موجودہ ترقی یافتہ دور میں ایک طرف انسان مختلف میدانوں میں ترقی کی معراج پر ہے تو دوسری طرف اس کا ذہن مذہب اور باری تعالیٰ کے عطا کردہ دستور حیات سے متعلق پراگندہ اور مسموم ہے، خاص طور سے مغربی تہذیب کے دلدادہ نام نہاد مسلمان شریعت اسلامی پر روزانہ شکوک و شبہات اور اعتراضات کی بوچھار کر رہے ہیں، یہ انسان کی بڑی ناکامی ہے کہ جو دستور حیات اللہ نے بخشا ہے اسی کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے اگر اس کو دین فطرت کے سمجھنے میں غلط فہمی ہے تو اس کو ماہرین قانون سے دور کر سکتا ہے لیکن اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا کہاں سے زیب دیتا ہے۔
شکوک و شبہات میں سے ایک اعتراض اسلام میں مرد وعورت کی میراث سے متعلق ہے۔ چناںچہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن نے مرد وعورت کی میراث کو برابر کیوں نہیں ركھا؟ کیوں عورت کی میراث مرد کے مقابلہ میں آدھی رکھی؟ ہم ان اعتراضات کا مندرجہ ذیل سطور میں جواب رقم کرتے ہیں ۔
اطاعت و فرماںبرداری
اللہ رب العالین کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا فرض ہے خواہ ظاہر ا وہ ہماری عقل کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ خالق کائنات اپنے بندوں کی مصلحتوں وحکمتوں کے متعلق زیادہ جاننے والا ہے ، اس کو بخوبی معلوم ہے کہ کونسی چیز حق و عدل کے مطابق ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا(النساء:۶۵) ’’ اے محمدﷺ ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔‘‘
عدل ومساوات کا فرق
عدل (انصاف) اور مساوات (برابری) میں فرق کو ملحوظ رکھناضروری ہے کیوں کہ عدل و مساوات ایک دوسرے کے ہم معنی و مترادف نہیں ہیں۔ مساوات دو ہم جنس چیزوں کے درمیان ہر اعتبار سے برابری کی متقاضی ہے جب کہ عدل میں برابری وتفاوت دونوں ممکن ہیں۔
ذیل کی مثا ل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک کارخانہ و کمپنی میں بہت سارے مزدور وملازمین کام کرتے ہیں وہ تمام ملازمین عزت وشرافت ، انسانیت و تکریم نفس میں برابر ہیں ، سب حسن سلوک کے مستحق ہیں، سب کے ساتھ انسانیت کی بنا پر یکساں سلوک کیا جانا چاہیے لیکن وہ اپنی صلاحیت و استعداد، طاقت و قوت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کی اپنی حیثیت قابلیت و صلاحیت کی بنا پر الگ الگ ذمہ داریاں و واجبات ہیں اسی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ کسی کی زیادہ کسی کی کم۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ مرد و عورت کا مسئلہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ دونوں رحمت و شفقت ، شرافت و کرامت ، اور انسانیت کے مستحق ہیں، خواہ بھائی ہویا بہن ، انسانیت کی بنا پر سب کے حقوق یکساں ہیں۔ لیکن مرد و عورت اپنی اپنی صلاحیت و استعداد و ذمہ داریوں کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ مرد کی صلاحیت عورت سے اور عورت کی استعداد مرد سے متفاوت ہے۔ اسی طرح دونوں کی ذمہ داریاں و واجبات الگ الگ ہیں ۔ اسی کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ ہے کہ میراث میں برابری لازم نہ ہو۔
عورت کی نصف میراث
مہر و نفقہ کی صورت میں مرد مال دینے والا ہوتا ہے ۔ ظاہری طور پر دیکھا جائے تو مرد کا نقصان اور عوررت کا فائدہ ہے۔لیكن لوگ اس پر اعتراض نهیں كرتے۔مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ محنت و جفا کشی اور معاشی وا قتصادی سرگرمیوں کی انجام دہی مرد پر ہے۔ گھریلوذمہ داری اور اولاد کی تربیت و پرورش کی ذمہ داری عورت کی ہے تو کیسے فطرت سے انحراف کیاجاسکتاہے۔
یہ کہنا کہ ہرحالت میں عورت متوفی کی میراث کی نصف کی مستحق ہوتی ہے صحیح نہیں ہے۔ کبھی عورت مرد سے زیادہ کی مستحق ہوتی ہے۔
وراثت کا معیار
وارثین کے درمیان تفاوت کچھ معیاروں کے تابع ہے اور یہ معیار مذکر و مؤنث نہیں ہیں وارثین کے درمیان جو معیار ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں ۔ قرابت و رشتہ داری۔ جس جانب اور جس قدر مضبوط رشتہ داری ہوگی اسی لحاظ سے وراثت میں حصہ زیاده ہوگا۔
دوسرامعیار زندگی سے متعلق وارث کی حالت و کیفیت ہے۔ وارث کی موجودہ زندگی میں کیا ذمہ داریاں ہیں مثلا کسی کا انتقال ہوا اس نے والدین اور بیٹی و بیٹا چھوڑے تو باپ کو چھٹا حصہ، ماں کو بھی چھٹا حصہ ملے گا بیٹی اور بیٹے کے مابین للزکر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہوگا۔ بیٹے کا حصہ دو ثلث ہوگا اور بیٹی کا حصہ ثلث جوباپ کے حصہ سے زیادہ ہے ۔ یہ اس لیے کہ بیٹی کو زندگی کا سامنا کرنا ہے۔
معترضین کو تاہ بینوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام نے عورت کے مقام و مرتبہ کو واضح کیا ہے اور اس کے ساتھ ہر چیز میں عدل کا معاملہ کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْہًا(النساء:۱۹)’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے لیے یہ حلا ل نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔‘‘
ارشاد باری تعالی ٰ ہے:لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ۰ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا (النساء:۷) ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔
اسلام دین فطرت ہے، اس کی تعلیمات وا حکامات فطرت کے عین مطابق ہیں، خالق کائنات کے عطا کردہ دستور حیات میں کسی قسم کی ترمیم و تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالی نے اس میں اتنی لچک رکھی ہے کہ وہ ہر زمانہ و ہر علاقہ کی ضروریات و تقاضوں کے ہم راہ رہ سکتا ہے، اس کے تمام احکام و قوانین مصلحتوں وحکمتوں پر مبنی ہیں البتہ ان حکمتوں میں سے تمام کی افہام و تفہیم سے ہماری عقلیں قاصر ہیں ۔ ارشاد باری ہے: فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (الروم:۳۰)’’ اے لوگو قائم ہو جائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت و قانون بدلا نہیں جا سکتا، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
مشمولہ: شمارہ اگست 2019