سہیل اور میں شہر میں دو دن رہے، اس دوران ہمیں گفتگو کرنے کا اچھا خاصا موقع ملا۔ ہوائی اڈے سے ہوٹل تک کی طویل ڈرائیو پر ہم نے خوب باتیں کیں۔ دو بار ایک ساتھ ناشتہ کیا ، اور مسلم رہ نماؤں کے ساتھ میٹنگوں اور لیکچروں میں لے جانے کے لیے اس نے مجھے کئی بار اپنی کار سے لفٹ دی۔ ہم نے بہت سی چیزوں کے بارے میں بات چیت کی: موسموں کا حال، کام کاج کی صورت حال، مسلم کمیونٹی کے مسائل، کالج کے ایام، باسکٹ بال، معیشت، سیاست اور ہمارے خاندان۔ بات چیت خوشگوار ہوتی تھی، زیادہ ذاتی نوعیت کی نہیں، بہت سنجیدہ مکالمہ نہ ہوتا جو عام طور پر نئے جاننے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لیکن دوپہر کو جب ہم ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئے تو سہیل پریشان تھا اور ایک لفظ نہیں بولا۔ اس صبح میرا لیکچر، ’’امریکی مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی‘‘ کے موضوع پر تھا۔ دوسری مسلم نسل کے بہت سے نوجوان اپنے والدین کے عقیدے پر مطمئن معلوم نہیں ہوتے، اس مسئلے پر میں نے خاص طور سے گفتگو کی تھی۔ جب میں نے سہیل سے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک ہے ، تو اس نے رسمی طور پر ’الحمدللہ‘ کہااور دوبارہ اپنی سوچوں میں ڈوب گیا۔
مزید کئی منٹ تک خاموشی رہی۔ مجھے لگا شاید وہ میری کسی بات سے خفا تو نہیں ۔سہیل نے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’میں اپنے بچوں سے بے حد قریب اور بے تکلف تھا۔‘‘ کچھ توقف کے بعد اس نے ایک لمبی کہانی شروع کردی۔ اس نے بتایا کہ کس طرح اس کے بچے بچپن میں ہمیشہ مثالی مسلمان بچے رہے تھے اور کس طرح وہ اپنی مسجد میں سرگرم اور فعال رہتے تھے۔ وہ ہر کمیونٹی تقریب کا حصہ بنتے، باقاعدگی سے سنڈے اسلامک اسکول میں شرکت کرتے، سنڈے برنچ سے پہلے مسجد کے کیفے ٹیریا میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتے اور اسلامی یوتھ کانفرنسوں میں بھی شریک ہوتے۔ سہیل نے بتایا کہ بچے اس سے بے حد محبت کرتے تھے۔ جب وہ اپنے بیٹے کو جونیئر ہائی اسکول سے لینے جاتا تو وہ دوڑتے ہوئے اس کی بانہوں میں آ جاتا اور اس سے لپٹ جاتا تھا۔ سہیل بھی اسے پیار کرتا، گلے لگاتا اور اس کے سر کو چومتا۔ بیٹے کے دوست محبت کے اس منظر کو روزانہ دیکھتے اور اس کا مذاق اڑاتے، لیکن اس کا بیٹا انھیں نظر انداز کردیتا۔ سہیل نے جب اپنی بیٹی کا ذکر چھیڑا تو وہ مجھ سے آنکھیں نہیں ملا پارہا تھا۔ وہ خود کو مجتمع کرنے کے لیے بار بار خاموش ہوجاتا۔ اس نے کہا کہ وہ کتنی پاکیزہ اور بے حد خوب صورت بچی تھی، حجاب میں تو گویا وہ ایک فرشتہ نظر آتی تھی۔ دوسرے والدین اس کی خوب صورتی پر حیران ہوتے اور سہیل کے بہت سے دوست اپنے بیٹوں سے اس کا رشتہ لگانے کی آرزو رکھتے تھے۔ سہیل نے بتایا کہ میرا سورج اُسی پر طلوع ہوتا اور اُسی پر غروب ہوتا۔ اس کی زندگی کے بہترین لمحات وہ تھے جب بچی اس کی گود میں اس کے گلے میں بانہیں حمائل کرکے بیٹھتی جاتی تھی۔
جیسا کہ قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں، حالات بدلنا شروع ہوئے۔ جب اس کا بیٹا ہائی اسکول میں تھا تب ایک دن سہیل کو اس کی جیکٹ میں سگریٹ کا ایک پیکٹ ملا۔ اس نے جب بچے کی سرزنش کی تو اس نے کہاکہ وہ پیکٹ اس کا نہیں بلکہ اسکول کے بچوں نے شرارت سے اس کی جیب میں ڈال دیاتھا۔ لیکن تھوڑی دیر میں سہیل پر کھل گیا کہ بیٹا صاف جھوٹ بول رہا تھا۔ اسے بہت گہرا دھچکا لگا۔ ’’میرا بیٹا مجھ سے جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟‘‘ لیکن جلد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ ابھی اور بھی جھوٹ کھلنے باقی تھے۔ اس نے بیٹے پر سخت پابندیاں عائد کردیں جس کے بعد دونوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ لیکن کم از کم بیٹی کے ساتھ اس کا رشتہ مضبوط رہا۔
لیکن پھر وہ کالج چلی گئی۔ آہستہ آہستہ وہ بھی اس سے دور ہوتی چلی گئی۔ اسلام پر آئے دن اعتراضات کرنے لگی۔ جب سہیل اسے رات کو فون کرتا تو اکثر فون رسیو نہ کرتی۔ سہیل نے بتایا کہ جب وہ تعطیل بہاراں کے دوران گھر نہیں آ پائی، تو سہیل کو تجسس ہوا۔ اس نے یہ جاننے کے لیے یونیورسٹی کا رخ کیا کہ کیا معاملہ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنی کلاس کے کسی غیر مسلم لڑکے کی محبت میں گرفتار تھی اور اسی کے ساتھ کہیں چلی گئی تھی۔ سہیل برباد ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے بیٹی کو ہر طرح سے لعنت و ملامت کی۔ اسے سخت سست کہا۔ بہت سمجھایا۔ لیکن اس کی عقل پر پردہ پڑچکا تھا۔ ’’وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی تھی؟‘‘ وہ رونے لگا۔ اس واقعے کے بعد سے اس نے بیٹی سے بات نہیں کی ہے، باوجود اس کے کہ بیٹی نے بارہا اسے فون کرنے کی کوشش کی۔
جہاں تک اس کے بیٹے کا تعلق ہے، تو وہ کئی سال پہلے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرچکا تھا۔ سہیل کو اکثر پولیس کا فون آتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو تھانے سے لے جائے جسے اکثر نشے میں دھت شہر میں مختلف مقامات پر مدہوش پڑا پایا جاتا ۔ ایک رات اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا عقبی صحن میں بیٹھا ہے۔ ہاتھ میں چھوٹا سا چاقو ہے۔ جب اس نے پوچھا کہ وہ اس چاقو کے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے اپنے والد کو بتایا کہ وہ خودکشی کرنے پر غور کر رہا ہے۔ سہیل باورچی خانے میں گیا اور بیٹے کو ایک تیز دھار چاقو لاکر تھما دیا۔’’اگر تم ایسا کرنے ہی لگے ہو تو یہ لو، کم از کم یہ کام تو ٹھیک سے انجام دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گھر کے اندر چلاگیا۔
’’میرے بچے مجھے دھوکہ کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘ سہیل نے فریادی لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ ’’میں ان سے بات بھی نہیں کر سکتا! میں انھیں مل بھی نہیں سکتا! میں کیا کروں؟‘‘
۔۔۔
امریکہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا گروہ کون سا ہے؟ اگر آپ جمعہ کی زیادہ تر نمازوں میں شرکت کرتے ہیں یا سال بھر منعقد ہونے والی بہت سی اسلامی کانفرنسوں میں سے کسی میں جاتے ہیں تو آپ شاید اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ امریکہ کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت تارکین وطن کی ہے، جن میں بیشتر تعداد درمیانی عمر اور عمر رسیدہ افراد کی ہے، لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں 30 سے 80 لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ آسانی کی خاطر ہم اوسط تخمینہ 50 لاکھ فرض کرلیتے ہیں۔ نومسلم امریکیوں کی تعداد کے بارے میں اندازے بھی مختلف ہیں۔ لیکن ایک اندازہ ہے کہ یہ تعداد 10 لاکھ یا اس سے کچھ کم ہوسکتی ہے، کیوں کہ ’نیشن آف اسلام‘ کے ارکان کی تعداد جو 1960 کی دہائی میں اپنے عروج پر تقریباً دس لاکھ تھی، اب اسلام کے مرکزی دھارے میں آ چکی ہے، اور گذشتہ تین دہائیوں میں معاشرے کے تمام شعبوں میں سست رفتاری کے ساتھ مگر مستقل تبدیلی آئی ہے۔ امریکہ میں رہنے والے تقریباً تمام مسلمان بچے یہیں پیدا ہوئے اور مسلم خاندانوں میں قومی اوسط سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا فی خاندان تین بچے ایک معقول تخمینہ ہے۔ اس طرح تقریباً ساٹھ فی صد امریکی مسلمان یعنی تقریباً تیس لاکھ مسلمان امریکہ میں مسلم والدین کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ہم غیر امریکی پہلی نسل کے مسلمانوں کی اس تعداد کو ایک اندازے کے مطابق مذہب تبدیل کرنے والے امریکیوں کی تعداد میں شامل کرلیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے پچاس لاکھ مسلمانوں میں سے تقریباً چالیس لاکھ ، یعنی تقریباً اسّی فی صد ، اِسی ملک میں پیدا ہوئے۔ پھر بھی اگر امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا اسّی فی صد حصہ پیدائشی طور پر امریکی شہری ہے تو ہمیں پوچھنا چاہیے کہ وہ کہاں ہیں؟ ملک کی مساجد اور اسلامی اجتماعات سے وہ واضح طور پر غائب کیوں رہتاہے؟
1982 میں ، جب میں نے اسلام قبول کیا تھا، میں جب بھی اور جہاں بھی مسلمانوں کے کسی مذہبی پروگرام میں شرکت کرتا تو دیکھتا کہ شرکا میں میری عمر کے تارکین وطن اور غیر ملکی طالب علم شامل ہوتے۔ اب دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے [واضح رہے کہ جیفری لینگ کی یہ کتاب 2005 میں شائع ہوئی تھی۔] لیکن آج بھی حالات ویسے ہی ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے اجتماعات میں سامعین میں زیادہ تر میری عمر کے افراد اور معمر تارکین وطن، غیر ملکی طلبہ، اور بسااوقات بڑی تعداد میں نومسلم شریک ہوتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں گذشتہ نصف صدی میں ایک بڑی اور مستقل مسلم نقل مکانی واقع ہوئی ہے، اور مسلمانوں نے ہزاروں مساجد اور اسلامی مراکز تعمیر کیے ہیں، بیسیوں K-12 اسکول بنائے ہیں، اور متعدد قومی سیاسی تنظیموں اور اداروں کو بھی قائم کیا ہے، لیکن امریکہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا گروہ [نوجوان] کمیونٹی اجتماعات اور کمیونٹی اداروں میں غیرحاضر رہتا ہے۔ پچاس کی دہائی سے امریکی کالجوں کے کیمپس میں آنے والے بہت سے مسلمان غیر ملکی طالب علم امریکی شہری اور مکین [ریزیڈنٹس] بن چکے ہیں، اور اب ان کے بچوں کی عمریں بھی بیس، تیس اور چالیس کی دہائی میں ہیں۔ البتہ پہلی نسل کی یہ اولاد اور دس لاکھ سے زیادہ نو مسلم امریکی مساجد، اسلامی مراکز اور دیگر مسلم تنظیموں سے دور ہیں۔ امریکہ میں اسلام کی ترقی کے اس اہم ترین اشاریے سے ہمیں یہ ماننے میں تردّد ہے کہ مذہب کی جڑیں اب امریکہ میں مضبوطی سے جم چکی ہیں یا جم سکیں گی۔ اندیشہ ہے کہ بیرون سے مسلسل تقویت کے بغیر، امریکہ میں بہت سے اسلامی ادارے انجام کار بند ہو جائیں گے اور مسلمان تارکین وطن اور نومسلموں کی بہت سی اولادیں، جن کا عملی طور پر اسلامی برادری سے کوئی تعلق نہیں رہا، اپنے والدین کے مذہب سے منحرف ہوجائیں گے۔ کچھ عرصے سے مسلم نقل مکانی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے، جو کبھی بہت تیزی سے بڑھی تھی۔ تاہم 11 ستمبر، 2001 کے واقعے نے ایک بڑی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ ملنے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں کالج کیمپسوں میں مسلمان غیر ملکی طلبہ کی آبادی پہلے ہی کم ہو رہی ہے اور امریکہ میں اسلامی ممالک سے امیگریشن پر پابندی عائد کیے جانے کی بات ہو رہی ہے۔ امریکہ پر ایک یا دو بڑے مزید دہشت گرد انہ حملے ، اگر خدانخواستہ ہوگئے ، تو امریکہ میں مسلم تارکین وطن اور مسلم غیر ملکی طلبہ کی آبادی کو انجام کار عملی طور پر خشک کرسکتے ہیں۔ تو پھر اتنے سارے امریکی شہریت کے حامل مسلمان، جن کی کمیونٹی میں شرکت کی اشد ضرورت ہے، امریکہ کی مساجد اور اسلامی مراکز سے دور کیوں ہیں؟ اس کی ایک عام وضاحت تو یہ ہے کہ آس پاس کا معاشرہ انھیں مذہب سے دور کر دیتا ہے۔ ساتھیوں کا دباؤ، میڈیا کی جانب سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا، پاپ کلچر کی کشش، صارفیت پسندی، مسلم مخالف تعصب اور اباحیت زدہ ماحول اور اس کی ترویج نے بہت سے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور وہ دین سے منحرف ہوئے ہیں۔
اگرچہ امریکہ کے تمام مذاہب جدید مغربی ثقافت کے کچھ مضر اثرات کے شاکی ہیں، لیکن بیشتر مسلمان تصدیق کریں گے کہ اسلام مغربی کلچر کے خلاف سب سے زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہے اور اس لیے عجب نہیں کہ یہ گروہ، جو گردوپیش کے معاشرے کی کشش اور دباؤ کے لیے سب سے زیادہ زد پذیر (vulnerable) ہے، اسلامی برادری سے علیحدگی کا ایک اعلی تناسب رکھتا ہے۔ درحقیقت، اگرچہ امریکی بدھ مت کے پیروکار جلدی ہوجاتے ہیں اور وہ ہندو امریکی منظر نامے میں زیادہ آسانی سے فٹ ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی دوسری نسل کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے والدین کے مذہب سے دور ہو گیا ہے۔ امریکی کلچر بعض اوقات اسلام پر قائم رہنا مشکل بنا سکتا ہے، لیکن کمیونٹی سے امریکی مسلم شہریوں سے گریزپائی کی بنا یقینی طور پر بیرونی دباؤ سے کہیں آگے ہے۔ منفی تشہیر، تعصب اور دیگر سماجی اثرات کے باوجود امریکہ میں کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اسلام زیادہ مذہب تبدیل کرنے والوں کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد، جو ان تمام عوامل سے پوری طرح آگاہ ہے، اسلام قبول کر رہی ہے۔ یہ کہنا غیرمعقول ہے کہ جذباتی و نفسیاتی طور پر مسلمان بننے کی ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد وہ اتنی آسانی سے اور اتنی بڑی تعداد میں ان منفی قوتوں کے سامنے سپرانداز ہوجائیں۔ یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں متبادل ورلڈ ویو اور طرز زندگی کا غلبہ ہو، نوجوان اپنے مذہب پر سوال اٹھاتے ہیں اور بعض اسے محض سہولت کی خاطر ترک کردیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ ایک ایسا مذہب جو روایتی مسلم دنیا کے بہت سے نوجوانوں کے جذبۂ ایمان و عمل کو اس درجہ مہمیز کرتا ہو کہ اکثر وہ بے حد ذاتی نقصانات اور خطروں کو انگیز کرکے اس کے فعال کارکن بن جاتے ہوں، اسی مذہب میں مسلم تارکین وطن کے بچوں کی سرگرمی و شرکت نہ کے برابر ہے۔ سارا الزام ناقابل تسخیر ثقافتی قوتوں پر مڑھنے کے بجائے امریکی مسلم شہریوں کی اس عدم دل چسپی کی وجوہات کے لیے اسلامی کمیونٹی سے باہر دیکھنے کی ضرورت ہے۔مسلم رہ نماؤں اور مفکرین پر لازم ہے کہ وہ یہ جاننے کی فکر کریں کہ آیا عالمی مسلم برادری مستقبل میں کوئی ممکنہ پل تعمیر کرسکتی ہے یا نہیں۔ پھر بھی ہم جن مسائل پر بات کر رہے ہیں وہ دل و دماغ کے مسائل ہیں اور ہم مریض کے تعاون کے بغیر مؤثر تشخیص کی امید نہیں کر سکتے۔ اگر مریض اپنے مرض کی شکایت نہ کرے یا ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیں، تو اس کے علاج کی جستجو کرنے کا امکان نہیں ہے۔ یہی مسئلہ اس وقت 80 فی صد لاپتہ افراد کی پریشانی کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ طویل عرصے سے ان کے سوالات اور اعتراضات کو طنز، دھمکیوں، دباؤ اور کٹرپن کے ذریعے سے دبایا جاتا رہا ہے۔ جب نوجوان مجھ سے روایات (حدیث) کے بعض پہلوؤں پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں، تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے مسائل پر اپنے والدین کے ساتھ تبادلہ خیال کیوں نہیں کرتے ۔ مجھے بارہا یہی جواب ملتا ہے کہ والدین ان کے سوالات پر طیش میں آجاتے ہیں۔ نو مسلموں اور نوجوانوں کی صورت حال بھی یہی ہے کہ ان کی مساجد اور اسلامی مراکز ان کی مدد نہیں کر پارہے ہیں۔ روایتی نظریات کے بارے میں شکوک و شبہات یا تحفظات کو عام طور پر یہ کہہ کر خاموش کرادیا جاتا ہے، ’’اسلام میں ایسا نہیں ہوتا‘‘، یا، ’’اگر آپ کو یہ قبول نہیں تو آپ مسلمان ہی نہیں ۔‘‘ اختلافی معاملات پر کتابیں اور تقاریر اکثر تکفیری فتووں اور اختلافی موقف کی مذمتوں سے بھرپور ہوتی ہیں۔ وہ مسلمان جو علمی وراثت یا وسیع پیمانے پر رائج تشریحات یا رسم و رواج پر سنجیدگی سے سوال اٹھاتے ہیں، انھیں ’’تجدد پسند‘‘، ’’مغرب زدہ‘‘، ’’عقلیت پرست‘‘ یا ’’خطرناک‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی جلسوں اور کانفرنسوں میں زیادہ تر تقاریر بنیادی طور پر واعظانہ ہوتی ہیں۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مقرر کسی روایتی نقطہ نظر پر سنجیدگی سے تنقید کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ انجیلی مسیحیت کے احیا کے اجتماعات سے ملتے جلتے اجتماعات میں اس کی توقع کرنا فضول ہے، جن کا بنیادی مقصد محض مذہبی جوش و جذبے کو بیدار کرنا اور روایات کو فروغ دینا ہے، لیکن پھر نوجوان اور نومسلم ان سلگتے ہوئے سوالات پر مکمل، سائنسی، غیر جذباتی بحث کے لیے کہاں جائیں جن کی تمازت میں وہ جل رہے ہیں؟ ان لوگوں کے لیے، جو مجموعی طور پر کالج سے تعلیم یافتہ ہیں، اس طرح کے گہرے تنقیدی تجزیے اور تحقیق کا سب سے واضح ذخیرہ یونیورسٹی ہے، اور ان مسائل پر وہاں بہت کچھ پایا جاتا ہے جو انھیں پریشان کرتا ہے، لیکن یہ تحقیقی کام تقریباً مکمل طور پر مستشرقین نے انجام دیا ہے اور ظاہر ہے ان کے اپنے فطری تعصبات ہیں۔ بہرحال، اگر اسلامی برادری کو غیر حاضر 80 فی صد لوگوں کے خدشات کا مؤثر جواب دینا ہے، تو ابلاغ و ترسیل کو آسان بنانا پہلا کام ہے۔ لیکن متشدد روایت پسندی کے لیے کمیونٹی کی ساکھ کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔
کئی سال پہلے مجھے لارنس، کنساس سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کی دوری پر واقع ایک مسلم یوتھ کیمپ میں مدعو کیا گیا تھا۔میں نے دو اجلاسوں میں شرکت کی۔ پہلے میں، میں نے ایک مختصر تقریر کی، اور دوسرے سیشن میں مجھے کیمپرز کے ساتھ بات چیت (interaction)کرنی تھی، جن کی عمریں دس سے سولہ سال کے درمیان تھیں۔ یہ سامعین میری توقع سے خلاف کم عمر تھے اور ان دینی گھرانوں سے آئے تھے جنھوں نے بچوں کو اصرار کے ساتھ اس کیمپ میں شرکت کروائی تھی۔ پھر بھی مجھے یہ جاننے کی جستجو ہوئی کہ کیا یہ لڑکے لڑکیاں بھی اپنے دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ لہٰذا نٹریکشن کے سیشن میں میں نے بچوں سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اپنے مذہب کے بارے میں سوالات سے پریشان ہوئے ہیں۔ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد میں نے کچھ مثالیں دینے کی کوشش کی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ان کی برادریوں میں صنفی امتیاز برتا جاتا ہے اور اگر ایسا ہے، تو کیا انھوں نے کبھی خود سے یا دوسروں سے اس پر سوال اٹھایا ہے۔ کوئی جواب نہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے کبھی سوچا ہے کہ ایک مسلمان مرد کی چار بیویاں اور ایک مسلمان عورت کا صرف ایک شوہر کیوں ہوسکتا ہے۔ کوئی جواب نہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے کبھی سوچا ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم دوستوں کی طرح ڈیٹ کیوں نہیں کر سکتے۔ مکمل خاموشی۔ کیا انھوں نے کبھی سوچا کہ وہ کرسمس کیوں نہیں منا سکتے؟ جواب ندارد۔ کیوں مسلم خواتین کو روایتی پردے کا لباس پہننا پڑتا ہے لیکن مسلمان مردوں کو نہیں؟ کوئی جواب نہیں۔ کئی اور جواب طلب سوالات کے بعد، میں نے کرداروں کو پلٹ دیا اور ان سے پوچھا کہ اگر یہی سوال ان سے پوچھے جائیں تو وہ کیا جواب دیں گے۔ ہر سوال پر ایک یا دو بچے اٹھتے جو روایتی انداز میں ان اعتراضات کا جواب دیتے، بالکل ویسے ہی جیسے مجھے مسجد کے امام سے جواب دینے کی توقع ہے۔ ہر جواب کے بعد میں نے سامعین سے پوچھا کہ کیا وہ ان جوابات سے مطمئن ہوئے۔ سب مطمئن تھے۔ اس سہ پہر کیمپ سے لوٹتے وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ مسلمان بچوں کا یہ خاص گروہ اپنے دین کے سلسلے میں بالکل محفوظ ہے۔ لیکن جب میں دو گھنٹے بعد گھر پہنچا اور ابھی دروازے میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ کیمپ کی ایک کاؤنسلر اور امریکی مسلمان آمنہ اسلمی کا فون آیا، جس نے مجھے بتایا کہ بچے چاہتے ہیں کہ میں اس رات کیمپ میں لوٹ چلوں اور آمنہ اور ان کے ساتھ تنہائی میں بات چیت کروں۔ وہ لوگ سوالات پر بے حد مضطرب اور پریشان تھے۔ میں نے آمنہ سے کہا کہ میں اس رات یعنی کیمپ کی آخری رات کو واپس آنے سے قاصر تھا۔ لیکن میں نے ان سے پوچھا کہ جب میں نے ان سے ان کی رائے مانگی تھی تب وہ خاموش کیوں رہے اور ان لگے بندھے جوابات سے اتنے مطمئن کیوں نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں نے سامعین میں موجود متعدد کمیونٹی رہ نماؤں کے سامنے مسائل پر بات کرنے میں خوف محسوس کیا تھا۔
بڑی غیر حاضر اکثریت تک پہنچنے کی میری تمام کوششیں اتنی ناکام بھی نہیں تھیں۔ میرے مذہب تبدیل کرنے کے بعد کئی برسوں تک، جن لوگوں کے ساتھ میرا باقاعدگی سے رابطہ رہا، ان کی تعداد بہت کم تھی، اور اسلام کے بارے میں میں نے دوسری نسل کے جن مسلمانوں سے بات کی وہ میرے اپنے بچے تھے۔ لیکن 1994 میں میری پہلی کتاب Struggling to Surrender کی اشاعت کے وقت حالات بدل گئے تھے۔ مجھے اچانک دنیا بھر سے خطوط، ٹیلی فون کالیں اور ای میل موصول ہونے لگے۔ پھر جب 1997 میں Even Angels Ask منظر عام پر آئی تو نوجوان امریکی مسلمانوں کے ڈھیروں ای میل آئے۔ مجھے مسلمان والدین کی جانب سے ای میل، خطوط اور ٹیلی فون کال بھی موصول ہونے لگے کہ وہ اپنے بھٹکتے ہوئے بچوں کو کیسے دین کی طرف راغب کریں اور اسلام پر تحقیق کرنے والے غیر مسلموں کو کس طرح مطمئن کریں۔ ان تمام گفتگوؤں سے یہ کتاب (Losing My Religion – A Call for Help)لکھنے کی تحریک ملی۔ اس میں جابجا آپ کو مجھ سے پوچھے گئے بعض سوالات اور تبصرے ملیں گے۔ میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ نوجوان بالغ اور مذہب تبدیل کرنے والے جنھوں نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی وہ کوئی نمائندہ نمونہ ہیں۔ مضطرب و مایوس امریکی نژاد مسلمان جنھوں نے اپنے مسائل میرے گوش گزار کیےوہ اب بھی اسلام سے اتنا ہی لگاؤ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں فکر مند ہیں۔ جب کہ ملک بھر کے مسلم رہ نما، خاص طور پر نوجوان لیڈر مجھے بتاتے ہیں کہ گمشدہ اکثریت کا بڑا حصہ دین بیزار اور انتہائی لاتعلق (apathetic) ہوچکا ہے۔ واضح رہے کہ جن والدین کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں وہی دوسری نسل کے مسلم نوجوانوں کی اسلام بیزاری کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ روایتی مسلم ممالک میں بہت سے بالغ افراد بھی مسجد سے دور رہتے ہیں، پھر بھی ان کے بچے عام طور پر کلچر سے اسلام کو ’’اخذ‘‘ کرتے ہیں۔ تاہم، امریکہ میں، اگر والدین مسجد سے وابستہ نہ ہوں تو ان کے بچوں میں مذہب سے کوئی حقیقی لگاؤ پیدا ہونا یا کرانا بے حد مشکل ہے۔ اس کے باوجود امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمان جو مجھ سے مراسلت رکھتے ہیں یا اپنے پروگراموں میں مجھے بلاتے ہیں، زیادہ تر مساجد سے جڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر وہ دین پر قائم رہنے کے لیے فکرمند ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہرچند کہ وہ ان گم گشتہ 80 فی صد افراد کی مکمل نمائندگی تو نہیں کرتے، تاہم اغلب ہے کہ اگر ان کا اسلامی برادری کے ساتھ بہتر رابطہ ہوتا تو ان میں سے بیشتر کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جون 2024