روزہ اسلام کا ایک اہم رکن، ایک بنیادی فریضہ ہے جس کو صدق دل سے تسلیم اور اس پر عمل کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہر حکم بندوں کے حق میں ان کی بھلائی اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے جن سے صرف بندوں کی منفعت اور خیر خواہی مطلوب ہوتی ہے۔ اس کا کوئی حکم بے فائدہ، محض اپنے بندوں کی ا طاعت اور فرمانبرداری کا امتحان لینے کے لیے نہیں ہے۔ چنانچہ روزہ جیسا سخت اور نفس اور جسم پر گراں گذرنے والا حکم بھی محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت، فرمانبرداری حکم امتحان لینے کے لیے فرض نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اعلیٰ مقصد ہے اور اس سے بندوں کی فلاح اور کامیابی مقصود ہے جیسا کہ آگے آتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی احکام شرعیہ کی حکمت و مصلحت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ’’اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ احکام شرعیہ کسی مصلحت پر مبنی نہیں ہیں اور نہ ہی بندوں کے اعمال اور ان کی جزاء میں کوئی مناسبت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو احکام کا مکلف بنائے جانے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی آقا اپنے نوکر کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا امتحان لینے کے لیے یونہی بے فائدہ کوئی بھاری پتھر اٹھانے یا کسی درخت کو ہاتھ لگانے کا حکم دے دے جس سے سوائے اس کی فرمانبرداری کا امتحان لینے کے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ پھر اگر وہ اس کی اطاعت کرے تو اس کو جزاء وا نعام دے اوراگر نافرمانی کرے تو سزا دے۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ۔(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حجۃ ا للہ البالغہ، مقدمہ) بلکہ اس کے برعکس شریعت میں تمام اوامر و نواہی کا ایک اہم مقصد ہے اور ان اوامر سے بندوں کو ہی اس دنیا میں نفع پہنچانا نیز نواہی سے منہی عنہ کے شر اور نقصان سے بچانا ہی اصل مقصودہے۔ مثال کے طور پر نماز کا حکم د ے کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بندوں کو اپنی یاد سے غافل ہونے سے بچایا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ، وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ (طہ:۱۴)اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اسی طرح شراب اور جوئے کے نقصان سے اپنے نیک بندوں کو بچانے کے لیے اس کی حرمت کا حکم ناز ل کیا چنانچہ فرمایا، إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ: ۹۰) اے ا یمان والو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ چنانچہ شرعی احکام کا اگر کوئی خاص مقصد نہ ہوتا یا بندوں کی کوئی خاص بھلائی اور منفعت پیش نظر ہوتی تو ان کی ادائیگی پر سب کا الگ الگ انعام یا جزاء نہ ہوتی۔ اسی طرح منہیات و محرمات کے ارتکاب سے اگر الگ الگ طرح کے نقصانات نہ ہوتے اور ان کے شر اور ضرر سے مومنین کو بچانا اور محفوظ رکھنا مقصود نہ ہوتا تو مختلف سزائیں بھی نہ ہوتیں۔ چوری، شراب نوشی اور زنا سب کی ایک ہی سزا ہوتی، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
یہی حال روزے کی فرضیت کا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کو رمضان کے خاص مہینے میں اور دن کے اوقات میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رک جانے اور جنسی خواہشات کو لگام دینے کا حکم دے کر ان کی اطاعت وفرمانبرداری کا امتحان لینا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ بندوں کے اندر ا پنی اطاعت و فرمانبرداری کی ایک خاص صفت پیدا کرنی ہے اور انسان کو نفس پرستی اور اس کی غلامی سے نکال کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ا طاعت فرمانبرداری کا عادی بنانا ہے کیوں کہ انسان خواہشات نفس سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور روزہ نفس کو ز یر کرنے کے لیے مقرر ہوا ہے۔(حجۃ ا للہ البالغہ، مقدمہ) یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں جو چیزیں نفس کو مرغوب ہیں، روزے کی حالت میں انہی پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔ روزہ رکھ کر انسان نفس کی مخالفت کرتا ہے اور اللہ کے حضور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا ایک خاموش ثبوت پیش کرتا رہتا ہے جس میں کوئی دکھاوا یا ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔
مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں :
’’روزہ کے حکم سے یہ مقصود نہیں کہ انسان کا فاقہ کرنا اور اپنے جسم کوتکلیف اور مشقت میں ڈالنا کوئی ایسی بات ہے جس میں پاکی و نیکی ہے۔بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح و تہذیب ہے۔ روزہ رکھنے سے تم میں پرہیزگاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لوگے۔‘‘
(ترجمان القرآن : ج۲، ص ۱۳۹،ساہتیہ اکیڈمی،۲۰۰۴)
انسان اگر اللہ تعالیٰ کا بندہ نہیں ہوگا تو وہ نفس کا بندہ ہوگا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے اَرَأَیْتَ مَنِ ا تَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ(الفرقان:۴۳)کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہشات کو ا پنا معبود بنالیا ہے اور اللہ کا بندہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی خواہشات قرآن و حدیث کے تابع رہیں اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا:
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہیں ہوجاتیں۔(صحیح البخاری)
نفس کی مخالفت ہی تمام عبادات کا سرچشمہ ہے کیوں کہ ا نسان کا نفس ہر وقت برائی کی طرف مائل رہتا ہے اور اس کو برائی کا حکم دیتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (یوسف: ۵۳) اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا کہ نفس کو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے۔ چنانچہ ا نسان اپنے نفس کی اتباع کی وجہ سے ہلاکت اور بربادی میں پڑتا ہے۔ حدیث پاک میں وارد ہے کہ انسان دو چیزوں کی وجہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم نے فرمایا کہ جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے دے میں اسے دنیا میں جنت کی ضمانت کی بشارت دیتا ہوں۔
جس طرح اس حدیث میں زبان اور شرمگاہ کی حفاظت جنت کے حصول کا ذریعہ بتائی گئی ہے اور اس کی حفاظت کی نصیحت کی گئی ہے۔ اسی طرح روزے کی حالت میں بھی انہی دونوں اعضاء یعنی زبان اور شرمگاہ پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ اپنی زبان اور فرج کی وجہ سے انسان گنہگار ہوتا ہے اور روزہ انہی دونوں خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے فرض ہوا ہے۔
روزے کی حالت میں کھانے پینے کی حرمت اور ممانعت کا حکم دے کر انسان کے جسم کو کمزور کرنا اصلی مقصود و مطلوب نہیں ہے بلکہ اس سے انسان کے نفس کو کمزور کرنا اصل مطلوب ہے جو ترک طعام سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات کہ ترک طعام روزے کا مقصود اصلی نہیں ہے بلکہ یہ چیز اصل مقصود کے حصول کا ذریعہ ہے جس پر عمل کیے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا۔ احادیث میں بصراحت اس کی وضاحت موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل نہیں چھوڑتا تو ایسے شخص کے کھانا پینا چھوڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں۔(صحیح البخاری)
مذکورہ حدیث روزے کی مشروعیت کی حکمت کے بیان میں بہت واضح ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کھانے پینے سے روکنا روزے کی اصل غایت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت ہے جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہی بات ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے۔’’رُبَّ صائم لیس لہ من صیامہ الاالجوع‘‘ بہت سے روزہ دا ر ایسے ہیں جنھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔غور کیجیے کھانا پینا چھوڑ کر بھوکے پیاسے رہنے کے با وجود روزہ کا مقصد اگر حاصل نہیں ہوا تو اس کا کیا مطلب۔ مطلب صاف ہے کہ روزہ ایک عظیم عبادت ہے جو ایک خاص مقصد کے لیے مشروع ہوا ہے۔ اور وہ عظیم مقصد یہ ہے کہ انسان نفس کی غلامی میں نہ پڑے اور اس طرح تباہ و برباد ہونے سے بچ جائے۔ اس لیے کہ انسان کے ہر غلط کام اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی نافرمانی کے پیچھے اصل سبب نفسانی خواہشات ہوتی ہیں۔ انسان کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ انسان کا نفس اس کا تا بع ہو کررہے اور نفس کو تابع کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ روزہ رکھ کر اس کو کمزور کرنا ہے۔ اس لیے کہ انسان کا معدہ ہی خواہشات کا منبع ہے۔ انسان جب شکم سیر ہوتا ہے تو ہر طرح کی خواہشات اس کے اندر جنم لیتی ہیں ۔ چنانچہ بھوک یعنی پیٹ کی آگ خواہشات کو اس طرح جلا دیتی ہے جیسے آگ ایندھن کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔
صوفیاء کرام کی تمام تر ریاضت اور مجاہدے کا اصل مقصد تزکیۂ نفس ہے اور تزکیۂ نفس کا مقصد نفس کو اس کی خواہشات، میلان اور رغبت کی زیادتی سے پاک و صاف کرنا ہے۔ اس ریاضت و مجاہدۂ نفس میں اولین درجہ گرسنگی ہے یعنی بھوکے رہ کر نفس کو کمزور کرنا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت مخدوم الملک شرف الدین احمدیحییٰ منیریؒ کہتے ہیں ’’مجاہدۂ نفس میں اولین درجہ گرسنگی ہے۔ شکم تمام گناہوں کا منبع و معدن ہے، شکم کی سیری ہی سے انسانی شہوت پیدا ہوتی ہے اسی لیے گرسنگی آگ ہے ا ور انسانی شہوت ایندھن۔ انسانی شہوت گرسنگی ہی سے جل کر خاکستر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جس شب کو درویش فاقہ کرتا ہے وہ اس کی شب معراج ہے۔(صباح الدین عبدالرحمن، بزم صوفیہ ، ص ۴۵۸) یہی وجہ ہے کہ روزہ صوفیاء کرام کے یہاں تزکیۂـ نفس کا اولین بنیادی ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا انسان کا معدہ ہی خواہشات نفس کا اصل منبع ہے۔ اور خواہشات نفس روحانی اور مذہبی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے فاقہ کشی اور روزہ ہی تزکیہ نفس کا اولین ذریعہ ہوا۔ سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ فرماتے ہیں: ’’روزہ ارکان تصوف میں ہے اس لیے صوفی کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ روزے سے نفس مغلوب رہتا ہے۔ صوم دوام بہترین قسم کا روزہ ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام ایک روز کے وقفے سے روزہ رکھا کرتے تھے کیوں کہ صوم دوام ایک عادت بن جاتی ہے جس سے پھر تکلیف نہیں ہوتی۔(بزم صوفیہ ، ص ۵۹۰) صوفیاء کرام کے تذکروں میں جس طرح عبادت اور ریاضت کا ذکر ملتا ہے وہ عام انسانی طاقت سے باہر ہے۔ پیہم عبادت و ریاضت اور مجاہدۂ نفس سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے انسان کی دوسری ضروریات زندگی میں خلل واقع ہوگا۔ انسان دوسروں کی ضروریات کی تکمیل میں تعاون کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ خلق اللہ سے قطع تعلق کرکے صرف مجاہدۂ نفس ا ور عبادت و ریاضت کرنے کے لیے۔ لیکن کم سے کم اتنی عبادت اور مجاہدہ نفس جتنی کہ انسان کی مذہبی اور روحانی ترقی کے لیے ضروری ہو، اس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود ہی سال میں ایک مرتبہ رمضان کے مہینے میں ہر مسلمان پر فرض کردیا ہے تاکہ انسان کے مزاج پر حیوانیت غالب نہ آنے پائے چنانچہ روزے کی فرضیت بیان کرنے کے بعد اس کی مقدار ا ور وقت کی تعیین کا بھی معاً بعد ذکر فرمایا۔ چنانچہ اَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ اور شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ‘‘ (البقرہ:۱۸۵)فرما کر روزے کا ضروری نصاب بھی منجاب ا للہ مقرر کردیا گیا۔
روزہ اور ترک لذت و شہوات زمانہ قدیم سے مختلف مذاہب میںموجود رہا ہے اور مذہبی شخصیات اس پر عامل رہی ہیں۔ جسم کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانا، آرام کو اپنے ا وپر قطعاً حرام کرلینا، تقرب اور انابت الی اللہ کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ اس کی ایک مثال عہد نبوی میں بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے تین اشخاص نے جب نبی کریمؐ کی عبادت کا حال سنا تو انھیں اپنی عبادت بہت کم معلوم ہوئی۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے یہ عہد کیا کہ وہ اب ہمیشہ رات رات بھر نماز پڑھیںگے اور استراحت کو اپنے اوپر حرام کرلی۔ دوسرے صحابی نے یہ طے کیا کہ اب وہ ہمیشہ روزہ رکھیںگے ۔ تیسرے صحابی نے عہد کیا وہ کبھی شادی نہیں کریںگے ا ور ہمیشہ ازدواجی زندگی اور عورتوںکی صحبت سے کنارہ کش رہیں گے۔ اس طرح انھوں نے الگ الگ طور پر ان تمام باتوں کا ارادہ کیا جس کو روحانیت کے حصول کے لیے عام طور پر مفید اور ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ جب نبی کریم ؐکو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو آپؐ نے انھیں ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا کہ میں تم سے زیادہ ا پنے دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں لیکن میں قیام لیل کے ساتھ آرام بھی کرتا ہوں۔ روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں اور ازدواجی زندگی بھی بسر کرتا ہوں ا ور جو میرے طریقے سے اعراض کرے ، اس سے میرا تعلق نہیں۔(صحیح البخاری)
اس حدیث پاک میں روزہ اور قیام لیل پر استمرار اور دوام کی ممانعت کے ساتھ تجرد اور رہبانیت کی بھی ممانعت ہے جبکہ قلت طعام اور قلت منام درویشوں کا خاص وصف سمجھا جاتا ہے جب کہ عوام کے لیے اس پر عمل پیرا ہونا ممکن نہیں اور مذہبی تعلیمات میں عوام اور خواص کی تفریق بھی مناسب نہیں۔ اسی لیے ا للہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزہ کو بلا تفریق سب کے لیے یکساں طور پر فرض کیا۔
ہر عبادت کا انسان کی زندگی پر ایک خاص اثر مرتب ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں میں مختلف عبادات کی فرضیت کا یہی مقصد ہے بشرطیکہ وہ عبادت حصول مقصد سے پوری واقفیت کے ساتھ پورے احساس اور شعور کے ساتھ ادا کی جارہی ہو نہ کہ محض ایک رسم کی ادائیگی اور عادت کے طور پر۔ اس صورت میں اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوگا۔ مقصد سے ناواقف ہونے کی وجہ وہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے جس کے لیے وہ عبادت فرض ہوئی ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت تمام فرض عبادات کو صرف ایک مذہبی رسم سمجھ کر ادا کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی کی حالت میں بھی قلوب حاضر نہیں رہتے۔ اور ان کی حالت قرآن مجید میں مذکور اس حکم اور حالت سے زیادہ مشابہ ہے جس حالت میں اس عبادت کی ا دائیگی سے منع کیا گیا ہے جب تک کہ قلوب حاضر نہ ہوں۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی حَتَّیَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ (النساء:
مشمولہ: شمارہ مئی 2020