رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعدجو دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ زیادہ سنی اور قبول کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کتب احادیث میں بہت سی دعائیں منقول ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ ان دعاؤں کو جاننے اور یاد کرنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی طرف مراجعت کی جائے جن میں صحیح اسناد کے ساتھ مسنون دعائیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ امام نووی کی ’’الاذکار‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وشب کے معمولات اور اوراد و وظائف جاننے کے لیے ایک لاجواب کتاب ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً تمام کتب احادیث میں ابواب الدعوات کے تحت بھی بے شمار مسنون دعائیں ملتی ہیں۔ جن کے پڑھنے میں خیر وبرکت بھی ہے اور سنت نبوی کی اتباع بھی۔۵۔جمعہ کے بارے میں بھی یہ بات آئی ہے کہ نماز جمعہ کے دوران ایک ایسی گھڑی ہے جس میں بندہ کی جانب سے کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کی ہر مراد پوری کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے۔
عن أبی ہریرۃ أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذکر یومَ الجمعۃ فقال فیہ ساعۃ لا یوافقہا عبد مسلم وہو قائم یسأل اللّٰہ شیئا الاّ اعطاہ ایّاہ وأشار بیدہ یقللہا۔ (فتح الباری کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ج ۲، ص: ۵۲۷، حدیث نمبر: ۹۳۵/ شرح مسلم للنووی،کتاب الجمعۃ، باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ج۳، ص: ۴۰۲، حدیث نمبر: ۸۵۲)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جس کو مسلم بندہ نماز کے دوران پالے تو اس میں جس چیز کا بھی سوال کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے اور ہاتھ کے اشارہ سے آپ نے بتلایا کہ وہ گھڑی بہت تھوڑی سی ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے ۴۲ اقوال نقل کئے ہیں۔ یہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے کہ ایک مسلمان حالت نماز میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرکے اس کی خوشنودی اور بخشش حاصل کرسکتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے اندر ایک ایسی گھڑی ہے جو انتہائی قلیل ومختصر ہے اور اس گھڑی میں آدمی جو بھی سوال اللہ سے کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی حیثیت کے مطابق عطا فرمائے گا کیونکہ اس گھڑی میں دعاء کی قبولیت کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔یہ تو طوالت کے خوف سے صرف پانچ مقامات بتائے گئے ہیں جبکہ احادیث میں اور بھی کئی ایسے مقامات کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں خاص طور پر قبولیت دعا کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان مقامات میں کثرت سے دعا کرنے کی ترغیب دے دی گئی ہے۔ لیکن حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی دعائیں پسند تھیں جو جامع ہوتی تھیں۔ جیسا کہ اس سلسلہ میں ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔
عن عائشۃ قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یستحبّ الجوامع من الدعاء ویدع ما سوٰی ذلک۔ (عون المعبود شرح سنن أبی داود، ابواب الوتر، باب الدعاء، ج ۴، ص: ۲۴۹، حدیث نمبر ۱۴۷۹)
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جامع دعائیں پسند فرماتے تھے اور اس کے علاوہ دوسری دعائیں (جو جامع نہیں ہوتی تھیں) چھوڑ دیتے تھے۔
جامع دُعاء سے مراد وہ دعا جس کے الفاظ مختصر اور معانی زیادہ ہوں۔ یا جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کی جامع ہو، اس طرح کی دعائیں قرآن اور احادیث نبوی میں ہی ملتی ہیں مثال کے طور پر قرآن میں جامع ترین دعاؤں میں سے ایک یہ دعا آئی ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (البقرۃ: ۲۰۱)
اے ہمارے رب، ہم کو دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
اسی طرح جو دعائیں احادیث سے ثابت ہیں ان میں ایک جامع دُعا اس طرح آئی ہے۔
اللّٰہم احفظنی بالاسلام قائما، واحفظنی بالاسلام قاعداً واحفظنی بالاسلام راقدا، ولا تشمت بی عدوّا حاسدا، اللّہم انی اسئلک من کلّ خیر خزائنہ بیدک وأعوذ بک من کلّ شرّ خزائنہ بیدک۔ (سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ فضل القرآن والادعیۃ والاذکار والرّقی، ج ۴، ص: ۵۲۰، حدیث نمبر: ۳۰۲۱/ صحیح ابن حبان کتاب الرقاق، ص: ۳۵۶، حدیث نمبر، ۹۳۴، باب نمبر ۶۵)
اے اللہ، کھڑے ہونے کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما، اور بیٹھک کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما، اور نیند کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما، اور میری تکلیف سے میرے حاسد دشمن کو خوش نہ فرما، اے اللہ میں تجھ سے ہر اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس کے خزانے تیرے ہاتھ میں ہیں اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس شر سے جس کے خزانے تیرے ہاتھ میں ہیں۔
دعا کی کوئی مخصوص زبان نہیں ۔ قرآن میں جن ابنیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں آئی ہیں وہ انھوں نے عربی میں نہیں کی تھیں۔ بلکہ وہ دعائیں انھوں نے آرامی،سریانی اور عبرانی زبانوں میں کی تھیں اور انہی زبانوں میں قدیم صحائف – تورات، زبور اور انجیل وغیرہ – نازل ہوئی تھیں۔ زبانوں کا پیدا کرنے والا ایک اللہ ہے اور وہ اپنے بندوں کی ہر زبان کو سمجھتا ہے۔ کوئی بھی انسان اس کو جس زبان میں بھی پکارے گا وہ ضرور سنے گا۔ اس سلسلہ میں علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ الکہف کی تفسیر میں قصۂ موسی وخضر علیہما السلام کے واقعہ میں حضرت خضر علیہ السلام کی طرف منسوب ایک دعا لکھی ہے۔
دعا کی تاثیر کی شرط یہ ہے کہ دعا دل سے نکلی ہوئی ہو اور دعا کے جو الفاظ ہوں وہ اثر انگیز ہوں۔ ورنہ سطحی وبے معنی دعائیں بے اثر وبے نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں کسی شاعر نے بہت ہی غور طلب بات کہی ہے ؎
ہر صدا معتبر نہیں ہوتی
ہر دعا میں اثر نہیں ہوتا
قرآن میں جن پیغمبروں کی دعاؤں کا ذکر آیا ہے وہ انتہائی جامع ہیں۔ اور انھوں نے مشکل وقت میں ان دعاؤں کو دل کی گہرائیوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قبولیت کا پروانہ بھی سنا دیا۔ قرآن میں اس طرح کی درجنوں دعائیں آئی ہیں۔ لیکن یہاں بطور نمونہ چند دعاؤں کو قدرے وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
۱)قرآن میں حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے بارے میں آیا ہے کہ جب ان دونوں کو جنت میں رہنے کے لیے کہا گیا تھا تو انھیں وہاں ہر طرح کے پھل کھانے کی اجازت تھی مگر ایک مخصوص درخت کے پاس جانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا لیکن وہ دونوں شیطان کے بہکاوے میں آکر اس ممنوعہ درخت کا مزہ چکھ گئے۔ اس طرح وہ شیطان کے فریب میں آکر اللہ کے حکم کی نافرمانی کر بیٹھے لیکن ان دونوں کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے ان الفاظ میں دعا کرنے لگے۔
قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔
(الاعراف: ۲۳)
’’اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہیں بخشا اور ہم پر رحم نہیں کیا، تو ہم تباہ ہوجائیں گے‘‘۔
اصل میں جب حضرت آدم وحوا سےغلطی ہوئی تھی تو انھیں توبہ کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ہی ان پر توبہ کے لیے الفاظ القا والہام فرمائے (سورۃ البقرۃ: ۳۷) اور انہیں کے ذریعہ انھوں نے اللہ کے حضور توبہ واستغفار کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا۔ اور یہ وہی دعا تھی جو اوپر کی سطور میں نقل کی گئی ہے۔ اس طرح آدم وحوا سے غلطی ہوئی، اور پھر غلطی کا احساس ہونے کے ساتھ ہی توبہ واستغفار کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی شرف قبولیت بخشا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی غلطی کے ہونے پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اپنے کئے پر نادم ہو اور آئندہ اس طرح کی غلطی نہ کرنے پر پُز عزم ہو اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنی رحمت اور اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔
۲)حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی آزمائش میں ڈالا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ تک سخت ترین بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ لیکن انھوں نے شدید تکلیف کے باوجود شکایت کا کوئی لفظ زبان سے نہیں نکالا۔ بلکہ صبر کا پیکر بن گئے۔ اور جب اللہ سے رحم اور شفاء کی درخواست کی تو وہ بھی اس لطیف پیرایہ بیان میں کہ تو ارحم الراحمین ہے لفظ شفاء زبان پر نہیں لایا، قرآن نے ان کی اس دعا کا ذکر اس آیت میں کیا ہے۔
وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ۔ (الانبیاء: ۸۳)
اور ایوب، جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو بیماری لگ گئی اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
جب حضرت ایوب علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع دعا کو پڑھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی وقت اجابت وقبولیت کا پروانہ ملا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۴)’’توہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کی جو تکلیف تھی، اس کو دورکردیا، اور اس کو اس کا کنبہ بھی دیا۔ اور اس کے ساتھ اس کے برابر اور بھی دیا،اپنی طرف سے رحمت اور نصیحت عبادت کرنے والوں کے لیے‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے ارحم الراحمین (رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا) کہہ کر سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آگئی اور حضرت ایوب علیہ السلام کو نہ صرف بیماری سے نجات مل گئی بلکہ اس کا بچھڑا ہوا کنبہ اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے انعامات سے بھی نوازا گیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس جامع دعا کے بارے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ تفسیری نوٹ قابل غور ہے۔
’’دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے، مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں تو ارحم الراحمین ہے آگے کوئی شکوہ یا شکایت نہیـں، کوئی عرضِ مدعا نہیں کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرز دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر وقانع اور شریف وخود دار آدمی پے درپے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں۔ آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے‘‘۔ (تفہیم القران ص۳ص: ۷۹۔۱۷۸)
۳)حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نینوا کی قوم کی طرف بھیجا تھا جہاں وہ ایک لمبے عرصہ تک لوگوں کو دعوت دیتے رہے۔ لیکن وہ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اور اسی انکار اور نافرمانی کی پاداش میں انھوں نے ان کو ایک عبرت ناک عذاب کے نزول کی اطلاع دی اور خود ان سے برہم ہو کر اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملنے کا انتظار نہ کرتے ہوئے وہاں سے چل دیئے اور سوچا کہ وہ کب تک اس قوم کو سمجھاتے رہیں گے۔ اور وہ بحرِ روم کے ساحل پر کسی کشتی میں سوار ہوگئے۔ اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تیز آندھی چلنے لگی اور کشتی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ پھر لوگوں نے کشتی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنا سامان سمندر میں پھینک دیا لیکن جب اس کے بعد بھی خطرہ نہیں ٹلا تو انھوں نے سوچا کہ کشتی میں ضرور کوئی ایسا آدمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی گئی تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام قرعہ نکل آیا اس لیے لوگوں نے انھیں سمندر میں پھینک دیا تو طوفان رک گیا۔ اللہ نے ایک مچھلی کو بھیجا جس نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا۔ اور وہ زندہ مچھلی کے پیٹ میں جاپہنچے اور پھر انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور مچھلی نے ساحل سمندر پر آکر اپنے پیٹ سے انھیں باہر نکال دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھے سورۃ الصافات آیت ۱۳۹ تا ۱۴۸) اس سخت ترین آزمائش کی گھڑی میں حضرت یونس علیہ السلام نے جو دعا فرمائی تھی اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے۔
فَنَادَی فِیْ الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۷)’’پھر اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں، تو پاک ہے بے شک میں قصور واروں میں سے ہوں‘‘۔
اس قرآنی دعا کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس پر جو کچھ بیتی ہوگی اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ اس کے باوجود کوئی حرفِ شکایت ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس موقع پر انھوں نے اللہ سے جو فریاد کی وہ سرتا سر اللہ کی حمد وثنا اور اپنے قصور کے اعتراف پر مشتمل ہے۔ مچھلی کے پیٹ میں بھی انھوں نے توحید ہی کی صدا بلند کی اور اس کی پاکی بیان کرتے ہوئے اپنے قصور کا سخت سے سخت الفاظ میں اعتراف کیا۔ ان کا یہ اخلاص اور ان کی یہ انابت ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے ۔۔۔۔ یہ دعا دل سے نکلی تھی اور عجز ونیاز میں ڈوبی ہوئی تھی اس لیے تاریکیوں کو چیرتی ہوئی عرش تک پہنچ گئی اور بارگاہ خداوندی میں قبولیت اختیار کی گئی‘‘۔ (دعوۃ القرآن ج۲ص ۱۱)
پھر آیت میں اس دعا کی قبولیت اور عام ایمان والوں کو بھی اسی طرح دُعا مانگتے رہنے پر نجات ملنے کی بشارت اس طرح دی گئی ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۸)
’’پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور اس طرح ہم ایمان والوں کو بھی نجات دیتے ہیں‘‘۔
مطلب یہ کہ قبولیتِ دُعا کا یہ معاملہ صرف پیغمبروں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جب بھی اہل ایمان کسی آزمائش میں ڈالے جائیں گے اور وہ اللہ کو پکاریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی بھی دعاؤں کو قبول کر کے ان کی نجات کا سامان مہیا کرتا رہے گا۔
۴۔قرآن میں حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک بہت ہی جامع اور فکر انگیز دعا آئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام اپنے رب کے حضور بالکل یکسوئی اور بہت ہی قریب ہوکر انتہائی عاجزی کے ساتھ دعا ومناجات کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی اس دعا میں اپنے بڑھاپے کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ اس دعا سے کمال کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس دعا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا (نِدائً خُفِیًّا – مریم:۳) چنانچہ انھوں نے جو دعا مانگی تھی وہ قرآن کے مطابق اس طرح تھی۔
رَبِّ إِنِّیْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْباً وَلَمْ أَکُن بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیّاً۔ وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً۔ یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّاً۔ (مریم: ۴-۶)
’’اے میرے رب،میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بالوں کی سفیدی سے شعلے ماررہا ہے۔ اور اے میرے رب، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میںنے تجھے پکارا اور محروم رہا، اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ سو مجھ کو اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما، جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے رب، اس کو پسندیدہ بنا‘‘۔
ابھی یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام کی زبان سے نکل ہی رہی تھی کہ فی الفور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت اور ایک بیٹے کے پیدا ہونے کی بشارت دے دی گئی۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً۔ (مریم: ۷)
’’اے زکریا، ہم تمہیں ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’جب دعا صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لیے سچے جذبے کے ساتھ اور صحیح الفاظ میں کی جائے۔ تو اس میں اور اس کی قبولیت میں کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ اس لیے اسباب کے تمام پردے اٹھادئے جاتے ہیں۔ ہر طرف تاریکی اور مایوسی ہوتی ہے۔ اسباب وحالات بالکل نامساعد نظر آتے ہیں، کسی طرف سے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ لیکن بندہ جب اس امید کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ بہر حال میرے لیے یہی دروازہ ہے۔ میں نے جو کچھ پایا ہے یہیں سے پایا ہے اور جو کچھ پاؤں گا یہیں سے پاؤں گا تو بالآخراس کے لیے خدا کی رحمت اس گوشہ سے نمودار ہوتی ہے۔ جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا اور اس شان سے نمودار ہوتی ہے کہ اسباب وظواہر کے غلام اس کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ حضرت زکریا کی یہ دعا بھی ٹھیک مقصد کے لیے ٹھیک وقت پر اور سچے جذبہ کے ساتھ تھی اس وجہ سے الفاظ زبان سے نکلے نہیں کہ اس کی قبولیت کی بشارت نازل ہوگئی۔ فرمایا کہ اے زکریا ہم تمھیں ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ (تدبر القرآن، ج۴، ص: ۶۳۶)
یہ صرف چند قرآنی دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے قرآن میں اور بھی دعائیں آئی ہیں اور اگر ان تمام دعاؤں کا احاطہ کیا جائے اور ساتھ میں ان کا پس منظر بھی لکھا جائے تو یہ مضمون ایک کتاب کی شکل اختیار کرے گا اور جو کہ اس وقت مقصود ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت۔ تاہم ان چند دعاؤں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بعد قرآن کو کھول کر دوسرے پیغمبروں کی دعاؤں کا از خود مطالعہ کر کے دعا کی حقیقت اور قبولیت کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے۔
دعا ضرورت واحتیاج کے طور پر کی جاتی ہے نہ کہ شور وہنگامہ کھڑا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ جب روزانہ لمبی لمبی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں تجاوز وتکلفات کے کلمات کی بھر مار ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی دعائیں محض رسم ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دُعا کی روح کو سمجھا جائے اور پھر لوگوں کو بھی اس کی طرف ترغیب دی جائے۔ قرآن میں پیغمبروں کی دعاؤں کا ذکر ہے اور کتب احادیث میں بھی دعائیں منقول ہیں ان دعاؤں کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دعا کی تلقین کرتے ہوئے دعا کے الفاظ بھی تجویز فرماتے تھے۔ آج بھی دعاؤں کی سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہوگا کہ جب مسلکی وگروہی مزاج سے اوپر اٹھ کر اسوئہ حسنہ کو مقدم رکھا جائے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2017