ہندستان دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے ، جہاں بعض روایات کے مطابق عہد ِنبوی ہی میں اسلام پہنچ چکا تھا اورعہد فاروقی میں ہندستان کے ساحلی علاقوں تک اسلام کے پہنچنے کی تو تاریخی شہادتیں موجود ہیں ، غرض کہ ہندستان میں مسلمان طویل عرصے سے آباد ہیں ۔ کم و بیش ایک ہزار سال انھوں نے پورے ملک پر حکومت بھی کی ہے ، جو موجودہ پاکستان سے لے کر بنگلہ دیش اور برما تک کو محیط تھا ۔ فتنۂ تاتار کے دور میں بہت سے اہل علم خطۂ عرب سے یہاں وارد ہوئے اور خود یہاں بھی بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے ، اس طرح پورا ہندستان دینی علوم کا مرکز رہا ہے ؛ لیکن ہندستان کے علما نے سب سے زیادہ جس فن پر توجہ دی ہے ، وہ فقہ ہے ، جو دراصل کتاب و سنت کا نچوڑ اوراسلامی علوم و افکار کا خلاصہ ہے ۔
جب تک ہندستان مسلم حکمرانوں کے زیر اقتدار تھا ، یہاں کے حالات بھی دوسرے مسلم ملکوں سے مختلف نہیں تھے ؛ لیکن جب اقتدار کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور مسلمان ایک مذہبی اقلیت کی حیثیت اختیار کرگئے تو بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوئے، جن سے عالم اسلام کے مسلمان دوچار نہیں ہیں۔ مسلمان اقلیتوں کے مسائل بہ مقابلہ عالم اسلام کے تین جہتوں سے مختلف ہیں ۔ اول یہ کہ مسلم ملکوں میں مسلمان خود نظام زندگی کی تشکیل کرنے کے موقف میں ہیں۔ جب کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمان ایک بنے بنائے نظام کا حصہ ہوتے ہیں ، دوسرے : مسلم ملک میں یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ مسلمان احکام شریعت سے زیادہ واقف ہوں گے ، غیر مسلم ممالک میں دینی اعتبار سے جہل کا غلبہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے فقہاء نے دارالاسلام کو ’’دارا لعلم‘‘ اور دار الکفر کو ’’ دارالجہل ‘‘ کہا ہے اور یہ بات محتاج اظہار نہیں کہ بہت سے احکام میں جہالت بھی مؤثر ہوتی ہے ۔ اسی لیے جہل کو فی الجملہ ’ عوارض اہلیت ‘ میں مانا گیا ہے ، تیسرا سبب یہ ہے کہ کوئی بھی گروہ اپنے پڑوسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ مقامی تہذیب و ثقافت کا اثر اس علاقے میں رہنے والی تمام قوموں پر پڑتا ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی بناپر مسلمان اقلیتوں سے متعلق بعض ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیں ، جن سے وہ عالم اسلام میں دوچار نہیں ہوتے۔ ہندستان کے مسلمان اگرچہ ایک مستحکم جمہوری نظام کا حصہ ہیں اور یہاں اظہار خیال کی آزادی ہے اور ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کی اجازت ہے ۔تاہم اس کے حالات بالکل عالم اسلام کی طرح نہیں ہیں۔ جن مسائل سے یہاں کے مسلمان دوچار ہوتے ہیں ، ان میں سے بہت سے مسائل خواتین سے متعلق ہیں ۔
جبری شادی
شریعت نے نکاح کو عاقدین کے اختیار سے متعلق رکھا ہے۔ مرد و عورت کی رضامندی سے ہی نکاح منعقد ہوتا ہے— لیکن رضا اور عدمِ رضا ’ قلب ‘ کا فعل ہے ، جس سے آگاہ ہونا دوسروں کے لیے ممکن نہیں ۔ اسی لیے زبان سے اظہار رضامندی کو نکاح کے منعقد ہونے کے لیے کافی سمجھا گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مرد یا عورت سے جبراً رضامندی کا اظہار کرالیا جائے تو کیا نکاح منعقد ہوجائے گا ؟۔ اس سلسلے میں حنفیہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اکراہ کے ساتھ اگر قبولیت کے الفاظ کہلا دیے جائیں تب بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں لڑکا اورلڑکی دونوں کا ایک ہی حکم ہے ۔یہ نقطۂ نظر حنفیہ کے علاوہ بعض دوسرے فقہاء کا بھی ہے ﴿۲﴾ پھر جن فقہاء کے نزدیک ولی کو باکرہ لڑکی پر ولایت اجبار حاصل ہوتی ہے ، ان کے یہاں تو ویسے بھی لڑکی کی رضامندی کے بغیر ولی کا کیا ہوا نکاح اس کے اوپر لازم ہوجاتا ہے ۔
ہندستان میں مسلمان جس ﴿ہندو﴾ قوم کے پڑوس میں ہیں‘ ان کے یہاں نکاح میں لڑکی سے اجازت لینے کا تصور نہیں ہے۔ ، اس سے متاثر ہوکر بعض علاقوں میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ مسلمان باپ دادا بھی اپنی لڑکیوں کا نکاح اپنی مرضی سے ان کی ناراضی کے باوجود کردیتے ہیں۔ اس پس منظر میں ’’ مجمع الفقہ الاسلامی الہند ‘‘نے اپنے تیرہویں سیمینار منعقدہ ۲۰۰۱ئ میں بحث کی اور فیصلہ کیا کہ اگرچہ اس طرح کا نکاح فقہی اعتبار سے منعقد ہوجاتا ہے، لیکن اولیا کا ایسے عمل کا ارتکاب کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اگر اس طرح نکاح کردیا گیا اور لڑکی اس پر راضی نہ ہوتو وہ فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے اور قاضی شریعت اس کا نکاح فسخ کردے گا۔ اس کی دلیل حضرت ثابت بن قیس کی بیوی کا وہ مشہور واقعہ ہے، جس کے مطابق صرف بیوی کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ نے حضرت ثابت کو طلاق دینے کا حکم فرمایا تھا ۔
عدمِ کفائت کے باوجود نکاح
نکاح میں ایک اہم مسئلہ کفائت کا ہے ۔ کفائت کا تعلق بنیادی طورپر عرف سے ہے ۔ عرف میں بعض چیزوں کو سماجی اعتبار سے اونچ نیچ کا سبب مان لیا جاتا ہے ۔ اگر اولیائ زیر ولایت لڑکی کا رشتہ نیچے سمجھے جانے والے لڑکے سے کردیں تو یہ لڑکی کے لیے باعث عار ہوتا ہے اوراگر نکاح کرنے والا ولی باپ یا دادا نہ ہو تو اس کو مطالبۂ تفریق کا حق حاصل ہے ، ﴿۳﴾ اسی طرح اگر خود لڑکی اپنا رشتہ اپنے سے نیچی سطح کے لڑکے سے کرلے تو یہ بات اس کے اولیا کے لیے بھی باعث ِعار سمجھی جاتی ہے ؛ لیکن عرف چوںکہ ایک تغیر پذیر چیز ہے ؛ اس لیے کفائت کے معیارات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی رشتے کے انتخاب کے لیے کسی اورمعیار کو ترجیح دیتی ہے۔مثلاً: ایک لڑکا خاندان کے اعتبار سے کم تر سمجھا جاتا ہو ؛ لیکن اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو اور معاشی اعتبار سے بھی وہ بہتر پوزیشن میں ہوتو بعض لڑکیاں تعلیمی اور معاشی معیار کو خاندان پر ترجیح دیتی ہیں ، پس اگر لڑکی خود ایسا رشتہ کرلے جو غیر کفو میں ہوتو نکاح منعقد ہوجائے گا یا نہیں ؟ اس سلسلے میں حنفیہ کے یہاں دو قول ہیں ، ایک یہ کہ نکاح منعقد ہوجائے گا ؛ لیکن ولی کو اس پر اعتراض کرنے اور قاضی سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوگا ۔ یہ ظاہر روایت ہے اور عام طورپر فتویٰ ظاہر روایت پر دیا جاتا ہے۔ لیکن متاخرین احناف کی رائے یہ ہے کہ ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور بعد کے فقہاء نے اسی پر فتویٰ دیاہے ۔
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ جیسے جیسے لڑکیوں میں تعلیم کی شرح بڑھ رہی ہے ، وہ نکاح میں اپنے حق اختیار کو استعمال کرنا چاہتی ہیں اور تعلیم ، معاشی معیار اور مزاج کی ہم آہنگی کو وہ دوسری باتوں پر ترجیح دیتی ہیں۔ اس لیے بعض اوقات اولیا کے معیار کے لحاظ سے غیر کفو میں نکاح کرلیتی ہیں ، اولیا کو اگرچہ یہ رشتہ عدم کفائت کی وجہ سے پسند نہیں ہوتا ؛لیکن جب نکاح ہوجاتا ہے تو وہ اس پر خاموش ہوجانے میں ہی اپنی عزت کا تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ اب اگر متاخرین کے فتو یٰ کو لیا جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوا اور ان کی زندگی معصیت کی زندگی قرار پاتی ہے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیر نگرانی عالمی مسائل سے متعلق جو مجموعۂ قوانین مرتب ہوا ہے ، اس میں اسی قول پر فتویٰ دیا گیا ہے اور مجمع الفقہ الاسلامی الہند نے بھی اپنے گیارہویں فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۹۹ء میں اجتماعی غور و فکر کے بعد یہ بات طے کی کہ اگرچہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے رشتوں کے انتخاب میں اولیا کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے ؛ لیکن اگر عاقلہ بالغہ خاتون نے غیر کفو میں ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کرلیا تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہوجائے گا ؛ البتہ اولیا کو قاضی کے یہاں مرافعہ کا حق حاصل ہوگا ۔ اگر اولیا اس نکاح پر خاموش ہوجائیں تو نکاح نافذ رہے گا ۔
نکاح میں شرط
یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کی جسمانی کمزوری اور انفعالی کیفیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ زیادتی بھی کی جاتی ہے ، مثلاً ایک بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرلیا جاتا ہے ؛ لیکن شریعت میں عدل کے جو احکام دیے گئے ہیں ، ان کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ اس کے حل کے لیے اسلامک فقہ اکیڈمی نے اپنے آٹھویں فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۹۵ءمیں ’’ اشتراط فی النکاح ‘‘ اور ’’ اشتراط فی المہر‘‘ کے مسئلے پر بحث کرائی ۔ اشتراط فی النکاح سے مراد یہ ہے کہ ایسی شرطیں جن کا شریعت نے نکاح میں حکم بھی نہیں دیا ہے اور وہ شریعت کے احکام سے متصادم بھی نہیں ہیں ؛ لیکن وہ کسی فریق کے مفاد میں ہوں تو ایسی شرطیں معتبر ہوں گی یا نہیں ؟ جیسے عورت شرط لگائے کہ شوہر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کرے گا یا اس کو میکے میں رکھے گا یا اس کو اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اس کا اعتبار ہوگا یا نہیں ؟ … ایک گروہ کے نزدیک ایسی شرطیں معتبر نہیں ہیں۔ صحابہ میں حضرت علی صاور ائمہ متبوعین میں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا نقطۂ نظر یہی ہے دیکھیے : مصنف ابن ابی شیبہ : ۴/۲۰۰، بدایۃ المجتہد : ۲/۵۹ ، شرح مہذب : ۱۶/۲۵۰ ﴾ ﴿۱﴾ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسی شرطیں معتبر ہیں اور شوہر پر ان کا پورا کرنا واجب ہے ، صحابہ میں حضرت عمرؓ ، حضرت عمر و بن العاصؓ ، ﴿۲﴾ حضرت عبد اﷲ اب ﴿مصنف عبد الرزاق : ۶/۲۲۷-۲۲۹ ﴾حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ ﴿شرح السنہ:۹/۵۴﴾ ﴿ ۱﴾ بعد کے اہل علم میں مشہور قاضی ، قاضی شریح ﴿مصنف عبدالرزاق:۶/۲۲۴﴾ اور ائمہ متبوعین میں امام احمد ابن حنبل ؒ﴿المغنی:۷/۱۷﴾اور محدثین میں امام بخاریؒ ﴿دیکھیے صحیح بخاری، باب الشروط النکاح﴾ اور امام ابوداؤدؒ ﴿ ابودائود،باب فی الرجل یشترط لہاداراً﴾ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ، ان حضرات کی دلیل قرآن مجید کی آیت:
’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ‘‘۔﴿المائدہ: ﴾
اور رسول اﷲ ا کا ارشاد :
أحق ما أو فیتم من الشروط أن توفوا بہ ما استحللتم بہ الفروج ﴿ بخاری ، حدیث نمبر: ۴۷۵۴﴾
ہے— اس لیے سیمینار میں شریک ہونے والے ہندستان کے علماء و ارباب افتائ نے اس دوسرے نقطۂ نظر کو موجودہ حالات کے پس منظر میں قبول کیا ہے۔ نکاح کے وقت اگر ایسی باتوں کی شرط لگائی جائے کہ شریعت نے نہ ان کو لازم قرار دیا ہے اور نہ ان سے منع کیا ہے تو ایسی شرطوں کو پورا کرنا واجب ہے ۔اسی سے قریب تر دوسرا مسئلے ’ نکاح میں مشروط مہر ‘ مقرر کرنے کا ہے۔ مثلاً مہر یوں طے پائے کہ اگر مرد نے اِس منکوحہ کی موجودگی میں دوسرا نکاح کیا تو مہر بیس ہزار درہم ہوگا اور اگر دوسرا نکاح نہیں کیا تو دس ہزار درہم ہوگا تو مالکیہ اور شوافع کے نزدیک ایسی شرطوں کا اعتبار نہیں ؛ بلکہ ایسی صورت میں مہر مثل واجب ہوگا ، ﴿۸﴾ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک یہ دونوں شرطیں معتبر ہوں گی ، ﴿ ۹﴾ یہی نقطۂ نظر حنفیہ میں صاحبین کا بھی ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مہر کی جو مقدار پہلے ذکر کی گئی ، وہ معتبر ہوگی اور جو بعد میں ذکر کی گئی ، اس کا اعتبار نہیں ، ﴿۱۰﴾ اسلامک فقہ اکیڈمی کا موجودہ حالات میں فیصلہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں صاحبین کی رائے کو قبول کرنا بہتر ہوگا ، اس سے عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور طلاق کے واقعات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ جیسے یوں مہر مقرر ہو کہ اگر مرد نے اس عورت کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا یا اسے طلاق نہیں دی تو مہر دوہزار ڈالر ہوگا اور اگر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرلیا یا کبھی اِس بیوی کو طلاق دے تو مہر دس ہزار ڈالر ہوگا۔ ایسی صورت میں شرط پوری نہ کرنے پر مرد کو مہر کی جو کثیر مقدار ادا کرنی پڑے گی ، اس کا خوف کسی مناسب ضرورت کے بغیر دوسرے نکاح سے یا بلا سبب طلاق دینے سے اس کو باز رکھنے میں مؤثر ہوگی ۔ امام ابوحنیفہؒ کے قول کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔ کیوںکہ امام صاحب کے یہاں اگر دو الگ شرطوں کے ساتھ مہر کی دو مقدار متعین کی جائے تو پہلی شرط اور اس سے مربوط مہر معتبرہوتا ہے اور اگر وہ شرط پائی جائے تو دوسری شرط معتبر نہیں ہوتی ؛ بلکہ اس کی بجائے مہر مثل واجب ہوتا ہے۔ لہٰذا مثلاً یوں کہا جائے کہ اگر ہندہ کی موجودگی میں دوسرا نکاح کیا گیا تو مہر ایک لاکھ روپے ہوگا اور نکاح نہیں کیا گیا تو مہر پچیس ہزار روپے ہوگا تو اس صورت میں اگر ہندہ کی موجودگی میں مرد نے دوسری شادی کی تو ہندہ کو ایک لاکھ روپے ادا کرنے پڑیں گے اور اگر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا تو مہر مثل واجب ہوگا ، اس طرح یہ مقصد کہ بیوی کو ناگوار صورتِ حال پیش آنے پر زیادہ مہرمل جائے ، حاصل ہوجائے گا ۔
سونا چاندی سے مہر کا تعین
عورتوں کے بعض حقوق جو ازدواجی زندگی سے متعلق ہیں ، ان کے بارے میںبھی علماء ہند کے افکار قابل توجہ ہیں ۔ ان میں ایک مسئلے ’ مہر ‘ کا ہے۔ ہندستان میں عام طورپر مہر مؤجل مقرر ہوتا ہے اور مروجہ کرنسی میں متعین کیا جاتا ہے ، بدقسمتی سے اس وقت افراطِ زر اورحکومتوں کے بے حساب نوٹ چھاپنے کی وجہ سے کرنسی کی قیمت میں مسلسل اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر آج سے بیس سال پہلے کسی عورت کا مہر انڈین کرنسی میں دس ہزار روپے طے ہوا تو اس میں سو گرام سونا خرید کیا جاسکتا تھا ۔ اگر آج دس ہزار روپے بیوی کو ادا کیا جائے تو وہ اس میں پانچ گرام سونا بھی نہیں خرید کرسکتی، اس صورتِ حال کی وجہ سے عورت غیر معمولی مالی مضرت سے دوچار ہوتی ہے ۔ اب یہ مسئلے موجودہ فقہا کے درمیان مختلف فیہ ہے کہ کرنسی کی حیثیت بعینہٰ ثمن کی ہے یا وثیقۂ ثمن کی ؟ اور دیونِ متاخرہ کی ادائی میں جتنے نوٹ طے شدہ ہیں ، اتنی ہی تعداد میں نوٹ کی ادائی ضروری ہوگی یا اس کرنسی کی جو قدر تھی ، اس کے مطابق پیسوں کا ادا کرنا ضروری ہوگا ؟ ۔ بعض حضرات کی رائے ہے کہ کرنسی کی قوت خرید کا اعتبار ہوگا نہ کہ اس کی تعداد کا ۔ کیوںکہ شریعت میں عدل کا حکم دیا گیا ہے اور عدل کا تقاضا اسی طرح پورا ہوسکتا ہے ۔ گویا ان حضرات کے نزدیک کرنسی وثیقۂ ثمن ہے ، خود ثمن نہیں— دوسری رائے اس کے برعکس ہے ، اور شبہ ربا سے بچنے کے لیے اس دور کے جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ کاغذی کرنسی بجائے خود ثمن ہے اور ادائی میں صرف نوٹوں کی تعداد معتبر ہوگی ۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے تیسرے فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۹۰ء میں کاغذی کرنسی کی شرعی حیثیت پر غور و فکر کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ مہر مؤجل نوٹوں میں مقرر کرنے کے بجائے سونے یا چاندی میں مقرر کیا جائے ؛ تاکہ جب بھی مہر ادا ہو مہر کی قدر اور قیمت خرید میں کمی واقع نہ ہو اور عورت کے ساتھ عدل کے تقاضے پورے ہوسکیں ۔
تفویض طلاق اور تحکیم
یہ بات ظاہر ہے کہ کہ شریعت میں طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے ، عورت کو اس کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ تاکہ طلاق کے واقعات میں اضافہ نہ ہو اور مرد سے اس بات کی اُمید رہتی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ قوتِ فیصلہ کو کام میں لاتے ہوئے طلاق کے سلسلے میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا — کیوںکہ یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ اگر طلاق کا اختیار عورتوں کو مل جائے تو طلاق کے واقعات بڑھ جائیں گے ۔ موجودہ مغربی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں کو طلاق میں ایک ہی درجے میں رکھا گیا ہے ۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہاں طلاق کی شرح نکاح کی شرح سے بڑھی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض جفا خو اور ظالم شوہر ایسے ہوتے ہیں کہ عورت کا ان سے طلاق کا مطالبہ کرنا واجبی ہوتا ہے۔ جو شریعت کے مطابق بیوی کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے اور طلاق یا خلع پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اس لیے بعض حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ عورت کے لیے طلاق کے حصول کو آسان بنایا جائے۔اس کا ایک حل فقہاء حنفیہ کے یہاں ملتا ہے ، جسے ’ تفویض طلاق ‘ کہا جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو یہ حق دے دے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے آپ پر طلاق واقع کرلے ۔ اگر ایجاب و قبول کے بعد تفویض طلاق ہوتو تمام ہی فقہاء کے نزدیک اس کا اعتبار ہے ۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک اگر نکاح سے پہلے نکاح کی شرط کے ساتھ حق طلاق تفویض کیا جائے تب بھی تفویض طلاق درست ہوتی ہے : ’’ ولو قال الزوج : تزوجتک علی أنک طالق بعد التزوج أو أن أمرک بیدک بعد التزوج فقبلت المرأۃ صار الأمر بیدہا‘‘ ﴿ ۱﴾ اس لیے ہندستان کے ایک بصیرت مند فقیہ اور جامع علمی شخصیت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے غالباً سب سے پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ نکاح کے موقع پر ایک دستاویز ’ تفویض طلاق ‘ کا بھی مرتب کیا جائے ، جس پر مرد دستخط کردے۔ آپ نے اپنی گراںقدر تالیف ’’الحیلۃ الناجزہ ‘‘ میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔ پھر اسے عام لوگوں تک پہنچانے کی غرض سے بگڑتے ہوئے سماجی حالات کے پس منظر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے بھی اپنے سیمینار منعقدہ ۱۹۹۵ئ میں شرکائ کے اتفاقِ رائے سے تفویض طلاق کے بارے میں تجویز منظور کی اور ہندستان میں اسے رواج دینے کی اپیل کی ۔
اسی کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے ’ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘ نے علماء کی ایک کمیٹی کے ذریعہ ’ معیاری نکاح نامہ ‘ مرتب کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ، جس کے کنوینر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ تھے۔ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری اس حقیر سے متعلق کی گئی۔ چوںکہ عام طورپر لوگ تفویض طلاق کے لفظ سے وحشت محسوس کرتے ہیں اور خاص کر نکاح کے موقعے پر طلاق کے تذکرہ کو پسند نہیں کرتے ، اس لیے اس نکاح نامہ میں ایک دفعہ ’ تحکیم نامہ ‘ کی شامل رکھی گئی ہے ، جس پر دستخط کرکے عاقدین ’’ قاضی شریعت ‘‘ کو حکَم بناتا ہے کہ اگر دونوں کے درمیان ازدواجی زندگی میں کوئی نزاع پیدا ہوتو قاضی یا مقررہ حاکم ہر طرح کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔یہ ایک وسیع دائرے میں تحکیم ہے جس میں تمام ازدواجی مسائل میں قاضی یا حکم فیصلے کا مجاز قرار پاتا ہے ۔ ہندستان جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کے دارالقضاء کو قانونی اعتبار حاصل نہیں ہے ، اس تحکیم کے ذریعے قانونی اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ کیوںکہ ہندستان میں ﴿حَکَم ﴾ کو سیول مقدمات میں فیصلے کے اختیارات حاصل ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کرے فریقین کے لیے قانوناً واجب العمل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ عدالت میں اس فیصلے کے خلاف مرافعہ بھی قبول نہیں کیا جاتا ۔
حالت نشہ کی طلاق
طلاق کے سلسلے میں ایک اہم مسئلے حالت ِنشہ کی طلاق کے واقع ہونے اور نہ ہونے کا ہے ، فقہاء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ حالت نشہ کی طلاق واقع ہوجائے گی ، صحابہ میں حضرت عمر ص ، ائمہ متبوعین میں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒاورایک قول کے مطابق امام شافعیؒ اسی کے قائل ہیں ، دوسرا قول یہ ہے کہ حالت نشہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صحابہ میں حضرت عثمانؓ ، ائمہ متبوعین میں امام احمدؒ ، ایک قول کے مطابق امام شافعیؒ ، امام ابوحنیفہؒ کے اصحاب میں امام زفرؒ اور ان کے بعد کے مشائخ حنفیہ میں امام کرخیؒ اور امام طحاویؒ کا نقطۂ نظر یہی ہے ۔ قرآن و حدیث میں اس مسئلے سے متعلق کوئی صریح نص موجود نہیں ہے اور آثارِ صحابہ میں اختلاف ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو وقوعِ طلاق کے قائلین کے پیش نظر یہ ہے کہ یہ طلاق دینے والے کی تعزیر ہے۔ اس کی وجہ سے اس کو تنبیہ ہوگی اوراگر وہ شخص ناواقف ہے تو چوںکہ دارالاسلام ’دارالعلم ‘ ہے اس لیے اس میں جہل کا اعتبار نہیں اور جو لوگ عدم وقوع کے قائل ہیں ، ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ شریعت میں وہی تصرف معتبر ہے ، جس کا صدور عقل و ہوش کی حالت میں ہوا ہو ، یہی وجہ ہے کہ خوابیدہ ، بے ہوش اورمجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی— چوںکہ نشہ میں مبتلا شخص بھی قصور عقل کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ؛ اس لیے اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہونی چاہیے ۔
دلائل سے قطع نظر ہندستان کی صورتِ حال یہ ہے کہ اب یہ دارالاسلام نہیں ہے ، دارالکفر ہے ، جہالت اوردین سے ناواقفیت کا غلبہ ہے ، نہ شراب کے بنانے پر پابندی ہے ، نہ شراب کے بیچنے اور خریدنے پر اور نہ شراب کے پینے پر ، دوسری طرف ہندستانی معاشرے میں لڑکی کا نکاح اور خاص کر کسی مطلقہ خاتون کا نکاح بے حد دشوار ہوتا ہے اور مرد کے لیے اسی قدر آسان۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ طلاق دینے والا مرد تو دوسرے ہی دن شادی رچا سکتا ہے اورطلاق پانے والی عورت پوری زندگی اپنی بے گناہی کی سزا جھیلتی رہتی ہے۔ اس پس منظر میں ہندستان کے بعض اہل علم کی رائے یہ تھی کہ اس مسئلے میں ہندستان کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلاق سکران کے عدم وقوع پر فتویٰ دیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اس حقیر نے عرصہ پہلے اپنی کتاب ’ جدید فقہی مسائل ‘ میں اسی نقطۂ نظر کو پیش کیا تھا ۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے سیمینار منعقدہ ۲۰۰۰ئ میں اس موضوع پر بحث کی اور اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے فیصلہ کیا کہ طلاقِ سکران واقع نہیں ہوگی۔ یہ فیصلہ بھی یقینا عورتوں کے لیے سہولت کا باعث ہے۔ کیوںکہ حالت ِنشہ میں طلاق کے واقعات بہ کثرت پیش آتے رہتے ہیں ۔
اسبابِ فسخ نکاح
ایک اہم مسئلہ فسخ نکاح کے اسباب کا ہے۔ حنفیہ کے یہاں اس پہلو پر زیادہ توجہ دی گئی ہے کہ نکاح زوجین کے درمیان دائمی تعلق کو چاہتا ہے اور غیر معمولی حالات میں ہی میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہونی چاہیے۔ اس لیے احناف کے یہاں اسبابِ فسخ کے سلسلے میں نسبتاً سختی برتی گئی ہے ، جب کہ جمہور فقہا نے اس بات پر نظر رکھی ہے کہ مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے اور وہ کبھی بھی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے ۔ عورت کو طلاق کا حق حاصل نہیں، اس لیے اس کو دفع مضرت کی غرض سے فسخ نکاح کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ تاکہ اس کے لیے ظالم شوہر سے نجات حاصل کرنا آسان ہو ۔
فقہ مالکی سے استفادہ
حنفیہ کے مطابق جن صورتوں میں فسخ نکاح کی اجازت ہے ، ان کے علاوہ بعض صورتیں ہیں جن میں علماء ہند نے دوسرے فقہاء بالخصوص فقہاء مالکیہ کی رائے کو قبول کیا ہے۔ ان میں سے تین صورتوں کے بارے میں ہندستان میں پہلی بار مشہور فقیہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی رائے پیش کی۔ صورتِ حال یہ پیش آئی کہ فقہ حنفی میں فسخ نکاح کے دشوار ہونے کی وجہ سے بعض مسلمان عورتیں مرتد ہونے لگیں۔ تاکہ انھیں اپنے شوہر سے نجات حاصل ہو۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے آپ نے ان مسائل پر حرمین شریفین میں موجود مالکی مفتیانِ کرام سے فتوے طلب کیے اور ان سے گزارش کی کہ ان اسباب سے متعلق شرائط کو اچھی طرح منقح کردیا جائے۔ پھر آپ نے ان فتاویٰ کو مرتب کرکے ہندستان کے طول و عرض میں موجود معروف علما کے پاس بھیجا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی رائے دیں اور اہل علم کی تائید و توثیق کے بعد اصل فتووں کے ساتھ اس کا اُردو ترجمہ ’’ الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزہ‘‘ کے نام سے شائع فرمادیا ۔اس مجموعے میں شوہر کے مفقود الخبر ہونے ، شوہر کے غائب غیر مفقود ہونے ، یعنی وہ بالکل لا پتہ تو نہ ہو ؛ لیکن بھاگا بھاگا رہتا ہو اور کوئی ایک جائے قرار نہ ہو اور قدرت کے باوجود نفقہ ادا نہ کرنے کو فقہ مالکی کے مطابق سبب فسخ مانا گیا ہے۔اس سلسلے کو آگے بڑھایا ممتاز فقیہ حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت بہار و اڑیسہ نے۔اس کا سبب یہ ہوا کہ امارتِ شرعیہ بہار کے تحت دارالقضائ کا نظام قائم ہے ۔ مولانا رحمانی اس کے ذمہ دار تھے ۔ اس لیے انھیں عملاً ان دشواریوں کا اندازہ ہوا ، جن سے خواتین دوچار ہوتی ہیں۔ انھوں نے مذکورہ اسبابِ فسخ کے بہ شمول نواسبابِ فسخ پر گفتگو کی اور اُردو زبان میں قضاۃ کے لیے نہایت ہی جامع کتاب کتاب الفسخ والتفریق مرتب فرمائی— اس میں بعض اسباب فسخ فقہ مالکی سے لیے گئے ہیں ، بعض میں صاحبین کی رائے لی گئی ہے اور احناف کے یہاں جو اسبابِ فسخ تسلیم کیے گئے ہیں ، ان میں بھی بعض تفصیلات و شرائط میں مصنف نے موجودہ حالات کے پس منظر میں فقہ مالکی سے استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نے فقہ مالکی سے ان تین اسبابِ فسخ کا اضافہ کیا ہے :
جو شوہر نفقہ ادا کرنے سے عاجز ہو اور اپنی تنگ دستی کی بنیاد پر نفقہ ادا نہ کرپاتا ہو ، بیوی کے مطالبہ پر اس کا نکاح بھی فسخ کردیا جائے گا ۔
شوہر کی طرف سے بیوی کے خصوصی حق کی عدم ادائی بھی سبب فسخ ہے ، اگرچہ وہ اس سے پہلے قربت کرچکا ہو ۔
شوہر کا بیوی کو تکلیف دہ حد تک مارپیٹ کرنا بھی اسبابِ فسخ میں ہے ۔
صاحبین اور متاخرین کے اقوال سے استفادہ
شوہر کو جنون ، جذام یا برص ہوتو امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک عورت فسخ نکاح کا دعویٰ دائر نہیں کرسکتی۔ لیکن امام محمد کے نزدیک عورت کو فسخ نکاح کا دعویٰ دائر کرنے کا حق حاصل ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معروف کتاب ہدایہ میں ہے :
و اذا کان بالزوج جنون أو برص أو جذام فلا خیارلہا عند أبی حنیفۃ وأبی یوسف وقال محمد لہا الخیار دفعاً للضرر عنہا کما فی الجب والعنۃ۔﴿ہدایہ،باب العنین:ص:۴۰۲﴾
لیکن فقہاء متاخرین نے اس سلسلے میں امام محمد کے قول کو ترجیح دی ہے ﴿الفتاویٰ الہندیہ : ۱/۵۲۶ ، باب العنین ﴾ اور علامہ قہستانیؒ نے اسی حکم میں ان تمام امراض و عیوب کو رکھا ہے کہ جن کے ہوتے ہوئے عورت اپنے شوہر کے ساتھ بہتر طورپر زندگی نہیں گزار سکتی ؛ چنانچہ علامہ طحطاویؒ فرماتے ہیں :
وألحق بہا القہستانی کل عیب لا یمکنہا المقام معۃ الا بضرر۔
مولانا عبد الصمد رحمانی نے قہستانی کے اس قول کو قبول کیا ہے اور امام محمدؒ کے اس قول اور قہستانیؒ کی اس توضیح سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے آٹھویں فقہی سیمینار منعقدہ ۱۴۱۶ھ میں ایڈس کے مریض کے سلسلے میں بہ شمول دوسری تجاویز کے ایک تجویز حسب ذیل منظور کی گئی :
’’اگر کوئی مرد ایڈس کا مریض ہو ، مگر اس نے اپنا مرض ظاہر کیے بغیر کسی خاتون سے نکاح کرلیا تو ایسی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا‘‘۔
﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ جنوری 2012