قریش کو گرمیوں اور جاڑوں کے سفر کاعادی اور خوگر بنانے کی وجہ سے قریش کو چاہیے کہ اس گھر ﴿کعبہ﴾ کے رب کی عبادت کریں، جس نے انھیں بھوک میں کھلایا اور ان کو خوف سے امن دیا۔
یہ سورہ قریش ہے جس کا ترجمہ پیش کیاگیا۔ یہ قرآن کی ۶۰۱ ویں سورہ ہے۔ اس کے ذریعے یہ حقیقت ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں، مثلاً امن و امان، حلال روزی کمانے کے مواقع اور ہر طرح کی توفیقات، اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ اس لیے ہر نعمت پر اللہ ہی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ نعمتیں، خواہ وہ عروج واقتدار ،عزت و شہرت ،دولت و ثروت ،امن وامان اور خوشحالی ہو بہرحال نعمتیں دینے والااللہ ہی ہے۔ اس لیے ہر نعمت کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرناچاہیے اور جو نعمت اللہ نے جس غرض سے دی ہو، اس سے وہی کام لینا چاہیے اور ہر نعمت پر اللہ ہی کا شکر ادا کرناچاہیے اور اللہ ہی کا شکرگزاربندہ بن کر رہناچاہیے۔ اس کی عبادت اور اطاعت میںمرتے دم تک سرگرم رہناچاہیے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید انسانوں کو اللہ کا شکرگزار بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے صرف اللہ ہی کی بندگی ، پوجا، پرستش، عبادت اور اطاعت کی طرف بلاتے ہیں اور دنیا وآخرت دونوں کی فلاح و بہبود اور کام یابی وکام رانی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت پر ہی منحصر بتاتے ہیں۔
نعمتیں اور احسانات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک دفع مضرت ،نقصان ، دکھ اور گھاٹے سے بچانا۔ مثلاً: اسلامی عقائد، افکار اور نظریات کو اسلامی اخلاق، معاشرت اور معاش کو اسلامی سیاست و اجتماعیت کو محفوظ رکھنا بھی، اللہ کا کام اور احسان ہے۔ یا مثلاً امت مسلمہ کی جان و مال وآبرو کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا بھی اللہ کااحسان اور اس کی عظیم نعمت ہے۔ مسلمانوں کی آیندہ نسلوں کو لادینیت، دنیاپرستی اور مشرکانہ خیالات اور باطل افکار کے علم بردار اسکولوں اور کالجوں کی یلغار سے محفوظ رکھنا بھی اللہ کا کرم اور احسان ہے۔ مسلمانوں کی جائیدادوں کومحفوظ رکھنا، مساجد، مقابر، خانقاہوں اور تعلیم گاہوںکو محفوظ رکھنا بھی اللہ کا کرم ہے۔ اِن تمام احسانات پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرنا چاہیے اور اس کاعملی طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اور اطاعت کی جائے، بل کہ اطاعت اور عبادت کاحق ادا کیاجائے اور بندگیِ رب کی اور دین اسلام کی دعوت برادران وطن اور خواہران وطن کو دی جائے اور اپنا تن من، دھن کھپاکر یہ فریضہ ادا کیاجائے۔ افہام وتفہیم اور ابلاغ و تبلیغ کے تمام ذرائع ووسائل استعمال کرکے یہ اہم فریضہ ادا کیاجائے۔ زبان و قلم، پریس اور پلیٹ فارم پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ’’ہرایک سے کام لیاجائے۔‘’
مگر یہ فریضہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کو داعی بننا ہوگا۔ بل کہ اس سے آگے بڑھ کر اُنھیںتبلیغی ملت بننا پڑے گا اور ملت کے تمام ہی افراد کو اللہ کی عبادت اور اطاعت کاخود عادی بننا ہوگا۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کا کامل اہتمام کرناہوگا۔ پوری زندگی میں عبادت کاطریقہ اور اطاعت کا شیوہ اختیار کرنا ہوگا۔ امت کے افراد کو خواہ وہ خواتین ہوں یا مرد ۔ اپنے اندر داعیانہ اسپرٹ اوراوصاف پیداکرنا ہوںگے۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب فیل سے محفوظ رکھ کر، دفع مضرت کی نعمت سے نوازا تھا۔ نعمت کی دوسری قسم ہے جُلپ منفعت۔ یعنی فوائد اور منافع سے ہم کنار کرنا، راحت اورچین سے نوازنااور خوبیوں اور بھلائیوں سے ہمکنار کرنا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہم ہندستانی مسلمانوں کو قرآن مجید اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ذریعے فکر ونظر، افکار ونظریات میں رہ نمائی فرمائی اور اخلاق و عمل اورسیرت وکردار کی صحیح تربیت کے مواقع عنایت فرمائے۔ روزی روزگار، حلال وحرام میں تمیز بخشی ہے۔ حاکمیت الٰہی اور خلافت انسانی پر مبنی سیاست کی تعلیم دی ہے۔ دنیاپرستی سے محفوظ رکھا، دنیا میں امن وامان، عدل وانصاف اور خوشحالی کے مواقع سے نوازا۔ خالق اور مخلوق کے حقوق سے روشناس کرائی اور دونوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف متوجہ فرمایا۔
دنیوی، دینی اوراُخروی کسی اعتبار سے بھی نفع بخشی کی تعلیم اللہ کا کرم اور اس کی نعمت ہی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہمہ پہلو رہنمائی کی نعمت سے نوازا ہے اور اسی نعمت کی طرف اللہ تعالیٰ نے سورہ قریش کے ذریعے متوجہ فرمایاہے کہ اے اہل مکہ اور اے قریش! ذراسوچو تو کیا اللہ نے تمھیں، جاڑوں میں یمن کی طرف، تجارتی سفر کرنے کا عادی اور خوگر نہیں بنایا؟ کیااللہ نے تمھیں گرمیوں میں شام و فلسطین اور مصر کی طرف تجارتی سفر کا عادی نہیں بنایا؟ ذرا سوچو پورے عرب میں چاروں طرف قبیلوں پر قبیلے، غارت گری سے تباہ اور خونریزی سے برباد اور قتل و قتال سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور ہر طرف قافلوں پر قافلے لُٹتے رہتے ہیںاور کامیاب وکامران منافعوں اور مال تجارت سے لدے پھندے واپس آتے ہیں اور جاڑوں میں بھی تمھارے قافلے آتے جاتے ہیں اور بڑا نفع کماکر واپس آتے ہیں اور کیا منافع یہ فائدہ اور یہ امن وامان کی دولت تمھیں محض اس کعبے، اس مسجدِ حرام اور بیت اللہ کی وجہ سے حاصل نہیںہے؟ اور جب تمھیں بھی تسلیم ہے کہ دنیا کے یہ سارے فائدے تمھیں اللہ کے اس گھرہی کی وجہ سے حاصل ہیں تو پھر تم اللہ ہی کی عبادت کیوں نہیں کرتے ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں اسی گھر کے رب کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں اور قرآن مجیدبھی تمھیں یہی دعوت دیتاہے کہ: صرف اس گھر کے رب کی عبادت کرو اور صرف اسی کی پوجا پرستش کرو، صرف اسی گھر کے رب کی اطاعت کرو اور صرف اسی کی بندگی اور غلامی کرو۔ افکار ونظریات میں خیالات اور عقائد میں اسی کی مرضی پر چلو، اخلاق و کردار، سیرت اور کیرکٹر عادتیں اور اطوار اسی کی مرضی کے مطابق اختیار کرو، معاشرت اور رہن سہن سماجی زندگی، تعلقات اور معاملات اسی کی مرضی کے مطابق اختیار کرو۔ کمانا، خرچ کرنا، کھانا پینا، روزی روزگار اور کاروبار اسی کی مرضی کے مطابق کرو۔ سیاست وجہاںبانی، قومی وملکی کام اور بین الاقوامی معاملات سب اللہ کی مرضی کے مطابق کرو۔ مذہب اور عبادت ، رسوم ، رواج سب کچھ اللہ کی مرضی کے مطابق اختیار کرو۔
غرض یہ کہ ہندستانی مسلمانوں میں ایسے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے،جو عقائد اور افکار ونظریات بھی وہی رکھتے ہیں، جو قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے ہیں، جو قرآن وسنت کے مطابق ہی اخلاق وکردار، سیرت اور کیرکٹر بھی رکھتے ہیں، جو معاشرت اور معیشت اورسیاست واجتماعیت ہر ایک میں قرآن و سنت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو عقائد میں بھی قرآنی اور اسلامی تصور نہیں رکھتے ہیں اور سنت رسول ﷺ کے مطابق فکرونظر نہیں رکھتے ہیں، بل کہ اس کے خلاف رول ادا کرتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کو مشکل کشا ،حاجت روا اور فریاد رس سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کو منتیں مرادیں پوری کرنے والا شمار کرنے لگتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کو دعائیں اور التجائیں سننے والا خیال کرنے لگتے ہیں۔ اخلاق وکردار کے پہلو میںکتنے لوگ اسلامی تعلیم اور ہدایت کے خلاف رول ادا کررہے ہیں، جھوٹ ، چوری، ڈکیتی، شراب، جوا، لاٹری، سٹہ، سود، بیاج حتی کہ خچراور خنزیر کھانے پینے لگے ہیں۔ معاشرت میںیورپین اور ہندوانہ تہذیب کے خاصے اثرات ان میں پائے جاتے ہیں۔ معیشت میں، کمانے اور خرچ کرنے میں، حلال وحرام اور جائز و ناجائز ، پاک وناپاک کے فرق و امتیاز میں دور سے دور تر ہوتے جارہے ہیں۔
سیاست میں، قومی اور ملکی رول میں بہت کم بلکہ برائے نام لوگ ایسے ہیں لوگ ہیں، جو اسلامی فکر ونظر، اسلامی تعلیمات اور ہدایات ، قرآنی احکام اور ارشادات کالحاظ کرتے ہوں، خداکی حاکمیت اور اللہ کے قرآنی تصورسے بے بہرہ اور ناواقف یا بے نیاز معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ کی بادشاہت اور انسانی خلافت ہی سے غافل اور بے پروا ہوگئے ہیں۔ غیراسلامی اور لادینی سیاست میں بالکل غیرمسلموںکی طرح لت پت ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے لوگ، اگرچہ نماز، روزہ اور فریضۂ زکوٰۃ و حج کا حق ادا کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں۔ مگر امت کاسواد اعظم، ارکان دین سے بھی غافل ہے۔ جہالت اور جاہلیت، افلاس اور فقرو فاقہ اور غربت نے اور دنیاپرستی ، الحاد و کفر اور شرک کی یلغار نے دنیوی تعلیم کے ذریعے، معاشرتی ،سماجی اور سیاسی دبائو کے ذریعے مشرکانہ ماحول کی یورش نے ان کا بُرا حال کر رکھا ہے۔ ایسے میں سورۂ قریش ہم سے کہتی ہے کہ اے بھارت کے مسلمانو! اللہ کے فضل و کرم سے تمھیں ذہن و دماغ اور علم وعقل کی نعمتیں حاصل ہیں۔ تمھیں ایمان واسلام، قرآن وسنت اور سیرتِ نبی کریم ﷺ جیسی نعمتیں حاصل ہیں۔ تم میں ہزار بُرائیاں پیدا ہوگئی ہیں، اس کے باوجود تمھیں ایک طرح کااخلاقی اور فکری مقام حاصل ہے۔ تم کو معاشی اعتبار سے اگرچہ مسلسل تباہ کیاجارہاہے مگر پھربھی تمھارے پاس بہت کچھ ہے۔ تمھارا تعلیمی معیار مختلف اسباب سے گھٹ رہاہے پھر بھی تمھارے اندر خاصا علم پایاجاتا ہے۔ تمھارے پیشوں اور صنعتوں کو اگرچہ دوسروں سے چھین لیاہے، اس کے باوجود تمھارے پاس ہنر اور کمال، صنعت اور مہارت اب بھی باقی ہے۔ تمھیں جان و مال، آبرو اور عزت، مذہب اور جائیداد کے پہلو سے مسجدوں اورقبرستانوںکے پہلو سے تباہ کیاجاتارہاہے۔ تمھاری جانوں اور مالوں کو لوٹا جاتا رہاہے۔ مگر تمھیں دستور اور قانون کے لحاظ سے ہی سہی امن وامان، عدل و انصاف اور برابری کا درجہ حاصل ہے۔ تمھیں اگرچہ دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوششیں مسلسل اور ہمہ جہتی ہورہی ہیں، پھر بھی تم اگر دین کی بنیادپر منظم ،متحد اور فعال ہوجائو تو اب بھی تم اپنا مقام حاصل کرسکتے ہو۔ کیونکہ مادی اور روحانی ، جسمانی اور ایمانی ، دینی اور دنیوی بہت سی نعمتیں تمھیں حاصل ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے یہ نعمتیں تمھیں حاصل ہیں، اس لیے اے بھارت کے مسلمانو! تمھیں صرف اللہ ہی کی عبادت کرناچاہیے اور اس کاحق ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ برادران وطن کو بھی اللہ کی عبادت ہی کی دعوت دینا چاہیے۔ قرآن کے پیش نظر توحید، رسالت اور آخرت کی دعوت دین صرف اللہ کے بندے اور داس بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی یہی دعوت دیں۔ بھارتی مسلمانوں کو چاہیے کہ افکار وخیالات اور عقائد، نظریات، قرآنی، دینی اور اسلامی اختیار کریں اور اسلامی اخلاق و کردار اور سیرت نبی کریم ﷺ کے حامل بنیں۔ کیونکہ مسلمان داعی ملّت ہیں۔ اس لیے انھیں داعیانہ کردار اختیار کرناچاہیے۔ مسلمانوں کو عقائد اور اخلاق، معاش روزی روزگار میں کمانے اور خرچ کرنے میںشریعت پر چلنا چاہیے۔ انھیں سیاست اور جہانبانی میں اور قومی و ملکی کاموں میں بھی عبادت اور اطاعت الٰہی اور اتباع رسول کریم کے مطابق رول ادا کرناچاہیے۔ انھیں صحیح معنی میں اللہ کا اطاعت گزار بندہ بننا چاہیے۔ اپنے کردار اور زندگی سے برادران وطن کا دل جیتنے اور موہ لینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ ہی نے انھیں یہاں زندگی گزارنے کے اسباب اور مواقع عنایت فرمائے ہیں۔ اللہ ہی ان کو یہاں روزی دے رہاہے اور اللہ ہی نے ان کو یہاں امن وامان اور عدل و انصاف کی نعمت سے نوازا ہے۔ مسلمان بھارت میں اور جہاں کہیں بھی ہوں، بھارت کے مسلمان بھارت میں اور ہرجگہ کے مسلمان اپنے وطن میں اللہ کی عبادت کریں۔ اللہ کی پرستش، اطاعت اور بندگی کریں اور دین حق کی دعوت اپنے اپنے برادران وطن کو دینے اور دیتے رہنے کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ بھارتی مسلمان حکمت، موعظۂ حسنہ اور جدالِ حسن کے ساتھ اپنے برادران وطن کو بھی سبیل رب کی طرف بلاتے رہیں۔‘‘
مشمولہ: شمارہ اگست 2011