بتائے ہوئے حلال و حرام اور امر و نہی کو حفظ کر لیتے، گو اس کے الفاظ کو ازبر نہ کریں‘‘
تحصیلِ علم کی نبوی ترغیب
علم کا حصول صرف زبانی طور پر کافی نہیں ہے، بلکہ کتابی علم یعنی پڑھنا لکھنا جاننا بھی ضروری ہے۔اللہ کے رسول ﷺ امہات المومنین کو اس کی بھی ترغیب دیا کرتے تھے۔حضرت شفاء بنت عبد اللہ ؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ بیان کرتی ہیںکہ میں حضرت حفصہ ؓ کے پاس تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپؐ نے فرمایا:
ألا تعلّمین ھذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابہ (ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الرقی،۳۸۸۷)
’’ کیا تم ان کو مرض ’ نملہ‘ کی دعا نہیں سکھاؤ گی، جیسے تم نے انھیں لکھنا سکھا دیا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ سے بہ راہ راست استفادہ
صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ سے دینی مسائل معلوم کرنے کے بہت شائق رہتے تھے۔انھوں نے آپ ؐ سے جو رہ نمائی حاصل کی اسے دوسروں تک پہنچایا۔امہات المومنین آپؐسے براہ راست رابطہ میں رہنے کی وجہ سے بھر پور استفادہ کرتی تھیں۔ جب بھی ان کے ذہن میں کوئی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ سے اس کی وضاحت کر والیتی تھیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم ؓ نے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا: اگر عورت خواب میں جنسی لذّت محسوس کرے تو کیا اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں، بشرطے کہ اس کو احتلام ہو۔ اس پرام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے پوچھا: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟آپؐ نے فرمایا:
نعم ،فبما یشبھھا ولدھا (بخاری، کتاب العلم، ۱۳۰،مسلم، کتاب الحیض،۳۱۳)
’’ ہاں! پھر کیسے بچہ اس سے مشابہ ہوتا ہے؟‘‘
رسول اللہ ﷺ سے استفادہ کے معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سب سے آگے تھیں۔ ان کے ذہن میں جو بھی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ ؐ کے سامنے اس کا اظہار کرتیں اور آپؐ اس کی وضاحت فرمادیتے۔ کتب احادیث سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مَن حُوسِبَ عُذِّبَ( روزِ قیامت جس کا حساب لیا گیا وہ گرفتارِ عذاب ہوگا۔) اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! قرآن میں تو کہا گیا ہے: فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْراً ً( اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔)اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انما ذلک العرض، و لکن من نوقش الحساب یھلک ( بخاری، کتاب العلم،۱۰۳)
’’ اس سے مراد اعمال کی پیشی ہے۔جس کے اعمال میں جرح شروع ہو گئی وہ توہلاک ہوگیا۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے قرآن کی ایک آیت پڑھی: یَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَیْرَ الأَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُواْ للّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ (ابراہیم:۴۸) [ڈراؤ انھیں اس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔] پھر دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ!جب روزِ قیامت آسمان و زمین کچھ نہ ہوں گے تو لوگ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: پلِ صراط پر (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن،۳۱۲۱)
ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے قرآن کی ایک آیت پڑھی: وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلَی رَبِّہِمْ رَاجِعُون(المومنون:۶۰) [اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے] پھر اللہ کے رسولﷺ سے دریافت کیا: کیا اس سے مراد وہ چور، بدکار اور شرابی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: نہیں، اے عائشہ! اس سے مراد وہ نماز پڑھنے والا، روزہ رکھنے والا اور زکوٰۃ دینے والا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔(ترمذی،کتاب تفسیر القرآن،۳۱۷۵)
اشاعتِ علم کی قرآنی ہدایت
ازواج مطہرات کو تاکید کی گئی کہ رسول اکرم ﷺ سے انھیں جو دینی علم بہ راہ راست حاصل ہوا ہے، اسے دوسروں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کریں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیٰتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَۃِ(الاحزاب:۳۴)
’’ یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کوجو تمھارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:
’’ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو یاد رکھیں اور ان کے گھروں میں جو کچھ قرآن نازل ہوتا ہے اور جو کچھ وہ نبی ﷺ کے اقوال سنتی ہیں اور آپؐ کو کرتے ہوئے دیکھتی ہیں، انھیں دوسروں تک پہنچائیں، تاکہ وہ ان پر عمل کر سکیں اور ان کی اقتدا کر سکیں۔‘‘( الجامع لاحکام القرآن، قرطبی،تفسیر آیتِ مذکور)
امت کی معلمات
امہات المومنین کو امت کی معلمات کی حیثیت حاصل تھی۔رسول اللہ ﷺ جس عظیم مقصد کو لے کر مبعوث ہوئے تھے اس کے لیے صرف مردوں کی تعلیم و تربیت کافی نہیں تھی، بلکہ عورتوں کی تعلیم و تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی، لیکن چوں کہ اسلامی معاشرت میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا، اس لیے عورتوں کی بہ راہ راست تعلیم و تربیت کے لیے زیادہ وقت فارغ کرناآپؐ کے لیے ممکن نہ تھا۔ دوسرے، بہت سے نسوانی مسائل ایسے ہیں جن کو علی الاعلان یا عورتوں کے سامنے کھول کر بیان کرنے میں حیا مانع ہوتی ہے اور اللہ کے رسول ﷺ تو کنواری پردہ نشین عورت سے زیادہ حیا دار تھے( بخاری، کتاب الادب،۶۱۰۲) اس بنا پر عورتوں کی تعلیم و تربیت کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ مختلف خواتین سے نکاح کرکے ان کی بہ راہ راست تعلیم و تربیت کریں اور انہیں دوسری عورتوں کو دین سکھانے کے لیے تیار کریں۔ نسوانی مسائل کی بہت سی گتھیوں کو سلجھانے میں امہات المومنین کا غیر معمولی کردار ہے۔ انھوں نے وہ مسائل خود آں حضرت ؐ سے دریافت کرکے دوسری صحابیات کو بتائے، یا صحابیات ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرتی تھیں تو وہ حضورؐ سے رجوع کرکے انھیں جواب دیتی تھیں۔
مخصوص مسائل سے ہٹ کر بھی بہت سی تعلیمات اور احکام کا علم امت کو امہات المومنین ہی کے واسطے سے ہوا ہے۔وہ خلوت گاہِ نبوت کی را زدار تھیں۔ انھیں بہت سی ان باتوں کی خبر رہتی تھی جو دوسروں کی نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ دین کی بہت سی تعلیمات انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرکے حاصل کیں اور آپ بھی انھیں مستفید فرماتے رہتے تھے۔ آں حضرت ؐ کے ارشاداتِ عالیہ کی معتد بہ تعداد ایسی ہے جو ہم تک صرف امہات المومنین کے ذریعے ہی پہنچی ہے( حقائقِ اسلام، محمد رضی الاسلام ندوی،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ،۲۰۰۸ء،ص ۸۳)
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے رسول اللہ ﷺ کی کثرتِ ازواج کے مصالح پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اس کی ایک مصلحت امت کی تعلیم و تربیت قرار دی ہے۔ لکھا ہے:
’’ حضور کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک ان گھڑ قوم کو، جو اسلامی نقطۂ نظر سے ہی نہیں، بلکہ عام تہذیب و تمدن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں ۔اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تعلیم دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اصولِ تہذیب و تمدن سکھانے کے لیے آپ مامور کیے گئے تھے ان کی رو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کوتوڑے بغیر آپ کے لیے عورتوں کو بہ راہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدد خواتین سے آپ نکاح کریں، ان کو بہ راہ راست خود تعلیم و تربیت دے کر اپنی مدد کے لیے تیار کریں اورپھر ان سے شہری اور بدوی اور جوان اور ادھیڑ اور بوڑھی ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے لیے اصول سمجھانے کا کام لیں۔‘‘( تفہیم القرآن،سید ابو الاعلیٰ مودودی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۱۵ء:۴؍۱۱۵ )
علم حدیث کی اشاعت
تبلیغ ِ دین اور اشاعتِ قرآن و سنت کی قرآنی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے امہات المومنین نے علمِ حدیث کی اشاعت کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔تاریخِ تدوین حدیث کے ماہرین نے روایتِ حدیث کے اعتبار سے صحابہ کے پانچ طبقات قرار دیے ہیں:طبقۂ اول میں وہ صحابہ ہیں جنھوں نے ایک ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔طبقۂ دوم میں ان صحابہ کا شمار ہوتا ہے جنھوں نے پانچ سوسے زائد احادیث روایت کی ہیں۔طبقۂ سوم میں وہ صحابہ ہیں جنھوں نے سو سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔طبقۂ چہارم میںان صحابہ کو رکھا گیا ہے جن کی روایات چالیس سے زائد، لیکن سو سے کم ہیں۔طبقۂ پنجم میں وہ صحابہ ہیں جن کی روایات چالیس سے کم ہیں۔امہات المومنین میں سیحضرت عائشہ کا شمار طبقۂ اول میں،حضرت ام سلمہؓ کا شمار طبقۂ سوم میں اورحضرت حفصہ ؓ، حضرت ام حبیبہ ؓ ، حضرت جویریہؓاور حضرت میمونہ ؓ کا شمار طبقۂ چہارم میں کیا گیا ہے۔مولانا سید جلال الدین عمری نے علم حدیث کی اشاعت کے میدان میں امہات المومنین کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’ جن صحابہ نے سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث روایت کی ہیں ان میں حضرت عائشہ ؓ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ احادیث انھوں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہیں۔ بعض احادیث حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت فاطمہ ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ اور حضرت جذامہ بنت وہب ؓ سے سن کر بھی روایت کی ہیں۔ ان کی مرویات کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس(۲۲۱۰)ہے۔ ان میں سے ایک سو چوہتّر(۱۷۴) احادیث متفق علیہ ہیں، یعنی بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ چوّن(۵۴) احادیث بخاری نے اور انہتّر(۶۹) امام مسلم نے الگ الگ روایت کی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء:۲؍۱۰۱) باقی احادیث حدیث کی دوسری کتابوں میں آئی ہیں۔ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی بہت سی حدیثیں رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اور بعض حدیثیں حضرت ابو سلمہ ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ سے بالواسطہ روایت کی ہیں اور پینتیس (۳۵) سے زیادہ صحابہ و تابعین نے ( جن میں مرد اور عورتیں دونوں ہی شامل ہیں) ان سے احادیث نقل کی ہیں۔(تہذیب التہذیب، ابن حجر:۱۲؍۴۰۵) ان کی مرویات کی تعداد تین سو اٹھتّر(۳۷۸) ہے۔ ان میں تیرہ (۱۳) روایات بخاری و مسلم دونوں میں ہیں۔ ان کے علاوہ تین(۳) بخاری میں اور تیرہ(۱۳) مسلم میں پائی جاتی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء:۲؍۱۴۳) حضرت ام اسلمہؓ کا فقہ میں بھی خاص مقام تھا۔ امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں: صحابہ میں جو فقہاء تھے ان میں ان کا شمار ہوتا تھا(حوالہ سابق) ام المومنین حضرت حفصہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ اور اپنے باپ حضرت عمر ؓ سے روایتِ حدیث کی ہے۔ ان سے حدیث کی روایت کرنے والوں میں ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ، ان کے لڑکے حمزہ، ان کی بیوی صفیہ، ام بشر الانصاریہ، مطلب بن وداعہ، حارث بن وہب وغیرہ، بارہ سے زیادہ افراد شامل ہیں۔ ( تہذیب التہذیب:۱۲؍ ۳۶۱) حضرت حفصہ ؓ نے ساٹھ (۶۰) حدیثیں روایت کی ہیں۔ ان میں سے چار(۴) حدیثیں بخاری و مسلم دونوں میںاور چھ(۶) حدیثیں صرف مسلم میں آئی ہیں۔(سیر اعلام النبلاء:۲؍ ۱۶۴) ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیانؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پینسٹھ (۶۵) حدیثیں روایت کی ہیں۔ ان میں سے دو بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہیں اور ایک مسلم میں آئی ہے۔ ان سے ان کی لڑکی حبیبہؓ، ان کے بھائی معاویہ ؓ، ان کے بھتیجے عبد اللہ بن عتبہ، عروہ بن زبیر، صفیہ بنت شیبہ اور زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے حدیث روایت کی ہے۔( سیر اعلام النبلاء:۲؍۱۵۵، تہذیب التہذیب:۱۲؍ ۳۶۹) ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے چھیالیس(۴۶) حدیثیں روایت کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ، عبد اللہ بن شداد، عبد الرحمٰن بن سائب، یزید بن اصم( یہ سب ان کے بھانجے تھے)، ان کے پروردہ عبد اللہ خولانی، ان کی باندی ندیہ، ان کے آزاد کردہ غلام عطاء بن یسار اور سلیمان بن یسار اور عالیہ بنت سبیع وغیرہ ہیں۔ ( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ابن حجر: ۸؍۳۲۲۔۳۲۴، تہذیب التہذیب:۱۲؍ ۴۰۲، خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال، صفی الدین خزرجی: ۳؍۳۹۲)(عورت اور اسلام، مولاناسید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۰۹ء، ص ۷۷ ۔ ۰ ۸ )
علم حدیث کا تعلق دو چیزوں سے ہے: ایک روایت، دوسری درایت۔امہات المومنین نے روایت کے ساتھ درایت کوبھی ملحوظ رکھا ہے۔ اس معاملے میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند ہے۔ انھوں نے بہت سی روایتوں پر درایتاً تنقید کی اور عقلی استدلال اور قرآنی آیات سے استشہاد کرتے ہوتے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی۔ چند مثالیں پیش ہیں:
حضرت عائشہ ؓ کے سامنے یہ روایت پیش کی گئی کہ میت پر اس کے اہل و عیال کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے تو انھوں نے درایتاً اس کو قبول کرنے سے انکار کیا اور بہ طور دلیل قرآن کی یہ آیت پیش کی: لَا تَزِر وَازِرَۃٌ وِزرَ اُخریٰ( الانعام:۱۶۴)[کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا](بخاری،کتاب الجنائز،۱۲۸۸،مسلم،۹۲۹)
کیا رسول اللہ ﷺ نے سفرِ معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا؟ اس معاملے میں صحابۂ کرام مختلف الرائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ رؤیت کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرتی تھیں:لَا تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر( الانعام:۱۰۳)[نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ وہ نہایت باریک بیں اور اور باخبر ہے](بخاری،کتاب التفسیر،۴۸۵۵،مسلم،۱۷۷)حضرت عائشہ ؓ سے ایسے استدراکات بڑی تعداد میں مروی ہیں۔ متعدد علماء نے ان کو اپنی کتابوں میں جمع کر دیا ہے۔(ملاحظہ کیجیے علامہ سیوطی کی کتاب عین الاصابۃ اور علامہ زرکشی کی کتاب الاجابۃ)
امہات المومنین کاعلمی مقام و مرتبہ
علم و فضل کے معاملے میں امہات المومنین صحابۂ کرام کے درمیان اونچے مقام پر فائز تھیں۔خاص طور پر حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔ سوانح نگاروں نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مولانا سید جلال الدین عمری نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں لکھا ہے:
’’صحابیات میں حضرت عائشہ ؓ کا علمی مقام سب سے اونچا تھا۔ صحابۂ کرام میں بھی معدودے چند ہی کو یہ مقام حاصل رہا ہے۔ ان کے علم و فضل اور بصیرت کا اس دور کے اساطینِ علم نے اعتراف کیا ہے۔ ان کے شاگردِ خاص اور بھانجے عروہ بن زبیرؒ کہتے ہیں: ’’ میں حضرت عائشہ ؓ کی صحبت میں رہا۔ میں نے ان سے زیادہ آیات کی شانِ نزول، فرائض، سنت، شعر و ادب، عرب کی تاریخ اور قبائل کے انساب وغیرہ اور مقدمات کے فیصلوں، حتیٰ کہ طب کا جاننے والا کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ فرماتے ہیں:میں نے کہا:’’ خالہ جان! آپ نے طب کیسے سیکھی؟ فرمایا: جب کبھی میں یا کوئی دوسرا شخص بیمار ہوتا تو اس کا علاج بتایا جاتا۔ اسی طرح لوگ ایک دوسرے کو علاج بتاتے اور میں اسے یاد رکھتی۔‘‘(سیر اعلام النبلاء، ذہبی :۲؍۱۲۸۔۱۲۹)امام زہریؒ فرماتے ہیں:اگر سب لوگوں کا علم جمع کیا جائے اور پھر رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے علم کا بھی اس میں اضافہ کیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم زیادہ وسیع ہوگا۔‘‘ ( مستدرک حاکم، حدیث: ۶۷۳۴؍ ۲۳۳۲) عطا بن ابی رباح کہتے ہیں:’’حضرت عائشہؓ لوگوں میں سب سے بڑی فقیہ، سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور عوام میں سب سے اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘(تلخیص المستدرک، ذہبی:۴؍۱۴)امام ذہبی ؒفرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی امت میں، بلکہ مطلقاً سب ہی عورتوں میں ان سے زیادہ علم والی کسی عورت سے میں واقف نہیں ہوں۔‘‘(سیر اعلام النبلاء، ذہبی:۱؍ ۱۰۱)(عورت اور اسلام، مولاناسید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۰۹ء، ص ۷۷ ۔۸۰)
حضرت عائشہ ؓ کی حساب دانی کا یہ حال تھا کہ اکابرِ صحابہ ان سے میراث کے مسائل دریافت کرتے تھے۔( مستدرک حاکم:۴؍۳۵، حدیث:۲۳۳۵)
حضرت ام سلمہ ؓ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے:
کانت أم سلمۃ موصوفۃ بالجمال البارع و العقل البالغ و الرأی الصائب(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ابن حجر:۸؍۴۰۶)
’’ام سلمہ ؓ انتہائی حسن کے ساتھ پختہ عقل اور اصابتِ رائے سے بھی متصف تھیں‘‘
امہات المومنین کا علمی فیض
امہات المومنین کے ذریعے امت کو بڑے پیمانے پر علمی فیض پہنچا۔ اس کا آغاز عہدِ صحابہ ہی سے ہو گیا تھا۔علمی مسائل میں صحابۂ کرام کے درمیان اختلاف ہوتا یا انھیں کوئی الجھن درپیش ہوتی تو وہ امہات المومنین کی طرف رجوع کرتے اور وہ اس سلسلے میں جو کچھ بیان کرتیں اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ علامہ ابن قیم ؒنے’زاد المعاد‘ میں لکھا ہے:
قد کانت الصحابۃ یختلفون فی الشیٔ فتروی لھم امھات المومنین عن النبی ﷺ شیئاً فیأخذون بہ و یرجعون الیہ و یترکون ما عندھم لہ
)زاد المعاد، ابن قیم:۵؍۵۳۴(
’’صحابہ کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوتا اور امہات المومنین میں سے کوئی نبی ﷺ سے اس سلسلے میں کوئی حدیث بیان کر دیتیں تو وہ اس کو فوراً قبول کر لیتے اور اپنے تمام اختلافات کو چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کرتے۔‘‘
صحابہ و تابعین امہات المومنین کے سامنے اپنے مسائل پیش کرتے اور وہ ان کا حل بیان فرماتیں۔ ان کے جوابات اور فتاویٰ کو کتابوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔علامہ ابن قیم ؒاپنی ایک دوسری کتاب ’ اعلام الموقعین‘ میں لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں جن لوگوں کے فتاویٰ محفوظ ہیں ان کی تعداد ایک سو تیس (۱۳۰) سے کچھ زائد ہے ۔ اس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی۔ان میں سے سات اشخاص ایسے ہیں جن کے فتاویٰ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے فتووں کو اکھٹا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ان میں حضرت عائشہ ؓ شامل ہیں۔دوسری صف کے مفتیانِ صحابہ میں وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک کے فتوؤں کے ذریعے ایک رسالہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ ان میں حضرت ام سلمہ ؓبھی ہیں۔تیسرا گروہ ان اصحاب پر مشتمل ہے جنھوں نے بہت کم فتوے دیے ہیں۔ ان میںحضرت حفصہ ؓ، حضرت ام حبیبہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ،حضرت جویریہؓ اور حضرت میمونہ ؓ کا شمار ہوتا ہے۔( اعلام الموقعین، ابن قیم، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۶ء:۱؍۱۰۔۱۲)
امہات المومنین کے علمی فیض پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری نے لکھا ہے:
’’ مختلف عقدہ ہائے حیات کو لے کر ان کی طرف چھوٹوں نے بھی رجوع کیا اور بڑوں نے بھی، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی، اصحابِ قرب و جوار نے بھی اور دور دراز کے رہنے والوں نے بھی، اور ان خواتینِ امت کی دینی سوجھ بوجھ اور بصیرت و دانائی نے ان گرہوں کو کھولا اور راہِ حق واضح کی۔‘‘(عورت اسلامی معاشرہ میں، سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ سلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۱۱ء،ص۱۵۴)
اس معاملے میں بھی حضرت عائشہ ؓ کا مقام بہت بلند تھا۔ مسائل دریافت کرنے کے لیے اکابرِ صحابہ بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں:
ما أشکل علینا أصحاب رسول اللہ ﷺ حدیث قط فسألنا عائشۃ الاّ وجدنا عندھامنہ علماً (ترمذی، ابواب المناقب، باب فضل عائشۃ،۳۸۸۳)
’’ہم اصحابِ رسول کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی دشواری پیش آتی اور ہم اس کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ سے دریافت کرتے تو ہمیں ان کے پاس ضروراس کے متعلق علم حاصل ہوتا۔‘‘
حافظ ابن حجر ؒ نے ان سے متعلق لکھا ہے:
و قد حفظت عنہ شیئاً کثیراً، و عاشت بعدہ قریباً من خمسین سنۃ، فأکثر الناس الأخذ عنھا و نقلوا عنھا من الأحکام و الآداب شیئاً کثیراً حتی قیل انّ ربع الأحکام الشرعیۃ منقول عنھا ( فتح الباری، ابن حجر:۷؍۴۷۹)
’’انھوں نے حضورؐ سے بہت سی باتیں یاد رکھیں۔ وہ آپ کے بعد تقریباً پچاس سال زندہ رہیں، چنانچہ لوگوں نے ان سے بہت زیادہ اخذ و استفادہ کیا اور بہت سے احکام و آداب ان سے نقل کیے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ شریعت کے ایک چوتھائی احکام ان سے منقول ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیب التہذیب میں حضرت عائشہ ؓ سے استفادہ کرنے والے اٹھاسی(۸۸) افراد، جن میںصحابہ اور تابعین، مرد اور عورت، آزاد اور غلام سب ہیں،ان کے نام گنانے کے بعد لکھا ہے: و خلق کثیر ، یعنی ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد نے ان سے روایت کی ہے۔( تہذیب التہذیب، ابن حجر:۱۲؍۳۸۵)
لوگوں کے درمیان انھیں کتنی مرجعیت حاصل تھی،اس کا اندازہ ان کی شاگردحضرت عائشہ بنت طلحہ ؒکے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے:
کان الناس یأتونھا من کل مصر )الادب المفرد، بخاری، باب الکتابۃ الی النساء و جوابھن، ص۵۴ (
’’ان کے پاس لوگ ہر شہر سے آیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت ام سلمہ ؓ سے احادیث روایت کرنے والے بتیس(۳۲) افراد کے نام ذکر کرنے کے بعد حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے: ان کے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جنھوں نے ان سے روایتِ حدیث کی ہے۔ (تہذیب التہذیب،ابن حجر:۱۲؍۴۰۵)
حضرت صفیہ ؓ سے بھی امت کو بہت فیض پہنچا۔ایک تابعیہ حضرت صہیرہ بنت جیفرؒ بیان کرتی ہیں:
’’ہم چند خواتین حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ گئیں تو حضرت صفیہ ؓ کی خدمت میں حاضری دی۔ دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے کوفہ کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان سے زن و شو سے متعلق مختلف مسائل اور حیض اور نبیذ کے احکام دریافت کیے۔‘‘
) مسند احمد،حدیث صفیہ ام المومنین، حدیث:۲۶۳۲۴(
امہات المومنین نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ دین کا صحیح فہم بھی ان تک منتقل کیا۔چنانچہ جو باتیں دوسرے صحابہ یا تابعین کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں،وہ ان کی تشریح و توضیح کرتی تھیں اور ان کے اشکالات دور کرتی تھیں۔اس سلسلے کی چند مثالیں سطورِ ذیل میں پیشِ خدمت ہیں:
سعی بین الصفا و المروۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا( البقرۃ:۱۵۸)[یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرلے۔]اس کے بارے میں حضرت عائشہؓ کے بھانجے عروہؒ نے ان سے سوال کیا: خالہ جان! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص طواف نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ انھوں نے جواب دیا: بھانجے! تم نے ٹھیک نہیں سمجھا۔ اگر مطلب وہ ہوتا جو تم سمجھے ہو تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا (اگر ان کا طواف نہ کرو تو کچھ حرج نہیں) اس کی شانِ نزول یہ ہے کہ اسلام سے پہلے اوس و خزرج مناۃ کی پوجا کرتے تھے، جو مشلل میں نصب تھا، اس لیے وہ صفا و مروہ کے طواف کو برا جانتے تھے۔ وہ اسلام لائے تو رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف میں کوئی حرج نہیں۔(بخاری، کتاب الحج،باب وجوب الصفا و المروۃ،۱۶۴۳)
سفر میں قصر نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی جن نمازوں میں چار رکعتیں ہیں ان کے بجائے صرف دو رکعتیں ادا کی جائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سہولت کی خاطر دو رکعتیں ساقط کر دی گئیں، لیکن حضرت عائشہؓ اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں:
فرضت الصلاۃ رکعتین، ثم ھاجر البنی ﷺ ففرضت أربعاً و ترکت صلاۃ السفر علی الأولی(بخاری،کتاب مناقب الانصار، باب التاریخ،۳۹۳۵، مسلم،۶۸۵)
’’ نماز ابتدا میں دو دو رکعت فرض کی گئی تھی، پھر نبی ﷺ نے(مدینہ) ہجرت کی تو بعض نمازیں چار رکعت کر دی گئیں، البتہ نماز قصر کو پہلی حالت پر ہی رہنے دیا گیا۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ایک زمانے میں حکم دیا تھا کہ قربانی کے گوشت کو تین دنوں سے زیادہ ذخیرہ نہ کیا جائے۔ یہ آپ کادائمی حکم نہیں تھا، بلکہ وقتی مصلحت تھی۔ حضرت عائشہؓ اس پر یوں روشنی ڈالتی ہیں:
لا، و لکن لم یکن یضحی منھم الا قلیل، ففعل ذلک لیطعم من ضحی من لم یضحّ (مسند احمد:۶؍۱۰۲)
’’ یہ دائمی حکم نہیں تھا۔ اس زمانے میں کم لوگ قربانی کرتے تھے۔اس لیے آپؐ نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے قربانی کی ہے وہ قربانی نہ کر سکنے والوں کو گوشت کھلائیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی تدفین آپ کے حجرے ہی میں ہوئی۔اس کے اصل سبب پر حضرت عائشہ ان الفاظ میں روشنی ڈالتی ہیں:
قال رسول اللہ ﷺ فی مرضہ الذی لم یقم منہ: لعن اللہ الیھود و النصاریٰ، اتخذوا قبور انبیائھم مساجد، لو لا ذلک أبرز قبرہ غیر أنہ خشی ان یتخذ مسجداً (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی،۱۳۹۰)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرضِ وفات میں فرمایا:’’ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘اگر ایسا نہ ہوتا تو آپؐ کی قبر کو نمایاں کیا جاتا، لیکن آپ کو اندیشہ ہوا کہ ایسا کرنے سے اسے سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ امہات المومنین نے فروغ ِعلم کے میدان میں جو زرّیں خدمات انجام دیں، وہ انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ انھوں نے دینی علوم(قرآن، حدیث، فقہ) کو بہ راہ راست رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا، پھر انھیں پوری حفاظت کے ساتھ دوسروں تک پہنچایا۔ یہ ان کا اتنا بڑا احسان ہے، جس سے پوری امت تا قیامت عہدہ برا نہیں ہو سکتی۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2016