(۲۸؍۲۹؍جولائی کو مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی میں جماعت کے امرائے حلقہ جات اور ان کے معاونین کا مشاورتی اجتماع منعقد ہوا۔ افتتاحی خطاب میں محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے حالاتِ حاضرہ کے بارے میں شرکاء کی رہنمائی فرمائی۔ افادہِ عام کے لیے اس تقریر کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔)
ایک سال بعد ہمارے ملک ہندوستان میں عام الیکشن ہونے والا ہے۔ اس الیکشن سے تمام باشعور افراد کی دلچسپی فطری امر ہے۔ جمہوری نظام میں الیکشن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں فیصلہ ہوتا ہے کہ حکومت کس پارٹی کی ہوگی، اور وہ حکومت ملک کو کس طرف لے جائے گی۔ ۲۰۱۹ء کا الیکشن قریب ہے۔ اس الیکشن کی اہمیت شاید پچھلے الیکشنوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ اِس وقت، ملک کا دستوری رخ زیرِ بحث آچکا ہے۔ کیا یہ ملک دستور کے مطابق چلے گا یا ایک غیر جمہوری طرز یہاں لایا جائے گا۔ ملک کے عوام کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ باشعور عناصر کو چاہیے کہ مناسب حکمت عملی وضع کریں۔
جمہوری قدریں
ظاہر ہے کہ ملک کی تعمیر کے لیے جمہوری قدروں کا باقی رہنا ضروری ہے۔ بعض نعرے بہت معروف ہیں مثلاً آزادی، برابری، مساوات، عدل، انصاف۔ اگر یہ تصورات، صحیح تصور کائنات کے تابع ہوں تو ان کی بنیادی اہمیت ہے۔ اخلاقی قدروں سے منضبط حریت فکروعمل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو عقیدے کی آزادی ہو۔ اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہو۔ حق کی دعوت اور تبلیغ کی آزادی ہو۔ اسی طرح انسانوں کی معاشی تگ و دو کی آزادی بھی باقی رہنی چاہیے۔
مساوات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سب کو برابر کی حیثیت دی جائے۔ ایک اور دوسرے فرد کے درمیان نسل، رنگ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر فرق نہ کیا جائے۔ سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔
اسی طرح جسٹس کا مفہوم انصاف ہے، جو چاہتا ہے کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ یہ وہ قدریں ہیں جنہیں ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں باقی رہیں۔ ان قدروں کو اگر نقصان پہنچتا ہے تو ملک کی خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ موجود اچھی روایات کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ حالات بتارہے ہیں کہ یہ قدریں مجروح ہورہی ہیں۔ خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات کو انسانی حقوق عملاً حاصل نہیں ہیں۔
ملک میں جمہوری قدروں کا باقی رہنا ضروری ہے۔ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ان کا بقا، اسلام کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں۔ صحیح بات یہ ہے کہ جمہوریت کے مکمل فلسفے کا اہم جز، عوام کی حاکمیت کا تصور ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اس تصور کو رد کرتے ہیں۔اسے ہم اسلامی نہیں کہتے لیکن جمہوری قدریں (اگر اخلاقی حدود کی تابع ہوں تو) آفاقی نوعیت رکھتی ہیں۔ ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔
اُمت مسلمہ کا تحفظ
امت مسلمہ کا تحفظ اہم مسئلہ ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ امت مسلمہ کی حالت معیاری اور مثالی نہیں ہے۔ اس کے اندر بہت سی دینی اور اخلاقی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں بعض افراد کے اندر اسلام سے انحراف بھی پایا جاتا ہے۔ کم ہمتوں کو حکومت اور انتظامیہ کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔ یہ احساس عام ہے کہ حکومت مسلمانوں کے حقوق کی محافظ نہیں ہے بلکہ حکومتوں ہی کے ہاتھوں اُن کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔
یہ پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ امت کے اندر معاشی اور تعلیمی پسماندگی ہے۔ روز مرہ کے مسائل نے لوگوں کو منہمک کررکھا ہے۔ کھانا پینا، جان بچانا، عزت و آبرو کی حفاظت- یہ وہ روز مرہ کے مسائل ہیں کہ افراد کی بڑی تعداد ان سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتی۔ عام لوگوں کے حالات یہی ہیں کہ اپنے مسائل میں پریشان ہیں اور سمجھ نہیں پاتے کہ عزت کے ساتھ زندگی کیسے گزاریں۔
ہم سب اس صورتحال کے شاکی ہیں کہ امت کے اندر اتحاد نہیں ہے۔ وہ بکھری ہوئی ہے۔ اس کے متحدہ پلیٹ فارم بعض امور تک محدود ہیں۔ امت کی اس صورت حال سے بعض لوگوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت ہے صحیح تجزیے کی، تجدید عہد کی، منصوبہ بندی کی اور عملی سعی کی۔
اس امت کا تمام تر کمزوریوں کے باوجود خدا اور رسول ﷺ پر ایمان ہے۔ انہیں کو آخری سند تسلیم کرتی ہے۔ اساساتِ دین پر اُمت کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ اس کے مصالح بھی ایک ہیں۔ دنیا مسلمانوں کو ایک مان کر ہی اُن سے معاملہ کرتی ہے۔ تمام تر کمزوریوں کے باوجود قرآن کے الفاظ میں یہ ایک امت ہے۔ اور امت کی ہی حیثیت سے اسے خطاب کیا گیا ہے۔ اس لیے امت کی اصلاح و تربیت، اس کے جان و مال کا تحفظ، اس کی تعلیمی اور معاشی ترقی، اس کے وجود کی بقا، اس کے حقوق کی حفاظت، یہ سب وہ امور ہیں جن کی جانب توجہ کرنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ امت کے امور کی انجام دہی کو دینی فریضہ سمجھنا چاہیے۔
موسیٰ علیہ السلام کا اُسوہ
بنی اسرائیل کی مثال بڑی سبق آموز ہے۔ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم تھی۔ امت مسلمہ کے موجودہ حالات سے ہزار ہا درجہ زیادہ اس کے حالات خراب تھے۔ اس کے اندر طرح طرح کی کمزوریاں تھیں وہ مظلوم بھی تھی۔ فرعون اور قبطی ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک مدت سے غلامی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس لیے ان کے اندر اخلاقی خرابیاں بھی پیدا ہوچکی تھیں۔ ان کے اندر اپنے حقوق کے لیے کسی جدوجہد کا حوصلہ نہیں تھا۔ فرعون کی اجازت کے بغیر وہ اپنے عقیدے کا بھی اعلان نہیں کرسکتے تھے۔ جب جادوگر ایمان لے آئے تو فرعون نے جادوگروں سے کہا: آمنتم بہ قبل اَن آذن لکم۔ میری اجازت کے بغیر ہی تم موسیٰ پر ایمان لے آئے۔ انہیں دین حق قبول کرنے کا اختیار نہ تھا۔ فرعون، بنی اسرائیل کی پوری نسل ہی کو ختم کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے اعلان کیا:
سنقتل أبناء ہم و نستحیی نساء ہم وإنا فوقہم قاہرون۔
’’ہم ان کے لڑکوں کو ختم کردیں گے، ان کی عورتوں کو باقی رکھیں گے ہمیں اس کی طاقت حاصل ہے، ہم یہ کرسکتے ہیں،اقتدار ہمارے پاس ہے‘‘۔ اِن حالات میں حضرت موسیٰؑ نے ایک کم ہمت اور بزدل قوم کو اوپر اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ انھونے فرعون سے کہا:
فأرسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبہم۔
ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو اور انھیں جو تکلیفیں تم دے رہے ہو، اس سلسلے کو ختم کرو۔ قرآن میں تفصیل سے یہ کش مکش بیان ہوئی ہے۔ تین کام موسیٰؑ کے قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ ایک فرعون کو دعوت حق، بغیر کسی جھجک کے۔ دعوت حق پر فرعون نے اعتراضات بھی کیے۔ ان اعتراضات کا موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا۔ دوسرا کام حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ فرعون سے مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل پر تم جو عذاب نازل کررہے ہو، جو سختی تم کررہے ہو، اُسے ختم کرو۔ اس قوم کو میرے حوالہ کرو۔ میںاسے یہاں سے نکال کر آزاد فضا میں لے جانا چاہتا ہوں۔ اسے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ انھوں نے تیسرا کام کیا وہ یہ کہ بنی اسرائیل کے اندر نئی زندگی پیدا کی اور اس کی کمزوریوں کی اصلاح کی۔ اسے اس لائق بنایا کہ وہ انبیاء کی تعلیم پر عمل کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں ائمہ اور امام پیدا کیے۔ موسیٰ علیہ السلام کے یہ تین کام ایسے ہیں جن کا قرآن میں بہت وضاحت سے ذکر آیا ہے۔
راہِ عمل
بنی اسرائیل حالات سے گھبراتے تھے۔ انھوںنے موسیٰؑ سے کہا کہ ہم پہلے بھی مصیبت میں تھے اور اب تمہارے آنے کے بعد بھی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ موسیٰؑ نے جواب دیا:
استعینوا باللّٰہ واصبروا إن الارض للّٰہ یورثہا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔
’’اللہ سے مدد طلب کرو اور اپنے دین پر جمے رہو۔ یہ اقتدار کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور انجام متقیوں ہی کے لیے ہوگا۔‘‘
یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ایک بلند تصور دیا۔ غلام قوم کے افراد تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اقتدار ان کے ہاتھ میں آئے گا۔
تاریخ کے ان واقعات سے ہمیں راہِ عمل متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ امتِ مسلمہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک امت ہے۔ دنیا بھی یہی سمجھتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ قرآن نے اُن کو اسی حیثیت سے پیش کیا۔ اس امت کے اندر جو خرابیاں نمودار ہوسکتی ہیں اُن کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
قانون کی بالا دستی
اس وقت دو کام ہمارے کرنے کے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ ملک کو بتائیے کہ اس ملک میں قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ من مانی نہیں ہونی چاہیے۔ خوف اور دہشت کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ سب کو منصفانہ قانون کے مطابق حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو حق ملا اور کسی کو محروم کردیا گیا ۔ کسی پر ظلم نہ ہو۔ سب کے ساتھ انصاف ہو۔ یہ ہماری بنیادی دعوت ہے۔ الیکشن کے تناظر میں بھی ہم یہی بات کہیں گے۔
دوسرا کام اُمتِ مسلمہ کے احوال کی درستگی ہے۔ خود امت سے ہمارا ربط ایک محدود سطح تک ہے۔ ہم عام سماج تک نہیں جا سکے۔ان کے حالات سے براہ راست واقف نہیں ہوئے۔ امت کے اوسط درجہ کےیا اوسط سے اوپر کے طبقات سے ربط رہا۔ عوام کا طبقہ ایسا ہے جو اپنی معاش کے مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں سکتا۔ ہم نے ان سے ربط قائم کرنے کی کما حقہ کوشش نہیں کی۔ الا ماشاء اللہ۔ تو ضروری ہے کہ اس پوری امت کے اندر شعور پیدا کیا جائے۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ گرچہ زندگی گزارنا تمہارے لیے مشکل ہورہا ہے، سر چھپانے کی جگہ بھی میسر نہیں ہو پارہی ہے، پیٹ بھرنے کا سامان فراہم کرنا بھی دشوار ہے لیکن اس سب کے باوجود اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرو۔ تمہیں ہوشیار رہنا چاہیے کہ ملک کے حالات منفی رخ اختیار نہ کریں۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ امت کی طاقت کو مجتمع کیا جائے۔ قرآن نے یہ بات بتائی کہ اگر تم متحد ہوگے تو تمہارا وزن محسوس کیا جائے گا۔ اگر تمہارے اندر انتشار ہوگا تو تم بے وزنی کا شکار ہو جاؤ گے۔ آج ہمارا وزن اس لیے محسوس نہیں کیا جاتا کہ ہم متحد نہیں چنانچہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی جائے۔ حالات کا مقابلہ کرنے اور اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے امت کے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کیجیے۔ اسے اس قابل بنائیے کہ وہ حالات کا سامنا کرسکے۔ آپ منصوبہ بناکر جدوجہد کریں گے تو امت بیدار ہوگی۔ حالات بدلیں گے اور اس ملک میں عدل و انصاف قائم ہوسکے گا۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018