یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی والدہ مرحومہ اور بہنوں اور بھتیجوں کے ساتھ حصولِ علم کی غرض سے بلریاگنج اعظم گڑھ یوپی میں مقیم تھا۔ ہمارا مکان پہلی منزل پر تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک مسلمان فیملی رہتی تھی۔ وہ اسی بستی کے باشندے تھے۔ چوڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے اور ہمارے گھر کے دروازے دو الگ گلیوں میں کھلتے تھے لیکن ان کی چھت اور ہماری چھت ملی ہوئی تھی۔ اس فیملی کی ایک لڑکی ہمارے گھر آتی جاتی تھی۔ اس کی دوستی ہماری بہنوں سے تھی اور کافی اچھی دوستی تھی۔ ہم لوگ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے پڑوسی کا خیال رکھتے اور ان کے کام آنے کی کوشش کرتے۔ پڑوس میں رہنے والی اس لڑکی نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اس لڑکی کی شادی طے ہو گئی اور تاریخ بھی مقرر ہوگئی۔ ہمارے پڑوسی نے اپنی بچی کی شادی میں ہمیں پہلے سے مدعو کر دیا تھا۔ شادی کا دن آگیا۔ ہم نے بچی کو تحفہ دینے کے لیے کے لیے کچھ کپڑے خرید لیے تھے۔ شادی والے دن ہم نے دیکھا کہ اس پڑوسی کے یہاں بلند آواز میں لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے ہو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں بڑا دکھ ہوا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کوئی بہانہ بنا کر پڑوسی کے یہاں شادی میں شرکت سے معذرت کر لیں گے۔ لڑکی کے والد ہمارے گھر آئے اور کہا کہ آپ لوگوں کا انتظار ہو رہا ہے آپ لوگ جلدی آجائیں۔
میں نے انہیں بچی کی شادی کی مبارکباد دی اور بچی کے لیے کپڑوں کا تحفہ پیش کیا اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کچھ مجبوری آگئی ہے اس لیے ہمیں بے حد افسوس ہے کہ ہم شادی میں شریک نہیں ہو پائیں گے۔ آپ لوگ ہمارا انتظار نہ کریں اور شادی کی کارروائی کو پورا کریں۔ پڑوسی کو ہماری اس بات پر بڑی حیرانی ہوئی اور وہ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو کوئی بات ضرور ہے جس کی وجہ سے ہم نے معذرت کی ہے۔ انہوں نے شریک نہ ہونے کی وجہ معلوم کی۔ ان کے بار بار اصرار کرنے پر ہم نے شریک نہ ہونے کی وجہ انھیں بتادی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمارے بچوں کا شوق ہے، انہوں نے ہی گانے بجانے کا نظم کیا ہے۔ پھر یہ تو خوشی کا موقع ہے اس میں حرج ہی کیا ہے؟
ہم نے عرض کیا کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اپنی خوشی کے موقع پر بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ پھر یہ موقع آپ کی بچی کے لیے زندگی کا ایک اہم موقع ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ اس موقع پر اللہ کی نصرت اور اس کی رحمت بچی کے ساتھ ہو اور اس کی نئی زندگی میں اللہ خوشیاں اور برکتیں لائے۔ اس کے لیے اللہ کی ہدایت پر عمل بہت ضروری ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ آپ لوگ بخوشی شادی کے کام کو انجام دیں۔ ہماری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ ہم آپ کے رشتہ دار بھی نہیں ہیں کہ ہماری شرکت ضروری ہو۔
میری بات سن کر ہمارے پڑوسی نے بڑے طمطراق اور چیلنجنگ انداز میں کہا کہ اگر حکیم جی کے یہاں گانے بجانے ہوں گے تو آپ وہاں بھی شریک نہ ہوں گے؟(حکیم جی بستی کے نامی گرامی معزز فرد تھے۔ ہمارے محسن اور عزیز تھے۔ جماعت کے ذمہ دار تھے۔)
میں نے عرض کیا کہ بھائی یہ شریعت کا حکم ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس مبارک موقع پر کوئی کام ایسا ہرگز نہ ہو جس سے اللہ اور رسول ناراض ہوں۔ ہاں! اگر حکیم جی کے یہاں یہ سب ہوگا تو ہم وہاں بھی شرکت نہیں کریں گے۔
میری بات سن کر وہ واپس چلے گئے اور ہمارا تحفہ بھی نہیں لے گئے۔ تقریبًا آدھے گھنٹے کے بعد وہ پھر آئے اور کہا کہ ہم نے گانا بجانا بند کرا دیا ہے اور اس کا سسٹم بھی واپس کردیا ہے۔ اب آپ شرکت کیجیے۔ آپ کی شرکت کے بغیر یہ شادی نہیں ہوگی۔
ان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر ہمیں دلی مسرت ہوئی۔ ہم لوگوں نے اس شادی میں شرکت کی اور ان کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی۔
اچھی بات یہ رہی کہ اس واقعہ کے بعد ہمارے پڑوسی ہمارے اس رویے سے بہت خوش ہوئے اور ہمارے آئندہ تعلقات میں مزید بہتری آئی۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک میں یہ بات بدرجۂ اولیٰ شامل ہے کہ ہم ان کی اللہ اور رسول کے راستے کی طرف رہنمائی کریں اور ہماری مخلصانہ کوشش یہ ہو کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی اللہ کی رحمتوں کے مستحق ہوں!
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025






