حضرت حارث اعورؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ لوگ اپنی باتوں میں بحث مباحثے کر رہے ہیں۔ (یہ کیفیت دیکھ کر) میں علی کے پاس گیا اور ان کو بتایا تو انھوں نے کہا: کیا لوگوں نے یہ کام شروع کر دیا؟ میں نے عرض کیا ہاں! انھوں نے کہا: میں نے تو رسول اللہ ؐکو فرماتے سنا تھا کہ: ’’خبردار رہو! بہت جلد فتنہ رونما ہو جائے گا!۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اس سے نکلنے کی راہ کیا ہو گی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’کتابُ اللہ…! اس کے اندر تم سے پہلے گزرنے والوں کے حالات، تم سے بعد میں آنے والوں کی خبریں اور تمھارے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا حل موجود ہے۔ یہ (قرآن) فیصلہ کن کلام ہے، کوئی مذاق نہیں۔ جس نے اپنی طاقت کے غرور میں اسے پس پشت ڈالا، اللہ اس کو توڑ کر رکھ دے گا۔ جس نے اس کے علاوہ کہیں اور ہدایت تلاش کرنے کی کوشش کی، اللہ اسے گمراہ کر کے رکھ دے گا۔ یہ اللہ کی حبل متین ہے۔ یہ ذکر حکیم ہے۔ یہ صراطِ مستقیم ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے ہوتے ہوئے خواہشات تمھیں بھٹکا نہیں سکیں گی۔ اس کی موجودگی میں زبانوں کو اختلاف کرنے کی مجال نہیں ہو گی۔ علماء اس کے علم کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔ بہت زیادہ پڑھے جانے کے باوجود اس کی لذتِ قراءت و سماعت ختم نہیں ہو گی۔ اس کے عجائب ختم نہیں ہوں گے۔ یہی وہ کلام ہے جس کو سن کر جنات یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے تھے: اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّہْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ۔جو اس قرآن کی بنیاد پر بات کرے گا وہ سچ کہے گا، جو اس پرعمل کرے گا اجر پائے گا، جو اس کی طرف بلائے گا اسے راہِ مستقیم کی طرف رہنمائی ملے گی!‘‘[ترمذی، دارمی]
قرآن حیات القلوب ہے، دل زنگ آلود ہو جائیں تو اس کی تلاوت و قراءت دلوں کے زنگ اتار پھینکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے، اسی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔‘‘ پوچھا گیا یا رسول اللہؐ! اس کی صفائی کا ذریعہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’موت کو کثرت سے یاد رکھنا اور قرآن کی تلاوت کثرت سے کرنا۔‘‘[بیہقی]
قرآن خود اپنے الفاظ کے مطابق انسانیت کے لیے شفا ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَاۗءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۰ۙ [بنی اسرائیل۱۷:۸۲]’’ہم اِس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘قَــدْ جَــاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَــاۗءٌ لِّــمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى[یونس۱۰:۵۷] ’’تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘
معاصر صورتِ حال
کسی صاحب ایمان کو اس بات میں ذرا شک نہیں کہ قرآنِ مجید انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت و اصلاح ہے۔ یہ فرد اور جماعت، حکمران اور عوام، قوموں اور ریاستوں کے لیے یکساں طور پر ضابطۂ ہدایت ہے۔ اس کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوئوں میں اس کی رہنمائی کی جائے اور اُسے درست راستے پر چلایا جائے۔ قرآن تو ہر لمحے اور ہر آن حاضر و موجود حکَم عدل ہے۔ وہ انسانوں کے سلوک وکردار، نظامِ حیات اور روابط وتعلقات پر نگران ہے۔مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ایک لمحے اس کو اپنا حاکم اور مقتدا مانتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ کسی واقعے میں قرآن اُن کے لیے قانون اور دستور ہوتا ہے اورکسی واقعے میں اس سے قانونی رہنمائی لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
قرآن جہاں لوگوں کے مفادات، خواہشات، میلانات اور ضروریات کے مطابق ہو وہاں لوگ آگے بڑھ کر اس کو بیچ میں لاتے اور اس کو حَکم مانتے ہیں، لیکن جہاں معاملہ ان صورتوں کے برعکس ہو وہاں لوگ اس سے دوری میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔یہ نفاق کااظہار اور اس کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی اس روش کی مذمت فرمائی ہے۔ حتیٰ کہ اُن کے ایمان کی صریح نفی کر دی گئی ہے:
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد اِن میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ جب اُن کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسولؐ کی طرف، تاکہ رسولؐ ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کَترا جاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسولؐ کے پاس بڑے اطاعت گزار بن کر آ جاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہواہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسولؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
[النور۲۴:۴۷۔۵۱]
یقیناً اہل ایمان کا موقف تو یہ ہوتا ہے کہ جب بھی اللہ و رسولؐ کا حکم اُن تک پہنچتا ہے وہ بلاچوں و چرا، بلاتوقف وتردد اور بلاپس و پیش اطاعت کرتے اور حکم کی تعمیل بجا لاتے ہیں۔
قرآنِ مجید اور اس کے علوم کالجوں، یونی ورسٹیوں، دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے مقالات اور خطابات کا موضوع ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری کانفرنسوں میں بڑے بڑے مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ کتب لکھی جاتی ہیں۔ مسائل اور موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوتا اور پیش کیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلمان قرآنِ کریم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے، قرآن او رعلومِ قرآن کےساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اور احکام کے دل و جان سے گرویدہ ہیں۔ حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عین اسلام کے مطابق ہے اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا۔ ان مقالات، کتب، تقریرو ں، لیکچروں اور گفتگوئوں میں کوئی لفظ، کوئی مسئلہ، کوئی قضیہ ایسا نہیں چھوڑا جاتا جس کے اوپر بحث و تحقیق کی انتہا نہ کر دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان مطالعات، پروگراموں اور سرگرمیوں سے عام انسانی زندگی کس قدر مستفید ہوتی ہے؟ کیا یہ دل و دماغ، روح و ضمیر اور اخلاق و کردار کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں؟ انسانوں کے ایمانی و اعتقادی، ثقافتی و نظریاتی اور قدری و روایاتی انحرافات میں کوئی اصلاح ہوتی ہے؟
اصحابِ علم و معرفت اور علومِ قرآن کے اہلِ اختصاص کا اولین فرض ہے کہ وہ قرآن کو فلسفیانہ موشگافیوں اور دقیق معنی سنجیوں کے گرداب سے دور رکھ کر عام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں۔ وقت کی ضرورت اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔جامعاتی تحقیقات، علمی رسائل و جرائد، ادارہ جاتی اور نشریاتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں بھی اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ اور خصوصی جدوجہد کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم اور دریافت کرنے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی زندگی پر قرآنِ مجید کس طرح اثرانداز ہو سکتا ہے؟ اُن کی بیداری و تبدیلی کا کیونکر ذریعہ بن سکتا ہے؟ ان کی تجدید و احیا کا رہنما کس انداز میں ہو سکتا ہے؟ ان پہلوئوں پر تحقیق و بحث کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام اور باہمی تعلقات میں قرآن کی تاثیر کہاں تک ہے اور کہاں تک ہونی چاہیے؟ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے کیسا محفوظ و متوازن پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ نظری تحقیقات سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے!
مسئلے کا حل – فہم قرآن
اس مقصد کے حصول کے لیے نئی نسل اور موجودہ امت کو قرآن کے مطالعے اور تلاوت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ محض تلاوت نہیں، بلکہ ایسی سنجیدہ تلاوت مطلوب ہے جو قرآن کے اوپر گہرے ایمان اور راسخ عقیدے پر دلالت کرتی ہو۔ قرآنِ کریم کے دستورِ حیات ہونے کی صلاحیت پر پختہ ایمان رکھتی ہو۔ یہ عمل اور کردار کے لیے تلاوت ہو محض دہرائی اور حفظ کی غرض سے تلاوت نہ ہو۔ گویا تلاوتِ قرآن کا وہ حق ادا ہو جائے جس کے نتیجے میں تلاوت کرنے والا حقیقی صاحبِ ایمان بنتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖٓ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ[البقرہ۲:۱۲۱]
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اِس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔اور جو اِس کےساتھ کفر کا رَویہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے: اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ پڑھنے والا اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا ہے اُسی طرح اس کو پڑھے، اس کے الفاظ و کلمات میں کسی قسم کی تحریف نہ کرے، اور اس کی کوئی غیرحقیقی تاویل نہ کرے۔
اس طرز کی تلاوت اور تعلیم ہی سے مطلوب تزکیے اور تقویٰ و طہارت کا حصول ممکن ہے اور یہی اس تلاوت و تعلیم کا ثمرہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآنِ مجید کی مجرد تلاوت بھی باعثِ برکت ہے۔ مگر اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تلاوت ہی کے لیے قرآن نازل نہیں فرمایا، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ خوب صورت خطاطی میں اس کی آیات دیواروں کی زینت بنائی جائیں۔ نہ اس لیے نازل کیا گیا کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی غرض سے اسے پڑھا جائے۔ نہ محض اس لیے نازل کیا ہے کہ اسے خوش الحانی سے تلاوت کرنے کےلیے قراءت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اپنی ہدایت و رہنمائی سے انسان کے سفرِ حیات کو منظم اور منضبط بنا دے، زندگی پر ہدایت ِالٰہی اور دینِ حق کی حکمرانی قائم کر دے، اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر لے آئے اور اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا کرے۔
فہم و تدبرِ قرآن ہی تبدیلی کا ذریعہ ہے
اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہو سکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ بدقسمتی سے زندگی بھر یہ کیفیت قائم دائم رہتی ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے کہ وہ کانوں میں رَس گھول دے اور طبیعتوں کو ہشاش بشاش کر دے مگر دلوں کی کیفیت انھی الفاظ سے بدل سکتی ہے جن کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ تلاوت کی صورت میں ہمارا تعلق محض الفاظ کی حد تک ہوتا ہے کیونکہ قارئین کی اکثریت میں اس کے معانی کے فہم اور مفاہیم کے ادراک کی صلاحیت نہیں ہوتی۔اس کیفیت میں ہم ہزاروں آیات پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی باتوں سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ لوگ تلاوت و سماعتِ قرآن کے تو بہت مشتاق ہوتے ہیں مگر فہمِ قرآن کے حریص نہیں ہوتے؟ہمیں قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ قرآن کی حقیقی قیمت اور برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دل کی کیفیت میں قرآن کی قراءت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی نصوص سے واضح ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے کچھ تدریجی مراحل سے گزرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ پہلے حروف کی پہچان ضروری ہے پھر حروف سے تشکیل پانے والے الفاظ و کلمات کو جاننا ضروری ہوتا ہے، تب جا کر ان کے مفہوم کو سمجھا جا سکتا ہے اور قرآن کا معاملہ اس سے مختلف نہیں۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے۔ قرآنِ مجید کا بیان ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ[صٓ۳۸:۲۹]
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا[محمد۴۷:۲۴]
’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا، یا دِلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
جب فہم کا حصول ممکن ہو گا تو بلاشبہ یہ الفاظ کی قراءت کا ہی نتیجہ ہو گا اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قراءت کیونکر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐنے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا:
لَا یَفْقَھُہُ مَنْ یَقْرَؤُہُ فِی أَقَلٍّ مَنْ ثَلَاثٍ[صحیح الجامع الصغیر، حدیث:۱۱۵۷]
’’وہ آدمی اس (قرآن) کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قراءت کر لیتا ہے۔‘‘
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قراءت کو اس اصول سے خارج کیوں کر ڈالتے ہیں، قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔
امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہر کلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔‘‘
[مقدمہ فی اصولِ التفسیر:۷۵]
امام قرطبیؒ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا[النساء۴:۸۲]کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔ [الجامع لاحکام القرآن:۱۸۷]
قرآن انسانی زندگی کو کس طرح تبدیل کرتا ہے؟
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے اور اس کے سننے والے پر اگرچہ تدبر فی القرآن واجب ہے لیکن یہ بھی بذاتِ خود مقصود اور منزل نہیں بلکہ یہ اس معجزۂ کبریٰ کو دلوں میں اتارنے اور جاگزیں کرنے کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔
قرآن اللہ تعالیٰ کے معجزوں میں سب سے بڑا معجزہ ہے، لیکن اس کے بڑا ہونے کا راز کیا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ قرآن کا اسلوبِ بیان اور فصاحت و بلاغت بھی معجزہ ہے۔ اس نے پوری انسانیت کو اپنی مثال لانے کا چیلنج کیا اور یہ حقیقت ہے کہ چودہ سو برس سے زائد عرصے میں کوششوں کے باوجود کوئی انسان اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔ یہ خصوصیت بھی قرآن کے اعجاز میں سے ہے کہ یہ ہر زمانے، ہر علاقے اور ہر قوم کے لیے ایک دائمی رہنما کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ سب کچھ قرآن کے معجزہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں، لیکن قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے اور انسان ایک دوسری ہی صورت میں سامنے آتا ہے اور پھر یہ انسان اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے حیطۂ علم میں مستحضر رکھتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ [الانعام۶:۱۶۲] ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کےلیے ہے۔‘‘
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ جب یہ نور دل کے کسی بھی گوشے میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر اس گوشے میں معاصی اور غفلتوں سے پیدا ہونے والی تاریکی سے اس کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے لیکن چونکہ یہ نور پھیلنے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر اس زندگی کا حامل مکمل طور پر ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو ’’موت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو ’’زندگی‘‘ کا نام دیا ہے، فرمایا:
وَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا[الانعام۶:۱۲۲]
’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو۔‘‘
اس اعتبار سے قرآن کو وہ روح کہنا چاہیے جو دل میں جاگزیں ہو کر اسے زندگی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے بھی اپنے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا [الشوریٰ۴۲:۵۲]
’’اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔‘‘
اور جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا سب سے بڑا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر ہوتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا تھا: اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ[الزمر۳۹:۲۲] ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔‘‘
نبی کریم ؐنے فرمایا: اِذَا دَخَلَ النُّوْرُ القَلْبَ اِنْشَرَحَ وَ انْفَتَحَ ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
صحابہؓ نے پوچھا: یارسول اللہؐاس کی نشانی کیا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: أَلْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الخَلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِالغَرُورِ، وَالْاِستِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہِ ’’دارِخلود [آخرت] کی طرف میلان اور دارِغرور [دنیا] سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری!۔‘‘ [اخرجہ البیہقی فی الزھد]
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
لَوْ اَنزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ [الحشر۵۹:۲۱] ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔ ‘‘
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ [الجامع لاحکام القرآن:۱۸/۳۰]قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
تاثیرِ قرآن کے دائمی نمونے
جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںگہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسول کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔دلوں میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنے کی جو قوتِ تاثیر اس کتاب قرآنِ مجید کے اندر ہے یہ ایک عجیب شے ہے۔ یہ عجیب اور تعجب خیز ہی تو ہے کہ صحرائوں میں ننگے پائوں اور عریاں بدن فقرو فاقہ کی زندگی بسر کرنے والے جن کی کوئی قابل ذکر اقدار نہیں تھیں، جنھیں اس وقت کی سپر پاورز کے ہاں کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی، قرآن آ کر ان کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور انھیں ایک نئی طرز پر تشکیل دیتا ہے۔ اس قوم کے سروں کو اوج ثریا تک بلند کر دیتا ہے اور دلوں کو اللہ سے جوڑ دیتا ہے تاکہ یہی ذات ان کا اوّل و آخر مقصود قرار پائے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ساری تبدیلی چند برس میں تکمیل کو پہنچ گئی۔یہ سب کچھ ایسی ہمہ جہتی اور تیز رفتاری سے واقع ہونے کا راز کیا ہے؟
دراصل یہ وہ اصول اور کلیہ ہے جس کو قرآن نے ہی بیان کر دیا ہے کہ جب تک انسان خود اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اس کی مہلت کو دراز کیے رکھتا ہے۔ قرآن کا بیان ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ [الرعد۱۳:۱۱]
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘
چونکہ قرآن کے اولین مخاطب اور سامع خود تبدیل ہونے کے لیےکمربستہ ہو گئے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دست گیری فرمائی۔ اور وہ اسی صحراء کے قلب سے اٹھنے والی ایسی جدید قوت کے طور پر ابھرے جس نے شہنشاہتوں کو روند ڈالا اور قیادت و ریادت کی قدیم مسندوں کو الٹ کر رکھ دیا۔قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا فیصل اور رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم اللہ کے رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی اور اس کے سائے تلے گذار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ قرآن ہی آپؐ کے غضب و رضا کا پیمانہ تھا اور آپؐ تو قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو تہجد کی نماز میں یہ آیت ساری رات دہراتے گذار دی:
اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ۰ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ [المائدہ۵:۱۱۸] ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔‘‘
قرآن کی قوتِ تاثیر پر اس وقت مزید تعجب ہوتا ہے جب ہم رسول اللہؐکے یہ کلمات سنتے ہیں کہ:
شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ وَ أَخَوَاتُھَا قَبْلَ المَشِیْبِ![صحیح الجامع الصغیر، حدیث:۳۷۲۱]
’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے۔‘‘
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گذار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ و حروف سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے، اپنے پڑھنے والے کے اندر بنیادی تبدیلی پیداکرنے کی قدرت کے اندر ہے، اپنے پڑھنے والے کے عقل و شعور کو نئے سانچے میں ڈھالنے کے بعد نئی سوچ اور نئی فکر عطا کرنے میں ہے، اس کے دل کے اندر روح داخل کرکے اسے نئی زندگی سے ہمکنار کرنے میں ہے تاکہ وہ ان تمام عوامل کے نتیجے میں صرف ایک اللہ کے بارے میں جانے اور پورے اخلاص و بصیرت کے ساتھ اسی کی عبادت کرے اور یہ چیز محض زبان سے سرسری قراءت کر لینے سے حاصل نہیں ہو سکتی خواہ اس طریقے سے ہزار بار قرآن کو ختم کر لیا جائے!!
آخری بات
برادرانِ اسلام! آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟—– نہیں ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دل نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کی تاثیر آج بھی وہی ہے جو چودہ سو سال قبل تھی۔ یہ آج بھی وہی معجزہ ہے جو چودہ سو سال قبل تھا اگر نہیں ہے تو ہمارے سینوں میں وہ دل اور دماغوں میں وہ عقل نہیں ہے جو اس کے مفہوم کا حقیقی مقصد سمجھے اور اسے قبول کرکے زندگی کو اس کے مطابق چلانے کا عزم کرے۔آج ہر گھر میں قرآن موجود ہے شاید کوئی ایسا گھر ہو جہاں قرآن کے ایک سے زائد نسخے موجود نہ ہوں، پرنٹ میڈیا کی مطبوعات اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں قرآن کے بلاواسطہ پیغام کا اظہار دن رات کا معمول ہے۔ دنیاے اسلام میں سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جو آنے چاہییں! اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف اور صرف یہ کہ ہم وہ شرائط پوری نہیں کر رہے جو قرآن کسی بھی دل کے اندر اپنے اثرات چھوڑنے کے لیے طلب کرتا ہے۔ ہمارا اہتمام اور توجہ بس الفاظ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ قرآن کے مفہوم کی تعلیم اس کے حروف کی زبان سے ادایگی کی تعلیم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بیشتر حفاظ اور قراء قراءتِ قرآن کے ماہر ہیں، لیکن اس کے مفہوم و مقصود سے ناآشنا ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ حاملین قرآن کی اس صورتِ حال نے امتِ مسلمہ کے اندر بیداری کی روح کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ آج دیکھا جائے تو قرآن کی تعلیم اور تدریس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد معاملات کو سلجھانے، عوام کی ٹھیک رہنمائی کرنے اور حق و ناحق کے خلط ملط ہوتے تصورات کو چھانٹ کر بیان کرنے کی کماحقہٗ صلاحیت نہیں رکھتے!
یہ صورتِ حال جہاں حاملین قرآن کے اعلیٰ طبقے معلّمین و مدرّسین اور حفاظ و قراءِ قرآن کی کثیر تعداد میں موجود ہے وہاں امت کے عام افراد میں اس کا گراف مزید پست ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے ساتھ روا رکھے جانے والے ہمارے اس سرسری تعلق اور سلوک کا نتیجہ ہے جس کو ہم اپنی زندگیوں کا ایسا معمول بنائے ہوئے ہیں کہ ذرا رُک کر اس پر غور کرنے کی چنداں ضرو رت محسوس نہیں کرتے۔
الفاظ و کلماتِ قرآن کی بار بار قراءت کے باوجود جب ہماری یہ حالت ہے تو اس حقیقت سے مفر نہیں کہ ہم قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں، قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بڑا کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016