وہ صورت گر کچھ خوابوں کے

 کسی بھی نظریاتی تحریک کے لیے تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک اس نظریے کی حقانیت اور اس کی صحت و افادیت پر کامل یقین اور مکمل شرح صدر، دوسری اس کے لیے جد و جہد اور حرکت و عمل کا پیکر کیڈر اور تیسری چیز عام سماج میں اس کے ماننے والوں کی اخلاقی برتری۔ یقین اور شرح صدر کی کیفیت اس کے ماننے والوں کو سوتے میں نہیں، بلکہ جاگتے میں خواب دکھاتی ہے اور یہ خواب اس کی زندگی کو جذبہ عمل اور حرکت و فعالیت سے معمور کرکے افراد اور سماج میں تبدیلی کے لیے ہمہ وقت مصروف رکھتے ہیں جب کہ عام سماج میں اس کی اخلاقی برتری اور کردار کی صلابت لوگوں کے دلوں میں اس کے اور اس کے نظریے کے لیے جگہ بناتی اور راستہ ہم وار کرتی چلی جاتی ہے۔

تحریک اسلامی نے جب اپنے ابتدائی دور میں اپنے لٹریچر کے ذریعے اسلام کو نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیا تو بے شمار افراد نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا اور اس کی طرف کھنچے چلے آئے اور نہ صرف ان کی اپنی زندگی کا انداز فکر وعمل تبدیل ہو گیا بلکہ انھوں نے اسے انسانوں کی فلاح کا ضامن سمجھتے ہوئے تمام انسانوں کے سامنے پیش کرنے کا ایسا بیڑا اٹھایا کہ اپنی زندگیاں اس مشن میں گھلا ڈالیں۔ اسلام کے انقلابی نظریے کی تبلیغ و اشاعت ان کے فکر وعمل کا محور بن گئی۔ ان کو فکر صرف اس بات کی تھی کہ وہ کس طرح اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں کی زندگیوں کا رشتہ اللہ کی انقلابی کتاب قرآن مجید اور اسوہ رسول پاک سے جوڑ دیں۔ یہی وہ خواب تھا جو تحریک اسلامی کے بانیوں نے دیکھا تھا اور اسی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ان کی تمام تر جدو جہد رہی تھی۔ اس مضمون میں ہم تحریک کے وابستگان کی صلابت کردار، جہد وعمل اور صبر وثبات کی کچھ دل کش تصویریں پیش کریں گے۔

 کردار کی خوشبو

بات دہلی سے ملحق شہر غازی آباد کی ہے اور زمانہ ستر کی دہائی کا ہے۔ ایک شخص سائیکل پر پھیری کرکے چوڑیاں بیچتا تھا۔ وہ گھر سے نکلا۔ راستے میں میونسپلٹی کے ریوینو انسپکٹر چیکنگ کر رہے تھے۔ اس زمانے میں سائیکل مالکان کو بہ طور ٹیکس میونسپلٹی سے ایک اسٹیکر لینا ہوتا تھا، جس کی قیمت اس زمانے میں ‘چند پیسے ’رہی ہوگی۔ انسپکٹر کا اردلی اس چوڑی فروش کو ‘صاحب’کے پاس لے گیا۔ صاحب نے اس چوڑی فروش سے کہا کہ “ملا جی، پیسے دے کر اسٹیکر لے لیجیے۔” چوڑی فروش کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے اس نے کہا صاحب اس وقت میرے پاس پیسے نہیں ہیں کیوں کہ میں ابھی پھیری کے لیے نکلا ہوں۔ جب میرے پاس پیسے آجائیں گے تو واپسی میں میں پیسے دے کر اسٹیکر لے لوں گا۔ انسپکٹر صاحب نے سوچا کہ بھلا ایسا کون کرتا ہے مگر ان کی داڑھی اور حلیہ دیکھ کر چھوڑدیا کہ دیکھتے ہیں ملا جی کیا کرتے ہیں۔

اس واقعے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد وہ ملا جی آئے اور یہ کہتے ہوئے اسٹیکر کے پیسے دیے کہ میری بکری ہوگئی۔گفتگو کے دوران جب تعارف ہوا تو چوڑی فروش نے بتایا کہ وہ ان کے گھر کے پاس ہی رہتا ہے اور چوں کہ اس کا راستہ ان کے گھر کے سامنے سے ہوکر جاتا ہے اس لیے وہ اکثر انھیں ان کے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے دیکھتا ہے۔ بات ختم ہوگئی۔

ایک روز چوڑی فروش گزر رہا تھا کہ ان صاحب نے دیکھ کر بلا لیا اور بیٹھ کر بات چیت ہونے لگی۔ پھر یہ ہوا کہ اکثر وہ ملنے اور بیٹھنے لگے اور گفتگوئیں ہونے لگیں۔ گفتگو کا موضوع اکثر انسان، اس کی تخلیق اور موت و زندگی کا مقصد ہوا کرتا۔ انسپکٹر صاحب اپنے مزاج کے اعتبار سے ایمان دار، مہمان نواز اور سمجھدار انسان تھے اور لوگ انھیں ‘بابوجی’کے نام سے پکارتے تھے۔

یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی سے ہمارے مضبوط تعلق میں دسترخوان پر ایک ساتھ بیٹھنے کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ تعلق کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا بھی کرتا ہے اور مضبوط تعلق کا تقاضا بھی ہے۔ چناں چہ ایک دن اس چوڑی فروش سے بابو جی نے کھانے کے لیے اصرار کیا۔ بابوجی کھانے کے معاملے میں بڑے ‘ذائقہ پسند’ تھے اور اگر کھانے میں کوئی کمی ہوتی تو اپنی دھرم پتنی سے ناپسندیدگی اور ناراضی کو روک نہ پاتے تھے۔ ان کے ایک اور مسلم دوست بھی تھے جو کبھی کبھی ان کے ساتھ دسترخوان پر ہوتے تھے۔ جب کبھی بھی بابو جی کو کھانے میں کمی محسوس ہوتی اور وہ اپنی دھرم پتنی پر ناراض ہوتے تو وہ صاحب بابو جی کی ہاں میں ہاں ملا دیا کرتے تھے۔

چھوٹا سا گھر تھا، جس میں ایک کمرا اور اسی سے لگا باورچی خانہ تھا۔ جب مہمان گھر میں کھانا کھانے آتا تو ان کی پتنی کچن میں ہی ایک طرف ساڑی کے پلو سے سر ڈھانپ کر بیٹھ جاتیں۔ آج جب یہ چوڑی فروش ان کے گھر میں کھانا کھانے گئے تو یہی منظر تھا۔ کھانا آیا اور بابو جی نے جیسے ہی کھانا کھانا شروع کیا تو انھیں اس میں کمی محسوس ہوئی اور حسب عادت وہ اپنی بیوی پر ناراض ہونے لگے۔ چوڑی فروش نے جیسے ہی کھانا منہ میں رکھا تو بابو جی سے مخاطب پوئے: نہیں بابو جی کھانا تو بہت اچھا اور لذیذ ہے میں نے تو ایسا کھانا کبھی نہیں کھایا۔ ہو سکتا ہے آپ کے منہ کا ذائقہ کسی وجہ سے خراب ہو۔ بابو جی خاموش ہوگئے اور اطمینان سے کھانا کھایا۔ بس ان کے اور ان کی بیوی کے ذہن میں یہی بات گھر کرگئی۔ وہ سوچتے رہے کہ ایک مسلمان وہ تھا اور ایک یہ ہے۔ پھر کیا ہوا؟ گفتگوئیں جاری رہیں، مضبوط تعلقات کی منزلیں طے ہوتی گئیں اور بالاخر دھیرے دھیرے پورا گھرانہ سلامتی کے آغوش میں آگیا۔ چوڑی فروش کا نام تھا عبد الشکور جو جماعت اسلامی کے وابستگان میں سے تھے اور بابو جی تھے بابو جگدیش صاحب جن کے سبھی بیٹے، کئی بہنیں، ان کی ماں اور ان کا چھوٹا بھائی اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ مولانا نسیم احمد غازی اسی خانوادے کے فرد ہیں جن سے اللہ تعالی نے دعوت و اصلاح کا زبردست کام لیا۔

عبد الشکور صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ بابو جگدیش صاحب، ان کی والدہ اور بیوی بھی جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالی ان تمام کی قبروں کو نور سے بھردے۔

ایک سادہ اور معمولی سے کارکن نے اپنے کردار اور عمل کا جو نمونہ پیش کیا اس نے لوگوں کے دلوں کو اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ تحریک اسلامی کے دکھائے ہوئے خوابوں کوحقیقت میں بدلنے کی جد و جہد کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

٭٭٭٭

بات 1989 کی ہے جب یوپی میں ملائم سنگھ کی سرکار تھی اور شیلا نیاس کا ہنگامہ چل رہا تھا اور سماج میں فرقہ واریت پھلانے والوں کی جگہ جگہ گرفتاریاں ہو رہی تھیں۔ اس وقت میں اپنے ایک ہم سبق ساتھی کے ساتھ ایس آئی او کے تعارف کے سلسلے میں قصبہ ‘جسونت نگر’ کے دورہ پر تھا۔ قصبہ ہائی وے سے ایک کلومیٹر سے بھی زیادہ اندر ہے اور یہ دوری ہمیں پیدل طے کرنی تھی۔ ہمارے پاس پبلسٹی میٹیریل، پوسٹر اور اسٹیکر وغیرہ کی صورت میں کافی سامان تھا جس سے ہم بوجھل ہوکر تھکے جارہے تھےاور سوچ رہے تھے کہ معلوم نہیں کتنی دوری باقی ہے کیوں کہ اس قدر بھاری سامان کے ساتھ چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسی وقت ایک آدمی قصبہ کی طرف سے آتا ہوا ملا۔ ہم نے اسے روک کر آگے کی دوری معلوم کی اس نے بتایا کہ بس تھوڑی ہی دور ہے۔ اس نے ہمیں اجنبی جان کر پوچھ لیا کہ کس کے یہاں جانا ہے۔ ہم نے بتایا کہ ‘مہدی حسن’ صاحب کے یہاں جانا ہے۔ یہ سن کر اس نے ہمارا بھاری سامان اپنے سر پر اٹھا لیا اور یہ کہتا ہوا ہمارے ساتھ چلنے لگا “آپ کو ان کے یہاں جانا ہے؟ وہ تو دیوتا ہیں دیوتا۔”اور پھر اس نے ہمیں ان کے بھائی کی کرانے کی دکان پر پہنچا دیا جہاں سے ان کا نوکر ہمیں گھر لے گیا۔

گھر جیسے ہی ہم پہنچے تو اس پیار و محبت سے انھوں نے ہمیں گلے لگایا کہ، اللہ گواہ، ہماری ساری تھکن کافور ہوگئی۔ ساتھی نے ان کا انداز ملاقات دیکھ کر چپکے سے پوچھا کہ تم کتنے دنوں بعد ان سے ملے ہو، اور وہ یہ جان کر حیران رہ گیا کہ ہم پہلی بار ملے ہیں۔ پھر ضیافت ہوئی اور رات کو دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اگرچہ ہم دونوں ہی سفر سے تھکے ہوئے تھے مگر ان کے ساتھ گفتگو میں اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ کب رات کے بارہ بج گئے۔ ضروری گفتگو کے بعد طویل اور عزم و حوصلہ دینے والی گفتگو کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ہم نے صورت حال پر کسی قدر پریشانی کا اظہار کیا کہ کہیں ان حالات میں پولیس ہم لوگوں کو بھی نہ پکڑلے۔ انھوں نے ہمیں تسلی اور حوصلہ دیا۔ دوران گفتگو انھوں نے بتایا کہ جب وہ مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھ کر تحریک سے وابستہ ہوئے تو جیسے ان کی زندگی ایک انرجی سے بھر گئی۔ یہ انرجی انھیں ہمہ وقت اس خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لیے متحرک رکھتی جو تحریکی لٹریچر نے انھیں دکھایا تھا۔ وہ کپڑے کے ایک تھیلے میں کتابیں رکھ کر صبح کو نکل جاتے اور گاؤں گاؤں گھوما کرتے۔ مسلم اور غیر مسلم تمام لوگوں سے ملتے اور انھیں کتابیں دیتے، مختلف دینی سماجی اور سیاسی حالات پر بات چیت کرتے اور لوگوں کو تحریک کا موقف بتاتے۔

تحریک کے اس گم نام خادم کا ذکر اس مضمون میں اس لیے آیا کہ ان کے کردار اور اخلاق کی خوشبو سے دماغ تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی معطر ہے اور کوئی ستر سال کی عمر میں کہے جانے والے ان کے الفاظ کی گونج اب بھی کانوں کو سنائی دیتی ہے کہ ‘ہم تو اپنا کام کر چکے اب تحریک کے خوابوں کو تعبیر دینا آپ جیسے نوجوانوں کا کا م ہے’۔ ان کے کردار ہی کے سبب یہ ممکن ہوا تھا کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام اور محبت اس طرح ڈال دی تھی کہ دور دراز گاؤں کے لوگ اپنے معاملات فیصل کرانے ان کے پاس آتے بھی تھے اور وہ احترام سے بلائے بھی جاتے تھے۔

جہد وعمل

مئی کا آخری ہفتہ تھا اور ڈیڑھ بجےکا وقت تھا جب میں اپنے گاؤں کے گھر سے نماز ظہر کے لیے نکلا۔ سڑک کے اس پار مسجد تھی۔ سڑک پار کرنے کے لیے دائیں بائیں دیکھا تو بائیں طرف دور سے ایک آدمی آتا نظر آیا۔ اسے لگا کہ یہ تو ‘فلاں’صاحب لگ رہے ہیں۔ کچھ اور قریب آئے تو اسے اپنا اندازہ صحیح معلوم ہوا۔ ایک کم زور اور منحنی سا آدمی کندھے پر بیگ لٹکائے اور گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے سر پر تولیہ ڈالے خراماں خراماں چلا آرہا تھا۔ قریب آئے تو علیک سلیک ہوئی۔ دیکھتے ہی کہنے لگے: “واہ واہ! آپ بھی موجود ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں اس بھری دوپہری میں اور وہ بھی پیدل؟ ”کہنے لگے ‘کواڑ’ (میرے مقام سے کوئی 6 کلومیٹر ایک گاؤں ) سے آرہا ہوں پھر بتایا کہ نہر کے پاس ایک موٹر سائیکل والا مل گیا اس نے عالم پوری کے موڑ پر چھوڑ دیا، کچھ دور چل کر ایک اور موٹر سائیکل والا مل گیا اس نے میوا جٹ کے موڑ پر چھوڑ دیا بس وہیں سے پیدل آرہا ہوں۔ انھوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ لیکن اس کے باوجود آپ کم از کم تین کلومیٹر تو پیدل چلے ہی ہیں! میرے یہ کہنے پر وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے۔ کواڑ گاؤں میں ایک بستی ہے جس کے افراد اکثر بھیک مانگتے ہیں۔ موصوف ان کے بچوں اور عورتوں کو وہاں تعلیم دینے کا ایک سینٹر چلا رہے تھے۔ اتنی دوپہر میں کیوں؟ اس کا جواب تھا کہ وہ لوگ دوپہر میں ہی ملتے ہیں۔ آگے کا پروگرام بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ گڑھی سلیم پور جانا ہے۔

یہ ڈاکٹر داؤد صاحب ہیں۔ نگینہ ضلع بجنور کے رہنے والے ہیں اور اس وقت عمر کے اعتبار سے نوے کے لپیٹے میں ہیں۔ پچھلے کوئی باون سال سے بلا تفریق مذہب و ملت ان پڑھ خواتین اور غریب بچے بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی مہم میں لگے ہیں۔ پیشہ سے ڈاکٹر تھے اور سرکاری نوکری سے 1991 کے آس پاس قبل از وقت ریٹائر منٹ لے لیا اور اس مہم کے لیے یکسو ہو کر اس پیرانہ سالی میں بھی اسی مہم میں لگے ہیں۔ 1972 میں انھوں نے دوست احباب کے تعاون سے یہ مہم شروع کی تھی۔ ضلع بجنور کے گاؤں گاؤں کی خاک چھانی اور درجنوں دیہی بستیوں کی ایسی تصویر بدلی کہ کوئی لڑکی باپ کے گھر سے ان پڑھ رخصت نہ ہوئی۔ بوڑھی خواتین میں پڑھنے کی ایسی جوت جگائی کہ ستر ستر سال کی بوڑھیوں نے ناظرہ قرآن اور ضروری حد تک لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ گاؤں کے گاؤں ایسے بنا ڈالے کہ جہاں کی عورتیں اب انگوٹھا لگانے کے بجائے دستخط کرتی ہیں۔ کئی گاؤں ایسے ہیں کہ اگر اسکول کے وقت کوئی بچہ اسکول نہیں گیا ہے تو یا تو وہ اس گاؤں کا نہیں ہے یا پھر کسی واقعی عذر کے سبب وہ اسکول نہیں جا سکا ہے۔ ان کی مہم کا ہدف ان پڑھ خواتین کو خواندہ بنانا، ان کے اندر اسلام کا شعور بیدار کرنا اور سماجی اصلاح کے لیے انھیں تیار کرنا تھا جس کے لیے انھوں نے پڑھائی لکھائی کے ساتھ ہفتہ واری اجتماعات کے ذریعے اسلامی زندگی کا سلیقہ اور آداب سکھانا، بچوں کی تربیت کے گُر بتانا اور خواندگی کے فروغ اور تعلیم یافتہ نسل کی تیاری کے لیے انھیں اہل بنانے کا کام کیا۔ ان کے سینٹروں سے پڑھی ہوئی سیکڑوں لڑکیاں اب اپنی سسرال میں بھی اس مہم سے جڑی ہوئی ہیں اور اسی طرح کے سینٹر چلا رہی ہیں۔

٭٭٭

میرے گاؤں سے قریب ایک قصبہ سہسپور ہے جو اب اس کے اہل خاندان کا مسکن بھی بن گیا ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنی ضرورت کے لیے یہیں آتے ہیں۔ اس جگہ ایک صاحب ہوا کرتے تھے مستری حبیب الحسن صاحب۔ ڈیزل انجنوں کے ماہر مستری۔ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے تھی کہ بگڑے سے بگڑے انجن کو بھی اگر وہ ہاتھ لگادیں تو دسیوں سال کے لیے کسان مطمئن ہوجاتا تھا۔ جیسے ماہر وہ مستری تھے شاید اس زیادہ ماہر وہ داعی تھے۔ ان کا اسلوب بالکل یوسفی ہوتا تھا کہ خواب کی تعبیر بتائی اور پوچھا کہ “بہت سارے رب بہتر ہیں یا ایک واحد اور طاقتور رب؟” انجن کا کام کیا اور پھر کسان سے وہی اپنی نظریاتی اور دعوتی گفتگو شروع کردی۔ ان کا انداز گفتگو اور اسلوب اتنا پیارا ہوتا کہ آدمی ان سے کام کرانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ان سے جڑ جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ کام کے بغیر بھی صرف ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے لیے آیا کرتے۔ دکان پر ہیشہ کئی لوگ بیٹھے رہتے چائے کے دور چلتے رہتے اور دعوتی گفتگو جاری رہتی۔ کبھی یہ گفتگو مباحثہ کی صورت بھی اختیار کر لیتی لیکن آخر کار تسلیم انھی کی بات کی جاتی۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی فرد کو آئے بہت دن گزر جاتے تو خود ہی محض اس سے ملنے اس کے گاؤں پہنچ جاتے۔

میں درجہ پنجم کا طالب علم تھا اور ان کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ چائے لے کر آئے اور انھوں نے اسلام سے متعلق کوئی اہم بات کہی جو مجھے کو حیران کر گئی کہ چائے والا اور ایسی بات! اس پر جب حیرت کا اظہار کیا تو مستری صاحب بولے“مولانا (وہ مجھے مولانا اس لیے کہتے تھے کہ مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور میں میرا داخلہ ہوا تھا اور انھی نے کرایا تھا) اس شخص پر 22 سال محنت کی گئی ہے۔”کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ مستری صاحب ان کو پڑھنے کے لیے کبھی ‘شہادت حق’ دیتے اور کبھی ‘خطبات’مگر چائے والے صاحب ہر کتاب کو ہر مرتبہ اپنے ہوٹل کی بھٹی میں جھونک دیتے۔ یہ سلسلہ 22 برسوں تک چلتا رہا۔ نہ مستری صاحب کتاب دینے سے اکتائے اور نہ چائے والے صاحب اس بھٹی میں جھونک دینے سے باز آئے۔ ایک دن مستری صاحب نے انھیں شہادت حق دی اور حسب معمول پڑھنے کو کہا۔ وہ بھی حسب معمول اسے بھٹی میں ڈالنے ہی والے تھے کہ کچھ سوچ کر رک گئے اور کتاب ایک طرف رکھ دی۔ شام کو گھر لے گئے کہ پتلی سی کتاب ہے آج پڑھ کر دیکھتے کہ اس میں لکھا کیا ہے! بس پھر کیا تھا، سوچ بدل گئی، خیال بدل گیا۔ صبح کو دکان کھولنے سے پہلے مستری صاحب کے پاس آئے اور خطبات کا مطالبہ رکھ دیا۔ مستری صاحب سمجھ گئے کہ آج انھوں نے کتاب پڑھ لی ہے۔ پھر کیا تھا، انھوں نے تحریک کا سارا لٹریچر پڑھ ڈالا اور جماعت کے ایسے فعال اور مضبوط حامی بنے کہ مخالفین کے گڑھ میں سرگرم رہے اور ہر طرح کی مخالفت کے سامنے سینہ سپر رہے۔ ان کا نام احسن تھا اور ملا جی کے نام سے جانے جاتے تھے۔

حقیقت یہ ہے تحریک اسلامی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اسی طرح کی لگن، محنت، جذبہ اور قربانی کی ضرورت ہے۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہ انھی بے لوث لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ منزل کی طرف اور آگے بڑھنے کے لیے بھی یقین و شعور اور محنت و لگن کی کیفیت ہی بہترین زاد راہ ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223